مفاہمت کی سیاست اور اس کا انجام

اس کی ایک بڑی وجہ ان کی گزشتہ پانچ سالہ کارکردگی ہے جو انھیں عوام کا سامنا کرنے سے روکے ہوئے ہے۔


Dr Mansoor Norani April 18, 2013
[email protected]

عجب صورتحال ہے کہ ممکنہ الیکشن میں اب تقریباً صرف تین ہفتوں کا وقت رہ گیا ہے لیکن وہ گرما گرمی اور وہ شور و غوغا کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہا جو اس سے پہلے پاکستانی سیاست کا خاصہ رہا ہے اور جس کی توقع کی جارہی تھی کہ عملی سیاست میں عمران خان فیکٹر کی شمولیت کے بعد ملک کے اندر اچھا خاصہ سیاسی دنگل مچے گا اور عوام کا جوش و خروش آنے والے الیکشن کو یاد گار بنا دے گا۔ اس کی ایک وجہ تو وہ خوف ، دھمکیاں اور خود کش حملے ہیں جو دہشت گردوں کی جانب سے ہماری کچھ سیاسی پارٹیوں کو ہراساں کیے ہوئے ہیں اور جس کی وجہ سے وہ کھلے بندوں اپنی سیاسی مہم نہیں چلا پا رہے ہیں۔

سابق حکمراں جماعت تو ابھی تک ایک بھی کوئی بڑا جلسہ نہیں کرپائی ہے۔ اگرچہ کہا گیا تھا کہ پارٹی کے جواں سال چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اس الیکشن مہم کی سرپرستی کریں گے اور بلا خوف و خطر وہ عوامی جلسوں سے خطاب بھی کریں گے مگر سیکیورٹی تھریٹ انھیں ایسا کرنے سے روکے ہوئے ہے۔ ان کے علاوہ پارٹی کے دیگر رہنماؤں اور لیڈر بھی تاحال عوامی تائید و حمایت سے لبریز کوئی درمیانی درجے کے جلسے کا اہتمام نہیں کر پائے ہیں۔ وہ بھی پارٹی قیادت کے حکم کے منتظر دکھائی دیتے ہیں اور پارٹی قیادت شاید فی الحال ایسا کرنے سے گریزاں ہے۔

اس کی ایک بڑی وجہ ان کی گزشتہ پانچ سالہ کارکردگی ہے جو انھیں عوام کا سامنا کرنے سے روکے ہوئے ہے۔ ان کے اکاؤنٹ میں عوامی فلاح و بہبود کا کوئی ایسا کارنامہ موجود نہیں ہے جس کے بل بوتے پر وہ عوام سے اگلے پانچ سال کے لیے ووٹ مانگ سکیں۔ البتہ اپنے سابقہ دور میں 200 فیصد مہنگائی اور 300 فیصد بے روزگاری میں اضافے کا عالمی ریکارڈ قائم کرنے والی اس پارٹی کے پاس اس کے نامہ اعمال میں کرپشن اور مالی بدعنوانیوں کے بڑے بڑے کارنامے ضرور درج ہیں اور جس کی وجہ سے اس کے دونوں سابقہ وزرائے اعظم اس الیکشن کے لیے نااہل قرار دیے جاچکے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی سابقہ گورنمنٹ کو اس کی تمام برائیوں، بداعمالیوں اور ناقص حکمت عملیوں کے باوجود اس کو پارلیمنٹ میں عددی سپورٹ فراہم کر نے والے تینوں بڑے اہم ستون آج عوام کا سامنا کرتے ہوئے مشکلات سے دوچار ہیں۔ سیاسی مفاہمت کے نام پر ذاتی مفادات کا جو کھیل پانچ سال تک جس ہوشیاری اور دانشمندی سے کھیلا جاتا رہا اور اٹھارہ کروڑ عوام کے مسائل سے صرف نظر کر تے ہوئے صرف اپنے اقتدار کے تسلسل اور تحفظ کو دوام بخشا جاتا رہا اس کا بہرحال کچھ نہ کچھ حساب تو دینا ہی پڑے گا۔ عوام پانچ سال تک سخت گرمی میں بجلی اور پانی سے محروم ہوکر بلبلاتے رہے۔

ہوشربا مہنگائی کا بار برداشت کرتے رہے۔ بیروزگاری اور غربت کے سبب خودکشیاں کرتے رہے لیکن حکمراں کو ذرا بھی احساس ملامت نہ ہوا اور وہ عوام کے خزانوں سے موج میلا کرتے رہے ۔ یہی وجہ ہے مسلم لیگ (ق) جسے بانی پاکستان کے نام سے موسوم کرکے اصل مسلم لیگ کا تاثر دیا گیا تھا اور وہ پرویز مشرف دور میں وفاق کے علاوہ چار میں سے تین صوبوں میں واحد حکمراں پارٹی بنی ہوئی تھی آج پیپلز پارٹی کی ہمنوا اور ہم نوالہ بننے کی پاداش میں سکڑ کر دس بارہ نفوس پر مختصر ہوکر رہ گئی ہے۔ اس کے باقی تمام ممبران آہستہ آہستہ اسے خیرباد کہتے ہوئے دوسری پارٹیوں میں جاچکے ہیں۔

بہت ممکن ہے کہ اس کا بچا کھچا وجود بھی شاید اگلے عام انتخابات میں ہوا میں تحلیل ہو جائے گا۔ اسی طرح اے این پی بھی اپنی سیاسی شناخت بچانے کی فکر میں صرف چند حلقوں تک محدود ہوچکی ہے اور قرائن و شواہد بتاتے ہیں کہ صرف دو تین سیٹوں کے علاوہ صوبہ سرحد سے اس بار اسے کچھ نہیں ملے گا۔ یہ سچ ہے اگر اس نے اپنے لوگوں کے لیے گزشتہ پانچ سال میں کچھ کیا ہوتا تو یہ انجام نہ ہوتا۔ مفاہمت کی کامیاب سیاست کی تیسری فریق ایم کیو ایم کا حال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے اور وہ بھی حکمراں گروپ کو طاقت اور اختیار بخشنے میں اتنی ہی ذمے دار رہی ہے جتنی کہ مسلم لیگ (ق) اور اے این پی، لہٰذا اسے بھی کامیابی کا اپنا سابقہ ریکارڈ بچانے کی فکر میں زبردست تگ و دو کرنی پڑرہی ہے۔

ویسے تو ملک کے اندر ایک عرصے سے دہشت گردی ہورہی ہے، یہ کوئی آج کا مسئلہ نہیں ہے۔ نان الیون کے واقعے کا خمیازہ جتنا ہماری قوم نے اٹھایا ہے دنیا کی کسی قوم نے نہیں اٹھایا ہے۔ ہمارے لاکھوں لوگ اس عالمی جنگ کا شکار ہو چکے ہیں، ہماری معیشت تباہ و برباد ہوچکی ہے۔ ہمارا نوجوان بیروزگاری کے اندھیروں میں کھو کر انتہائی مفلسی کے دن گزار رہا ہے۔ افسوس کہ ملک پر قابض حکمرانوں نے اس مسئلے کو کوئی خاص اہمیت نہ دی۔ وہ صرف اپنے اقتدار کو طول دینے کی فکر میں غرق رہے اور بچے کھچے مال پر ہاتھ صاف کرتے رہے۔

ملک کے سب سے بڑے شہر اور معاش و اقتصاد کے حب کراچی میں جب کوئی طالبان فیکٹر نہیں تھا، چوری ڈکیتی، چندہ اور بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ نے پرامن شہریوں کے زندگی اجیرن کر کے رکھ دی تھی، روز روز کی ہڑتالوں اور احتجاجوں کے سبب لوگ کاروبار اور معمولی سی دکان چلانے کے قابل بھی نہ رہے تھے لیکن کسی کو اپنی ذمے داریوں کا ذرہ بھر بھی احساس نہیں تھا۔ ایک دوسرے پر الزام تراشی میں پانچ سال گزار دیے۔ ہرچند روز بعد وزیر اعلیٰ ہاؤس میں تمام اتحادی پارٹیوں پر مشتمل ایک میٹنگ ہوتی اور گلے شکوے دور کرکے ایک دوسرے سے ہاتھ ملا لیے جاتے جس کا اثر چند روز بھی قائم نہ رہتا اور پھر وہی قتل و غارت گری غریب عوام کا مقدر بنی رہتی۔ اب یہ کام مبینہ طور پر طالبان نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے لہٰذا سابقہ تمام حریف متحد اور یک زباں ہوکر آہ و فغاں کررہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ طالبان کو اس قدر حوصلہ اور طاقت کس نے عطا کی۔ اگر ہم نے پہلے اپنے طور طریقے درست رکھے ہوتے اور اپنے شہر کو آگ اور خون میں نہیں نہلایا ہوتا تو شاید کسی کو اتنی ہمت نہ ہوتی کہ وہ یہاں اپنا کھیل شروع کر سکے۔ یہ ہمارے ملک کا ایک بڑا شہر ہے کوئی وزیرستان نہیں ہے جہاں لوگ پہاڑوں اور غاروں میں چھپ کر وارداتیں کرتے اور پھر غائب ہوجاتے ہیں۔ بات صرف نیت اور ارادوں کی ہے۔ جب عزائم مصمم اور ارادے پختہ ہوں اور نیت میں خلوص شامل ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ اپنے شہریوں کو اس عذاب سے نجات نہ دلائی جاسکے۔ ایسی مفاہمت اور سیاسی اتحاد کا کیا فائدہ جو صرف ایک شہر کے مسائل بھی حل نہ کرسکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |