سی پیک کی کہانی گزرتے وقت کی زبانی
نہرو کو بھی بھلا کیا معلوم تھا کہ وہ کب تک حیات کو لے کر چل سکتے ہیں، وہ کشمیر کا مسئلہ حل کیے بغیر چل دیے۔
یہ ضروری نہیں کہ سیاسی غلطیاں محض کم پڑھے لکھے حکمرانوں سے ہی سرزد ہوتی ہیں بلکہ بعض اوقات اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سیاسی مدبران سے بھی سرزد ہوجاتی ہیں جن سے ایک بڑا اور وسیع خلا پیدا ہوجاتا ہے اور آنے والی نسلوں کو اس کی سزا بھگتنی پڑتی ہے۔
کانگریس حکومت جو ملک کی آزادی کی تحریک چلارہی تھی اور پنڈت جواہر لعل نہرو جو سیاسی بالغ نظری کی نمایاں مثال کے طور پرکئی دہائیوں تک شہرت پا چکے ہیں، ان سے بھی ایسی کوتاہیاں ہوچکی ہیں۔ جس کی بدولت بھارت ایسی ابھرتی ہوئی سماجی اور سیاسی قوت نہ بن سکا جس کا وہاں کے حکمران تصور کرتے رہے۔
بھارتی اول وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو جو انگریزی، اردو اور فارسی پر عبور رکھتے تھے وہ بعض ایسی غلطیاں کرچکے ہیں جس کا خمیازہ برصغیر پاک و ہند کے لوگ بھگت رہے ہیں۔ انسان کو یہ مشکل سے ہی پتہ چلتا ہے کہ زندگی کب تک ہے لہٰذا ہمہ وقت اپنے کاموں کی تکمیل میں مصروف رہنا چاہیے۔
نہرو کو بھی بھلا کیا معلوم تھا کہ وہ کب تک حیات کو لے کر چل سکتے ہیں، وہ کشمیر کا مسئلہ حل کیے بغیر چل دیے۔ کشمیر کی آگ آج تک سلگ رہی ہے اور چین اور بھارت کی ابتدائی جنگ کی دھمک کے اثرات لگتا ہے کہ جاتے رہے، مگر آج بھی اس کے سیاسی عکس کا جیسے سایہ موجود ہے اور وہ تمام معاملات میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ 60ء کی دہائی میں چین بھارت سرحدی جنگ کے بعد ایوب خان نے پنڈت نہرو کو ایک آفر دی تھی کہ وہ پاکستان کے ساتھ جوائنٹ ڈیفنس کرلیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ امریکی آفر تھی تاکہ پاکستان بھارت ایک معاہدے میں بندھ جائیں۔
مگر نہرو نے سوال کیا Against Whom? کس کے خلاف؟ اور معاہدہ نہ ہوا، نہرو نے یہ انوکھا سیاسی وقت ضایع کیا ورنہ برصغیر پاک و ہند ایک نئے سیاسی راستے پر موجود ہوتا۔ پھر ایوب خان نے چین سے ایک سرحدی معاہدہ کرلیا اور لداخ اور دیگر علاقوں کے تمام معاملات طے ہوگئے، جب کہ بھارت کے آنے والے سیاستدانوں نے گو کہ پنڈت نہروکی پالیسی کو آگے بڑھاتے ہوئے امپورٹڈ (Imported) آئٹم کی آمد کو بھارت میں ممنوع رکھا لہذا آج بھارت اس پوزیشن پر آگیا کہ چینی صدر نے بھارتی وزیراعظم کو اپنے ملک کے ایک سرکاری دعوت نامے پر مدعو کیا اور زبردست استقبال کیا گیا، جس کی مثال تاریخ میں کم ہی ہے۔
چین کے تا حیات صدر شی چن پنگ نے ایئرپورٹ جاکر مودی کا خود استقبال کیا جو پروٹوکول کے منافی تھا اور یہی انڈین جوابداری ماضی میں بھی تھی کہ پیرس میں فنانشنل ایکشن پلان میٹنگ میں چینی غیرجانبداری کے رویے نے پاکستان کو گرے gray لکیر پر لاکھڑا کیا۔ گویا بھارت کو یہ احساس ہوچلا ہے کہ چین اور بھارت اب اتنی دور نہیں رہے جوکہ ماضی میں تھے۔
جب کہ آپ پاکستانی رویے کو دیکھیں کہ وہ سی پیک پر اپنی عمل داری کو حقیر تر بنا رہا ہے اور بھارتی حکومت کو چین بار بار یہ کہہ رہا ہے کہ آپ سی پیک جوائن کرلو اور آپ جب چاہیں سری نگر سے سڑک نکال کر اس سڑک پر شامل ہوجائیں کیونکہ ہمارا کشمیر سے کوئی لینا دینا نہیں، یہ ایک افسوسناک سیاسی پہلو ہے۔ سی پیک پر چین کا اس قدر مضبوط موقف کیوں ہے اس کی وضاحت میں کرنے سے قاصر ہوں۔
پاکستان کی سیاسی کارکردگی نہایت کمزور ہے اور اس کے کوئی اصول اور ضابطے نمایاں نہیں ہیں۔ اسی لیے ماضی میں بھی یہ تحریر کرچکا ہوں کہ جب ہم کوئی بھی معاہدہ کسی ملک سے کریں تو اس کی تفصیل قومی اسمبلی کے ممبران کو معلوم ہونی چاہیے ورنہ یہ ایک جمہوری عمل تو نہ ہوا بلکہ یہ بھی ایک آمرانہ طرز حکومت ہی کہلائے گا۔ پاکستان کی قومی اسمبلی شاید دنیا کی یہ واحد قومی اسمبلی ہے جس کو قومی معاملات کے فنڈ ملتے رہیں۔ اگر یہ اعزاز اور فنڈ پر بندش لگادی جائے تو پھر الیکشن کا نام و نشان ہی باقی نہ رہے گا کیونکہ عوام کو غربت کے اندھیروں میں دھکیلنے والے کوئی اور نہیں یہ حکمران ہی ہیں۔
کیا پاکستان کے بیس کروڑ انسانوں میں سے پاکستان کے عوام الناس کو یہ معلوم ہے کہ اس گزرگاہ سے پاکستان کو کتنا فی صد منافع ملے گا؟ عام طور پر جو شور و غوغا ہے اس میں صرف یہی بتایا جا رہا ہے کہ پاکستان کو 7 یا 8 فی صد سے زائد منافع نہیں ملے گا۔ اس پر سے اس گزرگاہ پر سے بھارت کو کشمیر (مقبوضہ) سے راہداری کی سہولت دینے والا چین کیسے ہے؟ اختیارات کے حدود کس کے پاس ہیں؟اس گزرگاہ پر کس ملک کے پٹرول پمپ ہوںگے؟ اور ان پر کس ملک کے لوگ ملازمت کریںگے؟ سیندک پروجیکٹ جو جاری ہے اس پر بھی شیری رحمان نے بیانات دیے مگر کوئی پہلو نمایاں نہ ہوا۔ مرکزی حکومت جس انداز میں حکومت کررہی ہے ان کو احباب، عزیز و اقارب کے علاوہ لوگ نظر نہیں آتے بس الیکشن کا ایک ڈراما رچایا جاتا ہے اور پھر امریکی مفادات کو اولیت دیتے ہوئے کابینہ تشکیل دے دی جاتی ہے۔
انتخابات کا رہا سہا تقدس چوہدری شجاعت حسین کے انکشافات کے بعد جاتا رہا۔ اب جو جگہ جگہ جلسے ہورہے ہیں یہ بھی ایک مصنوعی کھیل ہے اس سے نئی حکومت کی راہ نکالی جائے گی اور جس طرح چین اور بھارت عالمی پیمانے پر ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھے ہوئے ہیں ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دیر یا سویر دونوں کی قربت لازمی ہے، اس پہلوکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بھارت بھی انتہا پسند ہندوؤں کو نمایاں پوزیشن میں لاکر وہی کام کر رہا ہے جیسے کہ بد امنی کے دور میں کراچی کے غنڈہ عناصر برباد کر رہے تھے۔ آخرکار معاشی بدحالی سے مجبور ہوکر مرکزکو مداخلت کرنی پڑی اور لوٹ مار کو شکست ہوئی۔
بقول کانگریسی لیڈروں کے وزیراعظم نریندر مودی خود اپنے مذہبی جنون سے نکلنا چاہیںگے تو نکل نہ پائیںگے اور ان کی پارٹی کی مذہبی تنگ نظری کی بنا پر ملک کی سلامتی پر مضر اثرات مرتب ہو رہے ہیں، بالآخر کانگریس پر جو مسلمان پارٹی کا ٹھپہ لگا ہے جاتا رہے گا کیونکہ بھارت کا عالمی مقام کانگریس کی تعلیم یافتہ قیادت نے ہی بلند کیا ہے۔ مغربی جمہوریت کا یہی ایک المیہ ہے کہ وہ کوئی عوامی انقلابی تبدیلی نہیں لاسکتے، بس ایک دائرے میں چلنے والی دو تین پارٹیاں ہی عوام کا مقدر بن جاتی ہیں ۔
بنگلہ دیش بننے کے بعد اس نئے پاکستان میں عوام کے مشکلات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور ان کے پاس چوائس کم سے کم تر ہوتے جارہے ہیں۔ بس عوام تین کا پہاڑا پڑھنے پر مجبور ہیں۔ ن لیگ، زرداری اور عمران یہ تمام لوگ عوام کو مکانوں کی آفر دے رہے ہیں اور زمینیں بلڈروں کو بانٹ رہے ہیں جب کہ عوام کو منظم زمین درکار ہے تاکہ وہ اپنے لیے 150 گز کے مکانات 30،20 برس میں بنانے کے قابل ہو جائیں مگر لیڈر تو ایسا سمجھتے ہیں کہ وہ تقریر کرکے عوام پر احسان کررہے ہیں جب کہ یہ نہ صرف اپنے عوام کو دھوکا دیتے ہیں بلکہ ملک کو دوسرے ملکوں کے مفاد میں استعمال کرنے کی راہ تلاش کرتے ہیں۔
ہمارے ملک پر 70 برس سے غیر ملکی حکمرانوں کے حاشیہ بردار حکومت کرتے رہے ورنہ یہ ملک دولخت نہ ہوتا۔ اس وقت بظاہر لوگوں کی مشکلات دور کرنے کے لیے لیڈران باہر نکل پڑے ہیں اور جا بجا اپنی آواز کا جادو بکھیر رہے ہیں۔ درحقیقت یہ عوام کو اپنے جال میں جکڑنے کی بازی گری ہے۔
سرمایہ دارانہ جمہوریت ایک ریاکاری کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیونکہ ان کے تمام جمہوری فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔ این آر او اس کی زندگی مثال ہے۔ ملک کے حکمران غیر ملکوں سے معاہدہ کرتے ہیں کوئی برا نہیں مگر اس کی نکتہ در نکتہ گفتگو عوام کے سامنے ہونی چاہیے تاکہ کہیں ملک کسی ابہام کے نتیجے میں غیر ملکی تسلط کا شکار نہ ہوجائے۔ آپ دیکھیے کہ ایوب خان نے بھارتی وزیراعظم کو جو تجویز پیش کی تھی وہ کس قدر احمقانہ تھی کہ آج اس کے نتائج کیا ہوتے، سیاست میں صرف موقع پرستی کام نہیں آتی یہ چھوٹے لیڈروں کے طور طریقے ہوتے ہیں۔
دور اندیش لیڈر صدیوں کے سفرکو آنکھوں میں رکھتے ہیں۔ سی پیک کا موجودہ معاہدہ تاریخ کے سفر میں کیا چین اور پاکستان کے مفاد میں یکساں منافع بخش ہے یعنی دونوں ملکوں کے یکساں مفاد ہے یا کسی کے کم یا زیادہ مفاد میں، اس پر ایک سیر حاصل گفتگو کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اور اگر بھارت بھی سی پیک میں ایک سڑک سری نگر سے اس راستے پر ڈال دیتا ہے تو اس سے اس خطے پر کیا اثرات مرتب ہوںگے یہ لمحہ فکریہ ہے۔
کانگریس حکومت جو ملک کی آزادی کی تحریک چلارہی تھی اور پنڈت جواہر لعل نہرو جو سیاسی بالغ نظری کی نمایاں مثال کے طور پرکئی دہائیوں تک شہرت پا چکے ہیں، ان سے بھی ایسی کوتاہیاں ہوچکی ہیں۔ جس کی بدولت بھارت ایسی ابھرتی ہوئی سماجی اور سیاسی قوت نہ بن سکا جس کا وہاں کے حکمران تصور کرتے رہے۔
بھارتی اول وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو جو انگریزی، اردو اور فارسی پر عبور رکھتے تھے وہ بعض ایسی غلطیاں کرچکے ہیں جس کا خمیازہ برصغیر پاک و ہند کے لوگ بھگت رہے ہیں۔ انسان کو یہ مشکل سے ہی پتہ چلتا ہے کہ زندگی کب تک ہے لہٰذا ہمہ وقت اپنے کاموں کی تکمیل میں مصروف رہنا چاہیے۔
نہرو کو بھی بھلا کیا معلوم تھا کہ وہ کب تک حیات کو لے کر چل سکتے ہیں، وہ کشمیر کا مسئلہ حل کیے بغیر چل دیے۔ کشمیر کی آگ آج تک سلگ رہی ہے اور چین اور بھارت کی ابتدائی جنگ کی دھمک کے اثرات لگتا ہے کہ جاتے رہے، مگر آج بھی اس کے سیاسی عکس کا جیسے سایہ موجود ہے اور وہ تمام معاملات میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ 60ء کی دہائی میں چین بھارت سرحدی جنگ کے بعد ایوب خان نے پنڈت نہرو کو ایک آفر دی تھی کہ وہ پاکستان کے ساتھ جوائنٹ ڈیفنس کرلیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ امریکی آفر تھی تاکہ پاکستان بھارت ایک معاہدے میں بندھ جائیں۔
مگر نہرو نے سوال کیا Against Whom? کس کے خلاف؟ اور معاہدہ نہ ہوا، نہرو نے یہ انوکھا سیاسی وقت ضایع کیا ورنہ برصغیر پاک و ہند ایک نئے سیاسی راستے پر موجود ہوتا۔ پھر ایوب خان نے چین سے ایک سرحدی معاہدہ کرلیا اور لداخ اور دیگر علاقوں کے تمام معاملات طے ہوگئے، جب کہ بھارت کے آنے والے سیاستدانوں نے گو کہ پنڈت نہروکی پالیسی کو آگے بڑھاتے ہوئے امپورٹڈ (Imported) آئٹم کی آمد کو بھارت میں ممنوع رکھا لہذا آج بھارت اس پوزیشن پر آگیا کہ چینی صدر نے بھارتی وزیراعظم کو اپنے ملک کے ایک سرکاری دعوت نامے پر مدعو کیا اور زبردست استقبال کیا گیا، جس کی مثال تاریخ میں کم ہی ہے۔
چین کے تا حیات صدر شی چن پنگ نے ایئرپورٹ جاکر مودی کا خود استقبال کیا جو پروٹوکول کے منافی تھا اور یہی انڈین جوابداری ماضی میں بھی تھی کہ پیرس میں فنانشنل ایکشن پلان میٹنگ میں چینی غیرجانبداری کے رویے نے پاکستان کو گرے gray لکیر پر لاکھڑا کیا۔ گویا بھارت کو یہ احساس ہوچلا ہے کہ چین اور بھارت اب اتنی دور نہیں رہے جوکہ ماضی میں تھے۔
جب کہ آپ پاکستانی رویے کو دیکھیں کہ وہ سی پیک پر اپنی عمل داری کو حقیر تر بنا رہا ہے اور بھارتی حکومت کو چین بار بار یہ کہہ رہا ہے کہ آپ سی پیک جوائن کرلو اور آپ جب چاہیں سری نگر سے سڑک نکال کر اس سڑک پر شامل ہوجائیں کیونکہ ہمارا کشمیر سے کوئی لینا دینا نہیں، یہ ایک افسوسناک سیاسی پہلو ہے۔ سی پیک پر چین کا اس قدر مضبوط موقف کیوں ہے اس کی وضاحت میں کرنے سے قاصر ہوں۔
پاکستان کی سیاسی کارکردگی نہایت کمزور ہے اور اس کے کوئی اصول اور ضابطے نمایاں نہیں ہیں۔ اسی لیے ماضی میں بھی یہ تحریر کرچکا ہوں کہ جب ہم کوئی بھی معاہدہ کسی ملک سے کریں تو اس کی تفصیل قومی اسمبلی کے ممبران کو معلوم ہونی چاہیے ورنہ یہ ایک جمہوری عمل تو نہ ہوا بلکہ یہ بھی ایک آمرانہ طرز حکومت ہی کہلائے گا۔ پاکستان کی قومی اسمبلی شاید دنیا کی یہ واحد قومی اسمبلی ہے جس کو قومی معاملات کے فنڈ ملتے رہیں۔ اگر یہ اعزاز اور فنڈ پر بندش لگادی جائے تو پھر الیکشن کا نام و نشان ہی باقی نہ رہے گا کیونکہ عوام کو غربت کے اندھیروں میں دھکیلنے والے کوئی اور نہیں یہ حکمران ہی ہیں۔
کیا پاکستان کے بیس کروڑ انسانوں میں سے پاکستان کے عوام الناس کو یہ معلوم ہے کہ اس گزرگاہ سے پاکستان کو کتنا فی صد منافع ملے گا؟ عام طور پر جو شور و غوغا ہے اس میں صرف یہی بتایا جا رہا ہے کہ پاکستان کو 7 یا 8 فی صد سے زائد منافع نہیں ملے گا۔ اس پر سے اس گزرگاہ پر سے بھارت کو کشمیر (مقبوضہ) سے راہداری کی سہولت دینے والا چین کیسے ہے؟ اختیارات کے حدود کس کے پاس ہیں؟اس گزرگاہ پر کس ملک کے پٹرول پمپ ہوںگے؟ اور ان پر کس ملک کے لوگ ملازمت کریںگے؟ سیندک پروجیکٹ جو جاری ہے اس پر بھی شیری رحمان نے بیانات دیے مگر کوئی پہلو نمایاں نہ ہوا۔ مرکزی حکومت جس انداز میں حکومت کررہی ہے ان کو احباب، عزیز و اقارب کے علاوہ لوگ نظر نہیں آتے بس الیکشن کا ایک ڈراما رچایا جاتا ہے اور پھر امریکی مفادات کو اولیت دیتے ہوئے کابینہ تشکیل دے دی جاتی ہے۔
انتخابات کا رہا سہا تقدس چوہدری شجاعت حسین کے انکشافات کے بعد جاتا رہا۔ اب جو جگہ جگہ جلسے ہورہے ہیں یہ بھی ایک مصنوعی کھیل ہے اس سے نئی حکومت کی راہ نکالی جائے گی اور جس طرح چین اور بھارت عالمی پیمانے پر ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھے ہوئے ہیں ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دیر یا سویر دونوں کی قربت لازمی ہے، اس پہلوکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بھارت بھی انتہا پسند ہندوؤں کو نمایاں پوزیشن میں لاکر وہی کام کر رہا ہے جیسے کہ بد امنی کے دور میں کراچی کے غنڈہ عناصر برباد کر رہے تھے۔ آخرکار معاشی بدحالی سے مجبور ہوکر مرکزکو مداخلت کرنی پڑی اور لوٹ مار کو شکست ہوئی۔
بقول کانگریسی لیڈروں کے وزیراعظم نریندر مودی خود اپنے مذہبی جنون سے نکلنا چاہیںگے تو نکل نہ پائیںگے اور ان کی پارٹی کی مذہبی تنگ نظری کی بنا پر ملک کی سلامتی پر مضر اثرات مرتب ہو رہے ہیں، بالآخر کانگریس پر جو مسلمان پارٹی کا ٹھپہ لگا ہے جاتا رہے گا کیونکہ بھارت کا عالمی مقام کانگریس کی تعلیم یافتہ قیادت نے ہی بلند کیا ہے۔ مغربی جمہوریت کا یہی ایک المیہ ہے کہ وہ کوئی عوامی انقلابی تبدیلی نہیں لاسکتے، بس ایک دائرے میں چلنے والی دو تین پارٹیاں ہی عوام کا مقدر بن جاتی ہیں ۔
بنگلہ دیش بننے کے بعد اس نئے پاکستان میں عوام کے مشکلات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور ان کے پاس چوائس کم سے کم تر ہوتے جارہے ہیں۔ بس عوام تین کا پہاڑا پڑھنے پر مجبور ہیں۔ ن لیگ، زرداری اور عمران یہ تمام لوگ عوام کو مکانوں کی آفر دے رہے ہیں اور زمینیں بلڈروں کو بانٹ رہے ہیں جب کہ عوام کو منظم زمین درکار ہے تاکہ وہ اپنے لیے 150 گز کے مکانات 30،20 برس میں بنانے کے قابل ہو جائیں مگر لیڈر تو ایسا سمجھتے ہیں کہ وہ تقریر کرکے عوام پر احسان کررہے ہیں جب کہ یہ نہ صرف اپنے عوام کو دھوکا دیتے ہیں بلکہ ملک کو دوسرے ملکوں کے مفاد میں استعمال کرنے کی راہ تلاش کرتے ہیں۔
ہمارے ملک پر 70 برس سے غیر ملکی حکمرانوں کے حاشیہ بردار حکومت کرتے رہے ورنہ یہ ملک دولخت نہ ہوتا۔ اس وقت بظاہر لوگوں کی مشکلات دور کرنے کے لیے لیڈران باہر نکل پڑے ہیں اور جا بجا اپنی آواز کا جادو بکھیر رہے ہیں۔ درحقیقت یہ عوام کو اپنے جال میں جکڑنے کی بازی گری ہے۔
سرمایہ دارانہ جمہوریت ایک ریاکاری کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیونکہ ان کے تمام جمہوری فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔ این آر او اس کی زندگی مثال ہے۔ ملک کے حکمران غیر ملکوں سے معاہدہ کرتے ہیں کوئی برا نہیں مگر اس کی نکتہ در نکتہ گفتگو عوام کے سامنے ہونی چاہیے تاکہ کہیں ملک کسی ابہام کے نتیجے میں غیر ملکی تسلط کا شکار نہ ہوجائے۔ آپ دیکھیے کہ ایوب خان نے بھارتی وزیراعظم کو جو تجویز پیش کی تھی وہ کس قدر احمقانہ تھی کہ آج اس کے نتائج کیا ہوتے، سیاست میں صرف موقع پرستی کام نہیں آتی یہ چھوٹے لیڈروں کے طور طریقے ہوتے ہیں۔
دور اندیش لیڈر صدیوں کے سفرکو آنکھوں میں رکھتے ہیں۔ سی پیک کا موجودہ معاہدہ تاریخ کے سفر میں کیا چین اور پاکستان کے مفاد میں یکساں منافع بخش ہے یعنی دونوں ملکوں کے یکساں مفاد ہے یا کسی کے کم یا زیادہ مفاد میں، اس پر ایک سیر حاصل گفتگو کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اور اگر بھارت بھی سی پیک میں ایک سڑک سری نگر سے اس راستے پر ڈال دیتا ہے تو اس سے اس خطے پر کیا اثرات مرتب ہوںگے یہ لمحہ فکریہ ہے۔