معصوم کلیوں کو کب تک کچلا جائے گا

زینب کے ملزم کی گرفتاری اور سزا کے بعد حکومت اور انسانی حقوق کی آواز بلند کرنے والی تنظیمیں بھی خاموش ہوگئی۔


رشید جمال May 10, 2018

پنجاب کے شہر قصور میں معصوم زینب کے ساتھ جنسی زیادتی اور پھر بھیانک قتل،کسی معصوم بچی کو ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کرنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں تھا۔

ایک سال میں اس علاقے میں ہونے والا یہ اس طرز کا بارہواں واقعہ تھا، مگر سپریم کورٹ کے سو موٹو ایکشن اور میڈیا کے شور مچانے پریہ ممکن ہو ا کہ وفاقی اور صوبائی حکومت کی کوششوں کے ساتھ ساتھ خفیہ اداروں کی بھر پور معاونت کے نتیجے میںمعصوم زینب کا قاتل پکڑا گیا، مجرم کی گرفتاری اور ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد پولیس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ قصور میں اس طرح کی دیگر واداتوں میں یہی شخص ملوث تھا۔

اس ہائی پروفائل کیس کے بعد امید یہی کی جا رہی تھی کہ بچیوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کرنے والوں کے خلاف سخت سزاؤں کا قانون بنایا جا ئے گا تاکہ اس طرح کی شیطانی جرم میں ملوث شیطانوں کو سخت سے سخت سزائیںدی جائیں گی۔ شاید سخت سزاؤںکے خوف سے اس طرح کے جرائم میں کمی واقع ہوسکے۔

زینب کے ملزم کی گرفتاری اور سزا کے بعد حکومت اور انسانی حقوق کی آواز بلند کرنے والی تنظیمیں بھی خاموش ہوگئی۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ زینب کیس کو ماڈل بناتے ہوئے وفاقی حکومت قانون میں تبدیلیاں لاتیں، جب کہ انسانی حقوق کی علم بردار تنظیمیں قانون سازی میںحکومت کی مدد کرتیں مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔حکومت کی عدم توجہی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک بھر میں بچوں کے اغوا، ان سے زیادتی کے بعد قتل کرنے کے واقعات میںاضافہ ہوگیا۔

پاکستان میں بچوں اور خواتین کے ساتھ جنسی تشدد اور زیادتی کا نشانہ بنانے کا اندازہ ان اعدادوشمار سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق سال 2017ء کے دوران1465 خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ،جس میں نصف سے زائد یعنی769 نو عمر بچیاں تھیں۔ قومی اسمبلی کو بتایا گیا ہے کہ ملک کے چاروں صوبوں میں گزشتہ پانچ سال کے دوران بچوں سے زیادتی کے 17862 واقعات رپورٹ ہوئے۔ جس میں سے 10620 واقعات میں لڑکیوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ اعداد و شمار وہ ہیں۔

جس کا انداج ممکن ہوسکا، اس سے کئی گناہ زیادہ اسے واقعات ہیں جو اندراج سے محروم رہتے ہیں خواتین ان واقعات کو سماج کا جبر اور اپنا نصیب سمجھ کر خاموش ہوجاتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں روزانہ 11 بچے جنسی زیادتی کا شکار بنتے ہیںجب کہ 2016ء کے دوران بچوں سے جنسی زیادتی اور تشدد کے واقعات میں دس فیصد اضافہ ہوا ہے۔گزشتہ سال بھی بچوں پر تشدد کرنے والوں میں زیادہ تعداد ان افراد کی تھی جو بچوں کو جانتے تھے۔ ان کی تعداد 1765 ہے۔

سال 2016ء میں پاکستان کے دیہی علاقوں سے 76 فیصد جب کہ شہری علاقوں سے 24 فیصد واقعات رپورٹ ہوئے ۔ ان میں زیادتی کے واقعات کی شرح کچھ یوں رہی پنجاب میں 2676، سندھ میں 987، بلوچستان میں 166، اسلام آباد میں 156، خیبر پختونخوا میں 141، پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں 9، اور گلگت بلتستان سے 4 واقعات رپورٹ ہوئے ۔

اخباروں سے حاصل ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق بچوں کے ساتھ زیادتی اور تشدد کے سب سے زیادہ واقعات صوبہ پنجاب میں پیش آئے ہیں۔ضلع قصور جو 2015ء میں ویڈیو اسکینڈل کی وجہ سے خبروں میں رہا وہاں 2016ء میں بچوں کے ساتھ زیادتی اور جنسی تشدد کے بعد قتل کرنے کے 99 کیسز سامنے آئے ۔ ایک اور این جی او کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2017ء کے پہلے چھ ماہ کے دوران بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 768 واقعات پیش آئے جن میں سے 68 ضلع قصور سے رپورٹ ہوئے۔

خواتین اوربچیوں کوجنسی تشدد کا نشانہ بنانا صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ دیکر جرائم کی طرح یہ جرم بھی دنیا بھر میں پنپ رہا ہے دنیا بھر میں ہر تین میں سے ایک عورت ظلم و زیادتی کا شکار ہے۔ عالمی اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی رپورٹوں کے مطابق دنیا کے بیش تر غیر مسلم ممالک میں 15 تا 44 سال کی عورتوں و لڑکیوں کو جنسی اور گھریلو تشدد کا سامنا ہے۔

آسٹریلیا، کینیڈا، اسرائیل، ساؤتھ افریقا اور امریکا میں چالیس تا ستر فی صد عورتیں اپنے والدین یا سر پرستوں کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہوکر قتل ہوجاتی ہیں۔ غیر مسلم آبادی والے ملکوں میں گزشتہ دس سال کے دوران ہر چھ روز بعد سیکڑوں عورتیں اغواء اور زیادتی کے بعد قتل کردی گئی ہیں۔ صرف روانڈا میں 1994ء کے دوران ڈھائی لاکھ سے پانچ لاکھ عورتیں جنسی زیادتی کا شکار ہوئی ہیں، جب کہ 1990ء کے شروع میں 20 ہزار تا 50 ہزار عورتیں بوسنیا میں اسی ظلم کا شکار ہوچکی ہیں۔ کینیڈا، نارتھ امریکا اور آسٹریلیا میں قتل کے واقعات میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ حال ہی میں بھارتی کنٹرول کے قصبے کھوٹہ میں ایک آٹھ سالہ بچی کو اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردینے کے واقعے کے خلاف بین الاقوامی پیمانے مذمت کی جارہی ہے۔

جن ممالک میں اس طرح کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے وہاں کی حکومتوں نے ان جرائم کو روکنے کے لیے حکمت عملی اور قانون بنائے ہیں ۔ جس کی ایک مثال ترکی میں بچوں سے زیادتی کے واقعات میں تیزی سے اضافے کے خلاف قانون سازی ہے عوامی دباؤ کے نتیجے میں ترک حکومت نے جنسی زیادتی میں ملوث افراد کی ''کیمیائی تھراپی'' کے ذریعے جنسی بھوک کو ختم یا کم کردینے کی سزا پر عمل درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

جنسی درندگی میں ملوث ملزم کو جنسی بھوک سے محروم کرنے کے لیے کیمیائی عمل اپنایا جائے گا تاہم یہ جج کی صوابدید پر ہوگا کہ ملزم کی جنسی خواہش کو مکمل طور پر ختم کیا جائے یا صرف جنسی اشتہا میں کمی کے لیے ٹریٹمنٹ کی جائے۔ حال ہی میں بھارت میں 12 سال سے کم عمر بچوں سے زیادتی کے مرتکب مجرموں کے لیے سزائے موت اور16 سال سے کم عمر بچیوں سے زیادتی کے مجرم کے لیے کم سے کم سزا 10 سال سے بڑھا کر 20 سال کرنے کا آرڈیننس منظور کرلیا گیا ہے ۔ بھارت نے یہ اقدام ملک میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور ان کی روک تھام کے پیش نظر کیا ہے۔

زینب واقعے کے بعد بھی ہم نے کوئی سبق نہ سیکھا اس واقعے کے بعد بھی ناجانے کتنے معصوم کلیوں کو بے دردی سے کچلا گیا ہے۔ زینب جیسی مظلوم بچیوں کا ناحق خون اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ پاکستان میں بچوں کے تحفظ کا جامع قانون بنایا جاتا ۔ چیف جسٹس آف پاکستان سے درخواست ہے وہ اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کریں اور پارلیمنٹ فوری طور پر قانون سازی کرے۔ پاکستان کے طول وعرض میں آئے روز معصوم بچوں کا اغوا، جنسی تشدد او بہیمانہ قتل ہو رہا ہے۔ ملک بھر میںکم عمر بچیوں سے زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات انتہائی تشویشناک ہیں۔

ان کی روک تھام کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے جہاں مجرموں کو سخت سزائیں دے کر عبرت کا نشان بنانے کی ضرورت ہے، وہاں سماجی اور نفسیاتی عوامل کا کھوج لگانا بھی ضروری ہے۔ ہمارا سماج، سوسائٹی اورمعاشرہ تیزی سے بے راہ روی اور ہوسناکی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ مجرموں کو فوری طور پر سخت سے سخت سزائیں سرعام دی جائیں شاید اس طرح ایسے جرائم کا انسداد ہو سکے۔ اس میں شک نہیں کہ جرائم کی روک تھام میں سخت سزائیں اہم کردار ادا کرتی ہیں لیکن اس کے ساتھ جہالت اور بیروزگاری کا خاتمہ اور لوگوں کی ذہنیت اور سوچ کو بدلنا بھی ضروری ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں