تحریک انصاف کے انتخابی ٹکٹ کیلئے انٹرویوز کا سلسلہ شروع
پارٹی قیادت کی ہدایت پر چند اہم ترین رہنما دونوں کے درمیان اختلافات دور کروانے کیلئے متحرک ہو چکے ہیں
تحریک انصاف کو جنوبی پنجاب میں اچھے الیکٹ ایبلز کی کمیابی کی وجہ سے مشکلات کا سامنا تھا لیکن آج اسلام آباد میں عمران خان کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کو تحریک انصاف میں ضم کیے جانے کے اعلان کے بعد صورتحال تبدیل ہو جائے گی اور اجتماعی طور پر صوبہ پنجاب میں تحریک انصاف کی انتخابی حیثیت ن لیگ سمیت دیگر تمام جماعتوں کے مقابلے میں بہت مضبوط ہو گی۔
جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے ساتھ مذاکرات میں شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین نے نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔جنوبی پنجاب صوبہ محاذ میں شامل تمام اراکین اسمبلی اور شخصیات اپنے علاقوں کے مضبوط ترین الیکٹ ایبلز ہیں لہٰذا جنوبی پنجاب کی مجموعی نشستوں میں سے 80 فیصد سے زائد تحریک انصاف جیت سکتی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ این اے154 کے ضمنی الیکشن میں جہانگیر ترین کے صاحبزادے علی ترین کو''اتفاقیہ'' شکست دینے والے اقبال شاہ کے بارے میں بھی یہ مبینہ اطلاعات سنائی دے رہی ہیں کہ وہ بھی براستہ جنوبی پنجاب محاذ تحریک انصاف میں شامل ہو کر آئندہ الیکشن میں اپنے بیٹے کو اس کے موجودہ صوبائی حلقہ سے تحریک انصاف کا امیدوار بنانے کے خواہشمند ہیں لیکن جہانگیر ترین ''فی الوقت'' راضی نہیں ہو رہے ہیں۔
پاکستان بھر میں ہر قومی و صوبائی حلقہ میں ٹکٹ کیلئے اوسطاً5 سے زائد درخواستیں تحریک انصاف کے الیکشن کمیشن کو موصول ہو چکی ہیں جبکہ درخواستوں کی وصولی کا عمل 13 مئی تک جاری رہے گا۔ سب سے زیادہ درخواستیں سنٹرل پنجاب سے موصول ہو رہی ہیں جن کی فی الوقت تعداد 700 سے زائد ہے۔ صدر سنٹرل پنجاب عبدالعلیم خان نے گزشتہ دو روز سے درخواست گزاروں کے انٹرویوز کا سلسلہ شروع کردیا ہے اور روزانہ 13 گھنٹے سے زائد وقت صرف کر کے 100 کے لگ بھگ انٹرویوز کیئے جا رہے ہیں۔
روزانہ دو سے تین اضلاع کے درخواست گزاروں کو مدعو کیا جا رہا ہے۔ ان انٹرویوز سے جو معلومات حاصل ہو رہی ہیں وہ حلقہ سے حتمی امیدوار کے انتخاب میں بہت سودمند ثابت ہوں گی۔ انٹرویوز میں سوال جواب کے دوران پینل کو ایک ہی حلقہ کے درخواست گزاروں کی زبانی ایک دوسرے کے بارے بخوبی علم ہو رہا ہے کہ اس حلقہ میں کون سے امیدوار کی مجموعی پوزیشن کیسی ہے، اس کی حمایت اور مخالفت کی درجہ بندی کیا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ انٹرویوز کے دوران کئی حلقوں کیلئے ایسے مضبوط امیدوار بھی دریافت ہوئے ہیں جو پہلے زیادہ مقبول یا معروف نہیں تھے اور لائم لائٹ میں نہ ہونے کی وجہ سے قیادت اور میڈیاکی نگاہوں سے اوجھل تھے لیکن اب قیادت نے انہیں شارٹ لسٹنگ میں شامل کر لیا ہے۔ عبدالعلیم خان کی سربراہی میں انٹرویو کرنے والے پینل میں شعیب صدیقی اور شوکت بھٹی بھی شامل ہیں۔
شوکت بھٹی حافظ آباد کے ایک معروف سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں لیکن نجانے کیوں تحریک انصاف سنٹرل پنجاب میں ان کے بارے میںتحریک انصاف کے مقامی رہنماوں کی ناپسندیدگی اور تحفظات میں اضافہ ہو رہا ہے اور ہر جانب سے یہ متفقہ اعتراض سامنے آرہا ہے کہ شوکت بھٹی ہر ضلع کی مقامی سیاست میں غیر ضروری اور جانبدارانہ مداخلت کر رہے ہیں۔ شوکت بھٹی کو ان تحفظات کو دور کرنا چاہیئے اور یہ نکتہ بھی ذہن نشین کرنا چاہیئے کہ جیسے وہ حافظ آباد میں عبدالعلیم خان کے علاوہ کسی دوسرے پی ٹی آئی رہنما کی مداخلت کو پسند نہیں کرتے ویسے ہی سنٹرل پنجاب کے 10 اضلاع کے مقامی رہنما بھی عبدالعلیم خان کے علاوہ سنٹرل پنجاب ریجن کے کسی دوسرے رہنما کی مداخلت پسند نہیں کرتے۔
ٹکٹوں کے حوالے سے لاہور کے تین بڑے تنازعات جوں کے توں ہیں۔ این اے133 میں اعجاز چوہدری کے خلاف''بغاوت'' کم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ نذیر چوہان اور شبیر سیال سیت دیگر اہم مقامی رہنما اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں ایسے میں اگر پارٹی اعجاز چوہدری کو ٹکٹ دے بھی دے تو وہ مقامی رہنماوں کی دلی اور بھرپور حمایت سے محروم ہو کر الیکشن بھرپور طاقت سے نہیں لڑ پائیں گے۔ این اے126 میں مہر واجد عظیم اور حماد اظہر کا معاملہ زیادہ مرکز نگاہ ہے اور ان میں سے ایک کو این اے123 میں بھیجا جائے گا ۔ بادی النظر میں تو این اے126 سے مہر واجد عظیم کا ہی الیکشن لڑنا مناسب ہوگا کیونکہ ان کا خاندان قیام پاکستان سے پہلے کا یہاں مقیم ہے اور اس حلقہ میں ان کی کئی دہائیوں کی مقامی سیاست چلی آرہی ہے۔ حماد اظہر تو 2013 ء کے الیکشن میں اس حلقہ میں نمودار ہوئے تھے ان کے والد سابق گورنر میاں اظہر کا اثر ورسوخ سابقہ این اے119 اور این اے118 یعنی موجودہ این اے123 میں رہا ہے۔لاہور کے حلقہ این اے136میں جمشید اقبال چیمہ اور خالد گجر کا معاملہ حل ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے۔
پارٹی قیادت کی ہدایت پر چند اہم ترین رہنما دونوں کے درمیان اختلافات دور کروانے کیلئے متحرک ہو چکے ہیں اور قوی امکان ہے کہ آئندہ چند روز میں اس حلقہ میں پوسٹرز، بینرز اور ہورڈنگز کی نئی سونامی دیکھنے کو ملے گی جس پر قومی اسمبلی کے امیدوار کے طور پر جمشید اقبال چیمہ اور صوبائی امیدوار کے طور پر خالد گجر کی تصویر ہوگی اور دونوں مشترکہ انتخابی مہم بھی شروع کردیں گے۔ اطلا عات کے مطابق لاہور سے الیکشن لڑنے کیلئے عمران خان کے تین حلقوں کی شارٹ لسٹنگ ہو چکی ہے اور اب دو حلقے این اے130 اور این اے131 میں سے کسی ایک میں عمران خان الیکشن لڑیں گے۔ اگر وہ این اے131 سے لڑتے ہیں تو عبدالعلیم خان این اے129 سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑیں گے اور اگر عمران خان این اے130 سے الیکشن لڑتے ہیں تو شفقت محمود کو این اے129 میں بھیجا جا سکتا ہے جبکہ یہ طے ہے کہ عمران خان جس بھی حلقہ سے الیکشن لڑیں گے اس حلقہ کے کسی ایک صوبائی حلقہ سے عبدالعلیم خان الیکشن لڑیں گے۔
29 اپریل کے مینار پاکستان جلسہ نے تحریک انصاف میں ایک نئی جان ڈال دی ہے۔ حلقہ میں لوگوں کی شرکت غیر معمولی رہی ہے ۔ عمران خان جلسہ گاہ میں آئے تو انہوں نے پارٹی رہنماوں سے کہا کہ جلسہ گاہ اور سامنے موجود پل پر لوگوں کا سمندر دیکھ کر انہیں حج کے مناظر یاد آگئے ہیں جہاں اسی طرح انسانی سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا ہے۔ جلسہ میں سب سے زیادہ تعداد میں شرکت سنٹرل پنجاب سے ہوئی ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق سنٹرل پنجاب سے 6 ہزار سے زائد گاڑیوں پر لوگ جلسہ گاہ میں پہنچے تھے ، ہر جلوس کی ویڈیو بھی بنائی گئی تا کہ ٹکٹ دیتے وقت اسے بھی معیار بنایا جا سکے۔ تحریک انصاف کا سابقہ جلسہ65 ایکڑ رقبے والی گراونڈ میں ہوا تھا لیکن یہ جلسہ 115 ایکڑ رقبہ پر ہوا اور تقریبا جلسہ گاہ بھری ہوئی تھی جبکہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ جلسہ گاہ سے باہر موجود تھے اور مجموعی طور پر لاکھوں لوگ جلسہ گاہ میں آئے اور گئے۔
جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے ساتھ مذاکرات میں شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین نے نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔جنوبی پنجاب صوبہ محاذ میں شامل تمام اراکین اسمبلی اور شخصیات اپنے علاقوں کے مضبوط ترین الیکٹ ایبلز ہیں لہٰذا جنوبی پنجاب کی مجموعی نشستوں میں سے 80 فیصد سے زائد تحریک انصاف جیت سکتی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ این اے154 کے ضمنی الیکشن میں جہانگیر ترین کے صاحبزادے علی ترین کو''اتفاقیہ'' شکست دینے والے اقبال شاہ کے بارے میں بھی یہ مبینہ اطلاعات سنائی دے رہی ہیں کہ وہ بھی براستہ جنوبی پنجاب محاذ تحریک انصاف میں شامل ہو کر آئندہ الیکشن میں اپنے بیٹے کو اس کے موجودہ صوبائی حلقہ سے تحریک انصاف کا امیدوار بنانے کے خواہشمند ہیں لیکن جہانگیر ترین ''فی الوقت'' راضی نہیں ہو رہے ہیں۔
پاکستان بھر میں ہر قومی و صوبائی حلقہ میں ٹکٹ کیلئے اوسطاً5 سے زائد درخواستیں تحریک انصاف کے الیکشن کمیشن کو موصول ہو چکی ہیں جبکہ درخواستوں کی وصولی کا عمل 13 مئی تک جاری رہے گا۔ سب سے زیادہ درخواستیں سنٹرل پنجاب سے موصول ہو رہی ہیں جن کی فی الوقت تعداد 700 سے زائد ہے۔ صدر سنٹرل پنجاب عبدالعلیم خان نے گزشتہ دو روز سے درخواست گزاروں کے انٹرویوز کا سلسلہ شروع کردیا ہے اور روزانہ 13 گھنٹے سے زائد وقت صرف کر کے 100 کے لگ بھگ انٹرویوز کیئے جا رہے ہیں۔
روزانہ دو سے تین اضلاع کے درخواست گزاروں کو مدعو کیا جا رہا ہے۔ ان انٹرویوز سے جو معلومات حاصل ہو رہی ہیں وہ حلقہ سے حتمی امیدوار کے انتخاب میں بہت سودمند ثابت ہوں گی۔ انٹرویوز میں سوال جواب کے دوران پینل کو ایک ہی حلقہ کے درخواست گزاروں کی زبانی ایک دوسرے کے بارے بخوبی علم ہو رہا ہے کہ اس حلقہ میں کون سے امیدوار کی مجموعی پوزیشن کیسی ہے، اس کی حمایت اور مخالفت کی درجہ بندی کیا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ انٹرویوز کے دوران کئی حلقوں کیلئے ایسے مضبوط امیدوار بھی دریافت ہوئے ہیں جو پہلے زیادہ مقبول یا معروف نہیں تھے اور لائم لائٹ میں نہ ہونے کی وجہ سے قیادت اور میڈیاکی نگاہوں سے اوجھل تھے لیکن اب قیادت نے انہیں شارٹ لسٹنگ میں شامل کر لیا ہے۔ عبدالعلیم خان کی سربراہی میں انٹرویو کرنے والے پینل میں شعیب صدیقی اور شوکت بھٹی بھی شامل ہیں۔
شوکت بھٹی حافظ آباد کے ایک معروف سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں لیکن نجانے کیوں تحریک انصاف سنٹرل پنجاب میں ان کے بارے میںتحریک انصاف کے مقامی رہنماوں کی ناپسندیدگی اور تحفظات میں اضافہ ہو رہا ہے اور ہر جانب سے یہ متفقہ اعتراض سامنے آرہا ہے کہ شوکت بھٹی ہر ضلع کی مقامی سیاست میں غیر ضروری اور جانبدارانہ مداخلت کر رہے ہیں۔ شوکت بھٹی کو ان تحفظات کو دور کرنا چاہیئے اور یہ نکتہ بھی ذہن نشین کرنا چاہیئے کہ جیسے وہ حافظ آباد میں عبدالعلیم خان کے علاوہ کسی دوسرے پی ٹی آئی رہنما کی مداخلت کو پسند نہیں کرتے ویسے ہی سنٹرل پنجاب کے 10 اضلاع کے مقامی رہنما بھی عبدالعلیم خان کے علاوہ سنٹرل پنجاب ریجن کے کسی دوسرے رہنما کی مداخلت پسند نہیں کرتے۔
ٹکٹوں کے حوالے سے لاہور کے تین بڑے تنازعات جوں کے توں ہیں۔ این اے133 میں اعجاز چوہدری کے خلاف''بغاوت'' کم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ نذیر چوہان اور شبیر سیال سیت دیگر اہم مقامی رہنما اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں ایسے میں اگر پارٹی اعجاز چوہدری کو ٹکٹ دے بھی دے تو وہ مقامی رہنماوں کی دلی اور بھرپور حمایت سے محروم ہو کر الیکشن بھرپور طاقت سے نہیں لڑ پائیں گے۔ این اے126 میں مہر واجد عظیم اور حماد اظہر کا معاملہ زیادہ مرکز نگاہ ہے اور ان میں سے ایک کو این اے123 میں بھیجا جائے گا ۔ بادی النظر میں تو این اے126 سے مہر واجد عظیم کا ہی الیکشن لڑنا مناسب ہوگا کیونکہ ان کا خاندان قیام پاکستان سے پہلے کا یہاں مقیم ہے اور اس حلقہ میں ان کی کئی دہائیوں کی مقامی سیاست چلی آرہی ہے۔ حماد اظہر تو 2013 ء کے الیکشن میں اس حلقہ میں نمودار ہوئے تھے ان کے والد سابق گورنر میاں اظہر کا اثر ورسوخ سابقہ این اے119 اور این اے118 یعنی موجودہ این اے123 میں رہا ہے۔لاہور کے حلقہ این اے136میں جمشید اقبال چیمہ اور خالد گجر کا معاملہ حل ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے۔
پارٹی قیادت کی ہدایت پر چند اہم ترین رہنما دونوں کے درمیان اختلافات دور کروانے کیلئے متحرک ہو چکے ہیں اور قوی امکان ہے کہ آئندہ چند روز میں اس حلقہ میں پوسٹرز، بینرز اور ہورڈنگز کی نئی سونامی دیکھنے کو ملے گی جس پر قومی اسمبلی کے امیدوار کے طور پر جمشید اقبال چیمہ اور صوبائی امیدوار کے طور پر خالد گجر کی تصویر ہوگی اور دونوں مشترکہ انتخابی مہم بھی شروع کردیں گے۔ اطلا عات کے مطابق لاہور سے الیکشن لڑنے کیلئے عمران خان کے تین حلقوں کی شارٹ لسٹنگ ہو چکی ہے اور اب دو حلقے این اے130 اور این اے131 میں سے کسی ایک میں عمران خان الیکشن لڑیں گے۔ اگر وہ این اے131 سے لڑتے ہیں تو عبدالعلیم خان این اے129 سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑیں گے اور اگر عمران خان این اے130 سے الیکشن لڑتے ہیں تو شفقت محمود کو این اے129 میں بھیجا جا سکتا ہے جبکہ یہ طے ہے کہ عمران خان جس بھی حلقہ سے الیکشن لڑیں گے اس حلقہ کے کسی ایک صوبائی حلقہ سے عبدالعلیم خان الیکشن لڑیں گے۔
29 اپریل کے مینار پاکستان جلسہ نے تحریک انصاف میں ایک نئی جان ڈال دی ہے۔ حلقہ میں لوگوں کی شرکت غیر معمولی رہی ہے ۔ عمران خان جلسہ گاہ میں آئے تو انہوں نے پارٹی رہنماوں سے کہا کہ جلسہ گاہ اور سامنے موجود پل پر لوگوں کا سمندر دیکھ کر انہیں حج کے مناظر یاد آگئے ہیں جہاں اسی طرح انسانی سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا ہے۔ جلسہ میں سب سے زیادہ تعداد میں شرکت سنٹرل پنجاب سے ہوئی ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق سنٹرل پنجاب سے 6 ہزار سے زائد گاڑیوں پر لوگ جلسہ گاہ میں پہنچے تھے ، ہر جلوس کی ویڈیو بھی بنائی گئی تا کہ ٹکٹ دیتے وقت اسے بھی معیار بنایا جا سکے۔ تحریک انصاف کا سابقہ جلسہ65 ایکڑ رقبے والی گراونڈ میں ہوا تھا لیکن یہ جلسہ 115 ایکڑ رقبہ پر ہوا اور تقریبا جلسہ گاہ بھری ہوئی تھی جبکہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ جلسہ گاہ سے باہر موجود تھے اور مجموعی طور پر لاکھوں لوگ جلسہ گاہ میں آئے اور گئے۔