ساحلی محافظ خطرے میں
حیاتیاتی تنوع سے مالامال پاکستان کی ساحلی پٹی جو ملک کی معاشی ترقی کا سب سے بڑا ذریعہ بن سکتی تھی۔
مینگروز جنھیں تمر بھی کہا جاتا ہے، اس کے جنگلات سمندری ساحلوں پر واقع ہوتے ہیں۔ معروف تحقیق کار مارتھا دینوسی اپنی کتاب The Mangrove and Us میںطویل تحقیق کے بعد لکھتی ہیں کہ مینگروز کا لفظ سینگال کی قومی زبان سے اخذ کیا گیا ہے، جسے پرتگالیوں نے سب سے پہلے اپنایا اور بعد میں ہسپانیوں نے مغربی افریقہ کے ساحلوںکی تلاش کے دوران اپنے حساب سے اس میں رد و بدل کرنے کے بعد استعمال کرنا شروع کیا۔
ہندو، ملیشیا کے ماحولیاتی نظام میں مینگروز کا ارتقا تقریباً114 ملین سال پہلے شروع ہوا، (کرشنا مورتی 1993ء) یہ مانا جاتا ہے کہ مینگروز کے پودے سب سے پہلے انھی علاقوں میں پنپے اور بعد میںدنیا کے دیگرساحلوں پر پھیلے۔ اس بات کی تصدیق اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ مینگروز کی جتنی اقسام ان علاقوں میں پائی جاتی ہیں، دنیا کے دیگر ساحلوں پر نہیں ملتیں۔ بعد ازاں اپنے زرگل، نباتیاتی بیج اور بہترین صلاحیت کی وجہ سے مینگروز زمانہ قدیم میں تقریباً66 سے23 ملین سال کے درمیان سمندرکی لہروں کے ساتھ سفر کرتا ہوا مغرب کی جانب سے مشرقی افریقہ اور بھارت پہنچا، مشرق کی جانب سے وسطی اور جنوبی افریقہ تک آیا۔
اس دوران یہ سمندری راستوں سے غرب الہند کے ساحلوں تک اور اسی جانب سفرکرتا ہوا مغربی افریقہ اور نیوزی لینڈ تک پھیل گیا۔ یہی سبب ہے کہ مغربی افریقہ اور امریکا میں مینگروز کی یکساں اور بہت کم اقسام موجود ہیں جب کہ مشرقی افریقہ، ایشیا اور بھارت میں اس کی مختلف اور تمام انواع و اقسام پائی جاتی ہیں۔ موجودہ دور میں بحر ہند سے بحر الکاہل تک کے علاقوں میں مینگروزکے گھنے جنگلات کثیر تعداد میں موجود ہیں خاص طور پر بھارت اور بنگلہ دیش کے جنگلات مل کر دنیا میں مینگروز کے جنگلات کا سب سے بڑاعلاقہ مانا جاتا ہے۔
مینگروزکی جڑیں زمین میں پیوست ہونے کے بجائے زیادہ تر مٹی یا ریت پر ہی پروان چڑھتی ہیں یہ زمینی کٹاو ٔاور سیلاب کو روکنے کے علاوہ سونامی، سمندری طوفانوں اور سائیکلون وغیرہ کے لیے سب سے بڑی قدرتی رکاوٹ سمجھے جاتے ہیں جب کہ موسم گرما کے دوران یہ ساحلی علاقوں میںگرمی کی حدت کو کم کرتے ہیں۔ مینگروزکے جنگلات مچھلیوں، شیل فش، ہجرتی پرندوں اورکچھوؤں کی پرورش اور انھیں رہائش گاہیں مہیا کرتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق عالمی سطح پر مچھلیاں پکڑنے والے 80 فیصد ماہی گیر براہ راست یا بالواسط طور پر مینگروز کے جنگلات پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔ 2014ء میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق مینگروزکے جنگلات سے انسانوںکو پہنچنے والے فوائد کی شرح 194,000 ڈالر سالانہ بنتی ہے۔
2004ء میں آنے والے سونامی کوکبھی بھلایا نہیں جا سکے گا۔ تاریخ کے اس خوفناک ترین سمندری طوفان نے انڈونیشیا، تھائی لینڈ، سری لنکا، مالدیپ، سیشلز اور بھارت کے مختلف حصوں میں تباہی اور بربادی کی ہولناک داستانیں رقم کی تھیں، وہیں دنیا نے دیکھا کہ جن علاقوں میں تمرکے جنگلات موجود تھے وہاں حیرت انگیز طور پر تباہی کی شرح غیر معمولی طور پرکم رہی اور یہی وہ وقت بھی تھا جب تمرکے جنگلات کی اہمیت وافادیت کوتسلیم کرتے ہوئے دنیا نے اسے ''ساحلی محافظ'' کانام دیا۔
افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ حیاتیاتی تنوع سے مالامال پاکستان کی ساحلی پٹی جو ملک کی معاشی ترقی کا سب سے بڑا ذریعہ بن سکتی تھی۔ اس کی حالت انتہائی دگرگوں ہے۔ ایک سروے کیمطابق دنیا کے آلودہ ترین سمندروں میں پاکستان کا سمندر بھی شامل ہے۔ پاکستان کے سمندری ساحلوں میں صنعتی اورگھریلو فضلہ بالا روک ٹوک پھینکا جا رہا ہے۔ ان ساحلی علاقوںمیں غربت، جہالت اور صاف پانی کی شدید قلت کے ساتھ ساحلی محافظ یعنی تمر کے جنگلات کی کٹائی بھی تیزی سے جاری ہے۔
اس صورتحال میں یہ امر قابل ستائش ہے کہ حکومت سندھ کا محکمہ جنگلات، دیگر اسٹیک ہولڈرز خصوصاً آئی یو سی این کے ساتھ مل کر تمر کے نئے جنگلات لگانے اوران کا تحفظ کرنے میں کوشاں نظر آتا ہے۔ سندھ کی ساحلی پٹی پر تمر کے جنگلات کی اہمیت وافادیت کے پیش نظرمحکمہ جنگلات سندھ نے بڑے پیمانے پر تمر کے جنگلات لگانے کا سلسلہ 2009ء میں شروع کیا جب کیٹی بندرکی ساحلی پٹی پر541,176 تمرکے پودے لگا کر عالمی ریکارڈ قائم کرتے ہوئے پاکستان کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکاڈ میں شامل کروایا۔
اس عالمی ریکارڈ کو2010ء میں ہندوستان نے 611,000 پودے لگا کر توڑا۔ محکمہ جنگلات سندھ نے دوبارہ 22 جون2013ء کوکھاروچھان کے علاقے میں 847,257 تمر کے پودے لگا کر دوبارہ عالمی ریکارڈ بنایا۔ اسی ریکارڈ کو مزید بہتر کرنے اور اپنے ہی بنائے ہوئے ریکارڈ کو توڑنے کے لیے سندھ محکمہ جنگلات نے کیٹی بندرکے علاقے جوہو میں 11 لاکھ 29 ہزار 2 سوچورانوے پودے لگا کر نیا ریکارڈ قائم کیا۔ واضح رہے کہ پودے لگانے کا یہ عمل گنیز ورلڈریکارڈ کے بنائے گئے بین الاقوامی معیار کے مطابق مکمل کیا جاتا ہے جس میں300 رضاکار طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک مسلسل پودے لگانے کے عمل میں حصہ لیتے ہیں جس کی نگرانی کے لیے گنیز بک باقاعدہ اپنا نمایندے مقررکرتی ہے۔
رواں سال بھی ادارے کی طرف سے ماہر ماحولیات ڈاکٹر رفیع الحق اور ڈاکٹر شوکت حیات نے اس عمل کی نگرانی کی اور ریکارڈ کا باقاعدہ اعلان کیا۔ اس موقعے پر حکومت سندھ کے محکمہ جنگلات نے ایک پر وقار تقریب کا اہتمام کیا تھا جس کے مہمان خصوصی پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری تھے جب کہ صوبائی وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ، صوبائی وزراء ناصر شاہ، نثارکھوڑو، محمدعلی ملکانی، سینٹرسسی پلیجو کے علاوہ محکمہ جنگلات کے اعلیٰ حکام اور میڈیا کے نمایندوں نے بڑی تعدادمیں شرکت کرتے ہوئے عالمی ریکارڈ بنانے کی اس تقریب میںشرکت کی۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے اس موقعے پر خطاب کرتے ہوئے کہاکہ مینگروز کی شجرکاری حکومت سندھ کا اہم قدم ہے، سندھ کی حکومت اس سے پہلے بھی عالمی ریکارڈ بناچکی ہے اور اب اپنا بنایا ہوا ریکارڈ خود توڑ رہی ہے۔ انھوں نے مزیدکہاکہ تمرکے جنگلات ہماری ماحولیات کو بہترکرنے کے ساتھ سندھ کی ساحلی پٹی کو بھی بھرپور تحفظ دیںگے اور اس شجرکاری کے دور رس نتائج برآمد ہوںگے۔ پورے سندھ میں مقامی پودوںکی شجرکاری کی جائے گی، ہم اس حوالے سے کام کر رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین نے مزیدکہاکہ انڈس ڈیلٹا تباہ ہو رہا ہے۔
1991ء پانی کا معاہدہ جس پر ہمارے تحفظات تھے اس پر بھی عمل درآمد نہیں کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے مزیدکہا کہ سمندرکیٹی بندر اوربدین سمیت کئی جگہوں پر ہماری زمینیں نگل رہا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اوپر سے زیادہ پانی نہیں آ رہا ہے۔ بلاول زرداری کا کہنا تھا کہ ہم نے چھوٹے چھوٹے آر او پلانٹ لگائے ہیں لیکن وہ اتنی صلاحیت کے حامل نہیںہیںکہ وہ پورے ٹھٹھہ کو پانی مہیا کر سکیں، اگرٹھٹھہ کے عوام کراچی شہرکو پانی مہیاکر سکتے ہیں تو ہم ٹھٹھہ کے عوام کو صاف پانی ضرورفراہم کریںگے۔ 2018ء کے الیکشن جیتنے کے بعد پیپلزپارٹی آئے گی اور ٹھٹھہ کے عوام کے لیے پانی لائے گی۔
پروجیکٹ ڈائریکٹرمینگروز آغا طاہر کاکہنا تھا کہ اس ایونٹ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج یہاں بلاول زرداری بھی موجود ہیں اورانھوں نے فیلڈ میں جا کر بھی اس عمل کا جائزہ لیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس سرگرمی کے ذریعے مینگروزکی اہمیت اجاگر ہوگی۔ مینگروزکی شجرکاری کے ذریعے ہم ماحولیات کوبہترکرنے کے ساتھ ہماری وہ زمینیںجوسمندر برد ہو رہی ہیں ان کوبھی بچایاجاسکے گا۔گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے نمایندے اور ماہر ماحولیات ڈاکٹر رفیع کا کہنا تھا کہ اس سرگرمی کو بہت بڑا نیٹ ورک مانیٹرکر رہا ہے، ہم نے اس کو غیر جانبدار ڈروننگ سے چیک کیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میںانھوں نے کہا کہ مینگروزکی کٹائی کو روکنا ہم سب کی مشترکہ ذمے داری ہے۔
سندھ کی ساحلی پٹی پر تیزی سے بڑھتی ہوئی تمرکے جنگلات کی انحطاط پذیری کو روکنے کے لیے ہنگامی اقدامات کیے گئے وہیں ضرورت اس امرکی ہے کہ مینگروزکی کٹائی کے عمل کو فوری طور پر روکا جائے، اگر ساحلوںکا یہ محافظ فنا ہوگیا تو ہم سب کو تباہی سے دو چار ہونا پڑے گا۔
ہندو، ملیشیا کے ماحولیاتی نظام میں مینگروز کا ارتقا تقریباً114 ملین سال پہلے شروع ہوا، (کرشنا مورتی 1993ء) یہ مانا جاتا ہے کہ مینگروز کے پودے سب سے پہلے انھی علاقوں میں پنپے اور بعد میںدنیا کے دیگرساحلوں پر پھیلے۔ اس بات کی تصدیق اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ مینگروز کی جتنی اقسام ان علاقوں میں پائی جاتی ہیں، دنیا کے دیگر ساحلوں پر نہیں ملتیں۔ بعد ازاں اپنے زرگل، نباتیاتی بیج اور بہترین صلاحیت کی وجہ سے مینگروز زمانہ قدیم میں تقریباً66 سے23 ملین سال کے درمیان سمندرکی لہروں کے ساتھ سفر کرتا ہوا مغرب کی جانب سے مشرقی افریقہ اور بھارت پہنچا، مشرق کی جانب سے وسطی اور جنوبی افریقہ تک آیا۔
اس دوران یہ سمندری راستوں سے غرب الہند کے ساحلوں تک اور اسی جانب سفرکرتا ہوا مغربی افریقہ اور نیوزی لینڈ تک پھیل گیا۔ یہی سبب ہے کہ مغربی افریقہ اور امریکا میں مینگروز کی یکساں اور بہت کم اقسام موجود ہیں جب کہ مشرقی افریقہ، ایشیا اور بھارت میں اس کی مختلف اور تمام انواع و اقسام پائی جاتی ہیں۔ موجودہ دور میں بحر ہند سے بحر الکاہل تک کے علاقوں میں مینگروزکے گھنے جنگلات کثیر تعداد میں موجود ہیں خاص طور پر بھارت اور بنگلہ دیش کے جنگلات مل کر دنیا میں مینگروز کے جنگلات کا سب سے بڑاعلاقہ مانا جاتا ہے۔
مینگروزکی جڑیں زمین میں پیوست ہونے کے بجائے زیادہ تر مٹی یا ریت پر ہی پروان چڑھتی ہیں یہ زمینی کٹاو ٔاور سیلاب کو روکنے کے علاوہ سونامی، سمندری طوفانوں اور سائیکلون وغیرہ کے لیے سب سے بڑی قدرتی رکاوٹ سمجھے جاتے ہیں جب کہ موسم گرما کے دوران یہ ساحلی علاقوں میںگرمی کی حدت کو کم کرتے ہیں۔ مینگروزکے جنگلات مچھلیوں، شیل فش، ہجرتی پرندوں اورکچھوؤں کی پرورش اور انھیں رہائش گاہیں مہیا کرتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق عالمی سطح پر مچھلیاں پکڑنے والے 80 فیصد ماہی گیر براہ راست یا بالواسط طور پر مینگروز کے جنگلات پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔ 2014ء میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق مینگروزکے جنگلات سے انسانوںکو پہنچنے والے فوائد کی شرح 194,000 ڈالر سالانہ بنتی ہے۔
2004ء میں آنے والے سونامی کوکبھی بھلایا نہیں جا سکے گا۔ تاریخ کے اس خوفناک ترین سمندری طوفان نے انڈونیشیا، تھائی لینڈ، سری لنکا، مالدیپ، سیشلز اور بھارت کے مختلف حصوں میں تباہی اور بربادی کی ہولناک داستانیں رقم کی تھیں، وہیں دنیا نے دیکھا کہ جن علاقوں میں تمرکے جنگلات موجود تھے وہاں حیرت انگیز طور پر تباہی کی شرح غیر معمولی طور پرکم رہی اور یہی وہ وقت بھی تھا جب تمرکے جنگلات کی اہمیت وافادیت کوتسلیم کرتے ہوئے دنیا نے اسے ''ساحلی محافظ'' کانام دیا۔
افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ حیاتیاتی تنوع سے مالامال پاکستان کی ساحلی پٹی جو ملک کی معاشی ترقی کا سب سے بڑا ذریعہ بن سکتی تھی۔ اس کی حالت انتہائی دگرگوں ہے۔ ایک سروے کیمطابق دنیا کے آلودہ ترین سمندروں میں پاکستان کا سمندر بھی شامل ہے۔ پاکستان کے سمندری ساحلوں میں صنعتی اورگھریلو فضلہ بالا روک ٹوک پھینکا جا رہا ہے۔ ان ساحلی علاقوںمیں غربت، جہالت اور صاف پانی کی شدید قلت کے ساتھ ساحلی محافظ یعنی تمر کے جنگلات کی کٹائی بھی تیزی سے جاری ہے۔
اس صورتحال میں یہ امر قابل ستائش ہے کہ حکومت سندھ کا محکمہ جنگلات، دیگر اسٹیک ہولڈرز خصوصاً آئی یو سی این کے ساتھ مل کر تمر کے نئے جنگلات لگانے اوران کا تحفظ کرنے میں کوشاں نظر آتا ہے۔ سندھ کی ساحلی پٹی پر تمر کے جنگلات کی اہمیت وافادیت کے پیش نظرمحکمہ جنگلات سندھ نے بڑے پیمانے پر تمر کے جنگلات لگانے کا سلسلہ 2009ء میں شروع کیا جب کیٹی بندرکی ساحلی پٹی پر541,176 تمرکے پودے لگا کر عالمی ریکارڈ قائم کرتے ہوئے پاکستان کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکاڈ میں شامل کروایا۔
اس عالمی ریکارڈ کو2010ء میں ہندوستان نے 611,000 پودے لگا کر توڑا۔ محکمہ جنگلات سندھ نے دوبارہ 22 جون2013ء کوکھاروچھان کے علاقے میں 847,257 تمر کے پودے لگا کر دوبارہ عالمی ریکارڈ بنایا۔ اسی ریکارڈ کو مزید بہتر کرنے اور اپنے ہی بنائے ہوئے ریکارڈ کو توڑنے کے لیے سندھ محکمہ جنگلات نے کیٹی بندرکے علاقے جوہو میں 11 لاکھ 29 ہزار 2 سوچورانوے پودے لگا کر نیا ریکارڈ قائم کیا۔ واضح رہے کہ پودے لگانے کا یہ عمل گنیز ورلڈریکارڈ کے بنائے گئے بین الاقوامی معیار کے مطابق مکمل کیا جاتا ہے جس میں300 رضاکار طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک مسلسل پودے لگانے کے عمل میں حصہ لیتے ہیں جس کی نگرانی کے لیے گنیز بک باقاعدہ اپنا نمایندے مقررکرتی ہے۔
رواں سال بھی ادارے کی طرف سے ماہر ماحولیات ڈاکٹر رفیع الحق اور ڈاکٹر شوکت حیات نے اس عمل کی نگرانی کی اور ریکارڈ کا باقاعدہ اعلان کیا۔ اس موقعے پر حکومت سندھ کے محکمہ جنگلات نے ایک پر وقار تقریب کا اہتمام کیا تھا جس کے مہمان خصوصی پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری تھے جب کہ صوبائی وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ، صوبائی وزراء ناصر شاہ، نثارکھوڑو، محمدعلی ملکانی، سینٹرسسی پلیجو کے علاوہ محکمہ جنگلات کے اعلیٰ حکام اور میڈیا کے نمایندوں نے بڑی تعدادمیں شرکت کرتے ہوئے عالمی ریکارڈ بنانے کی اس تقریب میںشرکت کی۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے اس موقعے پر خطاب کرتے ہوئے کہاکہ مینگروز کی شجرکاری حکومت سندھ کا اہم قدم ہے، سندھ کی حکومت اس سے پہلے بھی عالمی ریکارڈ بناچکی ہے اور اب اپنا بنایا ہوا ریکارڈ خود توڑ رہی ہے۔ انھوں نے مزیدکہاکہ تمرکے جنگلات ہماری ماحولیات کو بہترکرنے کے ساتھ سندھ کی ساحلی پٹی کو بھی بھرپور تحفظ دیںگے اور اس شجرکاری کے دور رس نتائج برآمد ہوںگے۔ پورے سندھ میں مقامی پودوںکی شجرکاری کی جائے گی، ہم اس حوالے سے کام کر رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین نے مزیدکہاکہ انڈس ڈیلٹا تباہ ہو رہا ہے۔
1991ء پانی کا معاہدہ جس پر ہمارے تحفظات تھے اس پر بھی عمل درآمد نہیں کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے مزیدکہا کہ سمندرکیٹی بندر اوربدین سمیت کئی جگہوں پر ہماری زمینیں نگل رہا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اوپر سے زیادہ پانی نہیں آ رہا ہے۔ بلاول زرداری کا کہنا تھا کہ ہم نے چھوٹے چھوٹے آر او پلانٹ لگائے ہیں لیکن وہ اتنی صلاحیت کے حامل نہیںہیںکہ وہ پورے ٹھٹھہ کو پانی مہیا کر سکیں، اگرٹھٹھہ کے عوام کراچی شہرکو پانی مہیاکر سکتے ہیں تو ہم ٹھٹھہ کے عوام کو صاف پانی ضرورفراہم کریںگے۔ 2018ء کے الیکشن جیتنے کے بعد پیپلزپارٹی آئے گی اور ٹھٹھہ کے عوام کے لیے پانی لائے گی۔
پروجیکٹ ڈائریکٹرمینگروز آغا طاہر کاکہنا تھا کہ اس ایونٹ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج یہاں بلاول زرداری بھی موجود ہیں اورانھوں نے فیلڈ میں جا کر بھی اس عمل کا جائزہ لیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس سرگرمی کے ذریعے مینگروزکی اہمیت اجاگر ہوگی۔ مینگروزکی شجرکاری کے ذریعے ہم ماحولیات کوبہترکرنے کے ساتھ ہماری وہ زمینیںجوسمندر برد ہو رہی ہیں ان کوبھی بچایاجاسکے گا۔گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے نمایندے اور ماہر ماحولیات ڈاکٹر رفیع کا کہنا تھا کہ اس سرگرمی کو بہت بڑا نیٹ ورک مانیٹرکر رہا ہے، ہم نے اس کو غیر جانبدار ڈروننگ سے چیک کیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میںانھوں نے کہا کہ مینگروزکی کٹائی کو روکنا ہم سب کی مشترکہ ذمے داری ہے۔
سندھ کی ساحلی پٹی پر تیزی سے بڑھتی ہوئی تمرکے جنگلات کی انحطاط پذیری کو روکنے کے لیے ہنگامی اقدامات کیے گئے وہیں ضرورت اس امرکی ہے کہ مینگروزکی کٹائی کے عمل کو فوری طور پر روکا جائے، اگر ساحلوںکا یہ محافظ فنا ہوگیا تو ہم سب کو تباہی سے دو چار ہونا پڑے گا۔