سیاست میں گالی کلچر

سیاسی جماعتوں کا ماضی کھنگالیں تو اندازہ ہوگا کہ گالی کلچر اور جارحانہ انداز کس کس جماعت نے اپنا کر ہم تک پہنچایا


گالی کلچر اور بد زبانی ہمارا معاشرتی مسئلہ ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

ISLAMABAD: بچپن میں جب بھی انتخابات (الیکشن) ہوتے تو بڑا مزہ آتا۔ گاؤں میں ایک الگ ہی رونق ہوتی۔ دیواروں پر اشتہاروں کی بھرمار اور گلیوں میں نعروں کا شور۔ ہر جماعت دوسری پر برتری دکھانے کے چکر میں عجیب عجیب حرکتیں کرتی۔ جیسے "اصلی" شیر کو گاؤں گاؤں گھمایا جاتا۔ مسجد میں اعلان ہوتا کہ فلاں جگہ شیر آیا ہے، جلدی جلدی جا کر دیکھ لو۔ چھتوں پر بڑے بڑے پرچم اور انتخابی نشان ایک دوسرے سے اونچا کرکے لگانے کے مقابلے ہوتے۔

بچپن میں ایسا وقت تین مرتبہ آیا۔ وہ کیا ہے کہ تب ہر دو تین سال بعد الیکشن ہو ہی جاتے تھے۔ ایک الیکشن سے دوسرے کے درمیانی عرصے میں عوام کچھ کرتی نہ کرتی مگر مخالفین کو زچ کرنے کےلیے نئے نعرے ضرور ایجاد کرتی۔ اب جب ان پر غور کرتا ہوں تو وہ نعرے کم، سیاسی گالیاں زیادہ تھیں۔ بلکہ وہ تو فحش گالیاں تھیں۔ گاؤں کے نوجوانوں کے جتھے مل کر گلی گلی ایسی گالیاں زور و شور سے دیتے۔ کبھی کبھار مخالف گروہ سے ٹکراؤ ہوتا تو لڑائی جھگڑا بھی خوب ہوتا۔

گالیاں معاشرے میں کہاں سے آئیں؟ معلوم ہوتا ہے کہ اول تو یہ بیماری ورثے میں ملی، دوسرا تب جب کئی جماعتیں منظم انداز میں اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتی تھیں۔ اگر آپ میں سے کسی نے وہ سب حالات دیکھے ہوں تو بخوبی اندازہ ہوگا کہ ماضی میں ہماری سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کو زچ اور امیدوار کی کردار کُشی کرنے کےلیے کیسے ہتھکنڈے استعمال کرتی تھیں۔

ان کی ان ہی حرکتوں نے معاشرے میں ناسور کا بیج بو دیا۔ مقامی سطح پر سیاسی کارکن نہایت فحش نعرے تیار کرتے تھے۔ اس تحریر کا مقصد صرف ایسے لوگوں کو ماضی سے روشناس کرانا ہے جو آج کے معاشرے اور سیاست میں گالی کلچر کا سارا نزلہ صرف "طفلِ مکتب" جیسے سیاسی کارکنوں اور آج کے دیگر نوجوانوں پر گرا رہے ہیں۔ کچھ کالم نگار اور اینکرز کو سمجھانا ہے کہ یہ فیس بکی لوگوں کی کارستانی نہیں، بلکہ یہ سلسلہ پرانا چلا آرہا ہے۔

پہلے انٹرنیٹ نہیں تھا تو یہ سب گلی محلے، میدان میلے، چوک چوبارے اور چوپال وغیرہ میں ہوتا تھا۔

اب انٹرنیٹ ہے تو وہی سب آن لائن بھی ہورہا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے کبھی کوئی شرم کر جاتا، مگر آج شناخت خفیہ ہے تو سب اگل دیا جاتا ہے۔ قائداعظمؒ کو "کافرِ اعظم" کہنے جیسا کلچر آج کی نوجوان نسل نے پیدا نہیں کیا تھا۔ فاطمہ جناح جیسی ہستی جنہیں ہم مادرِ ملت کا درجہ دیتے ہیں، ان کی توہین ہم نے نہیں کی تھی اور انہیں دھاندلی سے ہم نے نہیں ہروایا تھا۔ کتوں اور گدھوں پر سیاست دانوں کے نام لکھ کر گلی گلی پھرانے کا رواج آج کا نہیں، یہ تو بہت پہلے سے چلا آرہا ہے۔ یقین کیجیے "ایوب کتا، ہائے ہائے!" جیسے نعرے ہم نے نہیں لگائے تھے۔ اجی وہ ذوالفقار علی بھٹو صاحب تھے جنہوں نے بنگالیوں سے کہا تھا "سور کے بچے جہنم میں جائیں۔"

قائداعظمؒ کی توہین ہم نے تو نہیں کی تھی بلکہ انہیں "پاگل کا بچہ" آصف علی زرداری کے والد حاکم علی زرداری نے کہا تھا۔ آپ پرانے سیاستدانوں کے متعلق پڑھیے۔ بھٹو صاحب سے لے کر شہباز شریف صاحب تک کی تقریروں کا جائزہ لیجیے۔

سیاسی پارٹیوں کے ماضی کو تھوڑا سا کھنگالیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اس گالی کلچر اور جارحانہ انداز میں تقریریں کرنے کو کس کس جماعت نے اپنا کر ہم تک پہنچایا ہے۔ مخالف سیاستدانوں کی کردار کشی کرنے کا رواج کس نے عام کیا اور اس کے وارث کون بنے؟ کس نے سیاسی انتقام میں ماؤں اور بہنوں پر کیچڑ اچھالے؟ تھوڑی سی تحقیق کریں تو پتا چلے گا کہ یہ عمران خان اور تحریک انصاف کی روایات نہیں، بلکہ اسے تو انہوں نے ہوا دی تھی جو آج اس پر سب سے زیادہ اعتراض کر رہے ہیں۔

میرا مدعا صرف اتنا ہے کہ جب اس حمام میں سبھی ننگے ہیں تو پھر صرف ایک پارٹی کو نشانہ بنا کر کردار کشی نہ کیجیے۔ گالی کلچر اور بد زبانی ہمارا معاشرتی مسئلہ ہے۔ اس کا نزلہ صرف ایک پارٹی پر نہ گرائیے۔ اصل معاشرتی مسئلے کا ادراک کیجیے اور اس کے حل کی کوشش کیجیے۔ جب آپ پارٹیوں سے بالاتر ہوکر معاشرے کا جائزہ لیں گے تو یہ بات زیادہ اچھی طرح واضح ہو جائے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں