کچی آبادیوں کے مکینوں کو سلام
جو لوگ اس کیک میں سے ایک سلائس حاصل کرنا چاہتے ہیں ان کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
حال ہی میں کچی آبادی والوں کی تعریف میں گایا جانے والا ایک نغمہ زیادہ تر ہندوستانیوں کے ہونٹوں پر تھا۔ جے ہو' جے ہو نے اس قدر توجہ حاصل کر لی تھی کہ اسے آسکر ایوارڈ کا حقدار قرار دے دیا گیا۔ اس گانے میں یہ بتایا گیا تھا کہ غربت کی لکیر پر رہنے والے لوگ بھی معاشرے کو چیلنج کیے بغیر زندہ رہنے کی اپنی سی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ وہ ان عالیشان مکانوں اور بلڈنگوں کو زمین دوز نہیں کرنا چاہتے جو غیر قانونی طور پر تعمیر کر لی گئی ہیں۔ بدترین بات صرف چند روز قبل ہوئی۔
درست کہ قدرتی آفات کو روکنا مشکل ہے لیکن مہاراشٹر کے ضلع تھانے کے علاقے ممبرا میں جو کچھ ہوا اسے روکا جا سکتا تھا بشرط کہ انتظامی کوتاہیاں آڑے نہ آتیں۔ یہ انسانوں کا اپنا پیدا کردہ بحران تھا۔ لالچی رئیل اسٹیٹ مالکان' تعمیراتی ٹھیکیداران' سیاستدان اور افسر شاہی کے ارکان جو سب ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں انھیں اس المیے کا ذمے دار ٹھہرانا پڑے گا جس کے نتیجے میں 74افراد جان سے گزر گئے جب کہ 61 زخمی ہوئے۔
اس اندوہناک حادثے کے ذمے دار یہی لوگ ہیں، جب کچی آبادی والوں کے لیے ایک آٹھ منزلہ عمارت صرف تین چار مہینے میں کھڑی کر دی جائے تو سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ کس طرح پایہ تکمیل کو پہنچی ہو گی۔ شہری حکام سے منظوری لینا یا نقشہ پاس کرانا کوئی معمولی بات نہیں چہ جائیکہ ایک کثیر منزلہ عمارت کو تکمیل کے تمام مراحل سے گزار لیا جائے۔ کسی عمارت کی تعمیر کے لیے میونسپل آفس کے کئی مہینوں تک چکر لگانے پڑتے ہیں اور ان تمام تعمیراتی مراحل کی منظوری کے لیے متعلقہ سرکاری اہلکاروں کی مٹھی بھر گرم کرنا پڑتی ہے۔
اس سے ہمیں اس بنیادی مسئلہ سے آگاہی ہوئی ہے جو ملک کے زیادہ تر بڑے شہروں کو درپیش ہے یعنی رہائشی مکانوں کی بے حد قلت۔ ظاہر ہے کہ کیک چھوٹا ہے اور جو لوگ اس کیک میں سے ایک سلائس حاصل کرنا چاہتے ہیں ان کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اگر کیک کا سائز بڑا ہوتا تو پھر ہر کوئی اس میں سے اپنے حصے کا ٹکرا گھر لے جا سکتا تھا۔ لیکن ممبئی والے جانتے ہیں کہ یہ المیہ تھانے اور اس کے گردونواح کے علاقے میں مکانوں کی بہت زیادہ ضرورت کے باعث ہوا۔ زمینوں پر قبضہ کرنے والے مافیا کا کاروبار بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ جس کو طاقتور سیاسی شخصیات، بڑے عمارتی ٹھیکیداروں' پولیس اور سول افسروں کے باہمی گٹھ جوڑ سے سرپرستی کی جاتی ہے۔ اور یہی گٹھ جوڑ عمارتی ٹھیکیداروں کے لیے من مانی کرنے کا راستہ کھولتا ہے۔
بظاہر ممبرا کیس میں عمارتی ٹھیکیداروں نے بغیر کسی قانونی اور باضابطہ کاغذی کارروائی کے مکینوں کو بجلی اور پانی کی فراہمی کے انتظامات مکمل کر رکھے تھے تا کہ ان فلیٹوں کو فی الفور فروخت کیا جا سکے۔ لیکن یہ اسی وقت ممکن تھا جب عمارتی ٹھیکیداروں نے تھانے کے میونسپل افسروں کو اپنے ساتھ ملا لیا ہوتا۔ کیونکہ جب بھی علاقے کے لوگوں نے غیر قانونی تعمیرات کی شکایت متعلقہ حکام سے کی تو انھوں نے چشم پوشی اختیار کیے رکھی۔
ان تمام باتوں سے بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ رئیل اسٹیٹ کا کاروبار والوں اور میونسپل افسروں کے باہمی روابط کس قدر پختہ ہیں۔ اور یہ کسی ایک شہر یا ایک ریاست کی بات نہیں بلکہ ہر جگہ یہی حالت ہے کیونکہ زمین کی قیمتیں دن بدن زیادہ سے زیادہ مہنگی ہوتی چلی جا رہی ہیں اور یہی لالچ ان عناصر کو ہر قسم کی بے قاعدگیوں پر اکساتا ہے۔ ممبرا کے معاملے میں ٹی ایم سی کے افسر واضح طور پر اتنی بلند و بالا بلڈنگ کی غیر قانونی تعمیر میں ملوث ہیں جو نہ صرف یہ کہ قبائلی علاقے یا جنگلات میں قائم کی گئی تھی بلکہ وہاں سے ایک گندہ نالہ بھی گزرتا ہے۔
اس ناجائز تعمیر اور پھر اس کے نتیجے میں ہونے والے انتہائی مہلک حادثہ کے جرم میں ٹی ایم سی کے بعض افسروں کے علاوہ ایک اعلیٰ پولیس افسر کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے جنہوں نے اس غیر قانونی تعمیر میں مدد فراہم کی۔ دو تعمیراتی ٹھیکیداروں پر تو اجتماعی قتل عام کی فرد جرم عاید ہو چکی ہے۔ یہ بات قابل فہم ہے کہ وزیر اعلیٰ پرتھوی راج چاون نے عمارت کے انہدام کی تحقیقات کا حکم دیدیا ہے لیکن المناک بات یہ ہے کہ وزیراعلیٰ کو یہ عقل اتنا بڑا حادثہ ہونے کے بعد ہی کیوں آئی جس کا انھوں نے ریاستی اسمبلی میں اعتراف کیا کہ قبائلی اور جنگلات کے علاقے پر بہت ساری عمارتیں غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی ہیں۔
انھوں نے ایوان کو مزید بتایا کہ تھانے کے علاقے میں 57 نہایت خطر ناک عمارتیں جب کہ 159 نسبتاً قدرے کم خطر ناک عمارتیں کھڑی ہیں۔ ان تمام غیر قانونی عمارتوں میں 88,000 لوگ رہائش پذیر ہیں۔ لیکن اگر صرف تھانے کے ضلع میں ہی غیر قانونی عمارات کی گنتی کی جائے جن کی تعداد ریاستی حکومت نے تین سال قبل بمبئی ہائی کورٹ میں داخل کرائی تھی وہ پانچ لاکھ کے لگ بھگ تھی جن میں اب تک کئی گنا مزید اضافہ ہو چکا ہے بالخصوص ممبئی کے ارد گرد یہی کچھ ہو رہا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ بھارتی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ فطرتاً بہت متحرک ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام کی اکثریت رئیل اسٹیٹ کے شعبہ میں ہی سرمایہ کاری کرنے کو ترجیح دیتے ہیں بالخصوص طویل مدتی سرمایہ کاری کے لیے، نہ کہ اپنی نجی رہائش کے لیے۔ اور رئیل اسٹیٹ کاروبار کرنے والے بھی جلد سے جلد زیادہ سے زیادہ دولت کمانا چاہتے ہیں۔ جس کا طریقہ یہی ہے کہ قاعدے قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اور معیار کا خیال رکھے بغیر تعمیرات کی جاتی رہیں۔ در حقیقت مرکزی وزارت داخلہ نے رئیل اسٹیٹ کے قانون کے لیے ایک ترمیمی بل اسمبلی میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے تا کہ اس اہم شعبے کو قانون کے دائرے میں لایا جا سکے۔
اگر یہ بل یا مسودہ قانون کابینہ اور پھر پارلیمنٹ منظور کر لیتی ہے تو پھر تعمیراتی ٹھیکیداروں پر لازم ہو گا کہ وہ کسی منصوبے کے لیے اکٹھی کی جانے والی رقم کا 70 فیصد لازمی طور پر تعمیر پر خرچ کریں جس سے منصوبے کی تکمیل میں ناروا تاخیر بھی نہ ہو۔ اس مسودہ قانون میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے لیے ایک ریگولیٹری باڈی کے قیام کی تجویز پیش کی گئی ہے تا کہ پراپرٹی یا رئیل اسٹیٹ کی منتقلی وغیرہ شفاف انداز میں ہو سکے نیز اس کے ذریعے خریداروں کے مفاد کو بھی مقدم رکھا جا سکے لیکن جیسا کہ توقع تھی تعمیراتی ٹھیکیداروں کی طرف سے اس متوقع بل کی وسیع پیمانے پر مخالفت کی جا رہی ہے۔
جو حادثہ ممبرا میں ہوا وہ کوئی انوکھی بات نہیں ماضی میں اس سے بھی بڑے بڑے حادثے ہو گزرے ہیں۔ اس قسم کا ایک واقعہ جو میرے ذہن میں آتا ہے وہ قومی دارالحکومت (دہلی) کے للتیا پارک کے علاقے میں چند سال قبل ایک سات منزلہ عمارت کے گرنے کا ہے۔ مشرقی دہلی کی اس غیر قانونی کالونی میں یہ عمارت غیر معیاری تعمیراتی سامان سے کھڑی کی گئی تھی۔ اس حادثہ میں 34 افراد ہلاک جب کہ 60سے زاید زخمی ہوئے تھے۔ اس وقت وزیر اعلیٰ شیلا ڈکشٹ نے تحقیقات کا حکم تو دیا تھا مگر تحقیقات کا کیا بنا اس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔ تاہم مجھے امید ہے کہ پرتھوی راج چاون نے تحقیقات کا جو حکم دیا ہے اس کا انجام بھی شیلا ڈکشٹ کے حکم جیسا نہیں ہو گا۔
زیادہ تر معاملات میں صرف ایک سرسری قسم کی انکوائری کی جاتی ہے اور ٹھیکیداروں کو نوٹس وغیرہ بھیجے جاتے ہیں یا ان سے تاوان طلب کر لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد انھیں کھلی چھٹی مل جاتی ہے۔ تعمیراتی ٹھیکیداروں کی لابی اس قدر مضبوط ہے کہ طاقت ور سیاستدان ان کی سرپرستی کے بغیر اپنی سیاست بھی نہیں کر سکتے۔ کیونکہ انتخابات کے دوران انتخابی مہم کا خرچہ انھی ٹھیکیداروں نے اٹھانا ہوتا ہے۔ کرپشن اور لالچ کی بیماری کی جڑیں ہماری سیاست میں اس قدر گہری ہو چکی ہیں کہ ان کا سدباب ممکن ہی دکھائی نہیں دیتا۔ اس حوالے سے بہت پر زور سیاسی عزم کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھایا جا سکتا۔ لیکن کس سیاسی پارٹی میں اتنی ہمت ہے کہ وہ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھ سکے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)