یہی مقدر ہے
انھوں نے اپنے مذکورہ بالا بیان میں خود کو میاں نواز شریف کے ہاتھوں متعدد بار استعمال ہونے کا ذکرکیا
پچھلے دنوں پاکستان پیپلز پارٹی کے ڈی فیکٹو چیئرمین آصف علی زرداری کا ایک عجیب وغریب اور حیران کن بیان ہمارے ذرایع ابلاغ کی شہ سرخیوں کی زینت بنا جس میں انھوں نے اپنی ساری سابقہ غلط کارروائیوں اورکوتاہیوں کا ذمے دار میاں نواز شریف کو قرار دے کرخود کو عوام کی نظروں میں بھولا اور معصوم ظاہر کرنے کی اپنی سی کوشش کی تھی، مگر جسے سن کر پیپلز پارٹی کے لوگوں سمیت ہمارے بیس کروڑ عوام میںسے کسی ایک شخص کو بھی شاید یقین نہ آیا۔
یہی وجہ ہے کہ زرداری نے خود ہی یہ بیان بہت جلد یہ کہہ کر واپس لے لیا کہ اُنھو ں نے ایسا کچھ بولا ہی نہیں ہے۔ انھوں نے اپنے اِس بیان کے مضمون میں سے کسی ایک آدھ پہلو کی تصدیق یا تردیدکرنا ضروری نہ سمجھا بلکہ اپنے سارے بیان ہی سے سرے سے مکر گئے۔ لیکن اِس سارے واقعے سے اتنا ضرور ہوا کہ ہواؤں میں چلائے گئے اِس تیر سے انھوں نے اپنا مقصد ضرور پالیا ۔ اب چاہے میاں نواز شریف اور ہمارے میڈیا پر بیٹھے تبصرہ نگار خواہ کچھ بھی کہتے رہیں لیکن انھیں اپنے اِس بیان سے جسے پیغام پہنچانا مقصود تھاوہ اُن تک ضرور پہنچ گیا۔اِس بیان کی پر زور طریقے سے تردید شاید خود اُن کے مفاد میں بھی نہ تھی شاید اِسی لیے وہ زیادہ زور دینے کی بجائے خاموش ہوکر اُس کے اثرات کا جائزہ لینے لگ گئے۔
انھوں نے اپنے مذکورہ بالا بیان میں خود کو میاں نواز شریف کے ہاتھوں متعدد بار استعمال ہونے کا ذکرکیا۔ وہ کہتے ہیں کہ میا ں نواز شریف نے اُن کی نیک نیتی اور شرافت کا ناجائز فائدہ اُٹھایا۔ میاں صاحب جنرل راحیل شریف سے اپنے معاملات سیدھے کرتے رہے اور ہمیں محاذآرائی اور تصادم پر اکساتے رہے۔ یہ اینٹ سے اینٹ بجا دینے والا بیان بھی میں نے اُن کی چال میں آکر دیا تھا، وہ ہمیں اسٹیبلشمنٹ سے لڑا کر خود ہاتھ ملاتے رہے، انھوں نے ہر موقعے پر ہمیں بیچا۔ہم سیاست اور نواز شریف تجارت کرتے رہے۔ہم میاں صاحب کو جتنا بھولا سمجھتے رہے وہ اِس سے زیادہ چالاک اور موقعہ پرست ہیں۔ میموگیٹ بھی ہم نے نواز شریف کے مشورے پر کیا تھا۔گویا ہر غلط کا م انھوں نے میاں نواز شریف کے کہنے پرکیا۔کاش وہ یہ بھی کہہ دیتے کہ سرے محل بھی ہم نے اُن کی باتوں میں آکر جلد بازی میں بیچ ڈالا تھا، ورنہ سوئس اکاؤنٹس سمیت نجانے آج کتنے ایسے مقدمات قائم ہیں جن سے ہمارا آج تک کچھ نہیں بگڑا۔
انھوں نے مزید کہا کہ ہم پرویز مشرف کا مواخذہ کرنا چاہتے تھے اوراِس کارخیر کے لیے ہم نے میاں نواز شریف سے مدد چاہی تھی، لیکن وہ پیچھے ہٹ گئے۔حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ میاں صاحب تو مواخذے کے وعدے پر قائم رہے لیکن زرداری صاحب پرویز مشرف کے مواخذے کے خوف سے ازخود مستعفی ہوجانے کے بعد عدلیہ بحالی کے اپنے وعدے سے مکمل مکر گئے اور یہاں تک کہہ دیا کہ یہ وعدہ کوئی آسمانی صحیفہ نہ تھاکہ جس کا پورا ہونا ضروری ہو۔زرداری کی پلاننگ اور منصوبہ بندی کی داد دینے کو جی چاہتا ہے کہ وہ کس خوبصورتی سے پرویز مشرف سے این آر او کرواکے اور اپنے سارے گناہ معاف کرواکے پاکستان میں اپنی آمد کی راہ ہموارکرتے ہیں اور پھر محترمہ کی ناگہانی شہادت کے فوراً بعد الیکشن میں عوامی ہمدردی کو کیش کرواکے اپنے لیے صدارت کا عہدہ پسند فرما کر پرویز مشرف ہی کا بستر گول کردیتے ہیں۔
وہ بلّا توبے چارہ دو چار سال اور رہ کرکتنا دودھ پی جاتا، زرداری صاحب خود ہی پانچ سال تک عدالتی استثنیٰ سے مزین ریاست کے سب سے اہم منصب کے لوازمات سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ اِسی دوران وہ سوئس مقدمات میں حکومت پاکستان کی مسلسل غیر حاضری کے سبب اُن کے غیر مؤثرہوجانے کی ثمرات بھی سمیٹتے رہے۔ یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف اِس جر م کی پاداش میں اپنے عہدوں سے علیحدہ ہوتے رہے مگر زرداری کی شان و شوکت اورلطف وکرامت میں ذرہ بھر بھی کمی دیکھی نہیں گئی۔ میاں صاحب تو اتنے سادہ تھے کہ انھیں پتہ ہی نہیں چلا کہ پرویز مشرف کے مواخذے کا سارا ڈراما زرداری صاحب خود اپنے فائدے کے لیے کر رہے تھے۔ وہ اُن کی باتوں میں آکر ججوں کی بحالی کے وعدے پر مواخذے کی تحریک پر پارلیمنٹ میں ساتھ دینے کا معاہدہ کر بیٹھے۔ یہ تو انھیں بعد میں پتہ چلا کہ زرداری صاحب نے اُن کے ساتھ بہت بڑا ہاتھ کر دیا ہے۔
پرویز مشرف کے زیادتیوں کے بعد میاں صاحب تہہ دل سے زرداری کے ساتھ چلنا چاہتے تھے۔اِس مقصد کے لیے انھوں نے زرداری حکومت کے ابتدائی دنوں میں اپنے لوگ کابینہ میں بھی بھیجے تھے، مگر ججوں کی بحالی سے انکار کے سبب یہ ساتھ زیادہ دنوں تک نہیں چل پایا۔ اُن کی سادگی کا اندازہ تو اُن کے اِس عمل سے بھی لگایاجاسکتا ہے کہ محترمہ کی شہادت کے فوراً بعد میاں صاحب نے پیپلز پارٹی سے اظہار یکجہتی کے طور پر الیکشن کے بائیکاٹ کا یکطرفہ اعلان کرڈالا۔ انھیںشاید معلوم نہ تھاکہ زرداری صاحب تو یہ سنہری موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے ہیں۔ عوامی ہمدردیاں سمیٹ لینے کا ایسا موقعہ پھر شاید ہی اُن کی زندگی میں دوبارہ آسکتا تھا اور وہ اِسے فوراً ہی کیش کروا لینا چاہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ زرداری صاحب کے الیکشن میں حصہ لینے کے فیصلے کے بعد میاں صاحب بھی مجبوراً ایسا ہی کرنے پر راضی ہوگئے۔
موقعہ شناسی اور مطلب براری کی ایسی مثال ہمیں اور کیا ملے گی کہ محترمہ کی اچانک شہادت کا زخم بھی ابھی مندمل نہیں ہو پایا تھا اور وہ ایوان صدر میں قدم جمانے کی منصوبہ بندی کرنے لگے تھے۔ محترمہ سے رشتہ ازدواج میں بندھنے کے فیصلے اور اُن کی شہادت کے فوراً بعد خود ساختہ وصیت نامے تک بے شمار واقعات ایسے بھرے پڑے ہیں جن سے زرداری کی ذہانت اور قابلیت کا پتہ چلتا ہے۔اِس سرزمین پاکستان میں ابھی کوئی اور دوسرا شخص ایسا پیدا نہیں ہوا ہے جو ذہانت اور دانشمندی میں اُن سے مقابلہ کرسکے۔ ''ایک زرداری سب پر بھاری'' کوئی یونہی طنز اور ازراہ ِمذاق میں نہیں کہاجاتا۔سیاسی بساط پرکب اور کیسے کوئی مہرہ چلنا ہے یہ زرداری صاحب سے بہتر کوئی اور نہیں جانتا۔
ابھی حال ہی کے دنوں میں بلوچستان اسمبلی میں جس طرح مسلم لیگ نون کی حکومت کا تختہ راتوں رات گول کردیا گیا اور پھر سینیٹ کے انتخابات میں سیاسی گھوڑوں کی بڑے پیمانے پر خرید وفرخت کا بازار لگا اُن سب کاموں میں ہمارے زرداری کی سادگی اور معصومیت کارفرما دکھائی دیتی ہے اور وہ اپنی اِس کارکردگی کا کریڈٹ بھی خود اپنی زبان سے یہ کہہ کرلیتے دکھائی دیتے ہیں کہ دیکھو ہم نے نہیں کہا تھا کہ اِس بار بھی ہم تمہیں سینیٹ کی چیئرمین شپ نہیں لینے دیں گے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ کس نے اپنے ایک کارندے ڈاکٹر سومرو کو پاکستان کے تینوں صوبوں میں بھیج کر عرصہ دراز سے کالعدم اور غیر موثر ہوجانے والی ہارس ٹریڈنگ کو اِس ملک میں ایک بار پھر فعال،متحرک اوررائج کیا۔کس نے لوگوں کی ضمیر خریدے اورکس نے جمہوریت کے چہرے پرایک بار پھر کالک ملی۔ جس صوبے میں پارٹی کا ایک بھی ایم پی اے نہ ہووہاں کسی کی حکومت کے خلاف کراچی میں بیٹھے بیٹھے عدم اعتماد کی تحریک لے آناکوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے۔
یہ زرداری صاحب ہی کہ سادگی، معصومیت اور بھولے پن کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ کرپشن اور مالی بدعنوانیوں کے زبردست ریکارڈ قائم کرنے کے باوجود وہ آج نادیدہ قوتوں کے عتاب سے مکمل بچے ہوئے ہیں اور میاں محمد نواز شریف اور اُن کی صاحبزادی اپنے کچھ کردہ اور ناکردہ گناہوں کی پاداش میں عدالتوں میںپیشیاں بھگت رہے ہیں۔ انھیں تو یہ بھی نہیں معلوم کی آیندہ آنے والے دنوں میں وہ کہاں ہونگے۔ اِسے ہم زرداری کی ذہانت، قابلیت اور ہشیاری کا نام دیں یا پھر اداروں کی جانب سے کیا جانے والا اندھا، گونگا اور بہرا احتساب کہیں۔ ستر سال سے اِس ملک میں یہی ہوتا آیا ہے۔یہی اِس قوم کا نصیب بھی ہے اور یہی اِس قوم کا مقدر۔
یہی وجہ ہے کہ زرداری نے خود ہی یہ بیان بہت جلد یہ کہہ کر واپس لے لیا کہ اُنھو ں نے ایسا کچھ بولا ہی نہیں ہے۔ انھوں نے اپنے اِس بیان کے مضمون میں سے کسی ایک آدھ پہلو کی تصدیق یا تردیدکرنا ضروری نہ سمجھا بلکہ اپنے سارے بیان ہی سے سرے سے مکر گئے۔ لیکن اِس سارے واقعے سے اتنا ضرور ہوا کہ ہواؤں میں چلائے گئے اِس تیر سے انھوں نے اپنا مقصد ضرور پالیا ۔ اب چاہے میاں نواز شریف اور ہمارے میڈیا پر بیٹھے تبصرہ نگار خواہ کچھ بھی کہتے رہیں لیکن انھیں اپنے اِس بیان سے جسے پیغام پہنچانا مقصود تھاوہ اُن تک ضرور پہنچ گیا۔اِس بیان کی پر زور طریقے سے تردید شاید خود اُن کے مفاد میں بھی نہ تھی شاید اِسی لیے وہ زیادہ زور دینے کی بجائے خاموش ہوکر اُس کے اثرات کا جائزہ لینے لگ گئے۔
انھوں نے اپنے مذکورہ بالا بیان میں خود کو میاں نواز شریف کے ہاتھوں متعدد بار استعمال ہونے کا ذکرکیا۔ وہ کہتے ہیں کہ میا ں نواز شریف نے اُن کی نیک نیتی اور شرافت کا ناجائز فائدہ اُٹھایا۔ میاں صاحب جنرل راحیل شریف سے اپنے معاملات سیدھے کرتے رہے اور ہمیں محاذآرائی اور تصادم پر اکساتے رہے۔ یہ اینٹ سے اینٹ بجا دینے والا بیان بھی میں نے اُن کی چال میں آکر دیا تھا، وہ ہمیں اسٹیبلشمنٹ سے لڑا کر خود ہاتھ ملاتے رہے، انھوں نے ہر موقعے پر ہمیں بیچا۔ہم سیاست اور نواز شریف تجارت کرتے رہے۔ہم میاں صاحب کو جتنا بھولا سمجھتے رہے وہ اِس سے زیادہ چالاک اور موقعہ پرست ہیں۔ میموگیٹ بھی ہم نے نواز شریف کے مشورے پر کیا تھا۔گویا ہر غلط کا م انھوں نے میاں نواز شریف کے کہنے پرکیا۔کاش وہ یہ بھی کہہ دیتے کہ سرے محل بھی ہم نے اُن کی باتوں میں آکر جلد بازی میں بیچ ڈالا تھا، ورنہ سوئس اکاؤنٹس سمیت نجانے آج کتنے ایسے مقدمات قائم ہیں جن سے ہمارا آج تک کچھ نہیں بگڑا۔
انھوں نے مزید کہا کہ ہم پرویز مشرف کا مواخذہ کرنا چاہتے تھے اوراِس کارخیر کے لیے ہم نے میاں نواز شریف سے مدد چاہی تھی، لیکن وہ پیچھے ہٹ گئے۔حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ میاں صاحب تو مواخذے کے وعدے پر قائم رہے لیکن زرداری صاحب پرویز مشرف کے مواخذے کے خوف سے ازخود مستعفی ہوجانے کے بعد عدلیہ بحالی کے اپنے وعدے سے مکمل مکر گئے اور یہاں تک کہہ دیا کہ یہ وعدہ کوئی آسمانی صحیفہ نہ تھاکہ جس کا پورا ہونا ضروری ہو۔زرداری کی پلاننگ اور منصوبہ بندی کی داد دینے کو جی چاہتا ہے کہ وہ کس خوبصورتی سے پرویز مشرف سے این آر او کرواکے اور اپنے سارے گناہ معاف کرواکے پاکستان میں اپنی آمد کی راہ ہموارکرتے ہیں اور پھر محترمہ کی ناگہانی شہادت کے فوراً بعد الیکشن میں عوامی ہمدردی کو کیش کرواکے اپنے لیے صدارت کا عہدہ پسند فرما کر پرویز مشرف ہی کا بستر گول کردیتے ہیں۔
وہ بلّا توبے چارہ دو چار سال اور رہ کرکتنا دودھ پی جاتا، زرداری صاحب خود ہی پانچ سال تک عدالتی استثنیٰ سے مزین ریاست کے سب سے اہم منصب کے لوازمات سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ اِسی دوران وہ سوئس مقدمات میں حکومت پاکستان کی مسلسل غیر حاضری کے سبب اُن کے غیر مؤثرہوجانے کی ثمرات بھی سمیٹتے رہے۔ یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف اِس جر م کی پاداش میں اپنے عہدوں سے علیحدہ ہوتے رہے مگر زرداری کی شان و شوکت اورلطف وکرامت میں ذرہ بھر بھی کمی دیکھی نہیں گئی۔ میاں صاحب تو اتنے سادہ تھے کہ انھیں پتہ ہی نہیں چلا کہ پرویز مشرف کے مواخذے کا سارا ڈراما زرداری صاحب خود اپنے فائدے کے لیے کر رہے تھے۔ وہ اُن کی باتوں میں آکر ججوں کی بحالی کے وعدے پر مواخذے کی تحریک پر پارلیمنٹ میں ساتھ دینے کا معاہدہ کر بیٹھے۔ یہ تو انھیں بعد میں پتہ چلا کہ زرداری صاحب نے اُن کے ساتھ بہت بڑا ہاتھ کر دیا ہے۔
پرویز مشرف کے زیادتیوں کے بعد میاں صاحب تہہ دل سے زرداری کے ساتھ چلنا چاہتے تھے۔اِس مقصد کے لیے انھوں نے زرداری حکومت کے ابتدائی دنوں میں اپنے لوگ کابینہ میں بھی بھیجے تھے، مگر ججوں کی بحالی سے انکار کے سبب یہ ساتھ زیادہ دنوں تک نہیں چل پایا۔ اُن کی سادگی کا اندازہ تو اُن کے اِس عمل سے بھی لگایاجاسکتا ہے کہ محترمہ کی شہادت کے فوراً بعد میاں صاحب نے پیپلز پارٹی سے اظہار یکجہتی کے طور پر الیکشن کے بائیکاٹ کا یکطرفہ اعلان کرڈالا۔ انھیںشاید معلوم نہ تھاکہ زرداری صاحب تو یہ سنہری موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے ہیں۔ عوامی ہمدردیاں سمیٹ لینے کا ایسا موقعہ پھر شاید ہی اُن کی زندگی میں دوبارہ آسکتا تھا اور وہ اِسے فوراً ہی کیش کروا لینا چاہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ زرداری صاحب کے الیکشن میں حصہ لینے کے فیصلے کے بعد میاں صاحب بھی مجبوراً ایسا ہی کرنے پر راضی ہوگئے۔
موقعہ شناسی اور مطلب براری کی ایسی مثال ہمیں اور کیا ملے گی کہ محترمہ کی اچانک شہادت کا زخم بھی ابھی مندمل نہیں ہو پایا تھا اور وہ ایوان صدر میں قدم جمانے کی منصوبہ بندی کرنے لگے تھے۔ محترمہ سے رشتہ ازدواج میں بندھنے کے فیصلے اور اُن کی شہادت کے فوراً بعد خود ساختہ وصیت نامے تک بے شمار واقعات ایسے بھرے پڑے ہیں جن سے زرداری کی ذہانت اور قابلیت کا پتہ چلتا ہے۔اِس سرزمین پاکستان میں ابھی کوئی اور دوسرا شخص ایسا پیدا نہیں ہوا ہے جو ذہانت اور دانشمندی میں اُن سے مقابلہ کرسکے۔ ''ایک زرداری سب پر بھاری'' کوئی یونہی طنز اور ازراہ ِمذاق میں نہیں کہاجاتا۔سیاسی بساط پرکب اور کیسے کوئی مہرہ چلنا ہے یہ زرداری صاحب سے بہتر کوئی اور نہیں جانتا۔
ابھی حال ہی کے دنوں میں بلوچستان اسمبلی میں جس طرح مسلم لیگ نون کی حکومت کا تختہ راتوں رات گول کردیا گیا اور پھر سینیٹ کے انتخابات میں سیاسی گھوڑوں کی بڑے پیمانے پر خرید وفرخت کا بازار لگا اُن سب کاموں میں ہمارے زرداری کی سادگی اور معصومیت کارفرما دکھائی دیتی ہے اور وہ اپنی اِس کارکردگی کا کریڈٹ بھی خود اپنی زبان سے یہ کہہ کرلیتے دکھائی دیتے ہیں کہ دیکھو ہم نے نہیں کہا تھا کہ اِس بار بھی ہم تمہیں سینیٹ کی چیئرمین شپ نہیں لینے دیں گے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ کس نے اپنے ایک کارندے ڈاکٹر سومرو کو پاکستان کے تینوں صوبوں میں بھیج کر عرصہ دراز سے کالعدم اور غیر موثر ہوجانے والی ہارس ٹریڈنگ کو اِس ملک میں ایک بار پھر فعال،متحرک اوررائج کیا۔کس نے لوگوں کی ضمیر خریدے اورکس نے جمہوریت کے چہرے پرایک بار پھر کالک ملی۔ جس صوبے میں پارٹی کا ایک بھی ایم پی اے نہ ہووہاں کسی کی حکومت کے خلاف کراچی میں بیٹھے بیٹھے عدم اعتماد کی تحریک لے آناکوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے۔
یہ زرداری صاحب ہی کہ سادگی، معصومیت اور بھولے پن کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ کرپشن اور مالی بدعنوانیوں کے زبردست ریکارڈ قائم کرنے کے باوجود وہ آج نادیدہ قوتوں کے عتاب سے مکمل بچے ہوئے ہیں اور میاں محمد نواز شریف اور اُن کی صاحبزادی اپنے کچھ کردہ اور ناکردہ گناہوں کی پاداش میں عدالتوں میںپیشیاں بھگت رہے ہیں۔ انھیں تو یہ بھی نہیں معلوم کی آیندہ آنے والے دنوں میں وہ کہاں ہونگے۔ اِسے ہم زرداری کی ذہانت، قابلیت اور ہشیاری کا نام دیں یا پھر اداروں کی جانب سے کیا جانے والا اندھا، گونگا اور بہرا احتساب کہیں۔ ستر سال سے اِس ملک میں یہی ہوتا آیا ہے۔یہی اِس قوم کا نصیب بھی ہے اور یہی اِس قوم کا مقدر۔