ججز نظر بندی کیس میں مشرف گرفتار گھر سب جیل قرار مجھے سیاسی عمل میں حصہ لینے سے کیوں روکا جارہا ہے سابق ?

وکیل سابق صدر، مشرف کو عدالت سے گرفتار نہ کرنے پرہائی کورٹ نے آئی جی اسلام آباد کو آج طلب کرلیا


اسلام آباد:سابق صدر پرویز مشرف کی رہائش گاہ چک شہزادکے باہر پولیس اہلکار تعینات ہیں ،ان کی رہائش گا ہ کو سب جیل قراردیدیا گیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائیکورٹ نے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو حبس بے جا میں رکھنے کے مقدمے میں سابق صدر(ر) جنرل پرویزمشرف کی ضمانت میں توسیع کی درخواست مستردکرتے ہوئے ان کی گرفتاری کا حکم دیدیا۔

تاہم عدالتی احکام پر اسلام آباد پولیس نے گرفتاری کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی جس کے بعد سابق صدر کو ان کے محافظ اور رینجرز اہلکار سخت سیکیورٹی حصار میں ان کے فارم ہائوس چک شہزاد لے گئے، رات گئے چیف کمشنر اسلام آباد طارق محمود نے گرفتاری کے احکام پر عملدرآمد کے لیے پرویز مشرف کی رہائش گاہ کو سب جیل قراردیدیا اس حوالے سے باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے۔

اس سے قبل سابق صدر عدالت میں پیش ہوئے تو ان کے وکیل قمر افضل نے سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کے موکل نے3 نومبر کے اقدامات میں کہیں یہ نہیں کہا کہ ججوں کو نظر بند کیا جائے لہٰذا اس حوالے سے ان کے موکل پر لگائے جانے والے تمام الزامات غلط ہیں اور اس حوالے سے کوئی ثبوت بھی موجود نہیں ہے، قمر افضل نے کہا کہ سابق صدر نے تین نومبر2007ء میں اعلیٰ عدلیہ کہ ججوں کو نظر بند نہیں کیا البتہ ان کے گھر کے باہر ان کی حفاظت کے پیش نظر باڑ لگائی گئی تھی ، عدالت نے وکیل صفائی کے دلائل سے اتفاق نہیں کیا اور ریمارکس دیے کہ'' اس سادگی پر کون نہ مرجائے خدا''عدالت کا کہنا تھا کہ پرویزمشرف نے عدالتی نظام کو تباہ کیا،ججوں کو حبس بے جا میں رکھنے سے پاکستان کی بدنامی ہوئی ہے۔

نمائندے کے مطابق سماعت کے دوران جسٹس شوکت عزیزصدیقی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ججوں کو فرائض سے روکنا اور انھیں نظر بند کرنے کا اقدام انسداد دہشت گردی ایکٹ کے زمرے میں آتا ہے اس اقدام سے18کروڑ عوام متاثر ہوئے ججوںکو نظربندکرنے سے18کروڑ عوام متاثرہ فریق ہیں، فاضل عدالت نے اپنے حکم میں ججز نظر بندی کے حوالے سے پرویزمشرف کیخلاف ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات شامل کرنے کا حکم بھی دیا ، پرویز مشرف کے وکیل قمرافضل نے موقف اختیار کیا کہ میرے موکل نے ججوں کی گرفتاری یاانھیں نظر بند کرنے کا ذاتی طور پر حکم نہیں دیا بلکہ یہ اس وقت کی حکومت کا متفقہ اقدام تھاجو وزیراعظم اور کابینہ کی سفارش پر کیا گیا۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہاکہ اگر مشرف نے خاردار تاریں لگا نے کا حکم نہیں دیا تھا تو ہٹانے کا حکم تو دے سکتے تھے، ایف آئی آر کے مندرجات کو سامنے رکھ کر درخواست کا فیصلہ کریں گے، پرویز مشرف کے وکیل نے کہا کہ ایسا صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب کوئی متاثرہ فریق رجوع کرے،260ججز میں سے ایک بھی متاثرہ جج مقدمہ لے کر نہیں آیا، مدعی مقدمہ متاثرہ شخص نہیں ہے، ان کاکہنا تھا کہ ان حالات میں یہ مقدمہ قابل سماعت ہی نہیں ہے، اس موقع پر تھانہ سیکریٹریٹ میں پرویز مشرف کیخلاف ایف آئی آر درج کروانے والے وکیل اسلم گھمن نے19ستمبر 2009ء کے ایک اخبارکا تراشہ عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف نے ٹیکساس میں دیے گئے۔



ایک بیان میں خود تسلیم کیا کہ ججوں کی معزولی میری غلطی تھی ایمرجنسی کے فیصلے سے بہت نقصان ہوا، دوران سماعت لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی کے سابق صدر سردار عصمت اللہ نے فاضل عدالت کے روبرو پیش ہو کر کہا کہ پرویز مشرف کی وجہ سے عدلیہ بحالی تحریک کے دوران میں18دن جیل میں رہا ہوں اس لیے میں بھی ان کے اقدامات سے متاثر ہوا ہوں۔ اس موقع پر ڈپٹی اٹارنی جنرل طارق محمود جہانگیری نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی حکم کے باوجود پرویز مشرف تفتیش کا حصہ نہیں بنے جو عدالتی احکامات کی نافرمانی ہے، انھوں نے فاضل عدالت سے استدعا کی کہ ملزم کی درخواست ضمانت خارج کی جائے، دلائل سننے کے بعد فاضل عدالت نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی درخواست ضمانت مسترد کرتے ہوئے حکم دیا کہ درخواست گذار کوگرفتار کیا جائے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیاکہ جنرل مشرف کا اقدام انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات6(1)(b)اور6(2)b,g,i,mکے زمرے میں آتا ہے، ایف آئی آر کے مندرجات کی نظر میں کیس انسداد دہشت گری کی ایکٹ کے تحت درج ہونا چاہیے تھا جس کی سزا عمر قید ہے، مقامی پولیس اس کی پابند ہے کہ اے ٹی سی کی دفعات کو ایف آئی آر میں شامل کرے۔ این این آئی کے مطابقاسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق صدر پرویز مشرف کی گرفتاری کے حکم کا تفصیلی فیصلہ جاری کر تے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئی جی اسلام آباد کو (آج)جمعہ کو طلب کرلیا ہے۔

کورٹ کی طرف سے جاری تفصیلی فیصلے میں کہاگیا کہ پرویز مشرف کو محافظوں نے فرارکرانے میں مدد دی، مشرف کا فرار ہونا اور محافظوں کا یہ طرزعمل ایک علیحدہ جرم ہے، پولیس پرویز مشرف کی گرفتاری کیلیے اپنی ذمے داری پوری نہ کرسکی رجسٹرار نے بتایا کہ پرویزمشرف کے فرار میں محافظوں نے مدد کی ہے ، پرویز مشرف کے فرارمیں غفلت کے مرتکب افسروں کیخلاف کارروائی کی جائے، اس سے پہلے سابق صدر پرویز مشرف اپنے روایتی انداز میں سخت سیکیورٹی کے درمیان اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے۔ کمرہ عدالت میں جونہی ان کی ضمانت خارج ہونے اور گرفتاری کا حکم ملا کسی نے سابق صدر کو گرفتار کرنے کی کوشش نہیں کی اس دوران پرویز مشرف کی سیکیورٹی پر مامور اہلکار انھیں کمرہ عدالت سے ان کے گھر چک شہزادلے گئے۔

عدالتی فیصلے کے بعد ایس ایس پی آپریشنزاسلام آباد یسین فاروق مشرف چک شہزاد پہنچے تاہم وہ سابق صدر پرویز مشرف کو گرفتار کیے بغیر واپس چلے گئے دوسری جانب سابق صدرکے وکلا نے پرویز مشرف کی ضمانت کیلیے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا تاہم عدالتی وقت ختم ہونے پر سپریم کورٹ نے درخواست لینے سے انکار کر دیا، اب درخواست (آج) جمعے کو دوبارہ دائر کی جائے گی ، یہ اپیل 14 صفحات پر مشتمل ہے، اپیل کا متن ہے کہ مشرف پر ججز کی نظر بندی کا الزام قابل ضمانت ہے، درخواست میں کہا گیا کہ کسی بھی نظر بند جج نے مشرف کیخلاف درخواست نہیں دی، اپیل میں کہا گیا کہ مشرف کیخلاف درخواست ایک آدمی نے ذاتی طور پر دی اور اس کیس میں کوئی بھی نظربند ہونے والا جج فریق نہیں بنا۔ اپیل میں کہا گیا ہے کہ مشرف کو ضمانت قبل از گرفتاری دی جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔