ووٹ ہم ہی کو دیجیے گا…
’’جائو تم کیا کرلو گے، اتنی بار مسند اقتدار پر بیٹھے تو ہمیں کیا ملا؟‘‘
ملک بھر میں ان دنوں سیاسی موسم زوروں پر ہے، الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا، بڑے بڑے اشتہارات، بڑے بڑے پوسٹرز اور ان سے بھی بڑے دعوے، یہ الگ بات ہے کہ ان وعدوں اور دعوئوں میں کہاں تک صداقت ہوگی، اس لیے کہ جب دل سوز سے خالی ہو تو اس کی مثال ایک زنگ آلود پنجرے سے زیادہ نہیں ہوتی جو سینے میں بے مصرف کسی پنڈولم کی طرح ہلتا ہی رہتا ہے۔
سیاست ہمارا میدان نہیں صحافت ہماری پہچان ہے، ہم نے بارہا چاہا کہ صحافت چھوڑدیں، مگر اس کا کیا کیجیے کہ یہ وہ اندھا کنواں ہے جہاں گرنے کے باوجود یہاں سے نکلنے کو جی نہیں چاہتا جب کہ فی زمانہ زیادہ تر صحافی معاشرے سے برائی کی صفائی کے عمل سے گزر ہیں، جو بڑے بڑے چینلوں میں تیکھے سوالات کرکے اطراف کے ماحول کو دلچسپ بنادیتے ہیں یا پھر وہ جو خاموشی سے قلم کے ذریعے جہاد کررہے ہیں۔ آج کل لوگ یہی کہتے سنائی دے رہے ہیں کہ یہ امیدوار جو کمر کس کر میدان میں اترے ہیں، کیا انھیں اس بات کا بھی یقین ہے کہ الیکشن ہوںگے اور اگر ہوںگے تو کامیاب ہوںگے، پر سکون ہوںگے، بغیر گولی اور گالی کے ہوںگے؟ ہمارا خیال ہے کہ برسوں تک جمی رہنے والی کیچڑ اسی موسم میں کام آتی ہے، جو برف کے گولوں کی طرح ایک دوسرے کے وجود پر برسائی جاتی ہے، ہر پارٹی کا ایک ہی نعرہ ہے کہ:
''ہم یہ کردیں گے، ہم وہ کردیں گے، ہم پاکستانی عوام کی قسمت بدل دیں گے''
جب کہ بے چاری عوام کے ہاتھوں سے تو قسمت کی لکیریں ہی مٹ چکی ہیں، ان کے ہاتھ صرف اپنے لیڈروں کی پرجوش تقاریر کے درمیان تالی بجانے کے کام آتے ہیں، حالانکہ وہ تالی بجاکر یہ بھی کہنے میں حق بجانب ہیں کہ:
''جائو تم کیا کرلو گے، اتنی بار مسند اقتدار پر بیٹھے تو ہمیں کیا ملا؟''
مگر یہ سادہ لوح اہل وطن جو زہر ہلال کو بھی قند کہنے پر مجبور ہیں، محض اس لیے کہ ان میں شعور نہیں، ادراک نہیں، سیاسی بصیرت نہیں، کھرے کھوٹے کی پہچان نہیں، رحمان کیانی مرحوم نے کہا:
سیدھی سی ایک بات ہے سچا اصول ہے
کھوٹے کو بار بار پرکھنا فضول ہے
مگر بعض عقل مند یہ بھی تو کہتے پائے گئے ہیں کہ کھوٹا سکہ بھی وقت پر کام آتاہے، اب ہم یہ کیسے مان لیں کہ کھوٹا سکہ کب اور کہاں کام آتاہے؟؟
برسوں کے تجزیے، تجربے اور تحقیق کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ دنیا کی سب سے بدترین شے ''پیسہ'' ہے جب کہ یہی بدترین چیز اسٹیٹس سمبل بھی ہے، یہی وہ چیز ہے جو آج کے معاشرے میں انسان کو عزت دلاتی ہے اور اس کی ساری برائیوں پر پردہ ڈال دیتی ہے، جو ایلیٹ کلاس اور برگر کلاس کو جنم دیتی ہے اور خدا کی زمین کو پوش اور بے پوش ایریاز میں تبدیل کردیتی ہے، بہر حال تو اس سیاست بھرے موسم میں ہر پارٹی اپنا منشور لارہی ہے، ان سنہری خوابوں کی تعبیر کا انتظار پاکستان کے عوام ساٹھ پینسٹھ سال سے کررہے ہیں، مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات نکلا۔
عام لوگوں کا خیال یہی ہے کہ کوئی آئے، کوئی جائے، ہمارے حالات جوں کے توں رہیںگے، سب سے بڑی قیمت جان کی ہوتی ہے تو وہ سڑک پر ہی نہیں گھر سے باہر بلاکر لے لی جاتی ہے، گولیاں ہیں کہ آوارہ ابابیلوں کی طرح منڈلارہی ہیں، بھتے کی پرچیاں، بجلی اور گیس کے بلوں کی طرح تواتر سے وصول ہورہی ہیں، بندوقوں، کلاشنکوفوں اور پستولوں کے منہ کھل چکے ہیں، دن کا اجالا ہو یا رات کا سناٹا، امان کہیں بھی نہیں، صبح گھر سے نکلنے والا ہر فرد آیت الکرسی اور درود کے سائے میں نکلتاہے اور شام گئے اس گھر کے افراد چوکھٹ سے ٹیک لگائے جانے والے خیریت سے واپسی کی دعائیں مانگتے ہیں۔
یہ ''سکون'' یہ ''بے فکری'' اب ہمارے وطن اور خاص طورپر روشنیوں کے اس شہر کا خاصہ بن گئی ہے، اس نابینا شہر میں رہنے والے چشم بینا رہنما کوشش بسیار کے باوجود دہشت گردوں کو نہ روک سکے، سڑکوں پر چیختے چلاتے بے ہنگم اور اعصاب شکن ٹریفک سے نفسیاتی اسپتال بھرتے جارہے ہیں، سی این جی کی بندش نے بسوں کی چھتوں کو آباد کردیا ہے۔ ڈبل سواری پر پابندی کے باوجود دہشت گردی جاری ہے، بات دراصل یہ ہے کہ اس ملک میں سب سے قیمتی جانیں وی وی آئی پیز کی ہیں جن کی شاہراہوں پر آمد پر محافظوں اور گاڑیوں کی قطاروں کا شامیانہ لگتا ہے، رہی عوام تو اس کا کیا ہے کم ہوتی جائے گی تو اس ملک کی آبادی بھی کم ہوجائے گی، ویسے بھی چھوٹا خاندان خوشحالی کی علامت ہے اور اگر گولیوں کے طفیل ہر خاندان چھوٹا ہوجائے گا تو بجلی کی مانگ، گیس کی ڈیمانڈ بھی اتنی نہ رہے گی، ٹریفک بھی بحال رہے گا۔
ہمارے سیاسی قائدین کے بڑے بڑے وعدے اپنی جگہ قابل احترام سہی مگر افسوس تو اس بات کا ہے کہ عوام کو سبز باغ دکھانے کے باوجود وہ ان کے دامن میں خزاں رسیدہ برگ و بار ہی ڈال سکتے ہیں، کیونکہ وہ جو کچھ سوچتے ہیں اپنے لیے ہی سوچتے ہیں۔ ایک منسٹر صاحب نے کسی پڑوسی سے کہا میں جب گاڑی میں بیٹھ کر باہر نکلتا ہوں اور لوگوں کو بسوں کی چھتوں پر بیٹھا اور دروازوں پر لٹکتا دیکھتاہوں تو مجھے اپنے آپ سے نفرت سی ہونے لگتی ہے، جی چاہتاہے ان سب کو گاڑیاں دے دوں، اب اگر ان سے کوئی یہ پوچھے کہ حضرت آپ کے گھر پر جو چھ سات سرکاری گاڑیاں کھڑی ہیں ان کا مصرف کیا ہے۔
ماسوائے اس کے کہ ایک بیگم کی شاپنگ کے لیے، ایک بڑے صاحبزادے کے دفتر کے لیے، ایک بہو کے لیے، ایک بیٹی کے کالج کے لیے اور بقیہ آپ کے نواسے، نواسوں، پوتے پوتیوں کی تفریح طبع کے لیے، تو وہ اس کا کیا کوئی معقول جواب دے سکیںگے؟جو جماعتیں عوام کی تقدیر بدلنے کی بات کرتی ہیں اور انھیں زندگی کی ہر سہولتیں ان کے دروازے پر پہنچانے کے وعدے کرتی ہیں اگر ان جماعتوں کا کردار دیکھا جائے تو وہ خود جاگیردار وں اور سرمایہ داروں کو ٹکٹ دیتی ہیں۔ ایسی جماعتیں جن کے امیدواروں کی ایک تعداد جاگیرداروں پر مشتمل ہے کیسے عوام کو جاگیرداروں کے چنگل سے نجات دلا سکتی ہیں۔
قومی خزانے سے اربوں کی ہیر پھیر، ٹیکس کی چوریاں، باہر کے ملکوں میں سرمایہ کاری، فیکٹریاں، ملیں، لگرژی فلیٹس، بنگلے، فارم ہائوس اور اب مزید مراعات میں اضافے کی منظوری آخر آپ کی کتنی نسلیں ان سے کہاں تک استفادہ کریںگی؟
آپ بہت بااختیار اور صاحب اقتدار سہی مگر آپ ووٹ لینے تو غریب عوام کے پاس ہی جاتے ہیں مگر یہ جانا بھی ایک طرح سے رسمی ہی ہوتا ہے، کیونکہ ماضی میں بیلٹ پیپر آپ کے کارندوں ہی کے تصرف میں ہوتا تھا، جہاں ٹھکا ٹھک مہریں ثبت ہوتی ہیں مگر یہ تصدیقی مہریں کاغذ پر نہیں دراصل آپ کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ بن جاتی تھیں، جس کے ''ثمرات'' بعد میں نظر آتے تھے۔
تبدیلی صرف رہنمائوں کے منشور سے نہیں آئے گی، عوام کے ووٹوں سے بھی نہیں آئے گی بلکہ عوام کی سوچ سے آئے گی، کیونکہ کرپشن صرف ایوانوں اور اعلیٰ مسند میں نہیں عوام میں بھی ہے، پوری قوم ''پیسے'' کے تعاقب میں ہے، سبزی فروش کو لیجیے، قصائی کو دیکھیے، رکشہ والوں پر نظر ڈالیے، سرکاری محکموں کے نچلے درجے کے ملازمین کو برتیے، ہمارا تو خیال ہے کہ سیاسی رہنمائوں اور قومی لیڈروں کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی دیانتدار اور امین ہونا پڑے گا، کیونکہ چور کا بھائی ہمیشہ گرہ کٹ ہی کہلاتا ہے۔
''ووٹ ہم ہی کو دیجیے'' کی التجا، استدعا، درخواست کے پیچھے آپ کی نیت کیا ہے، گویا ہم سو خون کریں، ملک کو معاشی، اخلاقی، سماجی برائیوں کی طرف لے جائیں، ملک کو دہشت گردوں کی بھینٹ چڑھائیں، اندھیروں کا دورانیہ بڑھائیں، گیس کے ذخائر بند کروائیں، خوردنی اجناس کی دسترس عوام سے باہر لے جائیں، تعلیم اور صحت کی مد میں لاکھوں کھا جائیں، خفیہ فنڈ سے مال کمائیں، آفات ارض و سماوی سے متاثرہ لوگوں کو تنہا چھوڑ جائیں مگر پھر بھی ووٹ ہم ہی کو دیجیے، کہ ہم ہیں محب وطن لیڈران!!