ہمارے بھولے بھٹکے سیاستدان
سیاست کی یہ نئی بیل کس منڈھے چڑھے گی اس کے بارے میں سیاستدان ہی بہتر جانتے ہیں۔
ہر حکمران کی طرح میاں نواز شریف نے اپنے اقتدار کو ہر بلا سے محفوظ رکھنے کے تمام اقدامات کر لیے تھے، اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ محمود خان اچکزئی، ایم کیو ایم اور ہر حکومت کے اتحادی مولانا فضل الرحمٰن بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑے تھے۔
آرمی چیف کا تقرر بھی کافی غور وخوض کے بعد کیا گیا تھا جب کہ عدلیہ کی جانب سے بھی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے ہی آرہے تھے، مشہور ومعروف دھرنے سے بھی مزید بچت ہو گئی تھی کہ اچانک بیچ میں پاناما لیکس کا معاملہ ٹپک پڑا جس نے سب کچھ الٹ پلٹ کر دیا اور گزشتہ ایک سال سے زیادہ عرصے سے اب تک جو کچھ ہوا وہ ہم سب کے سامنے ہے۔
میاں نواز شریف نے پاناما لیکس کے معاملے کو جس طرح ہینڈل کیا اس سے لگتا ہے کہ وہ اپنے اوپر پڑنے والی اس اچانک افتاد سے گھبرا گئے اور بغیر سوچے سمجھے اور کسی عقلمند دوست سے مشورہ کیے بغیر پاناما لیکس کے طوفان کا سامنا کرنے کے لیے بیچ میدان تن تنہا کھڑے ہو گئے۔
میاں صاحب نے اپنے دیرینہ رفقا کے مشورے کے خلاف پاناما لیکس کے معاملے کو عدالت میں لے جانے کا اعلان بھی کیااور پھر عدالت کے فیصلے پر بھولے میاں صاحب اور ان کی پارٹی نے مٹھائیاں بانٹیں کیونکہ ان کے درباری ان کو یہ باور کرا رہے تھے کہ وہ عدالت سے جیت چکے ہیں اس جیت کا نشہ اتنا تھا کہ انھوں نے ایک بار پھر من مانی کرتے ہوئے جے آئی ٹی کو تسلیم کر لیا حالانکہ وہ چاہتے تو شروع دن سے ان کو بطور وزیر اعظم یہ استثنا حاصل تھا لیکن وہ خود اعتمادی میں حد سے گزر گئے اور اس کو استعمال نہ کیا اگر اس وقت میاں صاحب درست فیصلہ کر لیتے تو جن حالات کا وہ آج شکار بن چکے ہیں ان سے محفوظ رہتے ۔
اسی لیے عقلمندوں نے یہ تک کہا ہے کہ اگر مشورہ کرنا ہو اور کوئی آس پاس موجود نہ ہوتو دیوار سے بھی مشورہ کر لینا چاہیے لیکن جہاں خود اعتمادی کا یہ عالم ہو کہ مطلق عنان حکمران ہوتے ہوئے کس کی جرات ہے کہ کوئی ان کا کچھ بگاڑ سکے تو پھر یہی ہوتا ہے جو آج کل میاں صاحب کے ساتھ ہو رہا ہے حالانکہ اگر وہ اپنا ماضی یاد رکھتے تو اس طرح کی بونگی نہ مارتے کیونکہ پہلے بھی دو دفعہ بھر پور اقتدار سے ان کو نکالا جا چکا تھا اور اس کے زخم ابھی مندل نہیں ہوئے تھے مگر کیا کیا جائے ان نادان درباریوں کا جنہوں نے نواز شریف کو اس خوش فہمی میں مبتلاء رکھا کہ ان کا کوئی بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور ہر طرف ستے خیراں ہی ہیں۔
مجھے میاں نواز شریف کے بھولپن کا شدت سے اس وقت احساس ہوتا ہے جب میں ابھی بھی ان کے ارد گرد انھی لوگوں کا جمگھٹا دیکھتا ہوں جن کی وجہ سے وہ ان حالات سے دو چار ہوئے ہیں۔
نواز شریف ایک نیک دل انسان ہیں لیکن اپنی اسی نیک دلی میں وہ شکار بن گئے جس کی وجہ سے ان کے چوہدری نثار جیسے دیرینہ دوست بھی ناراض ہوگئے جنہوں نے نواز شریف کا ہر گرم سرد سیاسی موسم میں ساتھ نبھایا مگر نواز شریف نے دوسری پارٹیوں سے آئے ہوئے کسی عوامی حلقہ کی سیاست کے بغیر ان سیاست دانوں کو اپنے قریب کر لیا جن کو عوامی نبض کا کبھی ادراک نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ وہ نہ تو کبھی عوام میں گئے اور نہ انھوں نے عوام کی نمایندگی کی بلکہ وہ تو نامزدگیوں کے سہارے ہی اپنے مشیرانہ کام چلاتے رہے اور ایسے ہی نادان مشیروں نے میاں نواز شریف اور ملکی سلامتی کے اداروں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کیں جن کی سزا میاں نواز شریف بھگت رہے ہیں، ایسے نادان مشیروں سے تو بہتر تھا کہ میاں صاحب اپنے چھوٹے بھائی صاحب کے مشوروں کو ہی مان لیتے تو آج بھی وزیر اعظم کی مسند پر متمکن ہوتے اور آیندہ الیکشن میں کامیابی کے لیے پر امید ہوتے لیکن اب صورتحال بالکل بدل چکی ہے اور جو کچھ کمی بیشی رہ گئی ہے وہ آیندہ چند ہفتوں میں نظر آجائے گی۔
میاں نواز شریف تیزی کے ساتھ اپنے قابل اعتماد ساتھیوں کو کھو رہے ہیں ۔چوہدری نثار کی سیاست اور ان کی پریس کانفرنسوں میںلایعنی گفتگو سے آپ لاکھ اختلاف کریں لیکن گزشتہ دنوں پریس کانفرنس میں انھوں نے میاں صاحب کے نظریاتی ہونے پر دکھ کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ تو شروع سے میاں صاحب کو نظریاتی سمجھتے تھے لیکن اب پتہ چلا ہے کہ وہ اب ہی نظریاتی ہوئے ہیں تو کیا ان کا نظریہ ان کے اتحادی محمود خان اچکزئی والا تو نہیں۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ محمود خان اچکزئی کا نظریہ کیا ہے وہ کتنے پاکستانی ہیں اور پاکستان سے ان کی محبت کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنی وصیت کے مطابق پاکستان میں دفن ہونا بھی پسند نہیں کرتے ۔
یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے میاں صاحب کو گھیرا ڈال کر ان کا نظریہ تبدیل کرا دیا حالانکہ میاںنواز شریف تو پاکستان میں دائیں بازوکی سیاست کے امین تھے انھوں نے جس سیاسی ماحول میں آنکھ کھولی اس میں بائیں بازو کی سیاست کی بالکل گنجائش نہیں تھی لیکن وقت کے ساتھ نواز شریف نہ صرف اپنے محسنوں کو بھول گئے بلکہ اپنے پاکستان مخالف سیاسی اتحادیوں کے نرغے میں آکر اپنی پاکستانیت کو ہی مشکوک کر بیٹھے جو کہ ان کی خوبی اور خصوصیت تھی۔
سیاست کی یہ نئی بیل کس منڈھے چڑھے گی اس کے بارے میں سیاستدان ہی بہتر جانتے ہیں کہ کس طرح انھوں نے سیاست کو آگے لے کر چلنا ہے لیکن میاںنواز شریف کو اپنا پاکستان مخالف بیانیہ بدلنا ہوگا یہ بیانہ ان کی شخصیت سے میل نہیں کھاتا اور صبح کا بھولا اگر شام کو گھر واپس آجائے تو اسے بھولا نہیں کہتے اور میاں صاحب کی دیانت اور امانت بلا شبہ ہے۔
آرمی چیف کا تقرر بھی کافی غور وخوض کے بعد کیا گیا تھا جب کہ عدلیہ کی جانب سے بھی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے ہی آرہے تھے، مشہور ومعروف دھرنے سے بھی مزید بچت ہو گئی تھی کہ اچانک بیچ میں پاناما لیکس کا معاملہ ٹپک پڑا جس نے سب کچھ الٹ پلٹ کر دیا اور گزشتہ ایک سال سے زیادہ عرصے سے اب تک جو کچھ ہوا وہ ہم سب کے سامنے ہے۔
میاں نواز شریف نے پاناما لیکس کے معاملے کو جس طرح ہینڈل کیا اس سے لگتا ہے کہ وہ اپنے اوپر پڑنے والی اس اچانک افتاد سے گھبرا گئے اور بغیر سوچے سمجھے اور کسی عقلمند دوست سے مشورہ کیے بغیر پاناما لیکس کے طوفان کا سامنا کرنے کے لیے بیچ میدان تن تنہا کھڑے ہو گئے۔
میاں صاحب نے اپنے دیرینہ رفقا کے مشورے کے خلاف پاناما لیکس کے معاملے کو عدالت میں لے جانے کا اعلان بھی کیااور پھر عدالت کے فیصلے پر بھولے میاں صاحب اور ان کی پارٹی نے مٹھائیاں بانٹیں کیونکہ ان کے درباری ان کو یہ باور کرا رہے تھے کہ وہ عدالت سے جیت چکے ہیں اس جیت کا نشہ اتنا تھا کہ انھوں نے ایک بار پھر من مانی کرتے ہوئے جے آئی ٹی کو تسلیم کر لیا حالانکہ وہ چاہتے تو شروع دن سے ان کو بطور وزیر اعظم یہ استثنا حاصل تھا لیکن وہ خود اعتمادی میں حد سے گزر گئے اور اس کو استعمال نہ کیا اگر اس وقت میاں صاحب درست فیصلہ کر لیتے تو جن حالات کا وہ آج شکار بن چکے ہیں ان سے محفوظ رہتے ۔
اسی لیے عقلمندوں نے یہ تک کہا ہے کہ اگر مشورہ کرنا ہو اور کوئی آس پاس موجود نہ ہوتو دیوار سے بھی مشورہ کر لینا چاہیے لیکن جہاں خود اعتمادی کا یہ عالم ہو کہ مطلق عنان حکمران ہوتے ہوئے کس کی جرات ہے کہ کوئی ان کا کچھ بگاڑ سکے تو پھر یہی ہوتا ہے جو آج کل میاں صاحب کے ساتھ ہو رہا ہے حالانکہ اگر وہ اپنا ماضی یاد رکھتے تو اس طرح کی بونگی نہ مارتے کیونکہ پہلے بھی دو دفعہ بھر پور اقتدار سے ان کو نکالا جا چکا تھا اور اس کے زخم ابھی مندل نہیں ہوئے تھے مگر کیا کیا جائے ان نادان درباریوں کا جنہوں نے نواز شریف کو اس خوش فہمی میں مبتلاء رکھا کہ ان کا کوئی بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور ہر طرف ستے خیراں ہی ہیں۔
مجھے میاں نواز شریف کے بھولپن کا شدت سے اس وقت احساس ہوتا ہے جب میں ابھی بھی ان کے ارد گرد انھی لوگوں کا جمگھٹا دیکھتا ہوں جن کی وجہ سے وہ ان حالات سے دو چار ہوئے ہیں۔
نواز شریف ایک نیک دل انسان ہیں لیکن اپنی اسی نیک دلی میں وہ شکار بن گئے جس کی وجہ سے ان کے چوہدری نثار جیسے دیرینہ دوست بھی ناراض ہوگئے جنہوں نے نواز شریف کا ہر گرم سرد سیاسی موسم میں ساتھ نبھایا مگر نواز شریف نے دوسری پارٹیوں سے آئے ہوئے کسی عوامی حلقہ کی سیاست کے بغیر ان سیاست دانوں کو اپنے قریب کر لیا جن کو عوامی نبض کا کبھی ادراک نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ وہ نہ تو کبھی عوام میں گئے اور نہ انھوں نے عوام کی نمایندگی کی بلکہ وہ تو نامزدگیوں کے سہارے ہی اپنے مشیرانہ کام چلاتے رہے اور ایسے ہی نادان مشیروں نے میاں نواز شریف اور ملکی سلامتی کے اداروں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کیں جن کی سزا میاں نواز شریف بھگت رہے ہیں، ایسے نادان مشیروں سے تو بہتر تھا کہ میاں صاحب اپنے چھوٹے بھائی صاحب کے مشوروں کو ہی مان لیتے تو آج بھی وزیر اعظم کی مسند پر متمکن ہوتے اور آیندہ الیکشن میں کامیابی کے لیے پر امید ہوتے لیکن اب صورتحال بالکل بدل چکی ہے اور جو کچھ کمی بیشی رہ گئی ہے وہ آیندہ چند ہفتوں میں نظر آجائے گی۔
میاں نواز شریف تیزی کے ساتھ اپنے قابل اعتماد ساتھیوں کو کھو رہے ہیں ۔چوہدری نثار کی سیاست اور ان کی پریس کانفرنسوں میںلایعنی گفتگو سے آپ لاکھ اختلاف کریں لیکن گزشتہ دنوں پریس کانفرنس میں انھوں نے میاں صاحب کے نظریاتی ہونے پر دکھ کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ تو شروع سے میاں صاحب کو نظریاتی سمجھتے تھے لیکن اب پتہ چلا ہے کہ وہ اب ہی نظریاتی ہوئے ہیں تو کیا ان کا نظریہ ان کے اتحادی محمود خان اچکزئی والا تو نہیں۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ محمود خان اچکزئی کا نظریہ کیا ہے وہ کتنے پاکستانی ہیں اور پاکستان سے ان کی محبت کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنی وصیت کے مطابق پاکستان میں دفن ہونا بھی پسند نہیں کرتے ۔
یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے میاں صاحب کو گھیرا ڈال کر ان کا نظریہ تبدیل کرا دیا حالانکہ میاںنواز شریف تو پاکستان میں دائیں بازوکی سیاست کے امین تھے انھوں نے جس سیاسی ماحول میں آنکھ کھولی اس میں بائیں بازو کی سیاست کی بالکل گنجائش نہیں تھی لیکن وقت کے ساتھ نواز شریف نہ صرف اپنے محسنوں کو بھول گئے بلکہ اپنے پاکستان مخالف سیاسی اتحادیوں کے نرغے میں آکر اپنی پاکستانیت کو ہی مشکوک کر بیٹھے جو کہ ان کی خوبی اور خصوصیت تھی۔
سیاست کی یہ نئی بیل کس منڈھے چڑھے گی اس کے بارے میں سیاستدان ہی بہتر جانتے ہیں کہ کس طرح انھوں نے سیاست کو آگے لے کر چلنا ہے لیکن میاںنواز شریف کو اپنا پاکستان مخالف بیانیہ بدلنا ہوگا یہ بیانہ ان کی شخصیت سے میل نہیں کھاتا اور صبح کا بھولا اگر شام کو گھر واپس آجائے تو اسے بھولا نہیں کہتے اور میاں صاحب کی دیانت اور امانت بلا شبہ ہے۔