جاگو
ہم تصویر کا اچھا رخ دیکھنے کے عادی ہیں، دعا ہے کہ وہ اچھا رخ ہی ہمارے ملک کا رخ بن جائے۔
پاک افغان بارڈر پر شدت پسندوں نے فائرنگ کی ، جس سے سیکیورٹی فورسز کا ایک جوان شہید ہوگیا تھا جب کہ جوابی فائرنگ سے تین شدت پسند ہلاک ہوگئے تھے۔ یہ علاقہ مہمند ایجنسی کے نزدیک کا سرحدی علاقہ شیخ بابا میانی تھا جہاں یہ کارروائی کی گئی صرف یہی نہیں بلکہ اس قسم کی کارروائیاں تو ہوتی ہی رہتی ہیں۔ اسی طرح پاکستان کے وہ سرحدی علاقے جو بھارت کے نزدیک ہیں اکثر بھارتی افواج کی اشتعال انگیزی سے خبروں میں رہتے ہیں۔
چند روز پہلے ہی بھارتی فوج نے ایل او سی پر بلااشتعال فائرنگ کی گاؤں براملہ پر اینٹی ٹینک میزائل بھی داغے گئے جن سے دو شہری شہید اور دو شدید زخمی ہوئے۔ آئے دن ان بلااشتعال فائرنگ اور بمباری کے نمونے نظر آتے رہتے ہیں جن سے بھارتی افواج کی شر انگیزی اور ان کے بے ضمیر ہونے کا ثبوت ملتا ہے کہ جس سے وہ معصوم شہریوں کو بھی نہیں بخشتے۔
ایران کی جانب دیکھیے تو ایران اور پاکستان کی سرحد کے علاقوں میں پہلے بھی کچھ مشکوک و مفرور لوگوں کی وجہ سے حالات کشیدہ رہے ہیں خاص کر جند اللہ کے معاملے میں۔ یہ معاملات خاصے گمبھیر رہے تھے۔ ایسا نہیں ہے کہ پاکستان اپنی سرحدوں سے ملحق ممالک کی شرانگیزی سے محفوظ رہا ہے یہاں ایک ہاتھ دوستی کا تو دوسرے ہاتھ میں بم تھام کر بات کی جاتی ہے جس کا نشانہ مظلوم و معصوم عوام ہی بنتے ہیں۔
گوادر کی ترقی کے حوالے سے پاکستان اور چین دونوں بہت پرعزم ہیں۔ یہ ایک ایسا علاقہ ہے جس کے ہاتھ میں ہماری قوم کے مستقبل کی چابی ہے لیکن یہاں بھی حالات کو بد نما اور بھدا کر دینے کے لیے بہت سے ان دیکھیے ہاتھ سرگرداں ہیں اس طرح کچھ ہو نہ ہو پاکستان کے امیج کو گندہ کرنے کے لیے جان توڑ کوششیں کی جا رہی ہیں جس کی مثال میں وہ ٹیکسیاں، پوسٹرز اور بینرز ہیں جو وقتاً فوقتاً پاکستان کو ظالم ثابت کرنے کے لیے نظر آتے رہے ہیں اس کے دوسری جانب لندن میں وہ سرخ رنگ کی بسیں بھی چلتی نظر آئیں جن پر گوادر اور آگے بڑھتے پاکستان کا دروازہ تحریر تھا۔ پاکستان کے مہربان دشمن اپنی تمام تر توانائیاں لگا کر پاکستان میں دہشتگردی کے مذموم منصوبے بناتے رہتے ہیں۔
اس بات کا کیا مقصد ہے کیا پاکستان کو بدنام کرنے کی تحریک کسی خاص مقصد کے لیے ہے یا روایتی حریف کے حسد یا جلن کا مظہر ہے۔ حال ہی میں ایک پاکستانی نوجوان کی گفتگو سن کر اندازہ ہوا کہ پاکستان سے دور رہنے والے لوگوں کے دلوں میں کس طرح اپنے ہی وطن کے خلاف لاوا پکانے کی ترکیبیں استعمال کی جا رہی ہیں جن سے اپنے ہی لوگوں کے اندر نفرت اور غم و غصے کی آگ جل رہی ہے اس کا ذمے دار کون ہے۔
کیا وہ سیاستدان جو اپنے ملک میں کچھ نہ کرو اور سب کچھ کھا جاؤ پر عمل کرکے آرام سے آنکھیں موندے گہری سوچ میں پڑے ہیں یا وہ کرپشن میں لتھڑے افسران جنھیں سوائے اپنی جیبیں اور اکاؤنٹس کو بھرنے کے اور کچھ نہیں سوجھتا، مختلف سسٹم کے تحت جن لوگوں کو دور دراز کے گاؤں اور قصبوں میں اٹھا کر ٹھنڈے کمروں میں نرم کرسیوں پر بٹھا دیا جاتا ہے۔
وہ اپنے ہی ہم وطنوں کے ساتھ کس طرح حقارت کا سلوک کرتے ہیں کہ جیسے یہ افسر گیری انھیں خاندانی وراثت میں ملی ہو، پڑھے لکھے نوجوان اپنی ڈگریوں میں چنا جورگرم کھائیں اور چند عناصر اپنے نظام کے تحت بٹیریں اڑائیں۔ کیا ہم ان منافق قسم کے مذہبی طبقے کو اس کا الزام دے سکتے ہیں جو صرف اپنے نظریات دوسروں پر تھوپنے کو مسلمان اور ہم سیدھے راستے پر گامزن ہیں کے مقولے پر عمل کرتے ہیں۔
دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہمیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہے کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں سچائی کے راستے پر یا منافقت کے دلدلی راستے پر۔ پاکستان کی کہانی تو صرف ستر سال کی ہے آپ ذرا تاریخ اٹھا کر دیکھیے کیسی کیسی عظیم حکومتیں مٹ گئیں۔ اہل خان کی حکومت دیکھیے۔ اس نے ڈیڑھ دو سو سال حکومت کی پر آج کہاں ہے۔
اس کی حکومت۔ عراق، ایران سے لے کر آپ کے سرحدی علاقوں تک کیا عالی شان حکومت تھی اس کی۔ پر آج کوئی نام بھی نہیں لیتا۔ اہل خان سے مراد کیا ہے؟ بھئی چنگیز خان۔ یہ ہلاکو خان وغیرہ کیا نام تھا ان کا۔ یہاں پر بہت سے لوگ آتے ہیں جن کا تعلق ہزارہ برادری سے ہوتا ہے پاکستان میں کیا ہو رہا ہے ان کے ساتھ دیکھیے نا۔ ان کو قتل کیا جاتا ہے مارا جاتا ہے یہ سب اسی نسل سے تو ہیں یہ آسٹریلیا جانا چاہتے ہیں بے چارے پاکستان سے بچ کر آتے ہیں یہاں ہالینڈ میں اور پھر یہاں سے آسٹریلیا جاتے ہیں۔
کیا ہو رہا ہے پاکستان میں۔ کیا ترقی کی ان ستر سالوں میں پاکستان نے۔ ترقی تو ہوئی ہے لیکن ذرا کرپشن کی وجہ سے مسائل ہیں فنڈز وغیرہ تو ہوتے بھی ہیں لیکن میں بتاؤں پاکستان اپنے تمام پیسوں کو ایران، انڈیا اور افغانستان میں دہشتگردی کرنے پر استعمال کرتا ہے۔ ارے نہیں نہیں ایسا نہیں ہے۔ پاکستان میں تو بڑی دہشتگردی ہوئی ہے۔
میں صحیح بتا رہا ہوں یہاں سب یہی کہتے ہیں آپ کسی سے بھی بات کرلیں وہ یہی کہے گا کہ پاکستان اپنے پڑوسی ملکوں میں دہشتگردی کراتا ہے۔ یہاں لوگ آتے ہیں اپنا کماتے ہیں آرام سے اپنی زندگی گزارتے ہیں میں تو کسی کو بتاتا بھی نہیں کہ میں پاکستانی ہوں۔ اچھا تو پھر آپ کیا کہتے ہیں کہ آپ کون ہیں؟ میں کہتا ہوں کہ میں انڈین ہوں۔ایک قہقہہ بلند ہوا۔
لیکن یہ تو غلط ہے آپ تو پاکستان میں پیدا ہوئے ہیں یہاں پلے بڑھے۔ بھئی میں کہتا ہوں کہ میرے والدین غلطی سے پاکستان آگئے تھے اور میں اپنے آپ کو کہتا ہوں کہ میں برصغیر کا رہنے والا ہوں ویسے بھی یہاں پاکستان کو ذرا لوگ کم جانتے ہیں ایک صاحب یہاں آئے ایسے ہی ملاقات ہوگئی وہ لاہور کی کسی یونیورسٹی یا کالج میں پڑھاتے تھے کہنے لگے آپ انڈین ہوکیا؟ میں نے کہا جی میں انڈین ہوں، لیکن میں پیدا پاکستان میں ہوا ہوں، وہ ذرا حیران ہوئے پھر میں نے انھیں تفصیل سے سمجھایا تو کہنے لگے یار یہ تو ہے۔
اب بتائیے کہ میں کہاں غلط ہوں۔ لیکن اس طرح کا جھوٹ تو گناہ ہوا نا؟ ارے آپ کیا بات کرتے ہیں۔ یہاں بہت سے ایسے پاکستانی ہیں جو یہاں آکر بالکل بدل جاتے ہیں ان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا کیونکہ یہ تو ایک سیکولر ملک ہے ان کا مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے تو یہ پسند بھی نہیں کرتے کہ لوگ اپنا مذہب تبدیل کریں۔ ہاں جب یہ پاکستان جاتے ہیں تو ڈرتے ہیں کہ کہیں کوئی ان کو مار نہ دے۔ کوئی پاکستان میں بتا نہ دے کہ انھوں نے کیا کیا ہے۔ اور پاکستان کی کہانی تو۔۔۔!
ہم تصویر کا اچھا رخ دیکھنے کے عادی ہیں، دعا ہے کہ وہ اچھا رخ ہی ہمارے ملک کا رخ بن جائے لیکن حقیقت کی نظر سے ہم بچ نہیں سکتے ہم اپنے بچوں، نوجوانوں اور نئی نسل کو کس جانب دھکیل رہے ہیں، فرقہ واریت، تعصب اور اقربا پروری نے بہت دکھ دیے ہیں اس قوم کو۔ دعا ہے کہ ہم جلد ہی غفلت کی نیند سے جاگ جائیں۔( آمین)