بجٹ کا بادل چھا گیا
یہ کام اگر 70لاکھ والی آبادی کا ملک اسرائیل کرسکتا ہے تو ہم کیوں نہیں کرسکتے ہیں؟
بجٹ درحقیقت پیداوارکو عوام میں تقسیم کرنے کا طریقہ کار ہوتا ہے اور ترجیحات کو ترتیب دینا ہے۔ پہلے عوام کی بنیادی ضرورتوں کو پوری کرنا، ان کو روزگار، صحت اور تعلیم فراہم کرنا ، رہنے کے لیے آشیانہ مہیا کرنا وغیرہ وغیرہ ، مگر سرمایہ دارانہ نظام میں بجٹ صاحب جائیداد طبقات کے تحفظ اور مفادات کی نگہبانی کے لیے ہوتا ہے۔
1789 میں انقلاب فرانس میں اور 1871میں پیرس کمیون پھر 1917میں انقلاب روس اور 1948میں انقلاب چین میں بجٹ پیش ہوئے تھے وہ سرمایہ داری اور جا گیرداری کی نفی تھی ۔ وہ بجٹ روزگار، صحت ، تعلیم، ٹرانسپورٹ اور رہائش پر سب سے زیادہ تھا ۔
روس میں تو 35سال تک روزمرہ کی اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ ہی نہیں ہوا تھا، جب کہ ہمارے پاکستان کا کل59کھرب32ارب50کروڑ رو پے کا بجٹ پیش کیا گیا ہے ۔ اب ذرا انسانی ضروریات اور غیر پیداواری اخراجات کا موازنہ کرکے دیکھیں ۔ تعلیم کا بجٹ 97ارب42کروڑ جب کہ قرضوں کی ادائیگی کا بجٹ 16کھرب 20ارب رو پے کا اعلان ہوا ہے۔ اسی طرح صحت کا بجٹ 31 ارب روپے جب کہ دفاعی بجٹ 19.2فیصد اضافے یعنی 180ارب روپے سے زیادہ اضافہ کے ساتھ 11کھرب3 کروڑ روپے کا اعلان کیا ہے۔
حکومت سول ہو یا فوجی ، پاکستان کا نظام معیشت اور سیاست سرمایہ داری تھی اور ہے ۔ اس لیے ہمارا بجٹ سر مایہ داروں اور جاگیرداروں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے ۔ ہمارے ملک میں ناخواندگی عروج پہ ہے تعلیم کے شعبے میں ہمارا نمبر دنیا میں 132واں ہے ۔ اس شعبے میں نیپال، ہندوستان ، بنگلہ دیش، ایران اور بہت سے افریقی ممالک ہم سے آگے ہیں ۔
ذوالفقار علی بھٹوکے دور میں جب ڈاکٹر مبشر حسن وزیر خزانہ تھے تو تعلیم اور صحت کو ملا کرکل بجٹ کا43 فیصد پیش کیا گیا تھا ۔ تمام تعلیمی اداروں کو قومی ملکیت میں لے لیا گیا تھا۔ چند برسوں میں شرح تعلیم دس گنا بڑھ گئی تھی ، لیکن آج تعلیم تجارت بنا دی گئی ہے۔ سرکاری اسکولوں کی حالات زار کچھ یوں ہے کہ اسکولوں میں گھوڑوں کے اصطبل اور بھینسوں کے باڑے بنادیے گئے ہیں َ۔ اساتذہ گھر بیٹھ کر تنخواہیں وصول کر رہے ہیں ، جو حقیقی معنوں میں پڑھاتے ہیں انھیں مہینوں تنخواہیں ادا نہیں کی جاتیں ۔ انھیں اپنی تنخواہوں کے لیے سڑکوں پہ آنا پڑتا ہے ۔ لاٹھیاں کھانی پڑتی ہیں،گرفتاری دینی ہوتی ہیں، ان ذلتوں اور اذیتوں کے بعد تنخواہیں ملتی ہیں ۔ پھر تعلیم کا شعبہ اتنا پسماندہ ہوگیا ہے کہ بیشتر طلبہ نقل کرتے ہیں اور یہ بھی ایک تجارت بن گئی ہے ۔
تعلیم کی صورتحال یوں ہے کہ اسمبلی میں بیٹھے ہوئے اکثریت کے پاس جعلی سندیں ہیں، جب کہ آج سوشلسٹ ملکوں کیوبا، کوریا، زمبابوے اور سابقہ وسطی ریاستوں 100اور98 فیصد لوگ خواندہ ہیں ، جب کہ ہمارے ہاں تعلیم کا بجٹ تقریبا ایک کھرب اور آئی ایم ایف، ورلڈ بینک کے قرضوں کی ادائیگی16کھرب روپے کا بجٹ کا اعلان ہوا ہے ۔ دنیا میں ایسے ممالک موجود ہیں جنھوں نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے کوئی قرضہ لیے بغیر جی رہے ہیں اور ترقی بھی کر رہے ہیں ۔ جیسا کہ کیوبا، منگولیا ،کوریا وغیرہ عالمی مالیاتی اداروں کے مقروض نہیں ہیں ۔ اس وقت سب سے زیادہ معاشی شرح نمو منگولیا کی ہے یعنی نو فیصد ۔
پاکستان جب بنا تھا تو شروع میں ہم عالمی مالیاتی اداروں کے مقروض نہیں تھے اس لیے ایک ڈالرکے برابر 1948میں 3 رو پے ہوا کرتے تھے مگر آج ایک ڈالر کے 118رو پے ہے ۔ اس وقت چاول ایک آنہ کلو تھا اور اب ایک سو روپے کلو ہے ۔ یہ ہے آئی ایم ایف کی برکات ۔ پھر بھی ہم اس سے نجات کی کوئی کوشش کرنا تو درکنار بلکہ قرضوں میں اضافہ ہی کرتے جا رہے ہیں ۔ انسانوں کو سب سے پہلے جینا ہے ، اس کے لیے شفاف پانی اور ملاوٹ سے پاک ، معقول اور بھرپور غذا کی ضرورت ہے تب ہی صحت بھی بہتر رہ سکتی ہے ورنہ سارے پیسے علاج پر ہی خرچ ہوجائیں گے اور ہمارے ملک میں یہی ہو رہا ہے ۔
دمے کا مرض دنیا میں سب سے زیادہ پاکستان میں ہے اور ہیپٹائٹس کے مرض میں دنیا میں پا کستان دوسرے نمبر پر ہے ۔ دل اور گردے کے امراض میں پاکستان کے عوام بہت زیادہ مبتلا ہیں ۔ شفاف پانی نہ ہونے اور خوردنی تیل میں ملاوٹ کی وجہ سے گردے اور دل کے امراض میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ بجائے صحت کا بجٹ زیادہ ہو اور دیگر بجٹ کم ہو ، ہمارے ملک میں اس کے الٹ ہے ۔ صحت پر 31 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ۔صحت کے بجٹ میں 500فیصد کا اضافہ ہونا چاہیے تھا۔
اس تجویز پر فوراً کہا جاتا ہے کہ ہندوستان ہم پر حملہ کردے گا جو کئی بار کرچکا ہے ۔ شمالی کوریا اور جنوبی کوریا 65سالہ دشمنی کو دوستی میں اگر بدل سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں ؟ چین اور ہندوستان ، افغانستان میں ترقیاتی منصو بے پر معاہدہ کرسکتے ہیں توکیا ہم ہندوستان، افغانستان ، ایران اور بنگلہ دیش کے ساتھ دوستی نہیں کرسکتے؟ ضرور کرسکتے ہیں ۔ شاید امریکا اور برطانیہ ایسا نہ کرنے دینا چاہتا ہے ۔ ہمیں اپنی پالیسی خود مختار اور آ زاد بنانا ہوگی ۔ بنگلہ دیش کی آبادی پاکستان سے کچھ ہی کم ہے مگر وہاں فوج ڈیڑھ لاکھ سے بھی کم ہے ۔
ہمارے ملک کی 60فیصد زمین بنجر پڑی ہیں، اگر ہم زمین کی کاشتکاری پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو مامور کریں تو زمین بھی آباد ہوگی ، پیداوار بڑھے گی اورلوگوں کو بھی روزگار ملے گا ۔ ہمارے ملک میں پانی و بجلی کا بہت بڑا مسئلہ ہے جب کہ سب سے زیادہ بجٹ انھیں دو شعبوں میں مختص ہونا چاہیے۔ ہم سمندر کے نمکین پانی کو پینے کے شفاف پانی میں تبدیل کرسکتے ہیں ۔
یہ کام دنیا میں سب سے زیادہ اسرائیل اور دوسرے نمبر پہ سعودی عرب کررہا ہے ۔ ہم بموں اور میزائلوں کی پیداوار کی بجائے شمسی توانائی کے لیے پلیٹوں کی پیداوار شروع کر کے پاکستان کو شمسی توانائی کے پلیٹوں کا خیابان بنا دیں تو بجلی اور پانی کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے ۔سیوریج واٹرکو ری سائیکلنگ کرکے پینے کا پانی حاصل کرسکتے ہیں ۔ یہ کام اگر 70لاکھ والی آبادی کا ملک اسرائیل کرسکتا ہے تو ہم کیوں نہیں کرسکتے ہیں ؟
ہمارے پاس تو بہت زیادہ وسائل ہیں ۔ ہمارے پہاڑ سونے چاندی، تانبے،کرومیم ، سلفر، قیمتی جواہرات اور پتھروں سے بھرے پڑے ہیں، ہماری زمین کوئلے، تیل اور گیس اگل رہی ہیں ۔ ہم نے بجلی اور پانی کی قلت کو دور کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ بجٹ نہیں پیش کیا ہے ۔
1789 میں انقلاب فرانس میں اور 1871میں پیرس کمیون پھر 1917میں انقلاب روس اور 1948میں انقلاب چین میں بجٹ پیش ہوئے تھے وہ سرمایہ داری اور جا گیرداری کی نفی تھی ۔ وہ بجٹ روزگار، صحت ، تعلیم، ٹرانسپورٹ اور رہائش پر سب سے زیادہ تھا ۔
روس میں تو 35سال تک روزمرہ کی اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ ہی نہیں ہوا تھا، جب کہ ہمارے پاکستان کا کل59کھرب32ارب50کروڑ رو پے کا بجٹ پیش کیا گیا ہے ۔ اب ذرا انسانی ضروریات اور غیر پیداواری اخراجات کا موازنہ کرکے دیکھیں ۔ تعلیم کا بجٹ 97ارب42کروڑ جب کہ قرضوں کی ادائیگی کا بجٹ 16کھرب 20ارب رو پے کا اعلان ہوا ہے۔ اسی طرح صحت کا بجٹ 31 ارب روپے جب کہ دفاعی بجٹ 19.2فیصد اضافے یعنی 180ارب روپے سے زیادہ اضافہ کے ساتھ 11کھرب3 کروڑ روپے کا اعلان کیا ہے۔
حکومت سول ہو یا فوجی ، پاکستان کا نظام معیشت اور سیاست سرمایہ داری تھی اور ہے ۔ اس لیے ہمارا بجٹ سر مایہ داروں اور جاگیرداروں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے ۔ ہمارے ملک میں ناخواندگی عروج پہ ہے تعلیم کے شعبے میں ہمارا نمبر دنیا میں 132واں ہے ۔ اس شعبے میں نیپال، ہندوستان ، بنگلہ دیش، ایران اور بہت سے افریقی ممالک ہم سے آگے ہیں ۔
ذوالفقار علی بھٹوکے دور میں جب ڈاکٹر مبشر حسن وزیر خزانہ تھے تو تعلیم اور صحت کو ملا کرکل بجٹ کا43 فیصد پیش کیا گیا تھا ۔ تمام تعلیمی اداروں کو قومی ملکیت میں لے لیا گیا تھا۔ چند برسوں میں شرح تعلیم دس گنا بڑھ گئی تھی ، لیکن آج تعلیم تجارت بنا دی گئی ہے۔ سرکاری اسکولوں کی حالات زار کچھ یوں ہے کہ اسکولوں میں گھوڑوں کے اصطبل اور بھینسوں کے باڑے بنادیے گئے ہیں َ۔ اساتذہ گھر بیٹھ کر تنخواہیں وصول کر رہے ہیں ، جو حقیقی معنوں میں پڑھاتے ہیں انھیں مہینوں تنخواہیں ادا نہیں کی جاتیں ۔ انھیں اپنی تنخواہوں کے لیے سڑکوں پہ آنا پڑتا ہے ۔ لاٹھیاں کھانی پڑتی ہیں،گرفتاری دینی ہوتی ہیں، ان ذلتوں اور اذیتوں کے بعد تنخواہیں ملتی ہیں ۔ پھر تعلیم کا شعبہ اتنا پسماندہ ہوگیا ہے کہ بیشتر طلبہ نقل کرتے ہیں اور یہ بھی ایک تجارت بن گئی ہے ۔
تعلیم کی صورتحال یوں ہے کہ اسمبلی میں بیٹھے ہوئے اکثریت کے پاس جعلی سندیں ہیں، جب کہ آج سوشلسٹ ملکوں کیوبا، کوریا، زمبابوے اور سابقہ وسطی ریاستوں 100اور98 فیصد لوگ خواندہ ہیں ، جب کہ ہمارے ہاں تعلیم کا بجٹ تقریبا ایک کھرب اور آئی ایم ایف، ورلڈ بینک کے قرضوں کی ادائیگی16کھرب روپے کا بجٹ کا اعلان ہوا ہے ۔ دنیا میں ایسے ممالک موجود ہیں جنھوں نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے کوئی قرضہ لیے بغیر جی رہے ہیں اور ترقی بھی کر رہے ہیں ۔ جیسا کہ کیوبا، منگولیا ،کوریا وغیرہ عالمی مالیاتی اداروں کے مقروض نہیں ہیں ۔ اس وقت سب سے زیادہ معاشی شرح نمو منگولیا کی ہے یعنی نو فیصد ۔
پاکستان جب بنا تھا تو شروع میں ہم عالمی مالیاتی اداروں کے مقروض نہیں تھے اس لیے ایک ڈالرکے برابر 1948میں 3 رو پے ہوا کرتے تھے مگر آج ایک ڈالر کے 118رو پے ہے ۔ اس وقت چاول ایک آنہ کلو تھا اور اب ایک سو روپے کلو ہے ۔ یہ ہے آئی ایم ایف کی برکات ۔ پھر بھی ہم اس سے نجات کی کوئی کوشش کرنا تو درکنار بلکہ قرضوں میں اضافہ ہی کرتے جا رہے ہیں ۔ انسانوں کو سب سے پہلے جینا ہے ، اس کے لیے شفاف پانی اور ملاوٹ سے پاک ، معقول اور بھرپور غذا کی ضرورت ہے تب ہی صحت بھی بہتر رہ سکتی ہے ورنہ سارے پیسے علاج پر ہی خرچ ہوجائیں گے اور ہمارے ملک میں یہی ہو رہا ہے ۔
دمے کا مرض دنیا میں سب سے زیادہ پاکستان میں ہے اور ہیپٹائٹس کے مرض میں دنیا میں پا کستان دوسرے نمبر پر ہے ۔ دل اور گردے کے امراض میں پاکستان کے عوام بہت زیادہ مبتلا ہیں ۔ شفاف پانی نہ ہونے اور خوردنی تیل میں ملاوٹ کی وجہ سے گردے اور دل کے امراض میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ بجائے صحت کا بجٹ زیادہ ہو اور دیگر بجٹ کم ہو ، ہمارے ملک میں اس کے الٹ ہے ۔ صحت پر 31 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ۔صحت کے بجٹ میں 500فیصد کا اضافہ ہونا چاہیے تھا۔
اس تجویز پر فوراً کہا جاتا ہے کہ ہندوستان ہم پر حملہ کردے گا جو کئی بار کرچکا ہے ۔ شمالی کوریا اور جنوبی کوریا 65سالہ دشمنی کو دوستی میں اگر بدل سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں ؟ چین اور ہندوستان ، افغانستان میں ترقیاتی منصو بے پر معاہدہ کرسکتے ہیں توکیا ہم ہندوستان، افغانستان ، ایران اور بنگلہ دیش کے ساتھ دوستی نہیں کرسکتے؟ ضرور کرسکتے ہیں ۔ شاید امریکا اور برطانیہ ایسا نہ کرنے دینا چاہتا ہے ۔ ہمیں اپنی پالیسی خود مختار اور آ زاد بنانا ہوگی ۔ بنگلہ دیش کی آبادی پاکستان سے کچھ ہی کم ہے مگر وہاں فوج ڈیڑھ لاکھ سے بھی کم ہے ۔
ہمارے ملک کی 60فیصد زمین بنجر پڑی ہیں، اگر ہم زمین کی کاشتکاری پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو مامور کریں تو زمین بھی آباد ہوگی ، پیداوار بڑھے گی اورلوگوں کو بھی روزگار ملے گا ۔ ہمارے ملک میں پانی و بجلی کا بہت بڑا مسئلہ ہے جب کہ سب سے زیادہ بجٹ انھیں دو شعبوں میں مختص ہونا چاہیے۔ ہم سمندر کے نمکین پانی کو پینے کے شفاف پانی میں تبدیل کرسکتے ہیں ۔
یہ کام دنیا میں سب سے زیادہ اسرائیل اور دوسرے نمبر پہ سعودی عرب کررہا ہے ۔ ہم بموں اور میزائلوں کی پیداوار کی بجائے شمسی توانائی کے لیے پلیٹوں کی پیداوار شروع کر کے پاکستان کو شمسی توانائی کے پلیٹوں کا خیابان بنا دیں تو بجلی اور پانی کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے ۔سیوریج واٹرکو ری سائیکلنگ کرکے پینے کا پانی حاصل کرسکتے ہیں ۔ یہ کام اگر 70لاکھ والی آبادی کا ملک اسرائیل کرسکتا ہے تو ہم کیوں نہیں کرسکتے ہیں ؟
ہمارے پاس تو بہت زیادہ وسائل ہیں ۔ ہمارے پہاڑ سونے چاندی، تانبے،کرومیم ، سلفر، قیمتی جواہرات اور پتھروں سے بھرے پڑے ہیں، ہماری زمین کوئلے، تیل اور گیس اگل رہی ہیں ۔ ہم نے بجلی اور پانی کی قلت کو دور کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ بجٹ نہیں پیش کیا ہے ۔