نااہلی کا سیزن
بہت سے گئے، بہت سوں کو جانا ہے، اب اس میں انصاف کہاں تلاش کریں، کس پر الزام دھریں؟
لو اپنے وزیر خارجہ بھی گئے، گویا ''ہمارے گھر بھی گئے اور بھی گھرانے گئے، چھتوں کے ساتھ ہی چڑیوں کے آشیانے گئے''۔ وزیراعظم کے بعد تو لائن ہی لگ گئی اور ابھی کیا کچھ دیکھنا باقی ہے، اس کا انتظار ہے، لیکن ہمارے ساتھ ساتھ زمانہ بھی بہت کچھ دیکھ رہا ہے۔
مثلاً یہ دیکھ رہا ہے کہ آخر ہمارے یہاں کرپشن کا معیار کس حد تک ہے، کوئی حد ہے بھی یا نہیں، کوئی تو ایماندار ہوگا، وفادار ہوگا؟ قرائن سے تو ظاہر ہے شاید کوئی نہیں، نہ کوئی ادارہ، جہاں معاملات ٹھیک ہوں۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں آزاد ہوئے ستر برس کا طویل عرصہ بیت گیا، اس دوران ہم نے کیا کیا؟ کون سا سفر طے کیا، ہم کبھی چلے بھی تھے یا نہیں؟ ملکی ادارے بنے بھی تھے یا صرف دیواریں کھڑی ہوئی تھیں؟ نظام، انتظام، اہتمام، انصرام۔ کیِا ہم جمہوری ملک ہیں یا ڈکٹیٹرشپ کو پسند کرتے ہیں؟ لیڈرشپ کہاں ہے؟ سوال ہی سوال ہیں، جواب ایک نہیں۔ تو پھر آخر کیا کیا جائے؟ ہجرت۔ لیکن کس سے اور کہاں سے، خود سے کون ہجرت کرتا ہے؟ شنید ہے کہ ہم آزاد بھی ہیں، ملک بھی ماشاء اﷲ آزاد ہے۔
بات نااہلی کے سیزن کی ہورہی تھی، تو بہت سے گئے، بہت سوں کو جانا ہے، اب اس میں انصاف کہاں تلاش کریں، کس پر الزام دھریں؟ منصفی کسں سے چاہیں؟ سب کچھ ملیامیٹ سا ہوگیا، معاملات بہت الجھ گئے، بنیادی طور پر تو خرابی کا سرا ہی دیکھا جاتا ہے، اگر ابتدا سے جائزہ لیں تو بظاہر جو بڑی وجہ سامنے آتی ہے وہ اسٹبلشمنٹ اور سول حکومت کے درمیان اختیارات پر کھنچا تانی ہے، جو جاری تھی اور ہنوز ہے۔
دیگر اداروں کا کردار بھی اس لڑائی میں کچھ بین بین سا ہے، جیسے اگر آج ہم عدلیہ کو ان نااہلیوں کا ذمے دار قرار دیں تو 1993 جب صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف حکومت کو برطرف کر دیا تھا تو اس وقت کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے ایک لارجر بینچ کے ذریعے حکومت بحال کردی تھی، لیکن اس کے باوجود جنرل وحید کاکڑ نے صدر اور وزیرِاعظم نواز شریف سے استعفیٰ لے کر نئے الیکشن کروا دیے تھے اور سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے فیصلے کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا تھا، تو اب موجودہ چیف جسٹس سے کوئی گلہ شکوہ غلط ہوگا۔ اصل لڑائی آج حکومت اور خفیہ قوتوں کے درمیان ہے۔
میرا مشاہدہ اس معاملے میں کچھ یوں ہے کہ ڈنڈے سے آپ سو، دو سو ممبرانِ اسمبلی تو کنٹرول کرسکتے ہیں، جن سے سینیٹ یا کسی صوبے کی حکومت تشکیل دی جاسکے، لیکن مرکزی حکومت کو جبراً قائم کرلیا جائے یہ تقریبًا ناممکن سا لگتا ہے۔ یہاں سا کا استعمال اس لیے کیا گیا کہ بھائی یہ پاکستان ہے، جہاں کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ بہرحال یہی دیکھنا ہے کہ کیا ہوتا ہے اور کس طرح سے بھائی لوگ اپنی پسند، ناپسند کو نافذالعمل کرتے ہیں یا کرواتے ہیں، نقصان بہرحال ملک کا ہوا، ہورہا ہے، ہوگا۔ جس کی پرواہ شاید کسی کو نہیں۔ آزادی کی قدروقیمت سے ہر ایک فریق بے بہرہ، بے پرواہ، کچھ بھی ہو ہونا وہی چاہیے جو ہم چاہتے ہیں، ورنہ نظام گیا بھاڑ میں۔
بلوچستان میں پچھلے پندرہ دنوں میں بیس افراد کو ہلاک کردیا گیا۔ آپ ذرا جائزہ لیں تو پتا چلے گا ملک میں فرسٹریشن کس قدر تیزی سے پھیل رہی ہے۔ جسے صرف جمہوریت کنٹرول کرسکتی ہے، کیونکہ وہ ایک ایسا نظام ہے جہاں زبان بندی نہیں کی جاتی، رائے کے اظہارکا موقع ملتا ہے، لیکن یہاں بھی ایک مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ یہی آفر آپ اردو بولنے والوں کو بھی کرسکتے تھے، لوگوں کو یہی موقع دیا جانا چاہیے تھا، جو آپ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دینے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہ لینے پر تیار نہیں۔
یہ دہرا معیارِ سلطنت کیوں؟ چلیے یہی احسان مان کر کچھ رعایت دے دیتے کہ ان لوگوں کے آباؤاجداد نے یہ ملک آزاد کروایا تھا اور جس کے لیے بلاشبہ ان کے لاکھوں اہل خانہ شہید ہوئے، آخر کیا سوچیں گے وہ ایک ڈیڑھ کروڑ لوگ؟ کیا وہ ٹی وی نہیں دیکھتے یا اخبار نہیں پڑھتے؟ کہ بلوچستان کے باغی کرداروں کے لیے آپ کا پیار ان سے پوشیدہ رہ گیا ہو؟ لگتا ہے ابھی دل بھرا نہیں، آدھا ملک گنوا کر بھی دانت چیک کر رہے ہیں کہ یہ اٹھنے والے نہیں، لڑنے والے نہیں۔ ویسے آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ پاکستان میں اگر کبھی کوئی اٹھا ہے۔
کوئی لڑا ہے تو وہ یہی لوگ ہیں، جنھیں آپ نے ستر سال کے بعد بھی ''مہاجر'' بنا کر پاکستان میں رکھا ہوا ہے، اب وہ پی این اے کی تحریک ہو یا 1992 کا آپریشن۔ میں کسی غلط انسان کی حمایت نہیں کر رہا، نہ ہی میں الطاف حسین کی ملک دشمنی پر مبنی تقاریرکو جائز قرار دے رہا ہوں بلکہ میرا مطالبہ انصاف ہے کہ جو سب کے لیے ایک جیسا ہو، ورنہ کوئی شک نہیں کہ اسی ملک نے اردو بولنے والوں کیا کچھ نہیں دیا۔
آج انڈیا میں مسلمانوں کی بدترین حالت اس تاریخی حقیقت کا کھلم کھلا اظہار ہے کہ اگر پاکستان آزاد نہ ہوتا تو ہماری حالت بھی یہی ہوتی۔ اس ملک نے ہر طبقہ فکر کو ہر سہولت فراہم کی، اﷲ تعالیٰ کی ہر نعمت کا ذریعہ یہی ملک بنا، اب اگر کوئی اسے گالی دے تو اس سے زیادہ احسان فراموش کون ہوگا؟ بات صرف اتنی ہے کہ جب بات جھگڑے کو ختم کرنے کی ہے تو وہ ہر طرف سے ختم ہو۔
مجھے کسی نااہلی پر رتی برابر افسوس نہیں، نہ آپ کو ہونا چاہیے، کیونکہ جس نے کرپشن کی اسے سزا ملنی چاہیے، لیکن سزا کون دے؟ نظام میں اگر کوئی سقم ہے تو دور کہاں سے ہو؟ اگر کوئی ووٹ کو عزت دینے کا مطالبہ کررہا ہے تو وہ غلط کیونکر ہوگیا؟ کیا اسی ووٹ سے آپ تنخواہ نہیں لیتے؟ آپ کا گھر اسی ووٹ سے نہیں چلتا؟ یہ جو آپ ان دنوں انصاف کے داعی بنے ہوئے گھوم رہے ہیں یہ اسی ووٹ کا مرہون منت نہیں؟ تو پھر ووٹ کو عزت دینی ہوگی، آپ آج نہیں دیں گے تو کل لوگ آپ سے لے لیں گے۔ یہی تاریخ ہے، انسانی تاریخ۔
مثلاً یہ دیکھ رہا ہے کہ آخر ہمارے یہاں کرپشن کا معیار کس حد تک ہے، کوئی حد ہے بھی یا نہیں، کوئی تو ایماندار ہوگا، وفادار ہوگا؟ قرائن سے تو ظاہر ہے شاید کوئی نہیں، نہ کوئی ادارہ، جہاں معاملات ٹھیک ہوں۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں آزاد ہوئے ستر برس کا طویل عرصہ بیت گیا، اس دوران ہم نے کیا کیا؟ کون سا سفر طے کیا، ہم کبھی چلے بھی تھے یا نہیں؟ ملکی ادارے بنے بھی تھے یا صرف دیواریں کھڑی ہوئی تھیں؟ نظام، انتظام، اہتمام، انصرام۔ کیِا ہم جمہوری ملک ہیں یا ڈکٹیٹرشپ کو پسند کرتے ہیں؟ لیڈرشپ کہاں ہے؟ سوال ہی سوال ہیں، جواب ایک نہیں۔ تو پھر آخر کیا کیا جائے؟ ہجرت۔ لیکن کس سے اور کہاں سے، خود سے کون ہجرت کرتا ہے؟ شنید ہے کہ ہم آزاد بھی ہیں، ملک بھی ماشاء اﷲ آزاد ہے۔
بات نااہلی کے سیزن کی ہورہی تھی، تو بہت سے گئے، بہت سوں کو جانا ہے، اب اس میں انصاف کہاں تلاش کریں، کس پر الزام دھریں؟ منصفی کسں سے چاہیں؟ سب کچھ ملیامیٹ سا ہوگیا، معاملات بہت الجھ گئے، بنیادی طور پر تو خرابی کا سرا ہی دیکھا جاتا ہے، اگر ابتدا سے جائزہ لیں تو بظاہر جو بڑی وجہ سامنے آتی ہے وہ اسٹبلشمنٹ اور سول حکومت کے درمیان اختیارات پر کھنچا تانی ہے، جو جاری تھی اور ہنوز ہے۔
دیگر اداروں کا کردار بھی اس لڑائی میں کچھ بین بین سا ہے، جیسے اگر آج ہم عدلیہ کو ان نااہلیوں کا ذمے دار قرار دیں تو 1993 جب صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف حکومت کو برطرف کر دیا تھا تو اس وقت کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے ایک لارجر بینچ کے ذریعے حکومت بحال کردی تھی، لیکن اس کے باوجود جنرل وحید کاکڑ نے صدر اور وزیرِاعظم نواز شریف سے استعفیٰ لے کر نئے الیکشن کروا دیے تھے اور سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے فیصلے کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا گیا تھا، تو اب موجودہ چیف جسٹس سے کوئی گلہ شکوہ غلط ہوگا۔ اصل لڑائی آج حکومت اور خفیہ قوتوں کے درمیان ہے۔
میرا مشاہدہ اس معاملے میں کچھ یوں ہے کہ ڈنڈے سے آپ سو، دو سو ممبرانِ اسمبلی تو کنٹرول کرسکتے ہیں، جن سے سینیٹ یا کسی صوبے کی حکومت تشکیل دی جاسکے، لیکن مرکزی حکومت کو جبراً قائم کرلیا جائے یہ تقریبًا ناممکن سا لگتا ہے۔ یہاں سا کا استعمال اس لیے کیا گیا کہ بھائی یہ پاکستان ہے، جہاں کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ بہرحال یہی دیکھنا ہے کہ کیا ہوتا ہے اور کس طرح سے بھائی لوگ اپنی پسند، ناپسند کو نافذالعمل کرتے ہیں یا کرواتے ہیں، نقصان بہرحال ملک کا ہوا، ہورہا ہے، ہوگا۔ جس کی پرواہ شاید کسی کو نہیں۔ آزادی کی قدروقیمت سے ہر ایک فریق بے بہرہ، بے پرواہ، کچھ بھی ہو ہونا وہی چاہیے جو ہم چاہتے ہیں، ورنہ نظام گیا بھاڑ میں۔
بلوچستان میں پچھلے پندرہ دنوں میں بیس افراد کو ہلاک کردیا گیا۔ آپ ذرا جائزہ لیں تو پتا چلے گا ملک میں فرسٹریشن کس قدر تیزی سے پھیل رہی ہے۔ جسے صرف جمہوریت کنٹرول کرسکتی ہے، کیونکہ وہ ایک ایسا نظام ہے جہاں زبان بندی نہیں کی جاتی، رائے کے اظہارکا موقع ملتا ہے، لیکن یہاں بھی ایک مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ یہی آفر آپ اردو بولنے والوں کو بھی کرسکتے تھے، لوگوں کو یہی موقع دیا جانا چاہیے تھا، جو آپ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دینے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہ لینے پر تیار نہیں۔
یہ دہرا معیارِ سلطنت کیوں؟ چلیے یہی احسان مان کر کچھ رعایت دے دیتے کہ ان لوگوں کے آباؤاجداد نے یہ ملک آزاد کروایا تھا اور جس کے لیے بلاشبہ ان کے لاکھوں اہل خانہ شہید ہوئے، آخر کیا سوچیں گے وہ ایک ڈیڑھ کروڑ لوگ؟ کیا وہ ٹی وی نہیں دیکھتے یا اخبار نہیں پڑھتے؟ کہ بلوچستان کے باغی کرداروں کے لیے آپ کا پیار ان سے پوشیدہ رہ گیا ہو؟ لگتا ہے ابھی دل بھرا نہیں، آدھا ملک گنوا کر بھی دانت چیک کر رہے ہیں کہ یہ اٹھنے والے نہیں، لڑنے والے نہیں۔ ویسے آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ پاکستان میں اگر کبھی کوئی اٹھا ہے۔
کوئی لڑا ہے تو وہ یہی لوگ ہیں، جنھیں آپ نے ستر سال کے بعد بھی ''مہاجر'' بنا کر پاکستان میں رکھا ہوا ہے، اب وہ پی این اے کی تحریک ہو یا 1992 کا آپریشن۔ میں کسی غلط انسان کی حمایت نہیں کر رہا، نہ ہی میں الطاف حسین کی ملک دشمنی پر مبنی تقاریرکو جائز قرار دے رہا ہوں بلکہ میرا مطالبہ انصاف ہے کہ جو سب کے لیے ایک جیسا ہو، ورنہ کوئی شک نہیں کہ اسی ملک نے اردو بولنے والوں کیا کچھ نہیں دیا۔
آج انڈیا میں مسلمانوں کی بدترین حالت اس تاریخی حقیقت کا کھلم کھلا اظہار ہے کہ اگر پاکستان آزاد نہ ہوتا تو ہماری حالت بھی یہی ہوتی۔ اس ملک نے ہر طبقہ فکر کو ہر سہولت فراہم کی، اﷲ تعالیٰ کی ہر نعمت کا ذریعہ یہی ملک بنا، اب اگر کوئی اسے گالی دے تو اس سے زیادہ احسان فراموش کون ہوگا؟ بات صرف اتنی ہے کہ جب بات جھگڑے کو ختم کرنے کی ہے تو وہ ہر طرف سے ختم ہو۔
مجھے کسی نااہلی پر رتی برابر افسوس نہیں، نہ آپ کو ہونا چاہیے، کیونکہ جس نے کرپشن کی اسے سزا ملنی چاہیے، لیکن سزا کون دے؟ نظام میں اگر کوئی سقم ہے تو دور کہاں سے ہو؟ اگر کوئی ووٹ کو عزت دینے کا مطالبہ کررہا ہے تو وہ غلط کیونکر ہوگیا؟ کیا اسی ووٹ سے آپ تنخواہ نہیں لیتے؟ آپ کا گھر اسی ووٹ سے نہیں چلتا؟ یہ جو آپ ان دنوں انصاف کے داعی بنے ہوئے گھوم رہے ہیں یہ اسی ووٹ کا مرہون منت نہیں؟ تو پھر ووٹ کو عزت دینی ہوگی، آپ آج نہیں دیں گے تو کل لوگ آپ سے لے لیں گے۔ یہی تاریخ ہے، انسانی تاریخ۔