نیو ورلڈ آرڈر اور کوریا

روٹی کپڑا اور مکان کے سپنے دکھائے جاتے مگر پاکستان میں جاگیرداری کبھی ختم نہ ہوگی۔

anisbaqar@hotmail.com

دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر دنیا کے افق پر نئی حکومتیں قائم ہونے لگیں، فرانسیسی، برطانوی، امریکی اور جاپانی تسلط کے زیر اثر حکومتوں کے عوام اپنے پرانے آقاؤں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ 1945 کے بعد برصغیر کی آزادی کوئی کرشمہ نہ تھا بلکہ کمزور ریاستیں اب براہ راست حکمرانی کے جوہر دکھانے کے قابل نہ تھیں مگر جو حاکم حکومتیں جہاں سے رخصت ہوئیں اپنا طرز حکمرانی چھوڑ کر چلی گئیں اور اپنی پسند کی نظریاتی بیوروکریسی چھوڑ کر چلی گئیں، بھارت اور پاکستان اس کی زندہ مثالیں ہیں۔

چونکہ یہ دونوں ممالک برطانیہ کے زیر اثر تھے لہٰذا یہاں پر پارلیمانی جمہوریت کو ہی عوام کا نجات دہندہ بناکر پیش کیا گیا اور اب اس طرز حکومت کو ایک آفاقی حقیقت سمجھ کر پیش کیا جارہا ہے اور اب بڑے بڑے نامور علما اس جمہوریت کو عوام کے مسائل کا حل بتا رہے ہیں۔ بھارت جیسے مضبوط، معاشی اور جمہوری حکومت اپنے غریب لوگوں کا مسئلہ حل نہ کرسکی۔ ممبئی جیسے شہر میں دنیا کی ایک بہت بڑی جھونپڑ پٹی ہے، غریب اور امیر کا یہ فرق وہاں بھی نہ مٹ سکا حالانکہ پنڈت جواہر لعل نہرو نے جو بھارت کے پہلے وزیراعظم تھے۔

اقتدار میں آتے ہی زمینداری کو رخصت کردیا جس سے نوابزادوں، خان بہادروں، جاگیرداروں کی کمر توڑ دی اور بھارت کے شودر، جن کو یوپی میں چمار کا لقب دیا گیا تھا وہ آزاد ہوئے مگر چند چماروں اور غریبوں کا اسمبلی میں پہنچ جانے اور زمین داری کے خاتمے نے بھارت میں اناج کی پیداوار میں اضافہ کردیا اور اوسطاً 45 فیصد مڈل کلاس پیدا ہوگیا، جس کی وجہ سے چیزوں کی کھپت میں اضافہ ہوا اور ادنیٰ مڈل کلاس بھی 25 فیصد پیدا ہوا، بھارتی انڈسٹری دنیا کی دوسری بڑی انڈسٹری ہے اور اس کی ترقی کی رفتار 6 تا 7 فیصد کی شرح سے ترقی کرتی رہی اگر جواہر لعل نہرو یہ قدم نہ اٹھاتے اور عوام جن کو ہم پاکستان میں ہاری یا کمی کہتے ہیں وہ آزاد نہ ہوتے تو ترقی کی شرح پاکستان جیسی ہوتی جہاں ہر چند برسوں بعد حکومتیں بدلتی رہتی اور معیشت ترقی معکوس میں مبتلا ہوتی ۔

روٹی کپڑا اور مکان کے سپنے دکھائے جاتے مگر پاکستان میں جاگیرداری کبھی ختم نہ ہوگی کیونکہ جاگیرداری، سرمایہ داری ، سرمایہ کاری اور تعلیم کی دشمن ہے۔ اگر بھارت میں پنڈت نہرو نے یہ بڑا کام نہ کیا ہوتا تو وہاں آزاد خارجہ پالیسی کبھی تعمیر نہ ہوتی، جانے والے حکمران یہاں سے چلے گئے مگر ہم پر خصوصیت سے پاکستان میں بے رحم حکمران چھوڑ گئے مگر دوسری جنگ عظیم کے بعد روس اور پھر چین نے ایک نئی جمہوریت کی داغ بیل ڈالی ۔ برطانیہ کے حکمران دوربین تھے، انھوں نے عوامی فلاحی طرز حکومت اور بے روزگاری الاؤنس سے یہ عمل روک دیا اور روس میں سوشلسٹ انقلاب برپا ہوگیا۔

جس نے مغرب کو خوف میں مبتلا کر رکھا تھا روس کے بعد چین اور پھر کوریا، ویتنام، کیوبا اسی نقش قدم پر چل پڑے یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آیا کہ سویت یونین کے حامی افغانستان میں عوامی جمہوری انقلاب نور محمد ترہ کئی کی قیادت میں پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ چین، ویتنام اور شمالی کوریا میں سوشلسٹ انقلاب برپا ہوچکا تھا پھر افغانستان میں انقلاب امریکا کے لیے ایک اور دھچکا تھا مگر امریکا کے سیاسی دانشور ہنری کسنجر نے سویت یونین کے سیاسی مدبر سوسولوف کو سیاسی شطرنج میں مات دے دی۔

چین سے امریکا کے تعلقات میں بہتری اور سن پچاس کی دہائی میں سن یات سن کا نیا فلسفہ کہ سوشلزم میں مزید تبدیلی کی گنجائش ہے یعنی سوشلسٹ نظام میں سرمایہ دارانہ عنصر کے ملاپ سے معاشی ترقی ممکن ہے اور عوام بھی سرمایہ دار شکنجے میں نہیں پھنس سکتے، اس فلسفے کی مخالفت مائوزے تنگ نے ثقافتی انقلاب برپا کرکے سن یات سن کو وقتی طور پر مات دے دی مگر مائوزے تنگ کے بعد ان کا نظریہ جاتا رہا۔ چینی دانشور عالمی سیاست کے 2 دہائیوں میں سست روی پر مائل تھے، ان کا خیال تھا کہ 20-25 برس بعد عمل شروع کیا جائے گا کہ چین وہ عالمی سیاست میں سرگرم ہوجائے گا مگر اس دوران امریکی دانشمندی اور عیسائی پادریوں اور مسلمان ممالک میں سوشلزم کو دین کے خلاف قرار دے دیا، لہٰذا دونوں نے اس محاذ پر ڈٹ کر کام کیا اور سوویت انقلابی روح گورباچوف کے ہاتھوں رخصت ہوئی۔


افغانستان میں ڈاکٹر نجیب اﷲ کو اقوام متحدہ کے دفتر کے روبرو پھانسی پر لٹکایا گیا مگر ڈاکٹر نجیب اﷲ نے مرنے سے قبل یہ بیان دیا تھا کہ ہمارا تو حال برا ہونے کو ہے مگر پاکستان ایک دلدل میں پھنس جائے گا جس سے ملک کو خطرہ لاحق ہوگا، اس طرح سوشلزم کے دور کا جو انقلاب کے ذریعے لایا جاتا تھا اس کاایک درمیانی راستہ شاویز نے دنیا میں ایک انتخابی انقلاب برپا کردیا اور پرانے سوشلسٹ فلسفے کو نئی جہت میں پیش کیا۔ اس طرح امریکا یونی پولر ورلڈ کا واحد نمایندہ بن گیا، اس کا ہر سیاسی فیصلہ پتھر کی لکیر بن گیا۔ جواباً اس کو 9/11 کا حادثہ بھی پیش آیا مگر بڑی ہوشیاری سے اس نے افغانستان اور عراق کو ہدف بنالیا اور روس، چین تماشائی بنے رہے اور پاکستان نے اپنی سیاست میں یوٹرن لے لیا جس کی بدولت صورت حال یہ ہوئی کہ یہ جنگ قندھار سے سہراب گوٹھ تک پہنچ گئی۔

کس کو دوش دیا جائے جمہوریت کے پانچ برس پورے ہوگئے اور اب انتخابات کا بگل بج چکا ہے مگر اے این پی اپنی ناقص کارکردگی کی بنا پر عوام کا سامنا کرنے کے قابل نہیں رہی ۔ باقی عوام کو جمہور کے بجائے بچہ جمہورا تصور کر رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت اور جاگیرداری سماج سے جڑی ہوئی یہ جمہوریت خود جمہور کی دشمن ہے کیونکہ حکومتی وزراء ملک کو کھوکھلا کرنے میں مشاق ہیں، ایسی جمہوریت میں اور کمزور معاشی ریاست میں عوام کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ شمالی کوریا کے رہنما کم ال سنگ نے اس جمہوریت کو امراء کی جمہوریت قرار دیا ، بقول ان کے قانون کے رکھوالے حکمران اور انصاف کے ادارے اس سسٹم کے اتحادی ہوتے ہیں اور عوام پر اقلیت کی حکومت ہوتی ہے۔

کم ال سنگ نے 1950 میں کوریائی عوام کو نجات دلانے کے لیے اور شمالی اور جنوبی کوریا کو متحد کرنے کے لیے جنگ شروع کی ۔ کم ال سنگ کی موت کے بعد ان کے بیٹے کم جون ال نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی، جس کو مغرب نے آمرانہ نظام قرار دیا ۔ کم ال سنگ سرمایہ دارانہ ممالک کے طرز حکمرانی کے شدید خلاف تھے، روس اور چین ان کے حلیف ہوا کرتے تھے۔ چین آج بھی Democratic Peoples Republic of Korea کا ساتھی ہے جس کو شمالی کوریا کہتے ہیں اور جنوبی کوریا پر جدید جمہوری نظام ہے جس کی حکومت امریکی حمایت یافتہ ہے۔

بہرصورت دونوں کوریا متحد نہ ہوسکے کم جان، جو کم ال سنگ کے پوتے ہیں انھوں نے اپنے دادا کی برسی پر جو اپریل کے وسط میں تھی، ایک اور دور مار میزائل جو کئی ہزار میل سفر کرسکتا ہے، کا تجربہ کیا اور امریکی حکومت کو جنگ کی دھمکی دی، یہاں تک کہ جان کیری نے اپنا خصوصی سفر کیا تاکہ علاقے کو ایٹمی جنگ سے بچایا جائے، جنگ تو ٹل گئی اور امریکا نے میز پر مسائل حل کرنے کا ماحول پیدا کیا۔ دراصل یہ معاملہ شمالی اور جنوبی کوریا کا محض نہ تھا بلکہ شمالی کوریا کو آگے بڑھا کر چین اور روس نے ایک نئے ورلڈ آرڈر کی ابتدا کی ہے، اس کی پہلی نظیر شام کے مسئلے پر چین اور روس کا موقف امریکی موقف کے خلاف تھا۔

گزشتہ ماہ چین کی اعلیٰ قیادت کا روس کا دورہ دوررس نتائج کا حامل تھا۔ چین کا گوادر کی بندرگاہ کی تعمیر میں روس کی رہنمائی ممکن ہوسکتی ہے کیونکہ سوویت یونین کا گرم پانی کی گزر گاہ کا خواب تھا، بلوچستان کے ساحلی علاقے خصوصیت کے ساتھ روس نواز خیالات کے حامل رہے ہیں بلکہ شیر محمد مری نے اپنا نام شیروف رکھا تھا۔ شمالی اور جنوبی کوریا کی جنگ کی بازگشت اب دوبارہ سنائی دے رہی ہے، یہ محض ایک اتفاقی مسئلہ نہیں بلکہ روس اور چین کا یہ نظریاتی اتحاد پھر ایک نئے ورلڈ آرڈر کی ابتدا بھی ہوسکتی ہے۔ ممکن ہے ایک ایسی صورت حال مستقبل میں پیدا ہونے جارہی ہے کہ یونی پولر Unipolar یک قطبی قوت کے بجائے دنیا پھر دو حصوں میں تبدیل ہونے جارہی ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام میں کرپشن کا فروغ خصوصاً کمزور معاشی وسائل رکھنے والے ممالک میں پارلیمانی نظام اپنی جاذبیت کھوتا جارہا ہے، اس لیے موجودہ الیکشن میں ہر پارٹی تبدیلی کی بات کررہی ہے البتہ پیپلز پارٹی ماضی کی تقریروں پر ہی اکتفا کر رہی ہے، پختونخوا میں صورت حال بدترین ہے مگر ملک میں عوام اس انتخاب کے بعد مزید مایوس ہوں گے اور سیاسی صورت حال ایک نہایت کمزور قیادت کی تصویر کشی کر رہی ہے، ملک قدرتی طور پر ایک انقلاب کی جانب بڑھ رہا ہے، اس خلا میں کس پارٹی سے نئی قیادت سامنے آتی ہے، وہ جدید نظریات والی قوتیں ہیں یا قدیم، ابھی کچھ کہنا قبل ازوقت ہے مگر یہ بات طے ہے کہ عوام مزید تکلیف سے نبرد آزما ہوں گے۔
Load Next Story