رفتید ولے نہ از دلِ ما

پروفیسر غفور احمد کا جب انتقال ہوا تو ان کی عمر 85 سال تھی۔ انھوں نے 68 سال کی سیاسی زندگی گزاری

سید عامر اشرف نے ''رفتید ولے نہ از دل ما'' کے عنوان سے پروفیسر غفور احمد کا ذکرکیا ہے۔ اپنی اس کتاب میں انھوں نے پروفیسر صاحب سے وابستہ یادوں اور باتوں کو ان کو نہ بھولنے والوں کے حوالے سے جمع کیا ہے۔

پروفیسر خورشید احمد لکھتے ہیں۔ ''میں نے ان کو ایک نفیس، باذوق، خدا ترس، محبت کرنے والا، بے غرض اور راست باز انسان پایا جو اپنے چھوٹوں سے بھی کچھ ایسا معاملہ کرتا ہے کہ یہ فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ کون بڑا اور کون چھوٹا ہے۔ میں نے ان سے یہ سیکھا کہ انسانوں کے ساتھ کس طرح معاملہ کرنا چاہیے۔ ان کے مخالف بھی ان کو اپنا سمجھتے تھے اور انھوں نے بھی اختلاف کوکبھی ذاتی تعلقات اور باہم محبت و احترام کے رشتوں میں در آنے کا موقع نہیں دیا۔ غفور صاحب کی زندگی کا سب سے نمایاں پہلو ان کی سادگی، نفاست، انکسار اور شفقت تھا۔''

عطا الحق قاسمی لکھتے ہیں۔ ''پروفیسر غفور احمد نے صاف ستھری سیاسی زندگی گزاری۔ ملک کی سیاست میں ان کا اہم کردار رہا ہے۔ وہ ایک متقی اور پارسا شخص تھے۔'' قاسمی صاحب نے رؤف طاہر کا بیان کردہ یہ واقعہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ ان کے جدہ میں قیام کے دوران میں غفور احمد عمرے کے لیے تشریف لائے تو مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کے لیے گئے۔ نماز پڑھ کر باہر آئے تو تلاش کے باوجود انھیں اپنا جوتا نہ ملا۔ کسی دوسرے کا جوتا پہننے کے لیے وہ تیار نہ تھے۔ شدید گرمی کے دن تھے۔ زمین شعلے اگل رہی تھی۔ انھوں نے اپنے ہوٹل تک ننگے پاؤں جانے کا فیصلہ کیا۔ جب وہ ہوٹل پہنچے تو بے ہوش ہوگئے۔ ان کے دونوں پاؤں بری طرح جھلس گئے تھے۔ چنانچہ کئی روز تک ان کے پاؤں میں پٹیاں بندھی رہیں۔

پروفیسر غفور احمد کے کردار اور عمل کا ذکر کرتے سعود ساحر لکھتے ہیں۔ ''ان کا طرز عمل ہمیشہ مثبت رہا۔ وہ بخوبی جانتے تھے کہ منفی انداز اور کڑوے لہجے میں دی جانے والی دعوت دلوں کے دَر وا نہیں کرسکتی بلکہ ضد اور کدورت میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ نرم گفتاری اور محبت سے دی جانے والی دستک ہی بند کواڑوں کو کھول سکتی ہے۔ ہرچند کہ انھوں نے ساری زندگی اپنی جماعت کے نظم کی کھینچی ہوئی لکیر سے باہر قدم نہیں رکھا تاہم فکر اسلامی کے سیل بے کراں کو ننھی سی آبجو میں بدلنے پر بھی راضی نہیں ہوئے۔''

پروفیسر غفور احمد کا جب انتقال ہوا تو ان کی عمر 85 سال تھی۔ انھوں نے 68 سال کی سیاسی زندگی گزاری۔ اس طویل سیاسی زندگی میں بھی اللہ تعالیٰ نے ان کا دامن صاف رکھا۔ قیدو بند کی صعوبتیں بھی انھوں نے بڑی ہمت اور جواں مردی سے برداشت کیں۔ بلاشبہ وہ شرافت، دیانت اور قناعت کے پیکر تھے۔ محمد طاہر لکھتے ہیں۔ ''بے داغ زندگی گزارنے اور بے داغ لباس زیب تن کرنے والے غفور احمد کے پاس ایک ہی شیروانی تھی، دو ویسٹ کوٹ تھے۔ کبھی توجہ دلائی جاتی تو اپنے بچپن کا تذکرہ کرتے، پھر رَسان سے کہتے کہ ماں شربت بنا کر دیتی اور ہم اسے فروخت کرنے کے لیے نکلتے۔ پھر جو پیسے بچے رہتے اس سے تعلیم کے اخراجات پورے کرتے۔''

اس زمانے میں بھی جب کراچی کے حالات خراب تھے ان کے معمولات میں تبدیلی نہیں آئی۔ ایک رات ان کے گھر پر دستی بم سے حملہ ہوا اور صبح وہ حسب معمول فجر کی نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے نکل پڑے۔ گھرکا دروازہ ہمیشہ کھلا رکھتے حالانکہ ان کے گھر میں ڈکیتی پڑ چکی تھی۔


صحافی فاروق عادل جو پروفیسر غفور احمد سے ملتے رہے ہیں، اپنی یادوں کو سمٹتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ان کا مزاج ایسا تھا کہ کوئی ان سے فضول بات نہیں کرسکتا تھا۔ یہ کیفیت گھر سے باہر بھی تھی اور گھرکے اندر بھی۔ ایک زمانے تک ان کے گھر میں ٹیلی ویژن نہیں تھا۔ بچوں میں جرأت نہیں تھی کہ وہ ان سے ٹیلی ویژن لانے کی فرمائش کریں۔ ایک دن انھوں نے والد کے نام درخواست لکھی کہ وہ چاہتے ہیں ان کے گھر میں بھی ٹیلی ویژن ہو۔ سنجیدہ اورکفایت شعار والد درخواست دیکھ کر مسکرائے اور اسی شام ایک بلیک اینڈ وائٹ ٹیلی ویژن خرید کر گھر لے آئے۔ کسی زمانے میں وہ سہگل کی آواز میں غالب کا کلام سنا کرتے تھے۔ بعد میں یہ شوق بھی ختم ہوگیا۔ شعر کہتے تو نہیں تھے لیکن شعر کا اچھا ذوق تھا اور شعری محفلوں میں ذوق و شوق سے شریک ہوا کرتے تھے۔ خوش مزاج بہت تھے اور بہت مسکراتے تھے لیکن کسی نے انھیں منہ کھول کر قہقہہ لگاتے نہیں دیکھا تھا۔ حضورؐ کے ذکر پر ان کی آنکھیں پرنم ہوجایا کرتی تھیں۔''

پروفیسر غفور احمد کے ایک ڈرائیور تھے شاوت خان۔ ان کا پروفیسر صاحب سے تعلق نوجوانی سے بڑھاپے تک بیالیس سال کے طویل عرصے پر محیط ہے۔ وہ ہر ہر قدم پر ان کے ساتھ رہے ہیں اور بہت سے اہم واقعات کے شاہد ہیں۔ عامر اشرف نے جو اس کتاب کے مرتب ہیں، شاوت خان کی زبانی غفور احمد کو جاننے کی کوشش کی ہے۔ سنیے شاوت خان کیا بتاتے ہیں۔ ''میری عمر 17 سال تھی جب میں ان کے ہاں آیا۔ شروع میں میرا کام چوکیدارا کرنا تھا، پھر میں گھر کا سودا سلف لانے لگا۔ پروفیسر صاحب نے میرا شوق دیکھ کر اپنے بیٹے سے کہا کہ اسے گاڑی چلانا سکھا دو۔ اس طرح صاحب کا ڈرائیور بن گیا۔

پروفیسر صاحب وقت کی بہت قدر کرتے تھے۔ کوئی میٹنگ ہو یا تقریب وقت سے پہلے ہی پہنچ جاتے تھے، مجھے صرف بتا دیا کرتے تھے کہ اس وقت پہنچنا ہے۔ وہ کبھی پچھلی سیٹ پر نہیں بیٹھے نہ کوئی گارڈ ساتھ رکھا۔ گارڈ کو مصیبت سمجھتے تھے۔ الیکشن کے دنوں میں اتنا سفر کرتے کہ میں تھک جاتا، وہ نہ تھکتے۔ جب وہ وزیر بنے ان کو سرکاری گاڑی ملی جو گھر میں کبھی استعمال نہیں ہوئی۔ اپنے پرائیویٹ کام سے جاتے تو اپنی پرانی گاڑی استعمال کرتے۔ غفور صاحب کے گھر ہی میں میری شادی ہوئی تو گیراج خالی کرکے میرے لیے کمرہ بن گیا۔ بیگم صاحبہ جب ہڈی ٹوٹنے سے وہیل چیئر پر آگئیں تو بھی صاحب کے سارے کام خود کرتیں۔ ان کے کپڑوں اور کھانے کا خیال رکھتیں۔ غفور صاحب میں اتنی نفاست تھی کہ وہ ہر روز دھلا جوڑا پہنا کرتے تھے، پرانے کو باقاعدہ تہہ کرکے رکھتے۔ ہمیشہ گرم پانی سے نہاتے چاہے سردی ہو یا گرمی۔ اپنے جوتے خود صاف کرتے۔ بیگم صاحبہ جیسی خدمت گزار عورت میں نے نہیں دیکھی۔ وہ رات بارہ ایک بجے تک ان کا انتظار کرتیں۔ شادیوں میں غفور صاحب کھانا نہیں کھاتے تھے۔

کوئی زیادہ مجبور کرتا تو میٹھا کھا لیتے۔ وہ میٹھا شوق سے کھاتے تھے۔ گھر میں غفور صاحب کے پیسے کا لین دین میں ہی کرتا۔ غیر جماعتی دوستوں میں وہ خاص کر پیر پگاڑا سے بہت محبت کرتے تھے۔ ان کے بعد نورانی صاحب اور شیرباز خان مزاری سے لگاؤ رکھتے تھے۔ مزاری صاحب کے پاس جاتے تو وہ اٹھ کر گلے ملتے۔ مزاری صاحب مجھے بھی گلے لگا لیتے تھے۔ وہ غفور صاحب سے مل کر بہت خوش ہوتے تھے۔ دونوں بہت گہرے دوست رہے۔ غفور صاحب کی بیماری کے وقت اسپتال ملنے آئے اور خوب روئے حالانکہ وہ خود بیمار تھے۔ بینظیر سے بیٹی کی طرح لگاؤ تھا۔ ان کی سیاست کی تعریف کرتے تھے اور کہتے تھے بہت ذہین بچی ہے۔ آصف زرداری سے بھی جیل میں ملاقات کرنے گئے۔ مولانا کی تفہیم القرآن کا تحفہ دیا اور نصیحت کی۔ بیگم صاحبہ کے انتقال کے بعد غفور صاحب بجھ گئے تھے۔ بہت کمزور بھی ہوگئے تھے۔ ہر ہفتے قبرستان جاتے۔ کہتے تھے بیگم صاحبہ کی قبر کے ساتھ والی جگہ خالی ہے، میرے لیے رکھ لو اور پھر وہیں انھیں جگہ ملی۔''

عرفان صدیقی کہتے ہیں۔ ''دھیمے سروں میں دل میں اتر جانے والی بات کہنے کا سلیقہ، اپنے موقف کے حق میں ٹھوس دلائل، سیاسی حرکیات پر کامل عبور، اعلیٰ انتظامی صلاحیتیں، انتھک محنت، مقصد کی زبردست لگن، ستائش اور صلے سے بے نیازی، حق گوئی و بے باکی، سادگی اور درویشی وہ اجزائے ترکیبی ہیں جن سے غفور احمد نامی شخص تخلیق ہوا۔''

ساز دل توڑ کے بھی' چھیڑ کے بھی دیکھ لیا

اس میں نغمہ ہی نہیں کوئی محبت کے سوا
Load Next Story