سب سے بڑے قومی سانحے پر سب سے بڑی عدالتی رپورٹ
’’جب انھیں پتہ چلاکہ ذاتی اقتدار کے لیے ان کی ’’متبادل اور وقتی ‘‘منصوبہ بندی ناکام ہوچکی ہے
قادر ِ مطلق ہمیں مزید صدموں سے بچائے مگر پاکستانی قوم کے لیے سقوطِ ڈھاکا سے بڑا نہ کوئی سانحہ ہو سکتا ہے اور نہ حمود الرحمن کمیشن سے بڑا اور معتبر کمیشن بن سکتا ہے۔اس کے سربراہ ملک کے چیف جسٹس حمود الرّحمان صاحب تھے جو اپنی دیانتداری ،قابلیّت اورحُبّ الوطنی میں بے مثل اور بعد میں آنے والے کولیگز سے بہت بلند قامت تھے ۔
کمیشن کے دو ممبران تھے ایک پنجاب کے چیف جسٹس انوار الحق صاحب اور دوسرے جسٹس طفیل علی عبدالرحمن صاحب جو سندھ اور بلوچستان ہا ئیکورٹ کے چیف جسٹس تھے،اتنی بڑی ٹریجیڈی کی انکوائری کے لیے اس سے بہترکمیشن بن ہی نہیں سکتا تھا۔کمیشن نے اپنی رپورٹ میں سابق مشرقی پاکستان میں پائی جانے والی بے چینی کا بھی تفصیلی جائزہ لیا ہے۔اور سقوطِ مشرقی پاکستان کی ذمّے داری کا بھی تعین کیاہے۔کمیشن نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے۔
''ہمارے سامنے پیش ہونے والی گواہیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ گول میز کانفرس کے دوران شیخ مجیب الرحمان کی ملاقات جنرل یحییٰ خان اورجنرل حمید سے کمانڈر ان چیف کے گھر پر ہوئی تھی۔جس کے بعد شیخ مجیب الرحمان کا رویہ سخت ہوگیا۔ جنرل یحییٰ خان نے انھیں در پردہ یقین دلایا تھاکہ گول میز کانفرنس کی ناکامی کی حالت میں وہ مارشل لاء نہیں لگائیں گے۔
''شیخ مجیب الرحمان نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا تھا کہ الیکشن کی مہم چھ نکات پر ریفرنڈم کا درجہ رکھتی تھی،مگر اس کے باوجودجنرل یحییٰ اور ان کے مشیروں نے نہ تو مجیب کو کسی قسم کی فہمائش کی،نہ ہی اس کے اعلان کے خلاف کوئی اور احتجاج کیا۔عوامی لیگ کو مشرقی پاکستان میں الیکشن کے لیے دھونس اور دھاندلی کو جوکھلی چھُٹّی دی گئی تھی، اُسے بھی آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔حکومت کا یہ اصرار قابلِ قبول نہیں ہے کہ وہ الیکشن بالکل شفاف اور غیر جانبدار نہ تھے۔
بہت سے گواہوں نے ہمارے سامنے شہادت دی کہ حکومت نے عوامی لیگ کی غنڈہ گردی روکنے کے لیے کسی قسم کی کو ئی کوشش نہیں کی،نہ ہی اُسے ووٹروں پر ایسے تشدد سے روکا جس کی وجہ سے وہ پولنگ اسٹیشن پر ووٹ دینے نہ جاسکے ۔ اس لیے شفاف الیکشن کرانے میں حکومت کا دانستہ تساہل نظر انداز نہیں کیاجا سکتا۔یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ حکومت نے کسی فریق کی طرف جھکاؤ ظاہر نہیں کیا ۔ ہمیں بہت سی شہادتیں ملی ہیں کہ جنرل یحییٰ اور ان کے افسران الیکشن کا رخ بعض پارٹیوں کے حق میں موڑنے کے لیے بڑی سرگرمی دکھا رہے تھے اورصنعت کاروں سے بڑی بڑی رقوم وصول کر کے اپنی منظور ِ نظر پارٹیو ں کو دے رہے تھے۔ اس ضمن میں جنرل عمر اور مسٹررضوی کا طرز عمل بہت غیر مناسب اور قابل اعتراض تھا۔
''جب انھیں پتہ چلاکہ ذاتی اقتدار کے لیے ان کی ''متبادل اور وقتی ''منصوبہ بندی ناکام ہوچکی ہے کیونکہ الیکشن میں ایک پارٹی مشرقی پاکستان میں غالب اکثریت حاصل کر چکی ہے اور دوسری مغربی پاکستان میں جیت چکی ہے،تو جنرل یحییٰ آئین ساز اسمبلی کا اجلاس بلانے سے کترانے لگے وہ اسے ہر ممکنہ حد تک ملتوی کرنے پر تُل گئے ۔
''مشرقی پاکستان کے گورنر اور اُس خطے کے مارشل لاء ایڈمنسٹر یٹرنے جنرل یحییٰ کو قائل کرنے کی سر توڑ کوشش کی۔ کہ اجلاس ملتوی کرتے وقت اگلی تاریخ بھی مقرر کر دی جائے مگر وہ نہ مانے ،چنانچہ یکم مارچ کو اگلی تاریخ مقرر کیے بغیر 03مارچ کو ہونے والے اجلاس کے التوا کا اعلان کردیا گیا۔
اس التواکا غیرمعمولی اورتشدد آمیز ر دِ ّ عمل ہو ا عوامی لیگ نے ہڑتال کی اپیل کر دی ۔ڈھاکا ،چٹاگانگ اور کئی دیگر شہروں میں لوٹ مار جلاؤ گھیراؤکا سلسلہ چل پڑا اور یہ سب غیر بنگالیوں کے ساتھ ہورہا تھا۔ زونل مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے فسادات روکنے کے لیے فوج بلالی۔مارچ سے عوامی لیگ نے حقیقی طور پر صوبے کے نظم و نسق پر قبضہ کر لیا۔ انھوں نے لوگوں کو ٹیکس دینے سے روک دیا۔اور بینکوں سمیت تمام مالیاتی اداروں کو ہدایات جاری کرنے لگے۔ کہ وہ ان کے احکام کے علاوہ اور کوئی ادائیگی نہ کریں حتیٰ کے فوج کے راشن بھی بند کردیے گئے ۔
مشرقی پاکستان کے گورنر ایڈمرل احسن نے یکم مارچ 1971 کو استعفیٰ دے دیا۔لیفٹیننٹ جنر ل یعقوب خان، زونل مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرنے چار(4)مارچ کواستعفیٰ دیا۔ مگر انھیں اپناجانشین آنے تک انتظار کر نے کو کہا گیا۔ سات(7)مارچ کو لیفٹیننٹ جنرل ٹکا خان نے یہ دونوں عہدے سنبھالے۔چنانچہ جنرل ٹکا خان صرف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے طور پر کام کرتے رہے ۔مگر اس حیثیت میں بھی انھوں نے ڈھاکا اور دیگر شہروں میں بے دریغ فسادات کو روکنے کی کوئی مؤثّر کوشش نہ کی ۔ان کا بیان ہے کہ انھیں کہا گیا تھا کہ مذاکرات کے امکانات کو قائم رکھیں۔
مذاکرات ناکام ہونے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مارشل لاء لگانے والے نہیں چاہتے تھے کہ فوری طور پر مارشل لاء ختم کر کے وہ خود بیرکو ں میں واپس چلے جائیں ۔وہ اس امکان پر غور کرنے کوبھی تیار نہ تھے۔کیونکہ مارشل لا ء ختم کر نے سے فوج کے لیے امورِ مملکت چلانے کا قانونی جواز ختم ہوجاتا۔ یا بالفاظ ِ دیگر چیف مارشل لاء ایڈمنسٹر یٹربے اختیار ہو جاتے۔بہرحال مذاکرات کی ناکامی کی جوبھی وجہ تھی ۔ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ عوامی لیگ کی تحریک کو کچلنے کے لیے پچیس(25)مارچ کی رات کو جو کارروائی کی گئی وہ نہ صرف بنیادی طور پر غلط تھی بلکہ اس پر عمل درآمد بھی احمقانہ انداز میں کیاگیاتھا۔یہ قدم سیاسی بصیرت ،پیش بینی اور عاقبت اندیشی سے یکسر خالی تھا اور اس کایقینی نتیجہ مشرقی پاکستان کا خاتمہ تھا۔
''یہ حالات صرف سیاسی حل کا تقاضاکر تے تھے۔ جنرل یحییٰ کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ سیاسی مسائل صرف سیاسی انداز میں ہی حل کیے جاسکتے ہیں اوراپنے شہریوں پر فوجی حل نہیں ٹھونساجا سکتا ۔ہمیں افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ جنرل یحییٰ کسی قسم کے حل کی ضرورت محسوس ہی نہیں کرتے تھے۔وہ اس معاملے میں بالکل بے حس تھے ۔اورہمارے خیال میں ان کی لا تعلّقی اور بے اعتنائی کا مخفی مقصد ہی یہی تھاکہ وہ کوئی ایسا حل نہیں ہونے دیں گے جس سے انھیں اقتدار چھوڑنا پڑے ۔نہ ہی انھیں قوم کے سر پر لٹکنے والے اس خطرے کی کوئی پرواہ تھی ،کہ ایک دشمن ہمسایہ فوجی مداخلت سے ہمارا ملک توڑنے پر تلابیٹھاہے۔
''جنرل یحییٰ اور ان کے قریبی ساتھیوں کے اس رویے کا احساس ہمارے لیے بہت تکلیف دہ اور پریشان کن ہے اور ہم مجبور ہوگئے ہیں کہ اس رویے کو جنم دینے والے حالات کا مفصل جائزہ لیں ۔تاکہ معلوم ہو سکے کہ کیا جنرل یحییٰ نیک نیتی سے کام کر رہے تھے یا ان کے تمام اعمال کی محرک صرف ذاتی اقتدار کی ہوس تھی،اس جائزے میں ہم پر مندرجہ ذیل حالات کا انکشاف ہواہے۔
''پچیس (25)مارچ 1969 کو اقتدار پر جنرل یحییٰ کا قبضہ نہ صرف غیر آئینی تھا۔بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ تھا ۔منصوبہ بندی کا واضح ثبوت یہ تھا کہ حصولِ اقتدار کے متعلق تمام قانونی دستاویز ات اس تاریخ سے پہلے تیار کر لی گئی تھیں ۔
ِِ''الیکشن کی مہم کے دوران جنرل یحییٰ روپے پیسے اور دیگر ذرایع کے استعمال سے الیکشن پر اثر انداز ہونے کی مسلسل کوشش کرتے رہے وہ چاہتے تھے کہ ایک یا دوبڑی پارٹیوں کے بجائے کئی چھوٹی پارٹیوں کا ہجوم اسمبلی میں پہنچ جائے۔تاکہ ان میں سے کوئی بھی جنرل یحییٰ پر اپنی شرائط نہ ٹھونس سکے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے سے پہلے جنر ل یحییٰ لیت ولعل سے کام لیتے رہے ۔پھربعد میں نئی تاریخ مقرر کیے بغیر اسے ملتوی کر دیا دریں اثنا وہ خود اور ان کے کئی افسران سیاسی لیڈروں کو بہکاتے ر ہے کہ وہ اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیں۔یہ طرزِ عمل ظاہر کرتاہے کہ وہ خود تعطّل پیداکرناچاہتے تھے۔تاکہ اس کی آڑ میں ان کی حکومت چلتی رہے ۔
ِِ''جنگ کے خطرات ملک پر منڈلاتے رہے۔ اور بیرونی دوست متفقہ طور پرمشورے دیتے رہے کہ حالات کو سیاسی مذاکرات کے ذریعے سنبھالا جائے۔ مگر اس کے باوجود جنرل یحییٰ مجیب سے بات چیت پر تیار نہ ہو ئے۔ حالانکہ زیرِحراست ہونے کی وجہ سے وہ فوری طور پر دستیاب تھے۔یہ طرز ِ عمل بھی ثابت کر تاہے کہ جنرل یحییٰ کوئی سیاسی حل ڈھونڈناہی نہیں چاہتے تھے۔
ملک جنگ کے ہنگاموں سے ڈول رہا تھا۔مگر جنرل یحییٰ اپنی ذاتی زندگی میںملکی امور سے بالکل بے حِس تھے۔ہم سمجھتے ہیں کہ وہ سرکاری فرائض سے مجرمانہ غفلت برت رہے تھے ۔بالکل اسی طرح جس طرح روم جل رہاتھااور نیرو بانسری بجارہا تھا۔ مندرجہ بالا تمام حالات سے ہم یہ نتیجہ اخذکیے بغیر رہ نہیں سکتے کہ جنرل یحییٰ اوران کے فوجی شرکائے کارکے درمیان ایک سازشی سمجھوتا تھا،کہ وہ جنرل یحییٰ کا اقتدار قائم رکھیں گے اور اُس کے زیرِ سایہ قانونی یا غیرقانونی طریقوں سے اپنے مراعات یافتہ مراتب کو طول دیتے رہیں گے۔
ظاہر ہے کہ یہ اثر و رسوخ فوج کی حمایت اور تائید کے بغیر قائم نہ رہ سکتا تھامگر اس کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ فوج کا ہر افسر اور جوان اس سازش کا حصہ تھا۔جنرل یحییٰ کی عملی مدد کرنیوالے لوگ درج ذیل ہیں ۔(i)جنرل حمید ،چیف آف اسٹاف ۔(ii)لیفٹیننٹ جنرل گل حسن ،چیف آف جنرل اسٹاف (iii)لیفٹیننٹ جنرل پیر زادہ ،صدر کا پرنسپل اسٹاف آفیسر ۔(iv)میجر جنرل عمر ،ڈائریکٹرجنرل آف نیشنل سیکیورٹی کونسل اور (v)میجر جنرل مٹھا ۔کواٹر ماسٹر جنرل ۔ ''
ملک کے قابل ترین جج صاحبان کا تجزیہ سو فیصد درست ہے، اس ذلّت آمیز سانحے کی اسّی فیصد ذمیّ داری جنرل یحییٰ خان (کہ فیصلہ کر نے کا اختیار اس کے پاس تھا کیونکہ آرمی چیف بھی وہی تھا اور صدر بھی وہی )اور اس کے قریبی جرنیلوں پر عائد ہوتی ہے، بھٹو نے ہوسِ اقتدار میں قومی اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور شیخ مجیب مہرے کے طور پر استعمال ہوا مگر کب ؟ جب اسے حکومت بنانے کی دعوت نہیں دی گئی یعنی اسے اس کے آئینی حق سے محروم کیا گیا۔
تاریخ کا اٹل فیصلہ ہے کہ فوجی جرنیل جب بھی سیاست میں دخیل ہونگے اور سیاسی قوّتوں کو ان کے آئینی حقوق سے محروم رکھنے کی کو شش کرینگے تو بہت بڑے سانحے جنم لیں گے ۔آج ہم پھر تاریخ کے کٹہرے میں کھڑے ہیں اور بابائےؒ قوم کی روح ہمیں جھنجوڑ جھنجوڑ کر کہہ رہی ہے کہ ہوش کرو !دیکھو تمہارے ملک کے خلاف کتنی سازشیں ہورہی ہیں اور تمہیں اپناذاتی اور ادارہ جاتی مفاد پاکستان سے بھی زیادہ عزیز ہے!!
کمیشن کے دو ممبران تھے ایک پنجاب کے چیف جسٹس انوار الحق صاحب اور دوسرے جسٹس طفیل علی عبدالرحمن صاحب جو سندھ اور بلوچستان ہا ئیکورٹ کے چیف جسٹس تھے،اتنی بڑی ٹریجیڈی کی انکوائری کے لیے اس سے بہترکمیشن بن ہی نہیں سکتا تھا۔کمیشن نے اپنی رپورٹ میں سابق مشرقی پاکستان میں پائی جانے والی بے چینی کا بھی تفصیلی جائزہ لیا ہے۔اور سقوطِ مشرقی پاکستان کی ذمّے داری کا بھی تعین کیاہے۔کمیشن نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے۔
''ہمارے سامنے پیش ہونے والی گواہیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ گول میز کانفرس کے دوران شیخ مجیب الرحمان کی ملاقات جنرل یحییٰ خان اورجنرل حمید سے کمانڈر ان چیف کے گھر پر ہوئی تھی۔جس کے بعد شیخ مجیب الرحمان کا رویہ سخت ہوگیا۔ جنرل یحییٰ خان نے انھیں در پردہ یقین دلایا تھاکہ گول میز کانفرنس کی ناکامی کی حالت میں وہ مارشل لاء نہیں لگائیں گے۔
''شیخ مجیب الرحمان نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا تھا کہ الیکشن کی مہم چھ نکات پر ریفرنڈم کا درجہ رکھتی تھی،مگر اس کے باوجودجنرل یحییٰ اور ان کے مشیروں نے نہ تو مجیب کو کسی قسم کی فہمائش کی،نہ ہی اس کے اعلان کے خلاف کوئی اور احتجاج کیا۔عوامی لیگ کو مشرقی پاکستان میں الیکشن کے لیے دھونس اور دھاندلی کو جوکھلی چھُٹّی دی گئی تھی، اُسے بھی آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔حکومت کا یہ اصرار قابلِ قبول نہیں ہے کہ وہ الیکشن بالکل شفاف اور غیر جانبدار نہ تھے۔
بہت سے گواہوں نے ہمارے سامنے شہادت دی کہ حکومت نے عوامی لیگ کی غنڈہ گردی روکنے کے لیے کسی قسم کی کو ئی کوشش نہیں کی،نہ ہی اُسے ووٹروں پر ایسے تشدد سے روکا جس کی وجہ سے وہ پولنگ اسٹیشن پر ووٹ دینے نہ جاسکے ۔ اس لیے شفاف الیکشن کرانے میں حکومت کا دانستہ تساہل نظر انداز نہیں کیاجا سکتا۔یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ حکومت نے کسی فریق کی طرف جھکاؤ ظاہر نہیں کیا ۔ ہمیں بہت سی شہادتیں ملی ہیں کہ جنرل یحییٰ اور ان کے افسران الیکشن کا رخ بعض پارٹیوں کے حق میں موڑنے کے لیے بڑی سرگرمی دکھا رہے تھے اورصنعت کاروں سے بڑی بڑی رقوم وصول کر کے اپنی منظور ِ نظر پارٹیو ں کو دے رہے تھے۔ اس ضمن میں جنرل عمر اور مسٹررضوی کا طرز عمل بہت غیر مناسب اور قابل اعتراض تھا۔
''جب انھیں پتہ چلاکہ ذاتی اقتدار کے لیے ان کی ''متبادل اور وقتی ''منصوبہ بندی ناکام ہوچکی ہے کیونکہ الیکشن میں ایک پارٹی مشرقی پاکستان میں غالب اکثریت حاصل کر چکی ہے اور دوسری مغربی پاکستان میں جیت چکی ہے،تو جنرل یحییٰ آئین ساز اسمبلی کا اجلاس بلانے سے کترانے لگے وہ اسے ہر ممکنہ حد تک ملتوی کرنے پر تُل گئے ۔
''مشرقی پاکستان کے گورنر اور اُس خطے کے مارشل لاء ایڈمنسٹر یٹرنے جنرل یحییٰ کو قائل کرنے کی سر توڑ کوشش کی۔ کہ اجلاس ملتوی کرتے وقت اگلی تاریخ بھی مقرر کر دی جائے مگر وہ نہ مانے ،چنانچہ یکم مارچ کو اگلی تاریخ مقرر کیے بغیر 03مارچ کو ہونے والے اجلاس کے التوا کا اعلان کردیا گیا۔
اس التواکا غیرمعمولی اورتشدد آمیز ر دِ ّ عمل ہو ا عوامی لیگ نے ہڑتال کی اپیل کر دی ۔ڈھاکا ،چٹاگانگ اور کئی دیگر شہروں میں لوٹ مار جلاؤ گھیراؤکا سلسلہ چل پڑا اور یہ سب غیر بنگالیوں کے ساتھ ہورہا تھا۔ زونل مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے فسادات روکنے کے لیے فوج بلالی۔مارچ سے عوامی لیگ نے حقیقی طور پر صوبے کے نظم و نسق پر قبضہ کر لیا۔ انھوں نے لوگوں کو ٹیکس دینے سے روک دیا۔اور بینکوں سمیت تمام مالیاتی اداروں کو ہدایات جاری کرنے لگے۔ کہ وہ ان کے احکام کے علاوہ اور کوئی ادائیگی نہ کریں حتیٰ کے فوج کے راشن بھی بند کردیے گئے ۔
مشرقی پاکستان کے گورنر ایڈمرل احسن نے یکم مارچ 1971 کو استعفیٰ دے دیا۔لیفٹیننٹ جنر ل یعقوب خان، زونل مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرنے چار(4)مارچ کواستعفیٰ دیا۔ مگر انھیں اپناجانشین آنے تک انتظار کر نے کو کہا گیا۔ سات(7)مارچ کو لیفٹیننٹ جنرل ٹکا خان نے یہ دونوں عہدے سنبھالے۔چنانچہ جنرل ٹکا خان صرف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے طور پر کام کرتے رہے ۔مگر اس حیثیت میں بھی انھوں نے ڈھاکا اور دیگر شہروں میں بے دریغ فسادات کو روکنے کی کوئی مؤثّر کوشش نہ کی ۔ان کا بیان ہے کہ انھیں کہا گیا تھا کہ مذاکرات کے امکانات کو قائم رکھیں۔
مذاکرات ناکام ہونے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مارشل لاء لگانے والے نہیں چاہتے تھے کہ فوری طور پر مارشل لاء ختم کر کے وہ خود بیرکو ں میں واپس چلے جائیں ۔وہ اس امکان پر غور کرنے کوبھی تیار نہ تھے۔کیونکہ مارشل لا ء ختم کر نے سے فوج کے لیے امورِ مملکت چلانے کا قانونی جواز ختم ہوجاتا۔ یا بالفاظ ِ دیگر چیف مارشل لاء ایڈمنسٹر یٹربے اختیار ہو جاتے۔بہرحال مذاکرات کی ناکامی کی جوبھی وجہ تھی ۔ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ عوامی لیگ کی تحریک کو کچلنے کے لیے پچیس(25)مارچ کی رات کو جو کارروائی کی گئی وہ نہ صرف بنیادی طور پر غلط تھی بلکہ اس پر عمل درآمد بھی احمقانہ انداز میں کیاگیاتھا۔یہ قدم سیاسی بصیرت ،پیش بینی اور عاقبت اندیشی سے یکسر خالی تھا اور اس کایقینی نتیجہ مشرقی پاکستان کا خاتمہ تھا۔
''یہ حالات صرف سیاسی حل کا تقاضاکر تے تھے۔ جنرل یحییٰ کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ سیاسی مسائل صرف سیاسی انداز میں ہی حل کیے جاسکتے ہیں اوراپنے شہریوں پر فوجی حل نہیں ٹھونساجا سکتا ۔ہمیں افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ جنرل یحییٰ کسی قسم کے حل کی ضرورت محسوس ہی نہیں کرتے تھے۔وہ اس معاملے میں بالکل بے حس تھے ۔اورہمارے خیال میں ان کی لا تعلّقی اور بے اعتنائی کا مخفی مقصد ہی یہی تھاکہ وہ کوئی ایسا حل نہیں ہونے دیں گے جس سے انھیں اقتدار چھوڑنا پڑے ۔نہ ہی انھیں قوم کے سر پر لٹکنے والے اس خطرے کی کوئی پرواہ تھی ،کہ ایک دشمن ہمسایہ فوجی مداخلت سے ہمارا ملک توڑنے پر تلابیٹھاہے۔
''جنرل یحییٰ اور ان کے قریبی ساتھیوں کے اس رویے کا احساس ہمارے لیے بہت تکلیف دہ اور پریشان کن ہے اور ہم مجبور ہوگئے ہیں کہ اس رویے کو جنم دینے والے حالات کا مفصل جائزہ لیں ۔تاکہ معلوم ہو سکے کہ کیا جنرل یحییٰ نیک نیتی سے کام کر رہے تھے یا ان کے تمام اعمال کی محرک صرف ذاتی اقتدار کی ہوس تھی،اس جائزے میں ہم پر مندرجہ ذیل حالات کا انکشاف ہواہے۔
''پچیس (25)مارچ 1969 کو اقتدار پر جنرل یحییٰ کا قبضہ نہ صرف غیر آئینی تھا۔بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ تھا ۔منصوبہ بندی کا واضح ثبوت یہ تھا کہ حصولِ اقتدار کے متعلق تمام قانونی دستاویز ات اس تاریخ سے پہلے تیار کر لی گئی تھیں ۔
ِِ''الیکشن کی مہم کے دوران جنرل یحییٰ روپے پیسے اور دیگر ذرایع کے استعمال سے الیکشن پر اثر انداز ہونے کی مسلسل کوشش کرتے رہے وہ چاہتے تھے کہ ایک یا دوبڑی پارٹیوں کے بجائے کئی چھوٹی پارٹیوں کا ہجوم اسمبلی میں پہنچ جائے۔تاکہ ان میں سے کوئی بھی جنرل یحییٰ پر اپنی شرائط نہ ٹھونس سکے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے سے پہلے جنر ل یحییٰ لیت ولعل سے کام لیتے رہے ۔پھربعد میں نئی تاریخ مقرر کیے بغیر اسے ملتوی کر دیا دریں اثنا وہ خود اور ان کے کئی افسران سیاسی لیڈروں کو بہکاتے ر ہے کہ وہ اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیں۔یہ طرزِ عمل ظاہر کرتاہے کہ وہ خود تعطّل پیداکرناچاہتے تھے۔تاکہ اس کی آڑ میں ان کی حکومت چلتی رہے ۔
ِِ''جنگ کے خطرات ملک پر منڈلاتے رہے۔ اور بیرونی دوست متفقہ طور پرمشورے دیتے رہے کہ حالات کو سیاسی مذاکرات کے ذریعے سنبھالا جائے۔ مگر اس کے باوجود جنرل یحییٰ مجیب سے بات چیت پر تیار نہ ہو ئے۔ حالانکہ زیرِحراست ہونے کی وجہ سے وہ فوری طور پر دستیاب تھے۔یہ طرز ِ عمل بھی ثابت کر تاہے کہ جنرل یحییٰ کوئی سیاسی حل ڈھونڈناہی نہیں چاہتے تھے۔
ملک جنگ کے ہنگاموں سے ڈول رہا تھا۔مگر جنرل یحییٰ اپنی ذاتی زندگی میںملکی امور سے بالکل بے حِس تھے۔ہم سمجھتے ہیں کہ وہ سرکاری فرائض سے مجرمانہ غفلت برت رہے تھے ۔بالکل اسی طرح جس طرح روم جل رہاتھااور نیرو بانسری بجارہا تھا۔ مندرجہ بالا تمام حالات سے ہم یہ نتیجہ اخذکیے بغیر رہ نہیں سکتے کہ جنرل یحییٰ اوران کے فوجی شرکائے کارکے درمیان ایک سازشی سمجھوتا تھا،کہ وہ جنرل یحییٰ کا اقتدار قائم رکھیں گے اور اُس کے زیرِ سایہ قانونی یا غیرقانونی طریقوں سے اپنے مراعات یافتہ مراتب کو طول دیتے رہیں گے۔
ظاہر ہے کہ یہ اثر و رسوخ فوج کی حمایت اور تائید کے بغیر قائم نہ رہ سکتا تھامگر اس کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ فوج کا ہر افسر اور جوان اس سازش کا حصہ تھا۔جنرل یحییٰ کی عملی مدد کرنیوالے لوگ درج ذیل ہیں ۔(i)جنرل حمید ،چیف آف اسٹاف ۔(ii)لیفٹیننٹ جنرل گل حسن ،چیف آف جنرل اسٹاف (iii)لیفٹیننٹ جنرل پیر زادہ ،صدر کا پرنسپل اسٹاف آفیسر ۔(iv)میجر جنرل عمر ،ڈائریکٹرجنرل آف نیشنل سیکیورٹی کونسل اور (v)میجر جنرل مٹھا ۔کواٹر ماسٹر جنرل ۔ ''
ملک کے قابل ترین جج صاحبان کا تجزیہ سو فیصد درست ہے، اس ذلّت آمیز سانحے کی اسّی فیصد ذمیّ داری جنرل یحییٰ خان (کہ فیصلہ کر نے کا اختیار اس کے پاس تھا کیونکہ آرمی چیف بھی وہی تھا اور صدر بھی وہی )اور اس کے قریبی جرنیلوں پر عائد ہوتی ہے، بھٹو نے ہوسِ اقتدار میں قومی اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور شیخ مجیب مہرے کے طور پر استعمال ہوا مگر کب ؟ جب اسے حکومت بنانے کی دعوت نہیں دی گئی یعنی اسے اس کے آئینی حق سے محروم کیا گیا۔
تاریخ کا اٹل فیصلہ ہے کہ فوجی جرنیل جب بھی سیاست میں دخیل ہونگے اور سیاسی قوّتوں کو ان کے آئینی حقوق سے محروم رکھنے کی کو شش کرینگے تو بہت بڑے سانحے جنم لیں گے ۔آج ہم پھر تاریخ کے کٹہرے میں کھڑے ہیں اور بابائےؒ قوم کی روح ہمیں جھنجوڑ جھنجوڑ کر کہہ رہی ہے کہ ہوش کرو !دیکھو تمہارے ملک کے خلاف کتنی سازشیں ہورہی ہیں اور تمہیں اپناذاتی اور ادارہ جاتی مفاد پاکستان سے بھی زیادہ عزیز ہے!!