جماعت اسلامی بالآخر خیبر پختونخوا حکومت سے الگ ہو گئی

ایم ایم اے کی بحالی کے چھ ماہ بعد جماعت اسلامی نے کے پی حکومت سے علحیدگی کی راہ اپنائی

ایم ایم اے کی بحالی کے چھ ماہ بعد جماعت اسلامی نے کے پی حکومت سے علحیدگی کی راہ اپنائی فوٹوفائل

KARACHI:
جماعت اسلامی بالآخر تحریک انصاف کا ساتھ چھوڑتے ہوئے خیبرپختونخوا حکومت سے الگ ہوگئی ہے،اگرچہ جماعت اسلامی کے حوالے سے کافی عرصے سے یہ اطلاعات تھیں کہ وہ حکومت سے الگ ہونے کے لیے پر تول رہی ہے تاہم پارٹی کے اندر اس بات پر اتفاق رائے نہیں ہو پا رہا تھا۔

یہی وجہ ہے کہ ایم ایم اے کی بحالی کے چھ ماہ بعد جماعت اسلامی نے کے پی حکومت سے علحیدگی کی راہ اپنائی، حالانکہ جے یوآئی (ف)اب بھی مرکزی حکومت کا حصہ ہے اور اس نے اب تک مرکز میں حکومت سے الگ ہونے کا فیصلہ نہیں کیا تاہم جماعت اسلامی نے یہ فیصلہ لے لیا ہے کیونکہ جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور ایم ایم اے کی حکومت کے درمیان قدرے وقفہ چاہتی تھی تاکہ نئی اننگ کھیلنے کے لیے تیار ہوسکے البتہ پانچ سالہ رفاقت کا احساس کرتے ہوئے ایک تو جماعت اسلامی غیرروایتی انداز میں حکومت سے الگ ہوئی ہے کیونکہ عموماً حکومتوں سے علیحدگی اچھے حالات میں نہیں ہوتی، تاہم جماعت اسلامی کے وزراء نے خوشگوار طریقے سے وزیراعلیٰ کے پہلو میں بیٹھ کر حکومت سے الگ ہونے کا اعلان کیا ۔

اورساتھ ہی جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈرعنایت اللہ خان کی جانب سے یہ اعلان بھی کیا گیاکہ چاہے بجٹ ہو یا کوئی بھی دوسرا مرحلہ اس میں وہ اپوزیشن کی بجائے حکومت کا ساتھ دے گی، گو کہ سینٹ انتخابات میں جماعت اسلامی نے اے این پی اور مسلم لیگ(ن)کے ساتھ اتحاد قائم کیا تھا تاہم حکومتی سطح پر وہ علیحدگی کے باوجود موجودہ اسمبلی کی آئینی مدت کے خاتمے تک تحریک انصاف کا ساتھ نبھاتی رہے گی۔

جس کا بڑا واضح مطلب ہے کہ آنے والے دنوں میں سپیکرصوبائی اسمبلی کے خلاف جمع شدہ عدم اعتماد کی تحریک پر جو کاروائی ہوگی اس میں جماعت اسلامی سپیکر اسد قیصر کو سپورٹ کرے گی، مذکورہ تحریک عدم اعتماد کو جمع کرانے کا اشارہ اپوزیشن جماعتوں نے اس وقت دیا تھا جب انہوں نے اسمبلی اجلاس کے لیے ریکوزیشن جمع کراتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ ڈپٹی سپیکر کے عہدے کے لیے الیکشن کا شیڈول جاری کیا جائے بصورت دیگر سپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی جائے گی، تاہم اب جبکہ تحریک جمع ہوچکی تو اپوزیشن جماعتیں اس سے پیچھے ہٹ رہی ہیں۔

اپوزیشن جماعتوں کا اس بات پر ضرور اتفاق تھا کہ وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش نہیں کی جائے گی کیونکہ یہ تحریک کامیاب ہونے کی صورت میں تحریک انصاف سیاسی فائدہ لے سکتی ہے اور اپوزیشن جماعتیں تحریک انصاف کو سیاسی شہادت کے مرتبے پر فائز کرنا نہیں چاہتی تھیں اس لیے پی ٹی آئی کو اسمبلی کے اندر حاصل حمایت کا معاملہ واضح کرنے کے لیے سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائے جانے پر اتفاق تھا۔


تاہم جب سابق صوبائی وزیر ضیاء اللہ آفریدی اور پیپلزپارٹی کے فخر اعظم وزیر نے تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تو اپوزیشن جماعتیں اب اس سے پیچھے ہٹ رہی ہیں کیونکہ مذکورہ تحریک جمع ہونے کے فوراً بعد سپیکر متحرک ہوگئے اور انہوں نے اپوزیشن لیڈر سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں کے پارلیمانی لیڈروں کے ساتھ رابطے کرتے ہوئے ان سے اس معاملے میں ان کا ساتھ دینے کی استدعا کی اور اپوزیشن قائدین کے دل سپیکر کے رابطوں کی وجہ سے موم ہوگئے جس کی وجہ سے ان سطورکوسپرد قلم کرتے وقت تک اپوزیشن بظاہر اپنے ارکان کی بجائے سپیکر کے ساتھ کھڑی نظر آرہی ہے۔

سیاسی میدان کی طرف دیکھاجائے تو تحریک انصاف، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) دونوں ہی کے لتے لیتے ہوئے دکھائی دیتی ہے تاہم خیبرپختونخوا اسمبلی میں صورت حال مختلف نظر آتی ہے اور ان دونوں جماعتوں کی پارلیمانی پارٹیاں کوئی سخت فیصلہ کرنے کی بجائے افہام وتفہیم کی راہ اپناتی دکھائی دیتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان پارٹیوں کی جانب سے سپیکر اسد قیصر کے خلاف تحریک سے بھی بچنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

تاہم تحریک کے محرکین اس بات پر مصر ہیں کہ جب ایوان میں تحریک پیش ہوگی تو اس وقت واضح ہو جائے گا کہ اس تحریک کے حق میں کتنے لوگ ہیں اور خفیہ رائے شماری میں ان کی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوگی اور ایسا تحریک انصاف کے ان ارکان کے بل بوتے پر کہا جا رہا ہے جنھیں تحریک انصاف کی قیادت نے سینٹ انتخابات میں مبینہ طور پر ووٹ فروخت کرنے کے الزامات کے تحت شوکاز نوٹس جاری کیے جو اپنے غصے اورجذبات کا اظہار سپیکر کے خلاف پیش کردہ تحریک عدم اعتماد پر کاروائی کے موقع پر کرسکتے ہیں۔ تاہم صورت حال 14مئی ہی کو واضح ہوگی جب اسمبلی اجلاس شروع ہوگا ۔

تحریک انصاف نے سینٹ انتخابات میں مبینہ طور پر ووٹ فروخت کے الزامات کے تحت20 ارکان کو شوکاز نوٹس جاری کیے تھے جن میں سے چھ نے ہی جواب دیا ہے جبکہ بقایا چودہ ارکان نے جواب دینا مناسب نہیں سمجھا، پی ٹی آئی قیادت یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ جن ارکان نے شوکازنوٹس کا جواب نہیں دیا انھیں پارٹی سے فارغ کردیا جائیگا جبکہ جن ارکان نے جواب دیا ہے ان کے جوابات پر غور کرتے ہوئے ان پر ہاتھ ہلکا رکھا جائے گا اور توقع ہے کہ جن چھ ارکان نے جواب دیا ہے انھیں ممکنہ طور پر پرانی پوزیشن پر بحال کر دیا جائے کیونکہ انہوں نے بہرکیف پارٹی ڈسپلن پر عمل درآمد کرتے ہوئے پارٹی قیادت کی جانب سے مانگا گیا جواب دیا ہے۔

اسی بات کو محسوس کرتے ہوئے شوکازنوٹس کا جواب نہ دینے والے ارکان نے اپنے لیے نئے ٹھکانے تلاش کیے اور چار ارکان پیپلز پارٹی، ایک (ق)لیگ اور ایک (ن)لیگ میں شامل ہو چکے ہیں جبکہ مسلم لیگ(ن)سے تعلق رکھنے والے وجیہہ الزمان جو پی ٹی آئی کے قریب ہو چکے تھے وہ بھی مسلم لیگ(ق)کا حصہ بن چکے ہیں جبکہ دیگر ارکان پی ٹی آئی قیادت کے فیصلے کے بعد نئے ٹھکانوں کا رخ کرینگے۔
Load Next Story