دوسرا بھٹو

اور یہ بھی ہوا کہ طاقتور نڈر عدلیہ کے ہوتے ہوئے آزاد و مکمل خودمختار الیکشن کمیشن بن گیا۔

این اے 213 سے صدر آصف علی زرداری کی بہن عذرا پیچوہو الیکشن 2013 میں حصہ لے رہی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے انھیں ٹکٹ دیا ہے، مگر ہر طرف تبدیلی کا شور مچا ہوا ہے۔ الیکشن 2013 کو تبدیلی کا ذریعہ قرار دیا جارہا ہے۔ جب سے الیکشن کا باقاعدہ اعلان ہوا ہے۔ ایسے ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں کہ جو نہ پہلے کبھی ہوئے، اور نہ ہی ان واقعات کا تصور کیا جاسکتا تھا، مگر یہ ہوئے اور سب حیران و پریشان یہ سب کچھ ہوتا دیکھ رہے ہیں۔

آئین کی دفعات 62 اور 63 میں کاٹ چھانٹ کی ضرورت تھی، مگر اقتدار کے نشے میں چور حکمرانوں نے ان دفعات کی طرف دھیان ہی نہیں دیا کیونکہ جو کچھ ان دفعات میں لکھا تھا، ان پر عمل درآمد کبھی ہوسکتا ہے، ایسا تو حکمرانوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا اور یوں 63-62 جوں کی توں آئین میں پڑی رہ گئیں۔ عوام و خواص تک 63-62 بذریعہ مولانا طاہر القادری پہنچیں، جنہوں نے پانچ دن اور پانچ راتیں عین پارلیمنٹ کے سامنے ان دفعات کا ذکر جاری رکھا اور نتیجہ یہ نکلا کہ ایک فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کی طرف سے آئین میں داخل ہونے والی دفعات 63-62 کے مطابق جب عمل ہوا اور امیدواران الیکشن کے مسلمان ہونے کا امتحان شروع ہوا، تو ملک بھر میں خوب واویلا مچا اور کہا گیا کہ سیاست دانوں کی تذلیل ہورہی ہے، ان کی کردار کشی کی جارہی ہے۔

خیر یہ ہوا ۔ اور یہ بھی ہوا کہ طاقتور نڈر عدلیہ کے ہوتے ہوئے آزاد و مکمل خودمختار الیکشن کمیشن بن گیا اور پھر جعلی ڈگریوں والے بڑے بڑے مگر مچھ عدالتوں سے ہتھکڑیاں پہنا کر قید اور جرمانے کی سزاؤں کے ساتھ جیل بھیج دیے گئے۔ بہت سے جعلی ڈگری والے فرار ہوگئے اور بہت سے الیکشن کے میدان میں اترے ہی نہیں۔ پاکستان میں یہ واقعات اور یہ مناظر کبھی دیکھنے میں آئے ہی نہیں۔ یہ سب کچھ بالکل انہونا تھا۔ خیر اب صورت حال یہ ہے کہ سپریم کورٹ اور ذیلی عدالتیں، الیکشن کمیشن کو مکمل تحفظ فراہم کر رہی ہیں اور وقت اور حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے فوج نے بھی الیکشن کمیشن کے لیے اپنی مکمل خدمات پیش کردی ہیں۔

پاکستان میں بننے والی اس انتخابی فضا میں لگتا ہے کہ 1970 کے الیکشن کے بعد ایک بار پھر بڑے بڑے برج اکھڑ کر گرجائیں گے۔ ''تنگ آمد بجنگ آمد'' عام آدمی تبدیلی لانے کی سوچ لے کر آگے بڑھ رہا ہے۔ ایسا ہی ایک منظر سندھ کے شہر تعلقہ دوڑ کے گاؤں فراہم آباد دیہہ 76 میں رونما ہوا ہے۔ اخباری خبر کے مطابق دوڑ، ضلع بے نظیر آباد سے صوبہ سندھ میں این اے 213 پر صدر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ عذرا پیچوہو کے مقابلے میں ایک ہاری نے کاغذات جمع کرائے ہیں ۔ وجیہہ الدین ماچھی کا کہنا تھا کہ اسے شہید بھٹو کی جلسے میں کی گئی تقریر یاد ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ''بھٹو دو ہیں، ایک بھٹو وہ خود ہیں اور دوسرا بھٹو جلسے میں شریک عوام''۔ وجیہہ الدین ماچھی نے کہا کہ وہ غریبوں کے دوسرے بھٹو ہیں۔ اس کے پاس بڑی بڑی گاڑیاں نہیں ہیں اور نہ ہی دولت ہے۔


یہ خبر بھی تبدیلی کے سلسلے کی ایک مضبوط کڑی بن کر سامنے آئی ہے، انجام کچھ بھی ہو، نتیجہ کچھ بھی نکلے، یہ سب بے کار ہے۔ اصل کام ہوچکا، ماچھی انتخابات سے پہلے ہی جیت گیا۔ وجیہہ الدین ماچھی نے انقلاب کی بنیاد رکھ دی، اس نے اپنی بات یوں ختم کی ہے ''وہ خوش ہے کہ وہ صدر آصف علی زرداری کی بہن کے مدمقابل الیکشن لڑ رہا ہے اور میں کسی بھی صورت الیکشن سے دستبردار نہیں ہوں گا''۔ وجیہہ الدین ماچھی نے سہمے ہوئے لوگوں کو اذن کلام دیا ہے۔ الیکشن 20013 میں حصہ لینے والے انقلاب اور تبدیلی کے دعویدار کہاں ہیں؟ وجیہہ الدین ماچھی نے علم بغاوت بلند کردیا ہے۔ انقلاب اور تبدیلی کے دعویدارو! اس کے کندھے سے کندھا جوڑ کر کھڑے ہونے کے لیے دوڑو! کہ ''ہے وقت یہی یارو، ہونا ہے جو ہوجائے''۔ بھٹو شہید کے یہی الفاظ بے نظیربھٹو شہید نے بھی اپنے راولپنڈی کے آخری جلسے میں دہرائے تھے کہ ایک بھٹو میں ہوں، جو یہاں اسٹیج پر کھڑی ہوں اور دوسرے بھٹو تم عوام ہو، جو جلسہ گاہ میں کھڑے ہو۔

یہ بات بڑی بنیادی ہے ، یہ سوچ بڑی بنیادی ہے۔ بے نظیر بھٹو کو بھی منع کیا جارہا تھا کہ ''وہ پاکستان نہ آئے، اس کی جان کو خطرہ ہے''۔ خبر دینے والے بھی بہت ''اہم'' لوگ تھے، مگر سب کچھ جانتے بوجھتے بے نظیر بھٹو پاکستان آگئی اور ماری گئی۔ بے نظیر کے دشمن اس سے یہی کہتے تھے کہ ''آزادی کی بات نہ کر، لوگوں سے نہ مل'' مگر بے نظیر نہیں مانی اور وہ پاکستان آئی، آزادی کی بات کی، لوگوں سے ملی، حتیٰ کہ آخری جلسے کی رات کے آخری پہر تک بے نظیر بھٹو کو یہ خبر دی گئی کہ ''کل کے راولپنڈی والے جلسے میں مت جائیں، شدید خطرہ ہے'' مگر شہید بے نظیر بھٹو گئی اور جان دے دی اور بھٹو خاندان کے شہیدوں کی قبروں میں ایک اور اضافہ ہوگیا۔ ''ایک بھٹو میں ہوں، دوسرے بھٹو تم ہو'' یہ بھٹو شہید کیا کہہ گیا ہے؟ ذرا سوچیے! یہ جو دوسرا بھٹو ہے ناں! یہی اصل ہے، باقی سب نقال ہیں، بہروپیے ہیں، جو شہدائے بھٹو خاندان کو محض بیچ رہے ہیں۔

اب تو بہت ہوچکا، چاروں طرف جو صداؤں کا شور ہے، ناانصافیوں کے ماتم بھی عرصہ ہوا ختم ہوچکے، اب تو کچھ بھی نہیں بچا۔ ان حالات میں وجیہہ الدین ماچھی جیسے دیوانے ہم دکھیاروں کا سہارا بن کر بستر مرگ پر ذرا دیر کو خوشیاں فراہم کر رہے ہیں۔

بے نظیر آباد کے آس پاس آباد انقلابیو! ذرا خبر لو! کیونکہ موقع یہی ہے بلکہ شاید آخری موقع ہے۔ ماچھی کے حلقے میں ماچھی کی جیت کے گیت گاؤ، جشن مناؤ کہ ذوالفقار علی بھٹو شہید اور بے نظیر بھٹو شہید کے ''دوسرے بھٹو'' نے میدان مار لیا ہے۔ گلی گلی، قریہ قریہ، شہر شہر، انقلاب کی جوت لگاؤ، تبدیلی کے رنگ اچھالو کہ سونی راہیں رنگوں سے بھر جائیں۔ بھٹو شہید کے ماننے والو! بے نظیر شہید کے جاں نثارو! عوام کا بھٹو آیا ہے۔ اس کی سوچ کو سلام کرو، میں بھی سلام کرتا ہوں۔
Load Next Story