خلائی مخلوق کی تلاش میں
غیر ارضی تہذیب یقینا پیچیدہ، نفیس، اندرونی طور پر پختہ اور قطعی اجنبی ہو گی۔
امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا (NASA) نے ''غیر ارضی تہذیب کی تلاش'' کے کام کا آغاز بیسویں صدی کے وسط میں کیا، اس سلسلے میں کئی اہم تحقیقاتی خلائی مشن اب تک خلا میں روانہ کیے جاچکے ہیں۔ غیر ارضی تہذیب کی تلاش کے سلسلے میں پائبز10،11 اور 12 خلا میں روانہ کیے گئے ان میں ایک تختی لکھی ہے جس پر یہ عبارت درج ہے کہ انسان نظام شمسی میں صرف سیارہ زمین پر موجود ہے اس کے علاوہ وائجر اول و دوئم اور وائی کنگ وغیرہ بھی خلا میں ستاروں کی جانب رواں دواں ہیں، ان خلائی جہازوں میں زمین اور زمین والوں کے بارے میں معلومات کا ذخیرہ موجود ہے۔
1940کے عشرے میں امریکی ماہر فلکیات فرینگ ڈریگ نے ہماری کہکشاں میں ایسے سیاروں کی تعداد کے تعین کے لیے کہ جہاں حامل فہم و ادراک مخلوق پائی جا سکتی ہے، ایک کلیہ وضع کیا۔ اس بنیاد پر بہت سے ایسے ماہرین نے جودوسرے سیاروں میں غیر ارضی تہذیب کی موجودگی کے بارے میں خاصے پر امید ہیں، صرف ملکی وے ( Milky Way) ہیں جس سے ایک کنارے پر ہمارے نظام شمسی کا وجود ہے، ایک لاکھ پچیس ہزار سیاروں کا اندازہ لگایا ہے جہاں زندگی پائی جا سکتی ہے، ہماری کہکشاں میں تقریباً چار سو بلین سورجوں کی موجودگی اور ان کے درمیان نامیاتی سالمات کا پایا جانا اس خیال کو مزید تقویت عطا کرتا ہے۔
دوسری تہذیبوں سے رابطے کے لیے ہمیں ایسا طریقہ درکار ہے جو نہ صرف بین السیارہ بلکہ بین الستارہ بھی رابطے کے لیے سازگار ہو۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم کسی غیر ارضی تہذیب سے کوئی پیغام وصول کر لیں تو اسے کس طرح سمجھیں گے؟ غیر ارضی تہذیب یقینا پیچیدہ، نفیس، اندرونی طور پر پختہ اور قطعی اجنبی ہو گی۔
ظاہر ہے کہ وہ یہ چاہیں گے کہ ہمارے لیے اس پیغام کو آسان بنائیں، جتنا کہ وہ بنا سکتے ہیں، لیکن ایسا کیونکر ہو گا؟ کیا ان کے پاس ایسا کوئی طریقہ ہو گا ہم سمجھتے ہیں کہ یقینا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ایسی مشترکہ زبان ضرور ہے جو تمام تکنیکی تہذیبیں، چاہے جس قدر مختلف کیوں نہ ہوں، جانتی ہیں کہ مشترکہ زبان سائنس اور ریاضی ہے۔ قوانین قدرت ہر جگہ ایک ہی ہیں۔
بہر حال یہ کسی خلائی مخلوق سے ملاقات اور غیر ارضی تہذیب کی تلاش کا ہی شوق تھا کہ جس نے انسان کو پہلے زمین سے چاند پر پہنچایا اور اب مریخ قریب ہی ہے۔ یہ آج سے تقریباً48 برس پہلے کا واقعہ ہے، بدھ 16 جولائی 1969 کی یہ ایک چمکتی ہوئی صبح تھی جب 9 بج کر 20 منٹ پر امریکا کے تین خلا باز نیل آرم اسٹرانگ اپڈون آلڈرن اور مائیکل کولنز چاند کے سفر کے لیے روانہ ہوئے، ان کا یہ تاریخی سفر سیٹرن Satrun نامی راکٹ کے ذریعے شروع ہوا، جو پالو گیارہ نامی خلائی جہاز کو لے کر جارہاتھا۔
دس لاکھ افراد کی نگاہوں کے سامنے چاند کی جانب جانے والی یہ عظیم الشان اور پر شکوہ سواری روانہ ہوئی، تین سو تریسٹھ فٹ بلند یہ راکٹ جب اپنے عقب میں سرخ اور نارنجی رنگ کی گیس کا طوفان چھوڑتا ہوا نیلگوں آسمان کی جانب روانہ ہوا تو چاند کے سفر پر جانے والے ان پہلے تین مسافروں کے مشن پر پوری دنیا کے لوگوں کی بھرپور توجہ تھی کیونکہ تاریخ انسانی کے ان تین افراد کو تاریخ کے صفحات ہمیشہ کے لیے محفوظ کرنے والے تھے۔
حقیقتاً یہ ایسا تاریخ ساز سفر تھا جو اگر ناکام ہوجاتا یا زمین کے یہ تین باسی خلا کی گہرائیوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گم ہوجاتے یا چاند پر ہی دم توڑ دیتے تو شاید انسان کی سیاروں کو مسخر کرنے کی ہمت وقتی طور پر دم توڑ دیتی اور آج ''کیور یوسٹی'' بھی مریخ پر نہ اترتی۔
چاند ہماری زمین کا قریب ترین سیارچہ ہے اور جس کے گرد اسی طرح گردش کناں ہے جیسے ہماری زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے، چاند کا قطر صرف 2160 میل ، محیط 6800 میل ہے اپالوگیارہ تقریباً دو لاکھ اڑتیس ہزار میل یا تین لاکھ چوراسی ہزار چار سو کلو میٹر کا فاصلہ طے کرتے ہوئے 20 جولائی 1969 میں چاند پر اتری، جب ایگل چاند کی جانب اترنے لگی تو آرم اسٹرانگ کی کرۂ ارض پر یہ آواز سنائی دی کہ The Eagle Has Wingsپھر چند سیکنڈز کے لیے زمین مرکز اور چاند گاڑی کا رابطہ کٹ گیا ،ایسے میں زمینی سائنس دانوں میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی۔
رابطے کا ٹوٹ جانا یہ ظاہر کر رہا تھا کہ غالباً چاند گاڑی یا تو تباہ ہوگئی ہے یا کسی بڑی فنی خرابی کا شکار ہے، مگر تشویش کے یہ لمحات اس وقت بے پناہ خوشیوں میں تبدیل ہوگئے جب زمینی مرکز نے آرم آسٹرانگ کی آواز سنی جو کہہ رہاتھا ایگل اترچکی ہے Eagle Has Laughedانسانی تاریخ کا انتہائی اہم واقعہ انجام دیا جاچکا تھا انسان چاند پر اترچکا تھا، آرم اسٹرانگ اور آلڈرن حیرت سے چاند گاڑی کی کھڑکیوں سے اس طرح ماہتاب کو دیکھ رہے تھے۔
منصوبے کے مطابق چاند گاڑی میں رک کر ماہ نوردوں کو کئی گھنٹے تک آرام کرنا تھا مگر آرم اسٹرانگ چاند کی سرزمین پر قدم رکھنے کے لیے بے تاب تھے لہٰذا زمینی مرکز نے انھیں مقررہ وقت سے کوئی پانچ گھنٹے پہلے ہی گاڑی سے باہر آنے اور سطح ماہتاب پر چہل قدم کرنے کی اجازت دے دی۔ پاکستانی کے وقت کے مطابق 21 جولائی کی صبح سات بجر کر 56 منٹ پر اور امریکا کے وقت کے مطابق 20 جولائی کی رات دس بج کر 50 منٹ پر روئے زمین کے اس پہلے انسانی آرم اسٹرانگ نے آسمان کی گہرائیوں میں واقع ایک دوسرے سیارے چاند پر ان تاریخی الفاظ کے ساتھ قدم رکھا۔
"That is one small step for a man, one giant leap for man kind"
''ایک انسان کا یہ چھوٹا سا قدم نوع انسانی کے لیے ایک دیو قامت قدم کی حیثیت رکھتا ہے''
زمین پر موجود 50 کروڑ سے زائد انسانوں اپنے ٹی وی سیٹ پر آرم اسٹرانگ کو چاند پر اترتے اور چہل قدمی کرتے ہوئے دیکھا۔ چاند پر اترنے والے انسان چاند کی سطح سے 69 پونڈ وزن کے مٹی اور پتھر کے نمونے لے کر زمین پر آئے، انھوں نے وہاں ڈھائی سو فٹ کی دوری تک چہل قدمی کی اور چاند کی سرزمین پر ہمیشہ کے لیے نہ مٹنے والے انسانی قدم کے نقوش چھوڑ آئے، ان خلا نوردوں نے چاند پر مجموعی طور پر تقریباً بائیس گھنٹے گزارے وہ دو گھنٹے اکتیس منٹ اور چالیس سیکنڈ تک چاند کی سطح پر گھومتے پھرتے اور تجربات کرتے رہے۔
تینوں خلائی مسافر بہ حفاظت تقریباً آٹھ دن چودہ گھنٹے 12 منٹ پر مشتمل اس تاریخ ساز خلائی سفر کے بعد 24 جولائی 1969 کو زمین پر واپس آگئے، آرم اسٹرانگ کے بعد اب تک گیارہ دوسرے خلا باز بھی سطح مہتاب پر قدم رکھ چکے ہیں، تسخیر چاند کے بعد 2012 میں جب خلائی گاڑی ''کیوریسٹی'' سطح مریخ پر کامیابی کے ساتھ اترنے کے بعد مریخ کی تاریخی تصاویر بھیجنے اور اس سرخ سیارے پر زندگی کی کھوج لگانے پر 1877 میں اطالوی ماہر فلکیات گائیو وانی شیاپا ریلی اور 1905 میں امریکی ہیئت دان پر سیول لوول کی اعلان کردہ مریخی نہروں یا ان کے آثار کو دریافت کرنے میں معروف تحقیق تھی تو ساری دنیا کو نیل آرم اسٹرانگ کا چاند پر وہ پہلا قدم بھی شدت سے یاد آیا وہ دن اب دور نہیں جب جلد ہی انسان بردار جہاز بھی سطح مریخ پر اترے گا اور عہد جدید کا کوئی خلا نورد تاریخ میں جلد امر ہوجائے گا ، آرم اسٹرانگ نے سطح چاند پر مخصوص دھات کی بنی ہوئی ایک تاریخی تختی بھی نصب کی تھی جس پر یہ قابل غور تاریخی الفاظ کندہ تھے:
"Here foot upon the planet earth first set foot upon the man July 1969 A.D. We come in peace for all man kind"
''اس مقام پر سیارہ زمین سے انسان آئے۔ انھوں نے جولائی 1969 میں پہلی بار یہاں قدم رکھا۔ ہم تمام نوع انسانی کے لیے امنی و آشتی کی خاطر یہاں آئے۔''
اے کاش! انسان اپنے سیارہ زمین پر بھی ایک ایسی تختی نصب کرسکے جس پر لکھا ہو ''ہم امن کی خاطر اپنی زمین کو کبھی تباہ نہیں کریںگے اور امن کے ساتھ اس سیارے پر رہیںگے'' لیکن افسوس صد افسوس آج نیل گو سیارے کے نازک وجود کو خود امریکا ہی کے ایٹمی و جنگی جنون سے عظیم خطرات لاحق ہیں اور آج کرۂ ارض پر تمام تر سازشوں، شورشوں، مکر و فریب و دجل، حقوق انسانی کی پامالی اور فساد و دہشت گردی کا بنیادی مرکز و محور اور دنیا کا سب سے بڑا بدمعاش نیز سطح چاند پر نصب اس تاریخی تحریر پر بدنما داغ خود امریکا ہی ہے اور بلاشبہ یہ تاریخ انسانی کا سب سے بڑا المیہ ہے۔