خواجہ اور مخدوم کا شکار
سیاست کی بازی میں ابھی ہوائیں مسلم لیگ (ن) کی خوشبو چرا رہی ہیں ، لیکن ایک اور بساط سندھ میں بھی لگ چکی ہے۔
کچھ لوگوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی ہے کہ جب گلی کا ایک آوارہ '' کتا '' کسی شریف آدمی پر بھوکنے لگتا ہے تو سارے ''کتے '' کیوں بھوکنا شروع ہو جاتے ہیں ۔ فیض احمد فیض نے اسی لیے لکھا تھا کہ یہ گلیوں کے بیکار آوارہ '' کتے '' ۔ یہاں موسم ہی ایسا چلتا ہے کہ ایک بھوکنا شروع کردے تو سب بھوکنا شروع کر دیتے ہیں ۔
سڑک پر ایک ایک شخص اگر آسمان کو دیکھنے لگ جائے تو تھوڑی دیر میں وہاں مجمع لگ جاتا ہے تو سب لوگ آسمان کی طرف دیکھنا شروع کر دیتے ہیں ۔ جس کے بعد تبصرے شروع ہو جاتے ہیں ۔ کسی کو نہیں معلوم ہوتا کہ پہلا دیوانہ شخص آسمان پر کیا دیکھ رہا تھا ، لیکن ہر شخص آسمان کو دیکھتے ہوئے فلسفہ بگھارنا شروع کر دیتا ہے اور کچھ اچھے لوگ تو آسمان کی طرف دیکھ کر تھوکنا بھی شروع کر دیتے ہیں ۔
جس سمت کی ہوا چل رہی ہوتی ہے ۔ سب لوگ اُس طرف چلنا شروع کردیتے ہیں ۔ سچ کو جانے بغیر ایک اپنے ذہن میں بسے ہوئے پرانے جذبات کو خبرکا رنگ دے دیتے ہیں ۔ آج کل جو کچھ بھی ہو رہا ہے اسی طرف ہو رہا ہے ۔ جہاں ایک چلنا شروع کر رہا ہے دوسرا یہ سوچ کر اس کے پیچھے چلنا شروع کر دیتا ہے کہ اب ہوائیں اُسی طرف کی ہے ۔ میرے لیے یہ بہت حیرت کی بات تھی جب میں نے خواجہ آصف کی زبان سے یہ جملہ سُنا تھا۔ اس جملے پر ہی پچھلے دس سال کی سیاست کھڑی ہوئی ہے ۔
مخدوم امین فہیم اب اس دنیا میں نہیں رہے ہیں ، لیکن پاکستانی سیاست میں بہت سے راز اور باب اُن کے نام سے جڑے ہیں ۔ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے صدر مخدوم امین فہیم تھے ۔ بینظیر کی جلاوطنی اور سیاست پر پابندیوں کی وجہ سے الیکشن کمیشن میں پیپلز پارٹی کے نام کے آگے پارلیمنٹرین کا لفظ لگا کر رجسٹر کرایا گیا تھا ۔ بینظیر کی جلاوطنی کے دوران پاکستان میں پیپلز پارٹی کی بظاہر قیادت مخدوم امین فہیم کیا کرتے تھے ، لیکن یہ بات سب جانتے تھے کہ وہ اپنی مرضی کے بغیر کچھ نہیں کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ مشرف سے ملاقاتوں کے پیچھے بھی اعلیٰ قیادت کی مرضی شامل ہوتی تھی ۔
27 دسمبر کو بینظیرکی شہادت کے بعد بظاہر مخدوم امین فہیم پارٹی کے سربراہ تھے ، لیکن اب قیادت آصف علی زرداری کے پاس آچکی تھی ۔ الیکشن کی تاریخ آگے بڑھائی گئی اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین اکثریتی جماعت بن کر سامنے آئی ۔ ایک عام تصور یہ تھا کہ مخدوم امین فہیم اگلے وزیر اعظم ہونگے ۔ انور بیگ نے تو کئی سفیروں سے مخدوم صاحب کی وزیر اعظم کی حیثیت سے ملاقات بھی کرادی تھی ۔ خود پیپلز پارٹی کے اندر بھی یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ اب وزیر اعظم امین فہیم صاحب ہی ہونگے ۔ کئی طاقتور لوگوں کا خیال یہ تھا کہ مشرف خود بھی مخدوم امین فہیم کو پسند کرتے ہیں ، اس لیے اگر پیپلز پارٹی انھیں وزیر اعظم منتخب کرتی ہے تو ایوان ِصدر سے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا جائے گا ۔
اس ساری صورتحال میں آصف علی زرداری نے نواز شریف کو بھی راضی کر لیا کہ مل کر حکومت بنائی جائے اور مری میں اس حوالے سے ایک معاہدہ بھی ہوگیا ۔ ابھی تک سب کا خیال مخدوم صاحب کی طرف ہی تھا ، لیکن ایک دم ہر طرف ہلچل مچ گئی ۔ جب مسلم لیگ کے رہنما خواجہ آصف نے یہ کہا کہ انھیں مخدوم امین فہیم کی پرویز مشرف سے ملاقاتوں پر تشویش ہے ۔ حیرت انگیز بات تھی کہ یک طرف مشرف سے حلف تو لیا جا رہا تھا لیکن انھیں مخدوم امین فہیم پر اعتراض تھا ۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ مسلم لیگ حکومت بنا رہی تھی لیکن انھیں اس جماعت کے صدر پر اعتراض تھا ۔ یہ بیان ہضم نہیں ہورہا تھا، خواجہ آصف ، آصف علی زرداری کے دوست ہیں ۔
نتیجہ بہت واضح تھا۔ مخدوم امین فہیم سمجھ چکے تھے کہ خواجہ آصف سے بیان دلایا گیا ہے ۔ مخدوم امین فہیم اس بات سے بہت رنجیدہ ہوئے تھے ۔ اُس کے اگلے روز مخدوم امین فہیم کی ملاقات زرداری سے ہوئی توباہر ذوالفقار مرزا کو مخدوم امین فہیم کے ایک دوست نے کہا کہ کیوں پیر صاحب کا دل دکھایا جارہا ہے ۔ اتنی دیر میں مخدوم امین فہیم باہر آگئے، انھوں نے اپنے دوست سے کہا کہ ان لوگوں سے کہو اس موضوع پر بات مت کرو۔ اور افسردہ چہرے کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئے ۔ ایک بہت بڑا کھیل ہو چکا تھا ۔ اس بات پر مخدوم امین فہیم نے بعد میں خواجہ آصف کو ایک نوٹس بھی بھیجا ۔
کہانی اس کے چند سال بعد شروع ہوئی اور کھیل سامنے آگیا ۔ خواجہ آصف نے مخدوم امین فہیم کے انتقال کے بعد ایک بار نہیں کئی جگہوں پر عوام کے سامنے مخدوم امین فہیم سے معافی مانگی ۔ انھوں نے کئی بار اس بات کا اعتراف کیا کہ انھوں نے آصف علی زرداری کے کہنے اور نواز شریف کی مرضی سے مخدوم امین فہیم کے خلاف بیان دیا، کیونکہ آصف علی زرداری نہیں چاہتے تھے کہ مخدوم امین فہیم وزیر اعظم بنیں ۔ خواجہ آصف سب کے سامنے کہتے ہیں کہ وہ اُس وقت استعمال ہو گئے اور اگر وہ یہ بیان نہ دیتے تو آج صورتحال بالکل مختلف ہوتی ، مگر کیا کیجیے کہ وہ استعمال ہوگئے اور'' اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت ''
بالکل اسی طرح سیاست میں آنے والے بیان یا چالیں کسی کے لیے ہوتی ہیں ۔ اس میں سرآئینہ کوئی اور ہوتا ہے اور پس آئینہ کھیل کچھ اور ہورہا ہوتا ہے ۔ جب آپ کسی کو استعمال کرتے ہیں تو کوئی آپ کو استعمال کرتا ہے ۔ اس کھیل کے اصول ہی کچھ ایسے ہیں اور اپنے ہی نشیمن پر بجلی گرا دیتے ہیں ۔ مخدوم امین فہیم کو یہ معلوم ہوچکا تھا کہ ان کے ساتھ کس نے کس کے کہنے پر ہاتھ کیا ، لیکن وہ اپنی آخری سانس تک پیپلزپارٹی کے ساتھ رہے ۔ پیپلز پارٹی والوں کو بھی معلوم تھا کہ مخدوم صاحب کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا گیا ، لیکن وہ بجائے اسپتال میں انھیں ملنے جانے کی تصویر میڈیا کو ضرور بھیجتے تھے ۔
میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ مخدوم امین فہیم اگر 2008 میں ایک طاقتور وزیر اعظم ہوتے توکیا ہوتا ۔ میری دلچسپی تو آج کے کھیل میں ہے ۔کیا یہ بات کسی کو سمجھ میں نہیں آرہی کہ نواز شریف نے 1000 ارب روپے کی تقسیم کا بیان کس کے لیے دیا ہے ۔
کیا یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ مسلم لیگ نواز کو چھوڑ کر جانے والے پہلے صوبے کا مطالبہ کرتے ہیں اور چند ہی دنوں میں ایک بار پھر اپنا قبلہ کیوں تبدیل کرتے ہیں ۔ انجئنئیرڈ بیانات اور سیاسی قبلے کی تبدیلی کیا ظاہر کرتی ہے ۔ یہ بات بالکل عیاں ہوچکی ہے سیاسی مقبولیت کے دعوؤں کے باوجود ہوائیں مسلم لیگ (ن) کے لیے نہیں چل رہی ہیں ۔ تو کیا یہ عمران خان کے لیے ہیں ؟ سیاست میں کل کچھ نہیں ہوتا ۔ بس آج کے دوست ہوتے ہیں ، یہاں زیادہ تر بیانات کسی سیاسی چال کا نتیجہ ہوتے ہیں ۔ مفادات کا سانپ نظریات کوکھاجاتا ہے ۔ پیٹھ میں چھرا گھونپ کر برسوں کے وفادار ساتھیوں کو قربان کردیا جاتا ہے ۔
سیاست کی بازی میں ابھی ہوائیں مسلم لیگ (ن) کی خوشبو چرا رہی ہیں ، لیکن ایک اور بساط سندھ میں بھی لگ چکی ہے۔ لوگ انھیں فصلی بٹیرے کہہ رہے ہیں ،کئی نئی جماعتیں اور تین نئے اتحاد بن چکے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کو اس بات کا یقین ہے کہ وہ کراچی میں متحدہ کے منتشر ہونے کے بعد زیادہ نشستیں لے گی اور اس کے لیے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کراچی کی نشستیں 20 کی جگہ اب 21 ہوئی ہیں ساتھ ساتھ کراچی شہری کی نشستیں اب صرف 8 ہیں اور دیہی کی 12 ہوگئی ہیں ۔
مگر اندرون سندھ صورتحال تیزی کے ساتھ بدل رہی ہے ۔ کئی چھوٹی چھوٹی برادریوں ، سرداروں اور پیروں کا اتحاد مکمل ہوگیا ہے ۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے لیے سندھ میں اگلی حکومت بنانا مسئلہ نہیں ہے وہ غلط فہمی میں ہے، ایک سخت مقابلہ ہونے والا ہے ۔ جس میں ہر نشست پر جنگ کے طبل بج چکے ہیں ۔ مرکز میں تو مسلم لیگ نے یہ کہہ کرگیند پیپلز پارٹی کی طرف پھینک دی کہ پیپلز پارٹی جو نام دے گی اُسے نگران وزیر اعظم بنا دیا جائے گا، لیکن پیپلز پارٹی یہ آفر سندھ میں اپوزیشن کو دینے کے لیے تیار نہیں اور اگلے الیکشن کی چابی اسی آفر میں ہے ۔ جہاں ہر دیے گئے نام کے خلاف بیان دینے کے لیے ایک خواجہ آصف موجود ہوں گے ۔
سڑک پر ایک ایک شخص اگر آسمان کو دیکھنے لگ جائے تو تھوڑی دیر میں وہاں مجمع لگ جاتا ہے تو سب لوگ آسمان کی طرف دیکھنا شروع کر دیتے ہیں ۔ جس کے بعد تبصرے شروع ہو جاتے ہیں ۔ کسی کو نہیں معلوم ہوتا کہ پہلا دیوانہ شخص آسمان پر کیا دیکھ رہا تھا ، لیکن ہر شخص آسمان کو دیکھتے ہوئے فلسفہ بگھارنا شروع کر دیتا ہے اور کچھ اچھے لوگ تو آسمان کی طرف دیکھ کر تھوکنا بھی شروع کر دیتے ہیں ۔
جس سمت کی ہوا چل رہی ہوتی ہے ۔ سب لوگ اُس طرف چلنا شروع کردیتے ہیں ۔ سچ کو جانے بغیر ایک اپنے ذہن میں بسے ہوئے پرانے جذبات کو خبرکا رنگ دے دیتے ہیں ۔ آج کل جو کچھ بھی ہو رہا ہے اسی طرف ہو رہا ہے ۔ جہاں ایک چلنا شروع کر رہا ہے دوسرا یہ سوچ کر اس کے پیچھے چلنا شروع کر دیتا ہے کہ اب ہوائیں اُسی طرف کی ہے ۔ میرے لیے یہ بہت حیرت کی بات تھی جب میں نے خواجہ آصف کی زبان سے یہ جملہ سُنا تھا۔ اس جملے پر ہی پچھلے دس سال کی سیاست کھڑی ہوئی ہے ۔
مخدوم امین فہیم اب اس دنیا میں نہیں رہے ہیں ، لیکن پاکستانی سیاست میں بہت سے راز اور باب اُن کے نام سے جڑے ہیں ۔ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے صدر مخدوم امین فہیم تھے ۔ بینظیر کی جلاوطنی اور سیاست پر پابندیوں کی وجہ سے الیکشن کمیشن میں پیپلز پارٹی کے نام کے آگے پارلیمنٹرین کا لفظ لگا کر رجسٹر کرایا گیا تھا ۔ بینظیر کی جلاوطنی کے دوران پاکستان میں پیپلز پارٹی کی بظاہر قیادت مخدوم امین فہیم کیا کرتے تھے ، لیکن یہ بات سب جانتے تھے کہ وہ اپنی مرضی کے بغیر کچھ نہیں کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ مشرف سے ملاقاتوں کے پیچھے بھی اعلیٰ قیادت کی مرضی شامل ہوتی تھی ۔
27 دسمبر کو بینظیرکی شہادت کے بعد بظاہر مخدوم امین فہیم پارٹی کے سربراہ تھے ، لیکن اب قیادت آصف علی زرداری کے پاس آچکی تھی ۔ الیکشن کی تاریخ آگے بڑھائی گئی اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین اکثریتی جماعت بن کر سامنے آئی ۔ ایک عام تصور یہ تھا کہ مخدوم امین فہیم اگلے وزیر اعظم ہونگے ۔ انور بیگ نے تو کئی سفیروں سے مخدوم صاحب کی وزیر اعظم کی حیثیت سے ملاقات بھی کرادی تھی ۔ خود پیپلز پارٹی کے اندر بھی یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ اب وزیر اعظم امین فہیم صاحب ہی ہونگے ۔ کئی طاقتور لوگوں کا خیال یہ تھا کہ مشرف خود بھی مخدوم امین فہیم کو پسند کرتے ہیں ، اس لیے اگر پیپلز پارٹی انھیں وزیر اعظم منتخب کرتی ہے تو ایوان ِصدر سے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا جائے گا ۔
اس ساری صورتحال میں آصف علی زرداری نے نواز شریف کو بھی راضی کر لیا کہ مل کر حکومت بنائی جائے اور مری میں اس حوالے سے ایک معاہدہ بھی ہوگیا ۔ ابھی تک سب کا خیال مخدوم صاحب کی طرف ہی تھا ، لیکن ایک دم ہر طرف ہلچل مچ گئی ۔ جب مسلم لیگ کے رہنما خواجہ آصف نے یہ کہا کہ انھیں مخدوم امین فہیم کی پرویز مشرف سے ملاقاتوں پر تشویش ہے ۔ حیرت انگیز بات تھی کہ یک طرف مشرف سے حلف تو لیا جا رہا تھا لیکن انھیں مخدوم امین فہیم پر اعتراض تھا ۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ مسلم لیگ حکومت بنا رہی تھی لیکن انھیں اس جماعت کے صدر پر اعتراض تھا ۔ یہ بیان ہضم نہیں ہورہا تھا، خواجہ آصف ، آصف علی زرداری کے دوست ہیں ۔
نتیجہ بہت واضح تھا۔ مخدوم امین فہیم سمجھ چکے تھے کہ خواجہ آصف سے بیان دلایا گیا ہے ۔ مخدوم امین فہیم اس بات سے بہت رنجیدہ ہوئے تھے ۔ اُس کے اگلے روز مخدوم امین فہیم کی ملاقات زرداری سے ہوئی توباہر ذوالفقار مرزا کو مخدوم امین فہیم کے ایک دوست نے کہا کہ کیوں پیر صاحب کا دل دکھایا جارہا ہے ۔ اتنی دیر میں مخدوم امین فہیم باہر آگئے، انھوں نے اپنے دوست سے کہا کہ ان لوگوں سے کہو اس موضوع پر بات مت کرو۔ اور افسردہ چہرے کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئے ۔ ایک بہت بڑا کھیل ہو چکا تھا ۔ اس بات پر مخدوم امین فہیم نے بعد میں خواجہ آصف کو ایک نوٹس بھی بھیجا ۔
کہانی اس کے چند سال بعد شروع ہوئی اور کھیل سامنے آگیا ۔ خواجہ آصف نے مخدوم امین فہیم کے انتقال کے بعد ایک بار نہیں کئی جگہوں پر عوام کے سامنے مخدوم امین فہیم سے معافی مانگی ۔ انھوں نے کئی بار اس بات کا اعتراف کیا کہ انھوں نے آصف علی زرداری کے کہنے اور نواز شریف کی مرضی سے مخدوم امین فہیم کے خلاف بیان دیا، کیونکہ آصف علی زرداری نہیں چاہتے تھے کہ مخدوم امین فہیم وزیر اعظم بنیں ۔ خواجہ آصف سب کے سامنے کہتے ہیں کہ وہ اُس وقت استعمال ہو گئے اور اگر وہ یہ بیان نہ دیتے تو آج صورتحال بالکل مختلف ہوتی ، مگر کیا کیجیے کہ وہ استعمال ہوگئے اور'' اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت ''
بالکل اسی طرح سیاست میں آنے والے بیان یا چالیں کسی کے لیے ہوتی ہیں ۔ اس میں سرآئینہ کوئی اور ہوتا ہے اور پس آئینہ کھیل کچھ اور ہورہا ہوتا ہے ۔ جب آپ کسی کو استعمال کرتے ہیں تو کوئی آپ کو استعمال کرتا ہے ۔ اس کھیل کے اصول ہی کچھ ایسے ہیں اور اپنے ہی نشیمن پر بجلی گرا دیتے ہیں ۔ مخدوم امین فہیم کو یہ معلوم ہوچکا تھا کہ ان کے ساتھ کس نے کس کے کہنے پر ہاتھ کیا ، لیکن وہ اپنی آخری سانس تک پیپلزپارٹی کے ساتھ رہے ۔ پیپلز پارٹی والوں کو بھی معلوم تھا کہ مخدوم صاحب کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا گیا ، لیکن وہ بجائے اسپتال میں انھیں ملنے جانے کی تصویر میڈیا کو ضرور بھیجتے تھے ۔
میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کہ مخدوم امین فہیم اگر 2008 میں ایک طاقتور وزیر اعظم ہوتے توکیا ہوتا ۔ میری دلچسپی تو آج کے کھیل میں ہے ۔کیا یہ بات کسی کو سمجھ میں نہیں آرہی کہ نواز شریف نے 1000 ارب روپے کی تقسیم کا بیان کس کے لیے دیا ہے ۔
کیا یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ مسلم لیگ نواز کو چھوڑ کر جانے والے پہلے صوبے کا مطالبہ کرتے ہیں اور چند ہی دنوں میں ایک بار پھر اپنا قبلہ کیوں تبدیل کرتے ہیں ۔ انجئنئیرڈ بیانات اور سیاسی قبلے کی تبدیلی کیا ظاہر کرتی ہے ۔ یہ بات بالکل عیاں ہوچکی ہے سیاسی مقبولیت کے دعوؤں کے باوجود ہوائیں مسلم لیگ (ن) کے لیے نہیں چل رہی ہیں ۔ تو کیا یہ عمران خان کے لیے ہیں ؟ سیاست میں کل کچھ نہیں ہوتا ۔ بس آج کے دوست ہوتے ہیں ، یہاں زیادہ تر بیانات کسی سیاسی چال کا نتیجہ ہوتے ہیں ۔ مفادات کا سانپ نظریات کوکھاجاتا ہے ۔ پیٹھ میں چھرا گھونپ کر برسوں کے وفادار ساتھیوں کو قربان کردیا جاتا ہے ۔
سیاست کی بازی میں ابھی ہوائیں مسلم لیگ (ن) کی خوشبو چرا رہی ہیں ، لیکن ایک اور بساط سندھ میں بھی لگ چکی ہے۔ لوگ انھیں فصلی بٹیرے کہہ رہے ہیں ،کئی نئی جماعتیں اور تین نئے اتحاد بن چکے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کو اس بات کا یقین ہے کہ وہ کراچی میں متحدہ کے منتشر ہونے کے بعد زیادہ نشستیں لے گی اور اس کے لیے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کراچی کی نشستیں 20 کی جگہ اب 21 ہوئی ہیں ساتھ ساتھ کراچی شہری کی نشستیں اب صرف 8 ہیں اور دیہی کی 12 ہوگئی ہیں ۔
مگر اندرون سندھ صورتحال تیزی کے ساتھ بدل رہی ہے ۔ کئی چھوٹی چھوٹی برادریوں ، سرداروں اور پیروں کا اتحاد مکمل ہوگیا ہے ۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے لیے سندھ میں اگلی حکومت بنانا مسئلہ نہیں ہے وہ غلط فہمی میں ہے، ایک سخت مقابلہ ہونے والا ہے ۔ جس میں ہر نشست پر جنگ کے طبل بج چکے ہیں ۔ مرکز میں تو مسلم لیگ نے یہ کہہ کرگیند پیپلز پارٹی کی طرف پھینک دی کہ پیپلز پارٹی جو نام دے گی اُسے نگران وزیر اعظم بنا دیا جائے گا، لیکن پیپلز پارٹی یہ آفر سندھ میں اپوزیشن کو دینے کے لیے تیار نہیں اور اگلے الیکشن کی چابی اسی آفر میں ہے ۔ جہاں ہر دیے گئے نام کے خلاف بیان دینے کے لیے ایک خواجہ آصف موجود ہوں گے ۔