عمران خان اور فوجی آمر

عمران خان نے فرمایا کہ حکمراں ایوب خان جیسے ہونے چاہئیں، ایوب خان کی ساری دنیا عزت کرتی تھی

tauceeph@gmail.com

کرکٹ کے کپتان عمران خان نے لاہور میں یادگارِ پاکستان پر جلسہ کیا ۔ پورے ملک سے تحریک انصاف کے کارکن جلسہ گاہ میں پہنچے ۔ کسی لڑکی نے ٹویٹ کیا کہ جلسے میں 50 لاکھ افراد شریک ہوئے۔ عمران خان نے اپنا 11نکاتی منشور پیش کیا۔ عمران خان کو ان کے تھنک ٹینک کے ماہرین نے مشورہ دیا کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نجی دورے پر امریکا گئے تو نیویارک ایئرپورٹ پر ان کی تلاشی ہوئی، یوں یہ ایک مفروضہ اخذ کیا کہ منتخب وزیر اعظم کی دنیا عزت نہیں کرتی ۔ پھر کسی نے مشورہ دیا کہ پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان کی فوٹیج جلسے کے شرکاء کو دکھائی جائے۔ جب جنرل ایوب خان امریکا گئے تو صدرکینیڈی خود انھیں ایئرپورٹ لینے آئے تھے۔

عمران خان نے فرمایا کہ حکمراں ایوب خان جیسے ہونے چاہئیں، ایوب خان کی ساری دنیا عزت کرتی تھی۔ عمران خان نے نئی نسل کو یہ فوٹیج دکھا کر فوجی حکمرانوں سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔ پاکستان بننے کے بعد جنرل ایوب خان امریکا کے پسندیدہ جنرلز میں سر فہرست تھے۔ کہا جاتا ہے کہ محمد علی جناح نے جنرل ایوب خان کے لیے نا پسندیدگی کا اظہار کیا تھا مگر انھیں فوج کا کمانڈر انچیف بنا دیا گیا۔ جنرل ایوب خان نے یہ عہدہ سنھبالتے ہی سیاسی امور میں مداخلت شروع کردی ۔

ایک وقت آیا کہ وہ کمانڈر انچیف کے عہدے کے ساتھ وزیر دفاع بن گئے۔ اسکندر مرزا جب سیکریٹری دفاع کے عہدے پر تعینات ہوئے تو ایوب خان کو فوج کی سربراہی ملی۔ اسکندر مرزا اور ایوب خان گورنر جنرل غلام محمد کے معاونین میں شامل تھے۔ غلام محمد نے پہلے بنگالی وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو برطرف کرکے پاکستان کے اکثریتی صوبے مشرقی پاکستان کے عوام کو پہلا پیغام دیا تھا کہ وہ نئی ریاست کے شہری نہیں ، رعایا ہیں ۔ جب غلام محمد فالج کی بناء پر معذور و مفلوج ہوئے تو ایوب خان کی حمایت سے اسکندر مرزا گورنر جنرل بن گئے۔

1955ء میں اسکندر مرزا نے راتوں رات ایک نئی جماعت ریپبلیکن پارٹی بنائی اور 1956ء میں ملک کا پہلا دستور نافذ ہوا تو 1955ء میں سندھ، سرحد اور پنجاب کو ضم کر کے نیا صوبہ مغربی پاکستان بنایا گیا۔ جب 1958ء میں عام انتخابات کا وقت ہوا تو یہ امکانات واضح ہوگئے کہ مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ، سندھ ، بلوچستان اور سرحد سے نیشنل عوامی پارٹی اکثریت حاصل کرے گی تو اسکندر مرزا نے اکتوبر 1958ء کو ایوب خان کے مشورے سے آئین کو ختم کیا۔ انتخابات ملتوی کیے گئے اور ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا ۔ جنرل ایوب خان چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ جنرل ایوب خان نے 27 اکتوبر 1958ء کو اپنے مربی اسکندر مرزا کو معزول کیا۔

جنرلوں کا ایک گروپ گورنر جنرل کی قیام گاہ میں داخل ہوا اور اسکندر مرزا کو ان کی خواب گاہ سے گھسیٹ کر نیچے لایا گیا اور پھر ننگے پاؤں انھیں لے جایا گیا اور ایک فوجی طیارے میں کوئٹہ منتقل کر دیا گیا ۔ بعد میں برطانوی ہائی کمشنر کی مداخلت پر اسکندر مرزا اور ان کی اہلیہ کو لندن جانے کی اجازت دی گئی جہاں انھوں نے طویل عرصہ جلا وطنی کی زندگی گزاری ۔


جنرل ایوب خان نے اس خطے میں امریکی ایجنٹ کا کردار ادا کیا۔ پشاور کے قریب بڈا پیر کا ہوائی اڈہ امریکیوں کے سپرد کردیا گیا۔ امریکی طیارے بڈپیر کے ہوائی اڈے سے اڑ کر سوویت یونین کے علاقے میں جاسوسی کرتے تھے۔ سوویت یونین کے لڑاکا طیارے نے امریکی یوٹو طیارہ مار گرایا اور پائلٹ زخمی حالت میں گرفتار ہوئے۔ اس امریکی پائلٹ نے سوویت اہلکاروں کو امریکی اڈے کے بارے میں تمام تفصیلات سے آگاہ کیا۔ سوویت یونین کے مرد آئین خروشیف نے نقشہ میں پشاور پر سرخ دائرہ لگادیا، یوں بغیر کسی معقول وجہ کے پاکستان سوویت یونین کا دشمن بن گیا۔

جنرل ایوب خان نے پاکستان کی معیشت کو عالمی بینک کے حوالے کیا، یوں معیشت امریکا اور عالمی بینک کے قرضوں کی محتاج ہوگئی۔ امریکی ماہرین پاکستان کی معیشت ، سیاست، تعلیم اور تمام امور میں پالیسیاں بنانے لگے۔ ایوب خان کے دور میں Thank you America کا نعرہ سرکاری سطح پر عام ہوا۔ پھر امریکا کی ایماء پر ایوب خان نے پاکستان میں شہری آزادیوں پر قدغن لگائی۔ سینئر صحافی آئی اے رحمن کا کہنا ہے کہ آزادئ صحافت کے علمبردار ادارہ پروگریسو پیپرز لمیٹڈ (P.P.L) جو انگریزی کا اخبار پاکستان ٹائمز، اردو کا اخبار روزنامہ امروز اور ہفت روزہ لیل و نہار شایع کرتا تھا پر ایوب حکومت نے قبضہ کرلیا۔ پی پی ایل پر قبضے کا فیصلہ امریکا سے کیے گئے دفاعی معاہدے سیٹو کے اجلاس میں کیاگیا تھا۔

ایوب خان نے 1962ء کا آئین نافذ کیا۔ اس آئین میں سارے اختیارات صدر ایوب خان کی ذات کے گرد گھومتے تھے۔ جب صدارتی انتخابات میں بانی پاکستان کی ہمشیرہ فاطمہ جناح نے ایوب خان کو چیلنج کیا تو مشرقی پاکستان کے عوام نے فاطمہ کی بھرپور حمایت کی۔ ایوب خان نے ایک بھونڈی دھاندلی کے ذریعے نتائج کو تبدیل کیا اور خود کامیاب قرار پائے۔ کراچی کے علاقہ لالوکھیت جو لیاقت آباد کے نام سے منسوب ہوا فاطمہ جناح کا سب سے مضبوط گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ ایوب خان کے صاحبزادے گوہر ایوب نے اپنے غنڈوں کے ساتھ مل کر لیاقت آباد کے عوام پر گولیاں چلائیں اور شہر میں مہاجر پٹھان فساد کا تاثر پھیل گیا۔

ایوب خان نے اپنے بیٹے کا تحفظ کیا مگر اب گوہر ایوب خان اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہیں۔ ایوب خان کے آئین اور فاطمہ جناح کی شکست اور مشرقی پاکستان کی پٹ سن کی آمدنی سے اسلام آباد کی تعمیر کی بناء پر بنگالی دانشوروں نے محسوس کیا کہ مشرقی پاکستان کی اکثریت کے حکومت بنانے کے امکانات ختم ہوچکے ہیں۔ ڈھاکا یونیورسٹی کے اساتذہ نے 6 نکات تیار کیے اور پھر عوامی لیگ نے ان 6نکات کو اپنے منشور کا حصہ بنالیا۔ ایوب حکومت نے حقائق کا سامنا کرنے کے بجائے عوام کے خلاف طاقت استعمال کی۔ سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں عام ہوگئیں۔ دانشوروں، صحافیوں، وکلاء، مزدور ،کسان اور طالب علم رہنماؤں کی گرفتاریاں اور بدترین تشدد عام سی بات بن گئی۔ ایوب خان نے کرپشن کو ادارہ کی شکل دی۔ ایوب خان اور ان کے دو بیٹے گوہر ایوب اور اخترایوب فوج میں ملازم تھے۔ دونوں بیٹوں نے فوج سے ریٹائرمنٹ لی اور چند برسوں میں امیر ترین 22 خاندانوں میں ان کا شمار ہونے لگا۔

1968ء پاکستان کی تاریخ کا اہم سال ہے۔ بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکنوں نے جن میں بصیر نوید سر فہرست ہیں ایوب حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کی۔ پورے ملک سے سیاسی جماعتیں، طلبہ، مزدور، کسان اور خواتین تنظیمیں اس تحریک میں شامل ہوگئیں۔ جب ایوب خان کا اقتدار مفلوج ہوگیا تو انھوں نے اپنا بنایا ہوا آئین منسوخ کیا اور فوج کے سربراہ جنرل یحییٰ خان کو اقتدار سونپ دیا جنہوں نے مارشل لاء نافذ کیا۔ ایک اور حقیقت ہے کہ اب پروٹوکول کی روایت تبدیل ہوگئی ہے۔ اب امریکی صدر ایئرپورٹ کے بجائے مہمان صدر یا وزیر اعظم کا وائٹ ہاؤس کے دروازے پر استقبال کرتے ہیں۔

عمران خان نے ایک اور فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے صدارتی ریفرنڈم کی حمایت کی تھی۔ وہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل کی ہدایت پر سیاست پر آئے۔ انھوں نے طالبان حکومت کو مثالی حکومت قرار دیا تھا۔ عمران خان نے جس طرح تاریخ کو مسخ کرکے نئی نسل کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے اس سے یہ خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ وہ کل جنرل ضیاء الحق کی تعریفیں نہ کرنے لگیں۔ عمران خان کو جمہوری دور کے رہنماؤں اور فوجی آمروں کے درمیان فرق کو محسوس کرنا چاہیے۔ فوجی آمروں نے ہی ملک کو تباہی کے دہانے تک پہنچایا۔
Load Next Story