عمر کوٹ NA128 پیپلز پارٹی کیلئے کلین سویپ اب ممکن نہیں رہا

اس بار پیپلزپارٹی کے علاوہ اپنا ذاتی اثر و رسوخ رکھنے والے سید علی مردان شاہ کو اپنی نشست کو بچانے کے لئے کافی۔۔۔

اس بار پیپلزپارٹی کے علاوہ اپنا ذاتی اثر و رسوخ رکھنے والے سید علی مردان شاہ کو اپنی نشست کو بچانے کے لئے کافی جدوجہد و محنت کرنا پڑے گی۔ فوٹو : فائل

ضلع عمرکوٹ کے سیاسی و جغرافیائی منظر نامے پر نظر ڈالی جائے تو 1992ء میں مسلم لیگ کے دور حکومت میں سید مظفر حُسین شاہ کی انتھک جدوجہد کی بدولت ضلع کا درجہ پانے والا عمرکوٹ لگ بھگ 11لاکھ آبادی اور چار تحصیلوں عمرکوٹ، کنُری، سامارو اور تحصیل پتھورو پر مشتمل ہے۔

ضلع عمرکوٹ میں قومی اسمبلی کی ایک نشست حلقہ این اے 228 عمرکوٹ ہے اور صوبائی اسمبلی کی تین نشستیں پی ایس 68 کنُری پی ایس 69 پتھورو اور پی ایس 70 عمرکوٹ ہیں۔ کُل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 3 لاکھ 85 ہزار505 ہے۔ان میں52 فیصد مسلم اور 48 فیصد اقلیتی ووٹ شامل ہیں۔

ستم ظریفی کی بات تو یہ ہے کہ 1998ء میں ہونے والی حلقہ بندیوں میںضلع عمرکوٹ کی تحصیل پتھورو کے چند حصے این اے 226میرپورخاص میں اور تحصیل ساماروکے چند حصے این اے 227 میرپور خاص میں شامل کردیئے گئے جس کی وجہ سے ضلع عمرکوٹ کی تحصیل پتھورواور تحصیل سامارو کا ووٹ بنک دوحصوں میں تقسیم ہوگیاہے ۔اس ٹوٹل ووٹ بنک کو ضلع عمرکوٹ میں ہی شامل کردیاجائے اور مستقبل میں نئی حلقہ بندیاں کی جاتی ہیں تو ضلع عمرکوٹ قومی اسمبلی کے 2 حلقوں پر مشتمل ہو سکتا ہے۔

یہاں کی سیاست پر نظر ڈالیں توضلع عمرکوٹ کی منفرد بات تو یہ ہے کہ 2008 ء سے قبل ہونے والے تمام انتخابات میں قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے حمایت یافتہ اُمیدوار کامیابی حاصل کرتے رہے ہیں ۔کوئی بھی ایک سیاسی پارٹی قومی و صوبائی اسمبلی کی تمام نشستیں اپنے نام کرنے میں ناکام رہی تھی لیکن 2008 ء کے انتخابات میں محترمہ بے نظیر بھٹوکی شہادت کی بدولت پیپلزپارٹی نے ضلع کی تمام سیٹیں جیت کرکلین سویپ کیا۔

این اے 228 سے پیپلزپارٹی کے نواب محمد یوسف تالپور نے75080 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی ان کے قریب ترین حریف آزاد اُمیدوار محمد قاسم سومرو رہے جنہیں 30,079 ووٹ ملے جبکہ صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی ایس 68کنُری سے نواب یوسف کے صاحبزادے نواب محمد تیمور تالپورنے 28718,ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی اوران کے قریب ترین حریف ق لیگ کے ڈاکٹردوست محمدمیمن رہے جنہیں 18953, ووٹ ملے۔



پی ایس 69 پتھورو سے علی مراد راجڑ نے 27086ووٹ حاصل کرکے اپنے مدِ مقابل فنکشنل لیگ کے حمایت یافتہ اُمیدوارسید مظفرحُسین شاہ کوہرایاجنہوں نے 23738ووٹ حاصل کیے۔ پی ایس 70 عمرکوٹ سے سید علی مردان شاہ نے 41728ووٹ حاصل کرکے اپنے مدِ مقابل فنکشنل لیگ کے حمایت یافتہ اُمیدوار راج ویرسنگھ کو ہرایا جنہیں16879ووٹ حاصل ہوئے۔ 2002ء میں ہونے والے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے اُمیدوار نواب محمد یوسف تالپور نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 228 سے 58161, ووٹ حاصل کرکے اپنے مدِ مقابل 48950,ووٹ حاصل کرنے والے نیشنل الائنس کے اُمیدوارکرشن چند پاروانی کو 9211,ووٹ سے شکست دی تھی۔

پی ایس 68کنُری سے جام گروپ کے آزاد اُمیدوار ڈاکٹردوست محمد میمن نے 15026ووٹ حاصل کرکے پیپلزپارٹی کے میرانوارتالپورکوشکست دی تھی جنہیں 14193 ووٹ ملے تھے،پی ایس 69پتھورو سے فنکشنل لیگ کے اُمیدوار سید مظفر حسین شاہ نے 21739, ووٹ حاصل کرکے پیپلزپارٹی کے علی مراد راجڑ کوشکست دی تھی جنہیں 18731,ووٹ ملے تھے جبکہ پی ایس 70عمرکوٹ سے پیپلزپارٹی کے اُمیدوار سید علی مردان شاہ نے 26643,ووٹ حاصل کرتے ہوئے اپنے مدِمقابل فنکشنل لیگ کے اُمیدوار سید مظفر حُسین شاہ کوشکست دی تھی جنہیں 20644,ووٹ ملے تھے۔

اب گیارہ مئی 2013ء کوہونے والے عام انتخابات میں ضلع عمرکوٹ سے قومی و صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں پیپلزپارٹی کے نامزداُمیدواروں کو روایتی حریف سیاسی پارٹیوں فنکشنل لیگ، مسلم لیگ (ن) و دیگر پارٹیوں کے حمایت یافتہ مضبوط اُمیدواروںکی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا ہے لہٰذا اس بار پیپلز پارٹی کو قومی و صوبائی اسمبلی کی تمام نشستیں اپنے نام کرنا مشکل بلکہ ناممکن نظرآتا ہے ۔ضلع عمرکوٹ کے عوامی حلقے پیپلز پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد اِن کی پانچ سالہ حکومتی کارکردگی سے مطمئن نظر نہیں آتے۔

اس پس منظر پر نظر ڈالیں تو گیارہ مئی 2013ء کو ہونے والے عام انتخابات پر تو ضلع عمرکوٹ میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 228سے مسلسل دو بار کامیابی حاصل کرنے والے پیپلز پارٹی کے حمایت یافتہ اُمیدوار نواب محمد یوسف تالپور کو پہلی بار پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئر مین اور ضلع عمرکوٹ کی اکثریتی غوثیہ جماعت کے روحانی پیشوا مخدوم شاہ محمودقریشی اور صحرائے تھر میں اثر و رسوخ رکھنے والے ارباب گروپ کی موجودہ پیپلزمسلم لیگ کے حمایت یافتہ اُمیدوار کِشن چند پاروانی جیسے مضبوط سیاسی حریفوں کا سامنا ہے۔

این اے 228 عمرکوٹ سے پیر صاحب پگاروکی جانب سے مخدوم شاہ محمود قریشی کی بھرپور حمایت کے اعلان کے بعد حلقے میں مخدوم شاہ محمودقریشی کی پوزیشن اور بھی مضبوط ہو چکی ہے۔ ضلع عمرکوٹ میں غوثیہ جماعت کے علاوہ پیرصاحب پگارو کی حُر جماعت بھی بڑی تعدادمیں مقیم ہے۔ دوسری طرف اقلیتی رہنماء لال مالہی کی تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد مخدوم شاہ محمود قریشی کی پوزیشن اوربھی مضبوط ہو چکی ہے کیونکہ ضلع عمرکوٹ میں 48 فیصد اقلیتی ووٹ بنک موجودہ ہے جس پر لال مالہی کی گرفت کافی مضبوط ہے۔




لال مالہی پہلے نواب یوسف تالپورکی حمایت کرتے رہے ہیں۔ مزیدبراں اقلیتی برادری میں انتہائی اثر و رسوخ رکھنے والے ایک دوسرے اقلیتی رہنماء رانا حمیر سنگھ بھی پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر فنکشنل لیگ میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں اوروہ بھی مخدوم شاہ محمود قریشی کی حمایت کررہے ہیں۔ان کے علاوہ علاقے کی انتہائی اہم اور بااثر سیاسی شخصیت غلام رسول عرف بائو شاہ بھی پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر فنکشنل لیگ میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اقلیتی ووٹ بنک جس بھی اُمیدوار کے حق میں جائے گا اس اُمیدوار کی کامیابی یقینی ہے۔

اس کے علاوہ اگر مسلم لیگ (ن) بھی مخدوم شاہ محمود قریشی کی حمایت کا اعلان کر دیتی ہے تو پھر سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ مخدوم شاہ محمود قریشی این اے 228 سے باآسانی کامیابی حاصل کر لیں گے اور اپنے ہی علاقے میں پیپلزپارٹی کے اُمیدوار نواب محمد یوسف تالپور کو عبرتناک شکست کاسامنا کرنا پڑے گا۔

صوبائی اسمبلی کے حلقوں کی بات کریں تو حلقہ پی ایس 68تعلقہ کنُری میں قومی اسمبلی کی نشست کے لئے نامزد پیپلز پارٹی کے اُمیدوار نواب محمدیوسف تالپور کے صاحبزادے پیپلز پارٹی کے اُمیدوار نواب محمد تیمور تالپور، جام گروپ کے آزاد اُمیدوار ڈاکٹردوست محمد میمن، پیپلز مسلم لیگ کے میرامان اللہ تالپور اور مسلم لیگ (ن) کے نواب زید تالپور انتخابی میدان میں ہیں۔ اس حلقے کے ماضی کے سیاسی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو 2002ء میں ہونے والے عام انتخابات میں حلقہ پی ایس 68 تعلقہ کنُری میں تین اُمیدواروں جام گروپ کے آزاد اُمیدوار ڈاکٹر دوست محمد میمن، پیپلز پارٹی کے میر انوار تالپور اور نیشنل الائنس کے میر امان اللہ تالپور کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوا تھا جس میں آزاد اُمیدوار ڈاکٹر دوست محمد میمن نے 15026ووٹ حاصل کر کے بھرپور کامیابی حاصل کی تھی اور پیپلز پارٹی کے میر انوار تالپور اور نیشنل الائنس کے میر امان اللہ تالپور کو بدترین شکست سے دوچار کیا تھا۔

ڈاکٹر دوست محمد میمن کے والد اور جام گروپ کے سربراہ حاجی محمد جام میمن تعلقہ کنُری سے آزاد حیثیت میں منتخب ہو کر تعلقہ ناظم رہ چکے ہیں۔ الیکشن 2008ء کے انتخابات میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے نتیجے میں اس حلقہ سے پیپلز پارٹی کے نامزد نوجوان اُمیدوار نواب محمد تیمور تالپورنے 28718 ووٹ حاصل کر کے کامیابی اپنے نام کی تھی اور اُس وقت مسلم لیگ (ق) کی حمایت سے انتخابات میں حصہ لینے والے ڈاکٹر دوست محمد میمن نے 18953 ووٹ حاصل کئے تھے جبکہ میر امان اللہ تالپور پیپلز پارٹی کے اُمیدوار نواب محمد تیمور تالپور کے حق میں دستبردار ہوگئے تھے۔ 11مئی 2013ء کو ہونے والے عام انتخابات میں حلقہ پی ایس 68 تعلقہ کنُری میں اصل مقابلہ نواب محمد یوسف تالپور کے صاحبزادے نواب محمد تیمور تالپور اور دس جماعتی اِتحاد کے مشترکہ و حمایت یافتہ آزاد اُمیدوار ڈاکٹر دوست محمد میمن کے درمیان ہوگا۔

مسلم لیگ (ن) کے نامزد اُمیدوار نواب زید تالپور کے ڈاکٹر دوست محمد میمن کی حمایت میں دستبردار ہونے کے واضح امکانات نظر آ رہے ہیں۔ اگر مسلم لیگ (ن) بھی حمایت کا اعلان کر دیتی ہے تو ڈاکٹر دوست محمد میمن اپنی ماضی کی بہترین کارکردگی کی بنیاد پر انتخابات جیت جانے کی پوزیشن میں آجائیں گے۔ دوسری طرف پیپلز مسلم لیگ کے حمایت یافتہ اُمیدوار میر امان اللہ تالپور بھی اس حلقے سے ایک بار پھر قسمت آزمانے کا اِرادہ رکھتے ہیں۔ حلقہ پی ایس 69 پتھورو کی نشست پر پیپلزپارٹی کی طرف سے دو اُمیدواروں سید سردار علی شاہ اور سابق ایم پی اے علی مراد راجڑ نے اپنے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروا رکھے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت سابق صوبائی وزیر سید علی مردان شاہ کے بھائی سید سردار علی شاہ کو پارٹی ٹکٹ دیتی ہے یا پھرسابق ایم پی اے علی مراد راجڑ کو ٹکٹ دیتی ہے۔

بہرحال پیپلز پارٹی کی جانب سے جو بھی اُمیدوار میدان میں آیا اُس کا مقابلہ فنکشنل لیگ کے نامزد اور غوثیہ جماعت کے حمایت یافتہ اُمیدوار فقیر جادم منگریو سے ہوگا اس حلقے میں پیپلز پارٹی کے ماضی کے حلیف مخدوم شاہ محمود قریشی کی حمایت کے بعد غوثیہ جماعت کے ووٹ بنک کی وجہ سے فنکشنل لیگ کے اُمیدوار فقیر جادم منگریو کی پوزیشن بہتر ہو چکی ہے کیونکہ اس حلقے میں فنکشنل لیگ کے اپنے ووٹ بنک کے اعلاوہ غوثیہ جماعت کا ووٹ بنک بھی موجود ہے۔ 2002ء کے عام انتخابات میں فنکشنل مسلم لیگ کے اُمیدوار سید مظفر حُسین شاہ اس حلقے سے 21739ووٹ حاصل کرکے کامیاب ہوئے تھے اور ان کے مدِ مقا بل پیپلزپارٹی کے اُمیدوار علی مراد راجڑ نے 18731 ووٹ حاصل کئے تھے۔

حلقہ پی ایس 70 عمرکوٹ کی نشست پر پیپلزپارٹی کے نامزد اُمیدوار سید علی مردان شاہ اور ان کی حریف فنکشنل لیگ کے نامزد اور غوثیہ جماعت کے حمایت یافتہ اُمیدوار محمد قاسم سومرو کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔ پی ایس 70 پیپلز پارٹی کے نامزد اُمیدوار اور انتہائی بااثر سیاسی شخصیت سابق صوبائی وزیر سید علی مردان شاہ کا آبائی حلقہ ہے اور سید علی مردان شاہ 2002ء اور 2008ء کے عام انتخابات میں مسلسل دو بار کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔ سید علی مردان شاہ کے ذاتی اثر و رسوخ کی وجہ سے اس حلقے میں فنکشنل لیگ کے اُمیدوار ناکام ہوتے رہے ہیں تاہم اس بار فنکشنل لیگ کے نامزد و غوثیہ جماعت کے حمایت یافتہ اُمیدوار محمد قاسم سومرو مخدوم شاہ محمود قریشی کی حمایت کے بعد ون ٹو ون سخت مقابلے کی پوزیشن میں آچکے ہیں۔

اس بار پیپلزپارٹی کے علاوہ اپنا ذاتی اثر و رسوخ رکھنے والے سید علی مردان شاہ کو اپنی نشست کو بچانے کے لئے کافی جدوجہد و محنت کرنا پڑے گی جبکہ ضلع بھر میں لوگوں کی اکثریت پیپلزپارٹی کی موجودہ قیادت سے متنفر و شکوہ کرتی نظر آتی ہے جس کی وجہ سے مزید عوامی حمایت حاصل کرنا تو ایک طرف پیپلز پارٹی کا اپنا نظریاتی ووٹ بنک بھی بِکھرا ہوا نظر ا ٓرہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ حلقے میں پیپلز پارٹی کے دونوں اہم رہنمائوں نواب محمد یوسف تالپور اور سید علی مردان شاہ کے آپس کے شدید اختلافات ہیں جو انتخابی نتائج پر بھرپور اثرانداز ہوں گے اور ان کے درمیان موجود اختلافات مستقبل قریب میں بھی ختم ہوتے نظر نہیں آتے۔

اس صورتحال کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو ضلع عمرکوٹ میں بڑا نقصان پہنچے کا خدشہ ہے اور پیپلز پارٹی کے اُمیدواروں کو اپنی پانچ سالہ کارکردگی کو مدِنظر رکھتے ہوئے انفرادی طور پر اپنی اپنی کامیابیوں کے لئے سخت محنت و جدوجہد کرنا پڑے گی۔ ماضی میں ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ ضلع عمرکوٹ کو ن لیگ کا گڑھ کہا جانے لگا تھا کیونکہ سندھ کے دیگر حلقوں کی نسبت مسلم لیگ (ن) اس حلقے میں انفرادی طور پر بے حد مقبول سیاسی جاعت تھی اور اس کے حمایت یافتہ اُمیدواربھاری اکثریت سے کامیاب ہوتے رہے۔

مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف بھی ضلع عمرکوٹ کی تحصیل کنُری کا دو سے زائد بار دورہ کر چکے ہیں مگر مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی عدم توجہی اور ان کے حمایت یافتہ اُمیدوار وں کے ضلع کے مقامی نہ ہونے کی وجہ سے اس حلقے میں مسلم لیگ (ن) اپنی مقبولیت کھو بیٹھی اور اس کا ووٹ بنک منتشر ہو چکا ہے جس کا فائدہ حلقے میں پیپلز پارٹی کو پہنچا۔ 11مئی 2013ء کو ہونے والے عام انتخابات میں غوثیہ جماعت کے روحانی پیشوا مخدوم شاہ محمود قریشی اور فنکشنل لیگ کے سربراہ پیر صاحب پگارو نے ایک قومی اور تین صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر ایک دوسرے کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا ہے اور ایک دوسرے کی انتخابی مہم میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جا رہا ہے۔

تاہم حلقہ کے عوام میں یہ تاثر پیدا کیا جا رہا ہے کہ مخدوم شاہ محمود قریشی جو عمرکوٹ سے غوثیہ جماعت کے روحانی پیشوا کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں وہ ایک سے زائد نشستوں پرکامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر کیا پانچ سال وہ اس حلقے میں نظر بھی آئیں گے یا نہیں؟ مزیدبرآں وہ ملتان سے کامیابی کے بعد اس حلقے پر کس طرح نظر رکھ سکیں گے اور اس کے مسائل حل کر سکیں گے؟
Load Next Story