سیرت النبیؐ کی روشنی میں توقیر انسانیت
مذہب و ملت کی تفریق کے بغیر انسانی زندگی کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
انسان کو انسان دو وجوہات کی بنیاد پر کہا جاتا ہے۔ ایک اس لیے کہ وہ بُھول جاتا ہے اور دوسرا یہ کہ وہ چیزوں سے مانوس ہوجاتا ہے۔
اﷲ تعالی نے انسان کو زمین میں اپنا خلیفہ اور نائب بنایا۔ اُس نے تما م انسانوں کو حضرت آدم علیہ السلام سے پیدا کیا اور اولاد آدم کو عزت و تکریم عطا کی۔ اس عزت و تکریم کی بنیاد انسان کا شعور اور رشتوں کی تمیز ہے جو اسے دیگر مخلوقات سے ممتاز کر دیتی ہے۔
انسان اﷲ تعالی کی پیدا کی گئی تمام مخلوقات میں سے اشرف اور افضل ہے۔ جس کی تخلیق کا مقصد وحید یہی تھا کہ وہ تمام جہانوں کے رب یعنی اﷲ تعالی کی عبادت کرے اور اس کی عزت و تکریم بھی اﷲ تعالی کی عبادت کرنے اور اس کے احکامات ماننے میں تھی۔ لیکن انسان اپنے اس مقصد اور اپنی عزت کے نشان کو بھولتا رہا۔ اﷲ تعالی نے انسان کی تذکیر کے لیے ہر دور میں پیغمبر مبعوث کیے۔
نبی کریمؐ کی آمد سے قبل بھی انسان مٹی اور پتھر کے بے جان بتوں کے آگے سجدہ ریز ہو چکا تھا۔ آپؐ کی بعثت انسانوں کے لیے اﷲ تعالی کا احسان عظیم تھا۔ آپؐ نے انسانوں کو اﷲ تعالی کی وحدانیت کا درس دیا اور عقیدۂ توحید ہی وہ جوہر ہے جو انسان کو حقیقی معنی میں عزت نفس عطا کرتا ہے۔ مسلمان صرف اﷲ تعالی کے آگے جھکتا ہے، یہ ایک سجدہ اسے ہزار سجدوں سے نجات دلاتا ہے، جس سے اس میں خودداری کا وصف پیدا ہوتا ہے۔
یہی وصف اس کی عزت و توقیر میں اضافہ کرتا ہے۔ اس کے علاوہ امام الانبیاء ﷺ نے انسانوں کو وہ پیغام دیا جس پر عمل کرنے سے وہ دنیا میں عروج اور آخرت میں جنت الفردوس کے وارث ہو سکتے ہیں۔ قرآن مجید نے انسان کے لیے سب سے بڑی کام یابی اﷲ تعالی اور اس کے رسول اکرمؐ کی اطاعت کو قرار دیا ہے۔ انسان ایمان کامل اور عمل صالح کو اختیار کر کے جنت جیسی عظیم نعمت حاصل کر سکتا ہے۔ اس لیے انسان کی عزت اﷲ کے دین کو ماننے اور اس پر عمل کرنے میں ہے۔
آپؐ کی بعثت سے قبل عرب کے جاہل معاشرے میں بیٹی کو بے عزتی کی نشانی اور معاشی بوجھ سمجھا جاتا تھا۔ لہذا اس کے پیدا ہوتے ہی اسے زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ آپ ؐ پر نازل ہونے والی پاک کتاب میں قتل اولاد کو بہت بڑی خطا اور گناہ عظیم قرار دیا۔ آپؐ نے اس مومن کے لیے آخرت میں اپنے قرب کا اعلان کیا جو اپنی دو بیٹیوں کی تعلیم و تربیت کرنے کے بعد ان کو اپنے گھر سے رخصت کرتا ہے۔ آپؐ نے دنیا کی جن تین چیزوں کو پسند فرمایا ان میں نیک عورت بھی شامل ہے۔ آپؐ نے خواتین کو معاشرتی زندگی میں حقوق عطا کیے۔
ماں کی صورت میں جنت کو اس کے قدموں کی خاک بنا دیا۔ بیوی کے ساتھ نیک سلوک کرنے والے کو مومنوں میں سے سب سے بہتر قرار دیا۔ اﷲ تعالی کے حکم سے آپ ؐ نے خواتین کو وراثت میں حصہ عطا کیا۔ نکاح کے معاملے میں اس کی رائے کا احترام کیا۔ کئی احادیث مبارکہ میں آپؐ نے مومن خواتین کے مناقب کو بیان فرمایا ہے۔ جو معاشرہ بیٹیوں کو جینے کا حق نہیں دیتا تھا آپؐ نے اسی معاشرے میں خواتین کے حقوق پورے کرنے کی تعلیم دی۔ آپؐ کو خواتین کے حقوق کی اتنی فکر تھی کہ خطبۂ حجۃ الوداع میں ان حقوق کا خاص طور پر ذکر فرمایا۔ رسول اﷲ ﷺ نے خواتین کو حقیقی معنی میں عزت اور توقیر عطا فرمائی ہے۔
یہ عزت آپ ؐ نے صرف مسلمان عورتوں کو نہیں بل کہ غیر مسلم عورتوں کو بھی عطا کی۔ حاتم طائی کی بیٹی قید ہوکر آتی ہے۔ اس کے سر پر کوئی چادر نہیں ہوتی۔ آپؐ اس کو اپنی چادر عطا کرتے ہیں۔ اسے حفاظت کے ساتھ اپنے گھر تک پہنچایا جاتا ہے۔ اس کا بھائی اس سے سوال کرتا ہے کہ انہوں نے تمہیں کوئی نقصان تو نہیں پہنچایا ؟ اس نے کہا میں تمہاری چار دیواری میں اتنی محفوظ نہیں ہوں جتنی حضرت محمد ؐ کے دربار میں محفوظ تھی۔
انسانوں نے معاشروں کو رنگ و نسل، زبان اور لہجے، ذات پات کے نظام پر قائم کیا اور انہی کو معیار فضیلت قرار دیا۔ آپ ؐپر نازل کردہ کتاب نے عزت اور فضیلت کا معیار ایمان، علم، تقوی اور جہاد کو قرار دیا۔ قرآن مجید کی رو سے انسانوں میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔
اسی آیت کی تشریح فرماتے ہوئے آپؐ نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا :
کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں، اسی طرح کسی سرخ کو کسی کالے پر اور کالے کو کسی سرخ پر کوئی فضیلت حاصل نہیں سوائے تقوی کے۔ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدمؑ کو مٹی سے تخلیق کیا گیا تھا۔
اس زمانے میں انسانوں کو غلام بنا لیا گیا تھا۔ انہیں انسان بھی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ ان پر ہر قسم کا ظلم روا رکھا جاتا۔ حضرت بلال ؓ حبشی کو اسلام قبول کرنے کے جرم میں ان کا آقا سخت سزائیں دیتا۔ کبھی مکہ کی پتھریلی زمین پہ گھسیٹا جاتا تو کبھی تپتی ریت پہ لٹا کے سینے پر بھاری پتھر رکھ دیے جاتے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اسی حضرت بلال ؓ کو ایمان اور تقوی کی وجہ سے یہ مقام حاصل ہوا کہ وہ چلتے زمین پر ہیں قدموں کی آہٹ عرش معلی پر سنائی دیتی ہے۔
آپ ؐحضرت جبریل امین علیہ السلام سے سوال کرتے ہیں، یہ کس کے چلنے کی آواز آرہی ہے ؟ بتایا گیا کہ یہ آپ کا غلام بلال ؓ ہے جو چلتا زمین پر ہے قدموں کی آہٹ عرش معلی پر سنائی دے رہی ہے۔
واپس آئے تو حضرت بلال ؓ سے فرمایا ایسا کیا عمل کرتے ہو کہ چلتے زمین پر ہو اور قدموں کی آہٹ عرش معلی پر سنائی دیتی ہے۔ انہوں نے جواب دیا اﷲ کے نبی ﷺ آپ کے ارشاد کے مطابق جب وضو کرتا ہوں تو دو رکعت نماز نفل ادا کرتا ہوں۔ موذن رسولؐ حضرت بلال ؓ کو سیدنا بلال کہہ کر پکا را گیا۔ جس کا معنی ہے ہمارے سردار بلال۔ سلام ہے اس دربار نبویؐ پر جہاں غلاموں کو سرداری عطا کی جاتی ہے۔ آپ ؐ نے مساوات کی اعلی مثال قائم کی۔
آپؐ کو معراج عطا کی گئی۔ آپؐ کی اپنے رب سے ملاقات ہوئی اور تین چیزیں عطا فرمائی گئیں۔ سورۂ بقرہ کی آخری آیات، پچاس نمازیں جو بعد میں آپ ؐ کی سفارش سے کم کرکے پانچ کر دی گئیں اور امت میں سے ان لوگوں کی بخشش کا وعدہ جو شرک نہیں کریں گے۔ مومنوں میں سے جو بھی معراج حاصل کرنا چاہتا ہے وہ نماز قائم کرکے معراج حاصل کر سکتا ہے ۔ اس لیے کہ نبی مکرم ﷺ نے نماز کو مومن کی معراج قرار دیا۔ اس معراج کی تصدیق کرنے پر حضرت ابوبکر ؓ کو صدیق کا لقب عطا ہوا۔
ایسے لوگ جو جاہلیت کے زمانے میں کوئی خاص مقام نہیں رکھتے تھے، آپؐ کی رفاقت اور صحبت نے انہیں عظیم الشان مقام عطا کیا۔ راہ زن راہ بر بن گئے۔ خون کے پیاسے، الفت و محبت کے خوگر بن گئے ۔ اونٹوں کے چرواہے اس اعلی صحبت کی بہ دولت روم اور ایران کو شکست فاش دیتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اﷲ ان سے راضی ہو جاتا ہے اور وہ اﷲ سے راضی ہو جاتے ہیں۔ ان کے ایمان کو مثالی قرار دیا جاتا ہے اور ان کی طرح ایمان لانے کا حکم دیا جاتا ہے۔ انہیں دنیا کی زندگی میں ہی جنت کی بشارت دے دی جاتی ہے۔ ان کے تذکروں سے قرآن کو سجایا جاتا ہے۔ اگر یہ لوگ حضرت محمد ﷺ کی تابعداری نہ کرتے تو انہیں یہ مقام کبھی حاصل نہ ہوتا۔
آپ ؐ نے انسانوں سے محبت کی ہے یہ اسی محبت کا نتیجہ تھا کہ انہیں بلند مقام ملے۔ قریش کے سردار نے واپس جا کر اپنی قوم سے کہا کہ تم محمد ﷺ کو کبھی شکست نہیں دے سکتے جس کے پروانے ان سے اس قدر محبت کرتے ہیں کہ ان کے وضو کے قطرے زمین پر نہیں گرنے دیتے۔
آپؐ نے اپنی مثالی تعلیمات میں بعض انسانوں کو بڑی عزت دی ہے۔ آپ ؐ نے ان لوگوں کے ہاتھ چومے ہیں جو محنت کر کے کماتے ہیں۔ ہاتھ سے کما کے کھانے والے کو اﷲ کا دوست قرار دیا۔
آپؐ نے فرمایا وہ ہم میں سے نہیں جو چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور بڑوں کی عزت نہیں کرتا۔ آپؐ کا فرمان ہے کہ جو اﷲ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے ہمسائے کی عزت کرنی چاہیے اور جو کوئی اﷲ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے مہمان کی عزت کرنی چاہیے۔ آپؐ کا فرمان عالی شان ہے کہ جو جوان کسی بوڑھے بزرگ کا اس کے بڑھاپے ہی کی وجہ سے ادب و احترام کرے گا تو اﷲ تعالی اس جوان پر بڑھاپے کے وقت ایسے بندے مقرر کر دے گا جو اس وقت اس کا ادب و احترام کریں گے۔
آج بھی ہمارے معاشرے میں بھی یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ اگر ہم میں سے کسی کے پاس مال و دولت زیادہ آجاتی ہے یا اسے کوئی اچھا عہدہ مل جاتا ہے تو وہ تکبر کرنے لگ جاتا ہے۔ آپؐ کی تعلیمات میں تکبر کی مذمت کی گئی ہے۔ تکبر کی تعریف یہی ہے کہ اپنے آپ کو بڑا سمجھنا اور دوسرے انسان کو اپنے سے حقیر سمجھنا۔ آپؐ کا فرمان عالی شان ہے کہ کسی آدمی کے لیے یہ شر ہی بہت ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے۔
ہر مسلمان کا سب کچھ مسلمان پر حرام ہے اس کا خون اس کا مال اور اس کی عزت۔ تکبر اﷲ اور اس کے رسولؐ دونوں کو ناپسند ہے۔ تکبر صرف اﷲ کو زیبا ہے۔ تاریخ انسانی اس بات کی گواہ ہے کہ تکبر کرنے والے ہلاک اور برباد ہوئے۔ ایسے لوگ قیامت کے دن چیونٹیوں کی شکل میں اٹھائے جائیں گے۔ جب کہ عاجزی کرنے والے مردوں اور عورتوں کے لیے اجر عظیم کا وعدہ کیا گیا ہے۔
عصر حاضر میں انسانی جان کی وہ حرمت ختم ہو رہی ہے جو اﷲ کے رسول ؐ نے انسانوں کو عطا کی تھی۔ دہشت گردی کے واقعات میں سینکڑوں بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ جنگی جنون میں مبتلا ممالک اور تنظیمیں معصوم شیر خوار بچوں اور عورتوں کو ابدی نیند سلا دیتے ہیں اور انہیں اس بے رحمی کا کوئی احساس نہیں ہوتا۔ معاشرتی جرائم میں بہن، بہن کو اور باپ اپنی اولاد کو قتل کر رہا ہے۔
معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی کے بعد ان کو قتل کر دیا جاتا ہے اور اس درندگی پہ مجرم کو کوئی شرمندگی نہیں ہوتی۔ خاندانی دشمنیوں کے نتیجے میں انسانوں کو قتل کرنا معمولی بات سمجھی جاتی ہے۔ امام الانبیاء ﷺ نے انسانی جان کو مکہ، کعبہ اور ذوالحجہ جیسی عظمت عطا کی تھی۔ اسلام میں یہ قابل تعزیر جرم اور جہنم میں گرانے والا عمل ہے۔
قرآن مجید میں ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا اور ایک انسان کی جان کو بچانا پوری انسانیت کی جان کو بچانے کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ لیکن افسوس کہ ہم مسلمان ہو کر بھی ان تعلیمات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ عالمی سطح پر بھی مذہب اور ملت کی تفریق کے بغیر انسانی زندگی کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں رحمت للعالمین ﷺ کا اسوۂ حسنہ ہماری بہترین راہ نمائی کرتا ہے۔
اﷲ تعالی نے انسان کو زمین میں اپنا خلیفہ اور نائب بنایا۔ اُس نے تما م انسانوں کو حضرت آدم علیہ السلام سے پیدا کیا اور اولاد آدم کو عزت و تکریم عطا کی۔ اس عزت و تکریم کی بنیاد انسان کا شعور اور رشتوں کی تمیز ہے جو اسے دیگر مخلوقات سے ممتاز کر دیتی ہے۔
انسان اﷲ تعالی کی پیدا کی گئی تمام مخلوقات میں سے اشرف اور افضل ہے۔ جس کی تخلیق کا مقصد وحید یہی تھا کہ وہ تمام جہانوں کے رب یعنی اﷲ تعالی کی عبادت کرے اور اس کی عزت و تکریم بھی اﷲ تعالی کی عبادت کرنے اور اس کے احکامات ماننے میں تھی۔ لیکن انسان اپنے اس مقصد اور اپنی عزت کے نشان کو بھولتا رہا۔ اﷲ تعالی نے انسان کی تذکیر کے لیے ہر دور میں پیغمبر مبعوث کیے۔
نبی کریمؐ کی آمد سے قبل بھی انسان مٹی اور پتھر کے بے جان بتوں کے آگے سجدہ ریز ہو چکا تھا۔ آپؐ کی بعثت انسانوں کے لیے اﷲ تعالی کا احسان عظیم تھا۔ آپؐ نے انسانوں کو اﷲ تعالی کی وحدانیت کا درس دیا اور عقیدۂ توحید ہی وہ جوہر ہے جو انسان کو حقیقی معنی میں عزت نفس عطا کرتا ہے۔ مسلمان صرف اﷲ تعالی کے آگے جھکتا ہے، یہ ایک سجدہ اسے ہزار سجدوں سے نجات دلاتا ہے، جس سے اس میں خودداری کا وصف پیدا ہوتا ہے۔
یہی وصف اس کی عزت و توقیر میں اضافہ کرتا ہے۔ اس کے علاوہ امام الانبیاء ﷺ نے انسانوں کو وہ پیغام دیا جس پر عمل کرنے سے وہ دنیا میں عروج اور آخرت میں جنت الفردوس کے وارث ہو سکتے ہیں۔ قرآن مجید نے انسان کے لیے سب سے بڑی کام یابی اﷲ تعالی اور اس کے رسول اکرمؐ کی اطاعت کو قرار دیا ہے۔ انسان ایمان کامل اور عمل صالح کو اختیار کر کے جنت جیسی عظیم نعمت حاصل کر سکتا ہے۔ اس لیے انسان کی عزت اﷲ کے دین کو ماننے اور اس پر عمل کرنے میں ہے۔
آپؐ کی بعثت سے قبل عرب کے جاہل معاشرے میں بیٹی کو بے عزتی کی نشانی اور معاشی بوجھ سمجھا جاتا تھا۔ لہذا اس کے پیدا ہوتے ہی اسے زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ آپ ؐ پر نازل ہونے والی پاک کتاب میں قتل اولاد کو بہت بڑی خطا اور گناہ عظیم قرار دیا۔ آپؐ نے اس مومن کے لیے آخرت میں اپنے قرب کا اعلان کیا جو اپنی دو بیٹیوں کی تعلیم و تربیت کرنے کے بعد ان کو اپنے گھر سے رخصت کرتا ہے۔ آپؐ نے دنیا کی جن تین چیزوں کو پسند فرمایا ان میں نیک عورت بھی شامل ہے۔ آپؐ نے خواتین کو معاشرتی زندگی میں حقوق عطا کیے۔
ماں کی صورت میں جنت کو اس کے قدموں کی خاک بنا دیا۔ بیوی کے ساتھ نیک سلوک کرنے والے کو مومنوں میں سے سب سے بہتر قرار دیا۔ اﷲ تعالی کے حکم سے آپ ؐ نے خواتین کو وراثت میں حصہ عطا کیا۔ نکاح کے معاملے میں اس کی رائے کا احترام کیا۔ کئی احادیث مبارکہ میں آپؐ نے مومن خواتین کے مناقب کو بیان فرمایا ہے۔ جو معاشرہ بیٹیوں کو جینے کا حق نہیں دیتا تھا آپؐ نے اسی معاشرے میں خواتین کے حقوق پورے کرنے کی تعلیم دی۔ آپؐ کو خواتین کے حقوق کی اتنی فکر تھی کہ خطبۂ حجۃ الوداع میں ان حقوق کا خاص طور پر ذکر فرمایا۔ رسول اﷲ ﷺ نے خواتین کو حقیقی معنی میں عزت اور توقیر عطا فرمائی ہے۔
یہ عزت آپ ؐ نے صرف مسلمان عورتوں کو نہیں بل کہ غیر مسلم عورتوں کو بھی عطا کی۔ حاتم طائی کی بیٹی قید ہوکر آتی ہے۔ اس کے سر پر کوئی چادر نہیں ہوتی۔ آپؐ اس کو اپنی چادر عطا کرتے ہیں۔ اسے حفاظت کے ساتھ اپنے گھر تک پہنچایا جاتا ہے۔ اس کا بھائی اس سے سوال کرتا ہے کہ انہوں نے تمہیں کوئی نقصان تو نہیں پہنچایا ؟ اس نے کہا میں تمہاری چار دیواری میں اتنی محفوظ نہیں ہوں جتنی حضرت محمد ؐ کے دربار میں محفوظ تھی۔
انسانوں نے معاشروں کو رنگ و نسل، زبان اور لہجے، ذات پات کے نظام پر قائم کیا اور انہی کو معیار فضیلت قرار دیا۔ آپ ؐپر نازل کردہ کتاب نے عزت اور فضیلت کا معیار ایمان، علم، تقوی اور جہاد کو قرار دیا۔ قرآن مجید کی رو سے انسانوں میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔
اسی آیت کی تشریح فرماتے ہوئے آپؐ نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا :
کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں، اسی طرح کسی سرخ کو کسی کالے پر اور کالے کو کسی سرخ پر کوئی فضیلت حاصل نہیں سوائے تقوی کے۔ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدمؑ کو مٹی سے تخلیق کیا گیا تھا۔
اس زمانے میں انسانوں کو غلام بنا لیا گیا تھا۔ انہیں انسان بھی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ ان پر ہر قسم کا ظلم روا رکھا جاتا۔ حضرت بلال ؓ حبشی کو اسلام قبول کرنے کے جرم میں ان کا آقا سخت سزائیں دیتا۔ کبھی مکہ کی پتھریلی زمین پہ گھسیٹا جاتا تو کبھی تپتی ریت پہ لٹا کے سینے پر بھاری پتھر رکھ دیے جاتے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اسی حضرت بلال ؓ کو ایمان اور تقوی کی وجہ سے یہ مقام حاصل ہوا کہ وہ چلتے زمین پر ہیں قدموں کی آہٹ عرش معلی پر سنائی دیتی ہے۔
آپ ؐحضرت جبریل امین علیہ السلام سے سوال کرتے ہیں، یہ کس کے چلنے کی آواز آرہی ہے ؟ بتایا گیا کہ یہ آپ کا غلام بلال ؓ ہے جو چلتا زمین پر ہے قدموں کی آہٹ عرش معلی پر سنائی دے رہی ہے۔
واپس آئے تو حضرت بلال ؓ سے فرمایا ایسا کیا عمل کرتے ہو کہ چلتے زمین پر ہو اور قدموں کی آہٹ عرش معلی پر سنائی دیتی ہے۔ انہوں نے جواب دیا اﷲ کے نبی ﷺ آپ کے ارشاد کے مطابق جب وضو کرتا ہوں تو دو رکعت نماز نفل ادا کرتا ہوں۔ موذن رسولؐ حضرت بلال ؓ کو سیدنا بلال کہہ کر پکا را گیا۔ جس کا معنی ہے ہمارے سردار بلال۔ سلام ہے اس دربار نبویؐ پر جہاں غلاموں کو سرداری عطا کی جاتی ہے۔ آپ ؐ نے مساوات کی اعلی مثال قائم کی۔
آپؐ کو معراج عطا کی گئی۔ آپؐ کی اپنے رب سے ملاقات ہوئی اور تین چیزیں عطا فرمائی گئیں۔ سورۂ بقرہ کی آخری آیات، پچاس نمازیں جو بعد میں آپ ؐ کی سفارش سے کم کرکے پانچ کر دی گئیں اور امت میں سے ان لوگوں کی بخشش کا وعدہ جو شرک نہیں کریں گے۔ مومنوں میں سے جو بھی معراج حاصل کرنا چاہتا ہے وہ نماز قائم کرکے معراج حاصل کر سکتا ہے ۔ اس لیے کہ نبی مکرم ﷺ نے نماز کو مومن کی معراج قرار دیا۔ اس معراج کی تصدیق کرنے پر حضرت ابوبکر ؓ کو صدیق کا لقب عطا ہوا۔
ایسے لوگ جو جاہلیت کے زمانے میں کوئی خاص مقام نہیں رکھتے تھے، آپؐ کی رفاقت اور صحبت نے انہیں عظیم الشان مقام عطا کیا۔ راہ زن راہ بر بن گئے۔ خون کے پیاسے، الفت و محبت کے خوگر بن گئے ۔ اونٹوں کے چرواہے اس اعلی صحبت کی بہ دولت روم اور ایران کو شکست فاش دیتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اﷲ ان سے راضی ہو جاتا ہے اور وہ اﷲ سے راضی ہو جاتے ہیں۔ ان کے ایمان کو مثالی قرار دیا جاتا ہے اور ان کی طرح ایمان لانے کا حکم دیا جاتا ہے۔ انہیں دنیا کی زندگی میں ہی جنت کی بشارت دے دی جاتی ہے۔ ان کے تذکروں سے قرآن کو سجایا جاتا ہے۔ اگر یہ لوگ حضرت محمد ﷺ کی تابعداری نہ کرتے تو انہیں یہ مقام کبھی حاصل نہ ہوتا۔
آپ ؐ نے انسانوں سے محبت کی ہے یہ اسی محبت کا نتیجہ تھا کہ انہیں بلند مقام ملے۔ قریش کے سردار نے واپس جا کر اپنی قوم سے کہا کہ تم محمد ﷺ کو کبھی شکست نہیں دے سکتے جس کے پروانے ان سے اس قدر محبت کرتے ہیں کہ ان کے وضو کے قطرے زمین پر نہیں گرنے دیتے۔
آپؐ نے اپنی مثالی تعلیمات میں بعض انسانوں کو بڑی عزت دی ہے۔ آپ ؐ نے ان لوگوں کے ہاتھ چومے ہیں جو محنت کر کے کماتے ہیں۔ ہاتھ سے کما کے کھانے والے کو اﷲ کا دوست قرار دیا۔
آپؐ نے فرمایا وہ ہم میں سے نہیں جو چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور بڑوں کی عزت نہیں کرتا۔ آپؐ کا فرمان ہے کہ جو اﷲ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے ہمسائے کی عزت کرنی چاہیے اور جو کوئی اﷲ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے مہمان کی عزت کرنی چاہیے۔ آپؐ کا فرمان عالی شان ہے کہ جو جوان کسی بوڑھے بزرگ کا اس کے بڑھاپے ہی کی وجہ سے ادب و احترام کرے گا تو اﷲ تعالی اس جوان پر بڑھاپے کے وقت ایسے بندے مقرر کر دے گا جو اس وقت اس کا ادب و احترام کریں گے۔
آج بھی ہمارے معاشرے میں بھی یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ اگر ہم میں سے کسی کے پاس مال و دولت زیادہ آجاتی ہے یا اسے کوئی اچھا عہدہ مل جاتا ہے تو وہ تکبر کرنے لگ جاتا ہے۔ آپؐ کی تعلیمات میں تکبر کی مذمت کی گئی ہے۔ تکبر کی تعریف یہی ہے کہ اپنے آپ کو بڑا سمجھنا اور دوسرے انسان کو اپنے سے حقیر سمجھنا۔ آپؐ کا فرمان عالی شان ہے کہ کسی آدمی کے لیے یہ شر ہی بہت ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے۔
ہر مسلمان کا سب کچھ مسلمان پر حرام ہے اس کا خون اس کا مال اور اس کی عزت۔ تکبر اﷲ اور اس کے رسولؐ دونوں کو ناپسند ہے۔ تکبر صرف اﷲ کو زیبا ہے۔ تاریخ انسانی اس بات کی گواہ ہے کہ تکبر کرنے والے ہلاک اور برباد ہوئے۔ ایسے لوگ قیامت کے دن چیونٹیوں کی شکل میں اٹھائے جائیں گے۔ جب کہ عاجزی کرنے والے مردوں اور عورتوں کے لیے اجر عظیم کا وعدہ کیا گیا ہے۔
عصر حاضر میں انسانی جان کی وہ حرمت ختم ہو رہی ہے جو اﷲ کے رسول ؐ نے انسانوں کو عطا کی تھی۔ دہشت گردی کے واقعات میں سینکڑوں بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ جنگی جنون میں مبتلا ممالک اور تنظیمیں معصوم شیر خوار بچوں اور عورتوں کو ابدی نیند سلا دیتے ہیں اور انہیں اس بے رحمی کا کوئی احساس نہیں ہوتا۔ معاشرتی جرائم میں بہن، بہن کو اور باپ اپنی اولاد کو قتل کر رہا ہے۔
معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی کے بعد ان کو قتل کر دیا جاتا ہے اور اس درندگی پہ مجرم کو کوئی شرمندگی نہیں ہوتی۔ خاندانی دشمنیوں کے نتیجے میں انسانوں کو قتل کرنا معمولی بات سمجھی جاتی ہے۔ امام الانبیاء ﷺ نے انسانی جان کو مکہ، کعبہ اور ذوالحجہ جیسی عظمت عطا کی تھی۔ اسلام میں یہ قابل تعزیر جرم اور جہنم میں گرانے والا عمل ہے۔
قرآن مجید میں ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا اور ایک انسان کی جان کو بچانا پوری انسانیت کی جان کو بچانے کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ لیکن افسوس کہ ہم مسلمان ہو کر بھی ان تعلیمات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ عالمی سطح پر بھی مذہب اور ملت کی تفریق کے بغیر انسانی زندگی کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں رحمت للعالمین ﷺ کا اسوۂ حسنہ ہماری بہترین راہ نمائی کرتا ہے۔