دوستی کا معیار اسلامی نقطہ نظر سے
اسلام نے ہمیں دوستی کا جو ضابطہ و اصول فراہم کیا ہے وہ صداقت پر مبنی ہے۔
انسانی زندگی پر دوست کے انتہائی گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جس طرح برے دوست کی سنگت انسان کو بُرائیوں پر آمادہ کرتی ہے اسی طرح نیک، صالح اور متقی دوست کی اچھائیوں کا اثر بھی اپنے دوست پر پڑتا ہے۔
دوسرے لفظوں میں صالح دوست کے ذریعے زندگی اسلامی سانچے میں ڈھلتی ہے اور بُرے دوست کی دوستی کی وجہ سے انسان تعلیمات اسلامی سے روگردانی اختیار کرتا ہے۔
دین اسلام نے روز اول ہی سے دوستی کا صحیح تصور ہمیں عطا فرمایا۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے: '' اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اہل صدق (کی معیت) میں شامل رہو۔'' ( التوبہ، 119)
گویا اسلام نے ہمیں دوستی کا جو ضابطہ و اصول فراہم کیا ہے وہ صداقت پر مبنی ہے۔ سرور کائناتؐ سے دریافت کیا گیا کہ بہترین ساتھی کون ہے؟ حضور اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا: '' وہ شخص بہترین دوست ہے کہ اگر تو نیک کا م سے غفلت کرے تو وہ تجھے تنبیہ کرے اور تیرے نیک کاموں میں تیری اعانت کر ے، اور بُرا دوست وہ ہے کہ اگر تو نیک کاموں سے غفلت کرے تو وہ تجھے متنبہ نہ کرے اور نیک کاموں میں تیری مدد نہ کرے۔''
سیدنا ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: '' سات آدمیوں کو اللہ اپنے سائے میں رکھے گا، جس دن سوائے اُس کے سائے کے اور کوئی سایہ نہ ہوگا۔ ۱۔ عادل حاکم ۲۔ وہ نوجوان جس کی جوانی اللہ کی عبادت میں گزری ۳۔ وہ شخص جس کا دل مسجدوں میں لگا رہتا ہو ۴۔ وہ دو اشخاص جو باہم صرف اللہ کے لیے دوستی کریں، جب جمع ہوں تو اسی کے لیے اور جب جدا ہوں تو اسی کے لیے ۵۔ وہ شخص جس کو کوئی منصب اور جمال والی عورت بدکاری کے لیے بلائے اور وہ یہ کہہ دے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اس لیے نہیں آسکتا ۶۔ وہ شخص جو چھپا کر صدقہ دے یہاں تک کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی معلوم نہ ہو کہ اس کے داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا ۷۔ وہ شخص جو خلوت میں اللہ کو یاد کرے اور اس کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو جائیں۔ (صحیح بخاری)
حضرت انسؓ روایت کر تے ہیں کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا: '' (قیامت کے روز) تو اسی کے ساتھ ہو گا جس سے تو نے محبت کی۔'' (صحیح مسلم)
حضرت ابوہریرہؓ روایت کر تے ہیں کہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: '' آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے لہٰذا ہر آدمی کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کسے اپنا دوست بنا رہا ہے۔'' (ترمذی)
قارئین کرام! آدمی وہی راستہ اختیار کرتا ہے جو اس کے دوست کا ہو تا ہے، اس لیے ہمیں صالح دوست کی سنگت اختیار کرنی چاہیے، کیوں کہ جن لوگوں نے دنیا میں بد کرداروں کے ساتھ دوستی رکھی ہوگی اُنہیں آخرت میں شرمندگی اور پچھتاوے کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ وہاں اُن کی زبانوں سے بے اختیار نکلے گا ''ہائے افسوس! کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہو تا۔'' ( الفرقان:27)
حدیث مبارکہ میں اچھے دوست کی علامتیں بھی بتا دی گئیں ہیں۔ حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ اچھا ہم نشیں وہ ہے جسے دیکھنے سے خدا یاد آئے اور اس کی گفت گو سے عمل میں زیادتی ہو اور اس کا عمل تمہیں آخرت کی یاد دلائے۔ نیک اور صالح دوست کی دوستی دنیا میں بھی سود مند ہوتی ہے، قبر میں بھی نیکو کار کی صحبت عذاب میں تخفیف اور درجا ت کی بلندی کا باعث ہوتی ہے۔ غرض کہ نیک صالح دوست کی رفاقت جنت کی راہ ہم وار کرتی ہے۔
نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: '' صالح آدمی کے پا س بیٹھنے والوں کی مثال اس شخص کی مانند ہے جو مشک والے کے پا س بیٹھا ہے۔ اگر مشک نہ بھی ملے تب بھی مشک کی خوشبو سے جسم معطر اور دماغ کو فرحت و سرور حاصل ہوگا اور برے دوست کی مثال آگ کی بھٹی جیسی ہے کہ اگر چنگاری نہ بھی پڑے تو دھواں سے دامن ضرور سیاہ ہو جا ئے گا۔ فرمان رسول اکرمؐ ہے کہ، ''برے ہم نشین کے مقابلے میں تنہائی بہتر ہے اور اچھے آدمیوں کی ہم نشینی تنہا ئی سے بہتر ہے۔'' (بیہقی شریف)
حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں، '' ایسے شخص سے دوستی کرو جو نیکی کر کے بھول جائے اور جو حق اس پر ہو وہ ادا کرے۔''
امام غزالیؒ کا ارشاد گرامی ہیں، ''جو دوست مشکل وقت میں کا م نہ آئے اس سے بچو کیوںکہ وہ تمہارا سب سے بڑا دشمن ہے۔'' شیخ سعدیؒ کا قول ہے، ''مجھے ایسے دوست کی دوستی پسند نہیں جو میری بُری عادتوں کو اچھا کہے، میرے عیب کو ہنر جا نے اور میرے کانٹوں کو گلاب و یاسمین کا نام دے۔''
قارئین کرام! ہمیں اپنی دوستی کا جائزہ لینا ہوگا۔ کیا واقعی ہماری دوستی ان اصول و ضوابط کا احاطہ کیے ہو ئے ہے جو اسلام نے ہمیں عطا کیے ہیں؟ کیا واقعی ہمارے احباب ہمیں نیکیوں کی ترغیب دیتے ہیں ؟ کیا واقعی ہمارے ہم نشین ہمیں گناہوں پر متنبہ کرتے ہیں؟ لہٰذا اپنے گردوپیش کا جائز ہ لیں اور ان کی دوستی اختیار کریں جو سچے، ایمان دار اور صالح ہوں۔
اگر ہمارے دوستوں میں مذکورہ بالا اوصاف حمیدہ موجود نہیں ہیں، تب ایسے دوستوں سے کنارہ کشی اختیار کرنا ہی ہمارے حق میں بہتر و مفید ہوگا مگر ساتھ ہی بہ حیثیت مسلمان ہمارا یہ بھی فریضہ ہے کہ ہم اُنہیں نیکی کی دعوت دیں تا کہ وہ راہِ راست پر آجائیں۔
دوسرے لفظوں میں صالح دوست کے ذریعے زندگی اسلامی سانچے میں ڈھلتی ہے اور بُرے دوست کی دوستی کی وجہ سے انسان تعلیمات اسلامی سے روگردانی اختیار کرتا ہے۔
دین اسلام نے روز اول ہی سے دوستی کا صحیح تصور ہمیں عطا فرمایا۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے: '' اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اہل صدق (کی معیت) میں شامل رہو۔'' ( التوبہ، 119)
گویا اسلام نے ہمیں دوستی کا جو ضابطہ و اصول فراہم کیا ہے وہ صداقت پر مبنی ہے۔ سرور کائناتؐ سے دریافت کیا گیا کہ بہترین ساتھی کون ہے؟ حضور اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا: '' وہ شخص بہترین دوست ہے کہ اگر تو نیک کا م سے غفلت کرے تو وہ تجھے تنبیہ کرے اور تیرے نیک کاموں میں تیری اعانت کر ے، اور بُرا دوست وہ ہے کہ اگر تو نیک کاموں سے غفلت کرے تو وہ تجھے متنبہ نہ کرے اور نیک کاموں میں تیری مدد نہ کرے۔''
سیدنا ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: '' سات آدمیوں کو اللہ اپنے سائے میں رکھے گا، جس دن سوائے اُس کے سائے کے اور کوئی سایہ نہ ہوگا۔ ۱۔ عادل حاکم ۲۔ وہ نوجوان جس کی جوانی اللہ کی عبادت میں گزری ۳۔ وہ شخص جس کا دل مسجدوں میں لگا رہتا ہو ۴۔ وہ دو اشخاص جو باہم صرف اللہ کے لیے دوستی کریں، جب جمع ہوں تو اسی کے لیے اور جب جدا ہوں تو اسی کے لیے ۵۔ وہ شخص جس کو کوئی منصب اور جمال والی عورت بدکاری کے لیے بلائے اور وہ یہ کہہ دے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اس لیے نہیں آسکتا ۶۔ وہ شخص جو چھپا کر صدقہ دے یہاں تک کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی معلوم نہ ہو کہ اس کے داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا ۷۔ وہ شخص جو خلوت میں اللہ کو یاد کرے اور اس کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو جائیں۔ (صحیح بخاری)
حضرت انسؓ روایت کر تے ہیں کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا: '' (قیامت کے روز) تو اسی کے ساتھ ہو گا جس سے تو نے محبت کی۔'' (صحیح مسلم)
حضرت ابوہریرہؓ روایت کر تے ہیں کہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: '' آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے لہٰذا ہر آدمی کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کسے اپنا دوست بنا رہا ہے۔'' (ترمذی)
قارئین کرام! آدمی وہی راستہ اختیار کرتا ہے جو اس کے دوست کا ہو تا ہے، اس لیے ہمیں صالح دوست کی سنگت اختیار کرنی چاہیے، کیوں کہ جن لوگوں نے دنیا میں بد کرداروں کے ساتھ دوستی رکھی ہوگی اُنہیں آخرت میں شرمندگی اور پچھتاوے کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ وہاں اُن کی زبانوں سے بے اختیار نکلے گا ''ہائے افسوس! کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہو تا۔'' ( الفرقان:27)
حدیث مبارکہ میں اچھے دوست کی علامتیں بھی بتا دی گئیں ہیں۔ حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ اچھا ہم نشیں وہ ہے جسے دیکھنے سے خدا یاد آئے اور اس کی گفت گو سے عمل میں زیادتی ہو اور اس کا عمل تمہیں آخرت کی یاد دلائے۔ نیک اور صالح دوست کی دوستی دنیا میں بھی سود مند ہوتی ہے، قبر میں بھی نیکو کار کی صحبت عذاب میں تخفیف اور درجا ت کی بلندی کا باعث ہوتی ہے۔ غرض کہ نیک صالح دوست کی رفاقت جنت کی راہ ہم وار کرتی ہے۔
نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: '' صالح آدمی کے پا س بیٹھنے والوں کی مثال اس شخص کی مانند ہے جو مشک والے کے پا س بیٹھا ہے۔ اگر مشک نہ بھی ملے تب بھی مشک کی خوشبو سے جسم معطر اور دماغ کو فرحت و سرور حاصل ہوگا اور برے دوست کی مثال آگ کی بھٹی جیسی ہے کہ اگر چنگاری نہ بھی پڑے تو دھواں سے دامن ضرور سیاہ ہو جا ئے گا۔ فرمان رسول اکرمؐ ہے کہ، ''برے ہم نشین کے مقابلے میں تنہائی بہتر ہے اور اچھے آدمیوں کی ہم نشینی تنہا ئی سے بہتر ہے۔'' (بیہقی شریف)
حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں، '' ایسے شخص سے دوستی کرو جو نیکی کر کے بھول جائے اور جو حق اس پر ہو وہ ادا کرے۔''
امام غزالیؒ کا ارشاد گرامی ہیں، ''جو دوست مشکل وقت میں کا م نہ آئے اس سے بچو کیوںکہ وہ تمہارا سب سے بڑا دشمن ہے۔'' شیخ سعدیؒ کا قول ہے، ''مجھے ایسے دوست کی دوستی پسند نہیں جو میری بُری عادتوں کو اچھا کہے، میرے عیب کو ہنر جا نے اور میرے کانٹوں کو گلاب و یاسمین کا نام دے۔''
قارئین کرام! ہمیں اپنی دوستی کا جائزہ لینا ہوگا۔ کیا واقعی ہماری دوستی ان اصول و ضوابط کا احاطہ کیے ہو ئے ہے جو اسلام نے ہمیں عطا کیے ہیں؟ کیا واقعی ہمارے احباب ہمیں نیکیوں کی ترغیب دیتے ہیں ؟ کیا واقعی ہمارے ہم نشین ہمیں گناہوں پر متنبہ کرتے ہیں؟ لہٰذا اپنے گردوپیش کا جائز ہ لیں اور ان کی دوستی اختیار کریں جو سچے، ایمان دار اور صالح ہوں۔
اگر ہمارے دوستوں میں مذکورہ بالا اوصاف حمیدہ موجود نہیں ہیں، تب ایسے دوستوں سے کنارہ کشی اختیار کرنا ہی ہمارے حق میں بہتر و مفید ہوگا مگر ساتھ ہی بہ حیثیت مسلمان ہمارا یہ بھی فریضہ ہے کہ ہم اُنہیں نیکی کی دعوت دیں تا کہ وہ راہِ راست پر آجائیں۔