نیکیوں کی سرمایہ کاری
’’اور جس نے توبہ کی اور نیک عمل کیا تو اس نے اللہ کی طرف (وہ) رجوع کیا جو رجوع کا حق تھا ۔‘‘(القرآن)
نیکی ایک ایسا عمل ہے جس میں سراسر فائدہ ہی فائدہ ہے، اس میں کسی بھی طرح کے نقصان یا کسی بھی قسم کے خسارے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
نیکی کے فوائد، برکات اور فضائل اسی وقت شروع ہوجاتے ہیں جب انسان اپنے دل میں کوئی نیکی کرنے یا نیک کام انجام دینے کا ارادہ کرتا ہے۔ اپنے رب کی فرماں برداری کرنا چاہتا ہے۔ کسی کی مدد کرنا چاہتا ہے۔ کسی کی خدمت کرنا چاہتا ہے۔ کسی کے کام آنا چاہتا ہے۔ دل و جان سے اچھے کام کرنے کا ارادہ کرتا ہے اور اس پر پورے خلوص اور دیانت داری کے ساتھ عمل کرتا ہے۔
گویا نیکیوں کی فصل بونے کی کوشش کرتا ہے اور اس کی نیت کے ساتھ ہی اس کے لیے نیکیوں کے فائدوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ کیا یہ کوئی معمولی بات ہے؟ ہرگز نہیں، ادھر آپ نے نیکی کرنے کا ارادہ کیا اور ادھر آپ کو اس کا اجر ملنا شروع ہوگیا۔ یہ ہے نیکیوں کی سرمایہ کاری، یہ اچھے کاموں کی فصل بونے کا عمل ہے جس کے آغاز سے ہی فائدے کا حصول شروع ہوجاتا ہے۔
نیکی کرنا یا نیکی کرنے کا ارادہ یا نیت کرنا اصل میں وہ عمل ہے جسے کرنے سے انسان کے دل کو بڑا سکون ملتا ہے، بڑا قرار آتا ہے۔ یہ وہ عجیب جذبہ ہے جس کی لطافت کی کوئی حد ہے اور نہ شمار۔ اس سے ثابت ہوا کہ یہ ایک رحمانی جذبہ ہے جس میں رب العزت کی رضا اور فضل بھی شامل ہوتا ہے جبھی اہل ایمان اس جذبے کی لطافت کو محسوس کرلیتے ہیں اور اس سے بھرپور انداز سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
اس کے بعد چراغ سے چراغ جلتے چلے جاتے ہیں۔ ایک نیکی کے بعد دوسری نیکی، دوسری سے تیسری غرض یہ عمل وسعت پاتا چلا جاتا ہے اور نیکی کرنے والا اس عمل کی بے پایاں مسرتوں سے مستفید ہوتا رہتا ہے۔ اس کے دل میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرنے اور نیک اعمال انجام دینے کی چاہ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اس کی اس اچھی نیت سے دوسرے لوگ فیض یاب ہوتے ہیں اور وہ بھی حقیقی نیکیوں کا لطف اٹھاتے ہیں۔
یہاں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اہل ایمان جب نیک کام کرتے ہیں تو اس کے عوض انہیں عجیب طرح کا فیضان ملتا ہے، یعنی نیک کام کرنے کے بعد انہیں انوکھا جذبہ یا خوشی ملتی ہے جو نیکیوں کے خزانے میں مسلسل اضافہ کرتی رہتی ہے۔ اہل ایمان نیکیوں کے اس عمل کو ہی نیکیوں کی سرمایہ کاری کہتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ یہ وہ سرمایہ کاری ہے جس کے بعد نہ کوئی غم ہے، نہ حزن و ملال، بلکہ ایک گونہ خوشی و مسرت ملتی ہے جو خالق کائنات کا نیکوکاروں کے لیے بہت بڑا انعام ہے۔
اب ایک توجہ طلب بات! کیا نیکی کرنا انسان کے اپنے بس میں ہے؟ کیا یہ اتنا آسان کام ہے کہ جو چاہے اسے انجام دے ڈالے، جو چاہے اپنے حساب سے نیکیاں کرلے اور ان کا اجر سمیٹ لے؟ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے، یہ تو توفیق الٰہی ہے یعنی اﷲ تعالیٰ کی جانب سے عطا کی ہوئی سعادت ہے، اس کا ہم بندوں پر احسان عظیم ہے جس کے باعث اہل ایمان اس قابل ہوجاتے ہیں کہ وہ نیک کام کریں، اپنے رب کی فرماں برداری کریں اور اس کے بدلے میں نیکیوں کے ثمرات سے بہرہ مند ہو۔
قرآن حکیم فرقان مجید میں باری تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:''اور جس نے توبہ کی اور نیک عمل کیا تو اس نے اللہ کی طرف (وہ) رجوع کیا جو رجوع کا حق تھا ۔''(الفرقان:71)
یہاں اہل ایمان غور فرمائیں۔ اس آیۂ مبارکہ میں بالکل صاف طور پر لکھا گیا ہے کہ جس نے توبہ کی یعنی اﷲ رب العزت سے اپنے ان تمام اعمال کی معافی چاہی جو اس کی مرضی کے خلاف تھے اور انہوں نے اپنی غفلت یا ناسمجھی کے باعث انجام دے دیے تھے، مگر بعد میں جب انہیں اپنی اس غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے اپنے رب سے اس غلطی کی معافی مانگی، ظاہر ہے اﷲ تعالیٰ غفور الرحیم ہے، وہ معاف کرنے والا ہے، اگر اس کا بندہ کوئی غلط کام کرنے کے بعد اس پر نادم ہوکر اس کی بارگاہ میں معافی کا طلب گار ہوتا ہے تو وہ اس کی توبہ کو قبول کرتا ہے اور اسے بخش دیتا ہے۔
یہاں بندے کو معافی مل گئی، اب اس کے بعد بندے کو دوسرا کام یہ کرنا ہے کہ اسے دل و جان سے نیک اعمال کرنے ہیں جس سے اس کی توبہ کے عمل کو مزید تقویت ملتی ہے۔ گویا پہلے بندے نے اﷲ سے معافی مانگی اور پھر نیک عمل کیے تو اس سے خالق کائنات اور بھی خوش ہوا اور اس نے اپنی رضا اس بندے کو عطا فرمادی۔ اس مفہوم کو واضح کرنے کے لیے مذکورہ بالا آیۂ مبارکہ میں یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں:''تو وہ اﷲ ہی کی طرف لوٹتا ہے۔'' یعنی اب اسے اﷲ اپنی رحمت کے سائے میں لے لیتا ہے جس کے بعد بندے کی نجات ہے۔ معلوم ہوا کہ نیک اعمال کی راہ اس طرح ہم وار ہوئی کہ پہلے اﷲ نے معافی کی توفیق دی اور پھر نیک اعمال کی جس کے بعد بندہ، اپنے رب کا پسندیدہ بندہ قرار پایا۔
قرآن کریم میں ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے:''اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے، ہم ضرور ان کی بدحالیاں دور کردیں گے اور ضرور انہیں ان کے اعمال کا بہترین بدلہ دیں گے۔'' (العنکبوت:7)
اہل ایمان اس آیۂ مبارکہ پر بھی غور کریں۔ یہاں بھی کم و بیش وہی باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں لیکن ان میں بدحالیاں دور کرنے کی بات بھی کی گئی ہے۔ ہمارا رب فرماتا ہے کہ جو لوگ ایمان لائے اور اس پر ثابت قدم رہے، ساتھ ساتھ نیک اعمال کرتے رہے یعنی نیکیوں کی سرمایہ کاری بھی کرتے رہے اور اس عمل کو تسلسل کے ساتھ انجام دیتے رہے، ان کے لیے خوش خبری ہے کہ ان لوگوں کی بدحالیاں یا برے حالات اﷲ رب العزت اپنے کرم سے دور کردے گا۔
اگر کسی کو مال و دولت کا مسئلہ ہے تو اس معاملے میں اﷲ اپنا کرم فرمائے گا، اگر اولاد کا معاملہ ہے تو اس میں بھی ان کے لیے بہترین فیصلہ فرما دے گا اور اگر انہیں رزق کی تنگی ہے تو وہ بھی دور فرمادے گا، یعنی اپنی رحمت اور کرم سے ان کی تمام پریشانیاں دور فرمادے گا، مگر شرط وہی ہے کہ وہ لوگ نیک نیتی کے ساتھ اچھے اعمال کی انجام دہی میں لگے رہیں، ایسے کام کریں جن سے ان کا رب خوش ہوتا ہے اور وہ کام نہ کریں جن کے کرنے سے اس کی ناراضگی کا اندیشہ ہو۔ اس کے بعد وہ اپنے رب کی طرف سے انعام کے مستحق قرار دیے جائیں گے۔ مذکورہ بالا آیت میں اس رب نے خود ہی فرما دیا ہے: ''اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے، ہم ضرور ان کی بدحالیاں دور کردیں گے اور ضرور انہیں ان کے اعمال کا بہترین بدلہ دیں گے۔''
نیک اعمال کا بہترین بدلہ دینا خالق کائنات کی ہی شان ہے۔ وہ جسے چاہے، جو چاہے اور جب چاہے عطا کردے۔ مگر ان عنایات کے لیے وہ دلوں کو دیکھتا ہے، نیتوں کو دیکھتا ہے اور ان کے خلوص کو جانچتا ہے۔ اس سے کچھ بھی چھپا ہوا یا پوشیدہ نہیں ہے۔ نیک لوگ اگر نیک راہ پر رہنا چاہیں تو ان پر لازم ہے کہ اس کے لیے اپنے رب سے مدد مانگیں۔ اس نے خود ہی اپنی کتاب حق میں ارشاد فرما دیا ہے:''اور یہ عربی زبان میں اس کی تصدیق کرنے والی کتاب ہے تاکہ ظالموں کو ڈرائے اور نیکوکاروں کے لیے خوش خبری بنے۔'' (الاحقاف:12)
اس آیۂ مبارکہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ کتاب حکمت یعنی قرآن مجید عربی زبان میں ہے۔ چوں کہ قرآن کریم عرب میں نازل ہوا تھا جہاں کی زبان عربی تھی، اس لیے یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ کتاب یعنی قرآن عربی زبان میں اسی لیے نازل فرمایا گیا تاکہ تمام لوگ یعنی عوام و خواص اس کی باتوں، اس کے احکام کو سمجھ سکیں اور یہ نہ کہہ سکیں کہ یہ کتاب ایسی زبان میں تھی جسے ہم سمجھ نہ سکے۔ یہ صرف ایک کتاب نہیں ہے بلکہ آفاقی ہدایت ہے جو ہمارے واحد رب نے ہمارے لیے بھیجی ہے۔
اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اﷲ ایک ہے، واحد ہے، وہ اس کائنات کا مالک ہے۔ اسی نے ہم سب کو پیدا کیا ہے اور ایک روز ہمیں واپس بلاکر دنیا میں کیے گئے اعمال کی بازپرس کرے گا۔ اس لیے ہمیں یہاں اس طرح زندگی گزارنی چاہیے جس طرح اس کتاب میں بتایا گیا ہے۔
اس میں زندگی گزارنے کے قرینے اور سلیقے بتائے گئے ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ظلم کرنے والے یعنی اﷲ کی نافرمانی کرنے والے اور اس کی بتائی ہوئی راہ سے ہٹنے والے اس کی پکڑ سے بچ نہیں سکیں گے۔ ساتھ ہی اسی کتاب نے نیک کام کرنے والوں، اﷲ کی فرماں برداری کرنے والوں اور نیکوکاروں کو اخروی کام یابی کی خوش خبری بھی دی ہے۔
معلوم ہوا کہ نیکی ایسا عمل ہے جو دنیا میں تو انسان کو سرخرو رکھتی ہی ہے، آخرت میں بھی اسے کام یابی دلوائے گی۔ ہم سب کا فرض ہے کہ زیادہ سے زیادہ نیک اعمال انجام دیں، برائیوں سے بچیں اور نیک اعمال کی اس دنیا میں اس طرح سرمایہ کاری کریں کہ ان کی وجہ سے دنیا اور آخرت دونوں جگہ کام یابی ملے۔
نیکی کے فوائد، برکات اور فضائل اسی وقت شروع ہوجاتے ہیں جب انسان اپنے دل میں کوئی نیکی کرنے یا نیک کام انجام دینے کا ارادہ کرتا ہے۔ اپنے رب کی فرماں برداری کرنا چاہتا ہے۔ کسی کی مدد کرنا چاہتا ہے۔ کسی کی خدمت کرنا چاہتا ہے۔ کسی کے کام آنا چاہتا ہے۔ دل و جان سے اچھے کام کرنے کا ارادہ کرتا ہے اور اس پر پورے خلوص اور دیانت داری کے ساتھ عمل کرتا ہے۔
گویا نیکیوں کی فصل بونے کی کوشش کرتا ہے اور اس کی نیت کے ساتھ ہی اس کے لیے نیکیوں کے فائدوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ کیا یہ کوئی معمولی بات ہے؟ ہرگز نہیں، ادھر آپ نے نیکی کرنے کا ارادہ کیا اور ادھر آپ کو اس کا اجر ملنا شروع ہوگیا۔ یہ ہے نیکیوں کی سرمایہ کاری، یہ اچھے کاموں کی فصل بونے کا عمل ہے جس کے آغاز سے ہی فائدے کا حصول شروع ہوجاتا ہے۔
نیکی کرنا یا نیکی کرنے کا ارادہ یا نیت کرنا اصل میں وہ عمل ہے جسے کرنے سے انسان کے دل کو بڑا سکون ملتا ہے، بڑا قرار آتا ہے۔ یہ وہ عجیب جذبہ ہے جس کی لطافت کی کوئی حد ہے اور نہ شمار۔ اس سے ثابت ہوا کہ یہ ایک رحمانی جذبہ ہے جس میں رب العزت کی رضا اور فضل بھی شامل ہوتا ہے جبھی اہل ایمان اس جذبے کی لطافت کو محسوس کرلیتے ہیں اور اس سے بھرپور انداز سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
اس کے بعد چراغ سے چراغ جلتے چلے جاتے ہیں۔ ایک نیکی کے بعد دوسری نیکی، دوسری سے تیسری غرض یہ عمل وسعت پاتا چلا جاتا ہے اور نیکی کرنے والا اس عمل کی بے پایاں مسرتوں سے مستفید ہوتا رہتا ہے۔ اس کے دل میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرنے اور نیک اعمال انجام دینے کی چاہ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اس کی اس اچھی نیت سے دوسرے لوگ فیض یاب ہوتے ہیں اور وہ بھی حقیقی نیکیوں کا لطف اٹھاتے ہیں۔
یہاں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اہل ایمان جب نیک کام کرتے ہیں تو اس کے عوض انہیں عجیب طرح کا فیضان ملتا ہے، یعنی نیک کام کرنے کے بعد انہیں انوکھا جذبہ یا خوشی ملتی ہے جو نیکیوں کے خزانے میں مسلسل اضافہ کرتی رہتی ہے۔ اہل ایمان نیکیوں کے اس عمل کو ہی نیکیوں کی سرمایہ کاری کہتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ یہ وہ سرمایہ کاری ہے جس کے بعد نہ کوئی غم ہے، نہ حزن و ملال، بلکہ ایک گونہ خوشی و مسرت ملتی ہے جو خالق کائنات کا نیکوکاروں کے لیے بہت بڑا انعام ہے۔
اب ایک توجہ طلب بات! کیا نیکی کرنا انسان کے اپنے بس میں ہے؟ کیا یہ اتنا آسان کام ہے کہ جو چاہے اسے انجام دے ڈالے، جو چاہے اپنے حساب سے نیکیاں کرلے اور ان کا اجر سمیٹ لے؟ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے، یہ تو توفیق الٰہی ہے یعنی اﷲ تعالیٰ کی جانب سے عطا کی ہوئی سعادت ہے، اس کا ہم بندوں پر احسان عظیم ہے جس کے باعث اہل ایمان اس قابل ہوجاتے ہیں کہ وہ نیک کام کریں، اپنے رب کی فرماں برداری کریں اور اس کے بدلے میں نیکیوں کے ثمرات سے بہرہ مند ہو۔
قرآن حکیم فرقان مجید میں باری تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:''اور جس نے توبہ کی اور نیک عمل کیا تو اس نے اللہ کی طرف (وہ) رجوع کیا جو رجوع کا حق تھا ۔''(الفرقان:71)
یہاں اہل ایمان غور فرمائیں۔ اس آیۂ مبارکہ میں بالکل صاف طور پر لکھا گیا ہے کہ جس نے توبہ کی یعنی اﷲ رب العزت سے اپنے ان تمام اعمال کی معافی چاہی جو اس کی مرضی کے خلاف تھے اور انہوں نے اپنی غفلت یا ناسمجھی کے باعث انجام دے دیے تھے، مگر بعد میں جب انہیں اپنی اس غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے اپنے رب سے اس غلطی کی معافی مانگی، ظاہر ہے اﷲ تعالیٰ غفور الرحیم ہے، وہ معاف کرنے والا ہے، اگر اس کا بندہ کوئی غلط کام کرنے کے بعد اس پر نادم ہوکر اس کی بارگاہ میں معافی کا طلب گار ہوتا ہے تو وہ اس کی توبہ کو قبول کرتا ہے اور اسے بخش دیتا ہے۔
یہاں بندے کو معافی مل گئی، اب اس کے بعد بندے کو دوسرا کام یہ کرنا ہے کہ اسے دل و جان سے نیک اعمال کرنے ہیں جس سے اس کی توبہ کے عمل کو مزید تقویت ملتی ہے۔ گویا پہلے بندے نے اﷲ سے معافی مانگی اور پھر نیک عمل کیے تو اس سے خالق کائنات اور بھی خوش ہوا اور اس نے اپنی رضا اس بندے کو عطا فرمادی۔ اس مفہوم کو واضح کرنے کے لیے مذکورہ بالا آیۂ مبارکہ میں یہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں:''تو وہ اﷲ ہی کی طرف لوٹتا ہے۔'' یعنی اب اسے اﷲ اپنی رحمت کے سائے میں لے لیتا ہے جس کے بعد بندے کی نجات ہے۔ معلوم ہوا کہ نیک اعمال کی راہ اس طرح ہم وار ہوئی کہ پہلے اﷲ نے معافی کی توفیق دی اور پھر نیک اعمال کی جس کے بعد بندہ، اپنے رب کا پسندیدہ بندہ قرار پایا۔
قرآن کریم میں ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے:''اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے، ہم ضرور ان کی بدحالیاں دور کردیں گے اور ضرور انہیں ان کے اعمال کا بہترین بدلہ دیں گے۔'' (العنکبوت:7)
اہل ایمان اس آیۂ مبارکہ پر بھی غور کریں۔ یہاں بھی کم و بیش وہی باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں لیکن ان میں بدحالیاں دور کرنے کی بات بھی کی گئی ہے۔ ہمارا رب فرماتا ہے کہ جو لوگ ایمان لائے اور اس پر ثابت قدم رہے، ساتھ ساتھ نیک اعمال کرتے رہے یعنی نیکیوں کی سرمایہ کاری بھی کرتے رہے اور اس عمل کو تسلسل کے ساتھ انجام دیتے رہے، ان کے لیے خوش خبری ہے کہ ان لوگوں کی بدحالیاں یا برے حالات اﷲ رب العزت اپنے کرم سے دور کردے گا۔
اگر کسی کو مال و دولت کا مسئلہ ہے تو اس معاملے میں اﷲ اپنا کرم فرمائے گا، اگر اولاد کا معاملہ ہے تو اس میں بھی ان کے لیے بہترین فیصلہ فرما دے گا اور اگر انہیں رزق کی تنگی ہے تو وہ بھی دور فرمادے گا، یعنی اپنی رحمت اور کرم سے ان کی تمام پریشانیاں دور فرمادے گا، مگر شرط وہی ہے کہ وہ لوگ نیک نیتی کے ساتھ اچھے اعمال کی انجام دہی میں لگے رہیں، ایسے کام کریں جن سے ان کا رب خوش ہوتا ہے اور وہ کام نہ کریں جن کے کرنے سے اس کی ناراضگی کا اندیشہ ہو۔ اس کے بعد وہ اپنے رب کی طرف سے انعام کے مستحق قرار دیے جائیں گے۔ مذکورہ بالا آیت میں اس رب نے خود ہی فرما دیا ہے: ''اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے، ہم ضرور ان کی بدحالیاں دور کردیں گے اور ضرور انہیں ان کے اعمال کا بہترین بدلہ دیں گے۔''
نیک اعمال کا بہترین بدلہ دینا خالق کائنات کی ہی شان ہے۔ وہ جسے چاہے، جو چاہے اور جب چاہے عطا کردے۔ مگر ان عنایات کے لیے وہ دلوں کو دیکھتا ہے، نیتوں کو دیکھتا ہے اور ان کے خلوص کو جانچتا ہے۔ اس سے کچھ بھی چھپا ہوا یا پوشیدہ نہیں ہے۔ نیک لوگ اگر نیک راہ پر رہنا چاہیں تو ان پر لازم ہے کہ اس کے لیے اپنے رب سے مدد مانگیں۔ اس نے خود ہی اپنی کتاب حق میں ارشاد فرما دیا ہے:''اور یہ عربی زبان میں اس کی تصدیق کرنے والی کتاب ہے تاکہ ظالموں کو ڈرائے اور نیکوکاروں کے لیے خوش خبری بنے۔'' (الاحقاف:12)
اس آیۂ مبارکہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ کتاب حکمت یعنی قرآن مجید عربی زبان میں ہے۔ چوں کہ قرآن کریم عرب میں نازل ہوا تھا جہاں کی زبان عربی تھی، اس لیے یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ کتاب یعنی قرآن عربی زبان میں اسی لیے نازل فرمایا گیا تاکہ تمام لوگ یعنی عوام و خواص اس کی باتوں، اس کے احکام کو سمجھ سکیں اور یہ نہ کہہ سکیں کہ یہ کتاب ایسی زبان میں تھی جسے ہم سمجھ نہ سکے۔ یہ صرف ایک کتاب نہیں ہے بلکہ آفاقی ہدایت ہے جو ہمارے واحد رب نے ہمارے لیے بھیجی ہے۔
اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اﷲ ایک ہے، واحد ہے، وہ اس کائنات کا مالک ہے۔ اسی نے ہم سب کو پیدا کیا ہے اور ایک روز ہمیں واپس بلاکر دنیا میں کیے گئے اعمال کی بازپرس کرے گا۔ اس لیے ہمیں یہاں اس طرح زندگی گزارنی چاہیے جس طرح اس کتاب میں بتایا گیا ہے۔
اس میں زندگی گزارنے کے قرینے اور سلیقے بتائے گئے ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ظلم کرنے والے یعنی اﷲ کی نافرمانی کرنے والے اور اس کی بتائی ہوئی راہ سے ہٹنے والے اس کی پکڑ سے بچ نہیں سکیں گے۔ ساتھ ہی اسی کتاب نے نیک کام کرنے والوں، اﷲ کی فرماں برداری کرنے والوں اور نیکوکاروں کو اخروی کام یابی کی خوش خبری بھی دی ہے۔
معلوم ہوا کہ نیکی ایسا عمل ہے جو دنیا میں تو انسان کو سرخرو رکھتی ہی ہے، آخرت میں بھی اسے کام یابی دلوائے گی۔ ہم سب کا فرض ہے کہ زیادہ سے زیادہ نیک اعمال انجام دیں، برائیوں سے بچیں اور نیک اعمال کی اس دنیا میں اس طرح سرمایہ کاری کریں کہ ان کی وجہ سے دنیا اور آخرت دونوں جگہ کام یابی ملے۔