علی گڑھ یونیورسٹی میں قائد اعظم کی تصویر

ہندوؤں کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ تقسیم مسلمانوں کی نجات کا راستہ تھا۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) صرف ایک درس گاہ ہی نہیں بلکہ تحریک پاکستان کے زمانے میں یہ ایک نمایاں حیثیت رکھتی تھی بلکہ اب بھی ملت کے لیے اس کی بڑی اہمیت ہے۔ محمد علی جناح کی ایک تصویر کینی ہال Kenney Hallکی دیوار پر لگی تھی جو کہ کیمپس کی بہت باوقار جگہ سمجھی جاتی ہے۔

اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں۔ یہ تصویر تقسیم سے قبل بھی یہاں پہ تھی اور ان تمام برسوں میں یہ مسلسل یہاں آویزاں رہی۔ لیکن مجھے جس سے حیرت ہوئی ہے کہ یکم مئی کو یہ تصویر غائب ہوگئی اور 3 مئی کو دوبارہ ظاہر ہوگئی۔ درست کہ یہ بی جے پی کے کسی متعصب کارکن کی ہاتھ چالاکی تھی جس نے دو دن کے اندر ہی اپنی حرکت کی تلافی کرتے ہوئے تصویر اپس اسی جگہ آویزاں کر دی جہاں پر یہ تقسیم سے قبل آویزاں تھی۔

ممکن ہے کہ بی جے پی کی ہائی کمان نے تصویر ہٹانے والے کی سرزنش کی ہو کیونکہ کرناٹک کے ریاستی انتخابات ہونے والے ہیں اور بی جے پی مسلمانوں کو راغب کرنے کی اپنی سہی کوشش کر رہی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی ملک کے مختلف مقامات پر تقاریر کرتے ہوئے وہ بھی انتخابی ضروریات کو ذہن میں رکھتے ہیں۔

ملک کے مختلف علاقوں میں تقاریر کرتے ہوئے وزیراعظم مودی یہ بات کہہ جاتے ہیں کہ مسلمانوں کے قبرستانوں کی طرح ہندوؤں کے شمشان گھاٹ پر بھی بجلی کی روشنی مہیا کی جانی چاہیے تاکہ ہندو سامعین یہ سمجھ لیں کہ وہ ہندو راشٹریا کے فلسفے سے پہلو تہی نہیں کر رہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بھارت میں ہندوؤں کی آبادی 80 فیصد ہے۔ لہٰذا عمومی جھکاؤ ہندو توا کی طرف ہے۔ لیکن میرے خیال میں یہ معاملہ طویل المعیاد ثابت نہیں ہو سکتا۔ ہندو اور مسلمان سیکڑوں سال تک اکٹھے رہ چکے ہیں اور وہ اب بھی رہ سکتے ہیں۔ اس کے باوجود کہ فی الوقت ہندوتوا کی ہوائیں خاصی تیز چل رہی ہیں لیکن بھارت کے مزاج میں اجتماعی معاشرے کا احساس موجود ہے۔

یہ ایسے ہی رہے گا اس کے باوجود کہ وقتی طور پر اس کا رخ ہندو توا کی طرف ہے۔ بہرحال ہر معاشرے میں کچھ ایسے عناصر بھی ہوتے ہیں جو محض مخالفت برائے مخالفت کے طور پر الٹا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ آپ بھارت، پاکستان کے تعلقات کا معاملہ بھی دیکھیں۔ اس میں ایسے عناصر بھی نمایاں ہیں جو تعلقات کی بحالی کے ہر قدم کی مخالفت کرتے ہیں۔

چند سال قبل پاکستانیوں کے ہی ایک طبقے نے ازخود اس خواہش کا اظہار کیا کہ لاہور کے شادمان چوک کا نام تبدیل کر کے بھگت سنگھ چوک رکھ دیا جائے جس کا کہ بھارت میں بہت خیر مقدم کیا گیا۔ ایسا کرنے کا مقصد تقسیم سے قبل آزادی کے لیے نمایاں جدوجہد کرنیوالوں کو خراج پیش کرنا تھا۔

مجھے یاد ہے کہ مارچ میں بھگت سنگھ کی سالگرہ کی تقریب کے بعد پاکستانیوں کا ایک وفد اپریل میں امرتسر پہنچا اور جلیانوالہ باغ کے المیے کی یاد تازہ کی جس میں ہند اور مسلمان دونوں ہی کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ یہ تقریباً وہی بات تھی جو پاکستان کے بانی قائداعظم محمد علی جناح نے اس وقت کہی تھی جب وہ 1945ء میں لاء کالج لاہور آئے تھے۔ جہاں میں ایک طالب علم تھا۔


اس موقع پر میں نے سوال کیا کہ اگر بھارت پر کسی تیسری طاقت نے حملہ کر دیا تو پاکستان کا مؤقف کیا ہو گا۔ اس کے جواب میں قائداعظم نے کہا کہ پاکستان کے فوجی بھارت کو بچانے کے لیے دشمن سے لڑیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان کے فوجی ڈکٹیٹر جنرل محمد ایوب نے 1962ء میں جب چین نے بھارت پر حملہ کیا تو ایوب خان نے بھارت کی مدد کے لیے اپنی فوج نہ بھیجی۔

اب کچھ بات بھگت سنگھ کی ہو جائے۔ بھگت سنگھ کی عمر صرف 23 سال تھی جب وہ برطانوی حکمرانوں کے خلاف لڑتے ہوئے پھانسی پر جھول گیا۔ ان کی سیاست اس کے علاوہ اور کچھ نہیں تھی کہ وہ ہندوستان کی آزادی کے لیے اپنی جان دینا چاہتا تھا۔ مجھے اس بات پر حیرت ہوئی کہ شادمان چوک کے نام کی تبدیلی کے خلاف 14 درخواستیں آئیں۔ یہ وہی چوک تھا جہاں پر بھگت سنگھ اور اس کے دو ساتھیوں، راج گرو اور سکھ دیو کو تختہ دار پر لٹکایا گیا تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح کا نام تقسیم برصغیر کے ساتھ منسلک ہے لیکن کیا تقسیم کے ذمے دار بھی وہی تھے؟ میں نے 1990ء کی دہائی کے اوائل میں لندن میں برصغیر کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی رہائش گاہ پر ان سے ملاقات کی۔ انھوں نے بتایا کہ برطانوی وزیراعظم کلیمنٹ رچرڈ ایٹلی اس بات کے بہت مشتاق تھے کہ بھارت اور پاکستان میں کوئی چیز مشترک ہونی چاہیے۔

ماؤنٹ بیٹن نے اس سلسلے میں کوشش بھی کی لیکن قائداعظم نے کہا کہ ان کو بھارت لیڈروں پر اعتبار نہیں ہے۔ انھوں نے کیبنٹ مشن پلان منظور کر لیا جس میں کمزور مرکز کی بات کی گئی تھی لیکن بھارت کے اولین وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے کہا کہ اس کا فیصلہ آئین ساز اسمبلی کرے گی جس کا کہ نئی دہلی میں اجلاس ہو رہا تھا۔ دونوں فریقوں میں وقت کے ساتھ ساتھ اختلافات میں اضافہ ہوتا گیا۔

1940ء میں جب مسلم لیگ نے قیام پاکستان کی قرارداد منظور کی تو تقسیم ناگزیر ہوگئی۔ دونوں فریق حقائق سے اغماض برت رہے تھے۔ جب انھوں نے آبادی کے تبادلے کے خیال کو مسترد کردیا۔ یہ کام لوگوں نے خود کیا۔ ہندو اور سکھ یہاں سے وہاں چلے گئے اور مسلمان ادھر سے ادھر آگئے، باقی سب تاریخ ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح کو پاکستان میں اتنی ہی تکریم دی جاتی ہے جتنی مہاتما گاندھی کو بھارت میں دی جاتی ہے۔

ہندوؤں کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ تقسیم مسلمانوں کی نجات کا راستہ تھا۔ یہ 1947ء کی بات ہے آج بھارت میں مسلمانوں کی تعداد 17 کروڑ سے زیادہ ہے لیکن بھارت کے حکومتی معاملات میں ان کا کچھ تعلق نہیں۔ یہ درست ہے کہ انھیں ووٹ ڈالنے کا حق ہے کیونکہ آئین کے تحت ہر شخص ایک ووٹ ڈال سکتا ہے لیکن فیصلہ سازی میں اب مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں۔

مولانا ابوالکلام آزاد نے جو کہا تھا وہ سچ ثابت ہوا۔ انھوں نے کہا تھا کہ ان کی تعداد بھارت میں کم ہے لہٰذا وہ خودکو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ لیکن اس بات پر وہ فخر کرسکتے ہیں کہ بھارت سے ان کا بھی اتنا ہی تعلق ہے جتنا ہندوؤں کا۔ جب پاکستان بن گیا تو ہندو مسلمانوں کو کہیں گے کہ تمہیں تمہارا حصہ مل گیا ہے لہٰذا تم بھی پاکستان چلے جاؤ۔ مہاتما گاندھی، جواہر لعل نہرو اور سردار پٹیل تقسیم کے بعد بھی بھارت میں اجتماعیت پر مبنی معاشرہ قائم کرنے کے قابل رہے لیکن مذہب کے نام پر جو خط کھینچا گیا اس سے سبھی ڈرتے ہیں۔

بی جے پی کی اہمیت اس لیے بڑھ رہی ہے کیونکہ اجتماعیت کا معاشرہ کمزور ہورہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارت میں سیکولرازم کو مضبوط کیا جائے تاکہ ملک کی تمام آبادی محسوس کرے کہ وہ ملکی امور میں برابر کے شریک ہیں۔

(ترجمہ مظہر منہاس)
Load Next Story