انقلابی شاعر کی تلاش

زمانہ بہت تبدیل ہو چکا ہے مگر ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں سے چلے تھے۔



پچھلے دنوں ایک میگزین کے ساتھ یہ مسئلہ تھا کہ اس کے نئے شمارے کے لیے کوئی انقلابی نظم نہیں مل رہی تھی۔ بیس سال قبل وفات پانے والے ایک انقلابی شاعرکی نظم سے رسالے کا پیٹ بھرا گیا اور اس سے قبل چھپنے والے تقریباًہر شمارے میں بھی اُسی دور کے ترقی پسند شاعروں کی نظمیںچھاپی گئیں جس سے ہمیں یہ اندازہ لگانے میں کوئی دشواری پیش نہ آئی کہ بہت سارے دوست ایسے شاعروں کو ہی انقلابی شاعر سمجھتے ہیں جن کا تعلق کسی بائیں بازوکی پارٹی یا مزدوروں اور کسانوں کی تحریکوں سے رہا ہو۔

بائیں بازوکی سیاسی تحریکوں میں تقسیم کے بعد جہاں ٹریڈ یونین کی تحریک تباہ و برباد ہوئی وہاں سیاسی پارٹیوں کے کلچرل ونگ اور اسٹڈی سرکل بھی ختم ہو گئے، اسٹریٹ تھیٹر بھی رو بہ زوال ہوا، ترقی پسند سوچ کے حامل رسائل و جرائد بھی بند ہو گئے اور سیاسی جلسوں میں انقلابی نظمیں پڑھنے والے شاعر بھی نہ رہے۔ جو موجود ہیں وہ پیرانہ سالی کے ساتھ پیرانہ خیالی کا شکار ہو کر اسی لکیر کو پیٹ رہے ہیں جو آدھی صدی قبل کھینچی گئی تھی۔

اقبال نے کہا تھا کہ ''ثبات ایک تغیرکو ہے زمانے میں'' مگر ہم میں سے بہت ساروں نے ثبات کو ہی تغیر سمجھ کر اپنے آس پاس ہونے والی تبدیلیوں سے منہ موڑ لیا۔ نئے زمانے اور ترقی پسند سوچ کے ساتھ اگر ہم سوشل میڈیا کا ہاتھ پکڑکر دنیا بھر میں نہ سہی اپنے ہی ملک میں آنے والی تبدیلیوں پر نظر دوڑائیں تو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ مختلف سرکاری اداروں، تیسری دنیا میں غیر ملکی طاقتوں کی دخل اندازی، سرمایہ دارنہ نظام اور سامراجی مظالم کے خلاف شاعری کی زبان میں جو کہا جا رہا ہے وہ ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ غیر مبہم، طاقتور اور باغیانہ انداز کا حامل ہے۔

یہ بات درست ہے کہ اب شاعری کے وہ روایتی مکتب ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے جو نئے لکھنے والوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ان کی ادبی اور ثقافتی پرورش بھی کرتے تھے۔ اپنے پلے سے خرچ کر کے علم و فن کی ترغیب دینے والے اساتذہ بھی پیوند خاک ہو چکے ہیں، مگر زبان کی کچھ خامیوں اور اظہار کی کمزوریوں کے باوجود جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ کچھ نہ کہنے سے کہیں بہتر ہے۔

پچھلے دنوں عوامی ورکرز پارٹی کے پلیٹ فارم سے انتہائی کم نوٹس پر مزدوروں کی مناسبت سے ایک مشاعرہ منعقد کیا گیا جس میں شامل پندرہ کے لگ بھگ شعرا میں سے ایک دوکو چھوڑ کرکوئی بھی ایسا نہیں تھا جس کا تعلق کسی انقلابی، سیاسی یا قوم پرست پارٹی سے رہا ہو لیکن حیرت کی بات ہے کہ ایک دو شعرا کو چھوڑ کرجس شاعر نے بھی اپنے شعر سنائے ان میں نہ تو عشق و محبت کی داستانیں تھیں اور نہ ہی محبوب کے شانوں پر بکھری زلفوں کا کہیں ذکر تھا۔ تمام شعرا ملک کی موجودہ سیاسی اور سماجی صورت حال سے بھی اچھی طرح با خبر تھے اور پورے سماجی شعور کے ساتھ ان طاقتوں کو بھی اپنے اشعار کے ذریعے بے نقاب کر رہے تھے جنہوں نے ملک میں سیاسی افراتفری کا بازار گرم کر رکھا ہے۔

مشاعرے میں ایک ایسے بزرگ شاعر بھی تشریف لائے جو بنیادی طور پر نعت کے اشعار کہتے ہیں مگر جب انھوں نے مزدوروں کے دکھوں کو موضوع سخن بنایا توان شعرا کے ہم پلہ دکھائی دیے جو نظریاتی طور پر انقلاب کی آواز سمجھے جاتے ہیں۔

مجھے مزدور کہتے ہیں تلاش زر میں رہتا ہوں

نئے منظر بناتا ہوں پس منظر میں رہتا ہوں

مری مجبوریاں مجھ کو کبھی تھکنے نہیں دیتیں

مگر پھر بھی میں حاضر وقت کی ٹھوکر میں رہتا ہوں

بہت ہی مختصر روزی میں ہوتا ہے گزر میرا

میں گھٹنے موڑ لیتا ہوں مگر چادر میں رہتا ہوں

جو مستقبل کبھی بچوں کا سوچوں تھرتھراتا ہوں

میں زندہ ہوں مگر ہر وقت ہی محشر میں رہتا ہوں

بہت کم کام ہوتا ہے مرا ساون کے موسم میں

ٹپکتی چھت بھگو دیتی ہے جب میں گھر میں رہتا ہوں

مرے بالوں کی چاندی پاؤں کی بیڑی نہیں بنتی

میں یوسف خواب ہوں تعبیر کے محور میں رہتا ہوں

اپنے اشعار کی زبانی مزدوروں کا دکھ بیان کرنے والے یہ بزرگ شاعر الحاج یوسف اسمٰعیل کے نام سے پہچانے جاتے ہیں اور پچھلے تیس سال سے ٹیلر ماسٹر کے کام سے وابستہ ہیں، مگر بڑھاپے کی وجہ سے اب صرف چند گھنٹوں کی مزدوری پر ہی گزر بسر کرتے ہیں ۔

یوسف اسماعیل کے خیال میں مزدوروں کی شاعری تو صرف وہی کر سکتا ہے جو خود مزدور ہو تو مجھے اردو کے معروف شاعر احسان دانش یاد آ گئے جن کی تعلیم تو واجبی تھی مگر مزدوروں کے لیے نظمیں لکھنے اور انتہائی مرصع غزلیں کہنے کی وجہ سے انھیں شاعر مزدور کا خطاب عطا ہوا تھا۔ احسان دانش نے اپنے اشعار کے ذریعے زمانے کی خود فریبی کا جس طرح ماتم کیا اس کی ایک مثال کچھ اس طرح ہے

یوں خود فریبیوں میں سفر ہو رہا ہے طے

بیٹھے ہیں پل پہ اور نظر ہے بہاؤ پر

مشاعرے میں شامل زیادہ تر شعرا کا تعلق پچھلی نسل سے تھا مگر چند نوجوانوں کے ساتھ مل کر انھوں نے جو اشعار اور نظمیں سنائیں ان سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ انقلابی شاعری کسی مخصوص پارٹی یا نظریے کی پابند نہیں ہوتی بلکہ جب انسانوں سے ان کے بنیادی حقوق چھین لیے جائیں تو شعرا کے قلم سے نکلنے والا ہر لفظ انقلاب کی نوید بن جاتا ہے۔

انقلابی پارٹیوں میں نظریاتی سوچ کی چھتری تلے کھڑے ہمارے بزرگان کو اب اس سوچ سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے کہ کسی مخصوص نظریے سے تعلق رکھنے والے افراد ہی انقلاب کے راستے پر ان کے ہم زبان اور ہم رکا ب ہو سکتے ہیں۔ زمانہ بہت تبدیل ہو چکا ہے مگر ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں سے چلے تھے، اگرکسی کو اس بات سے اختلاف ہے تو وہ سوشل میڈیا پر درج نوجوانوں کے خیالات پڑھ کر اس بات کی تصدیق کر سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں