پریشر ککر
متعصب رویوں نے پوری قوم کوایک پریشرککر میں تبدیل کردیا ہے۔
ہرانسان،ملک اورخطے میں کسی نہ کسی صورت میں تعصبات موجودہوتے ہیں۔ان کی ہزارہابلکہ اَن گنت قسمیں ہیں۔یہ جذبے انسانوں کی زندگی کوپوری طرح کنٹرول کرتے ہیں اورعملی زندگی میں لوگ انھی ذہنی تعصبات کے غلام بنکرسانسیں پوری کرتے ہیں۔
دوسری طرف،یہ بھی انتہائی اہم نکتہ ہے کہ"صنعتی انقلاب"کے بعدمغربی دنیا نے پرانے طرزِزندگی اورقدیم سوچ کوبے دریغ چیلنج کیا۔ ان قوموں نے اپنی غلطیوں سے سیکھنے کے عمل کوبے حد اہمیت دی۔چنانچہ ایک سے ڈیڑھ صدی کی فکری،علمی اور سماجی جدوجہدکے بعدان کے موجودہ معاشرے کافی حدتک غیرمتعصب ہوچکے ہیں۔کافی حدتک کالفظ احتیاط کے لیے استعمال کررہاہوں۔ورنہ کئی ممالک توعملی طورپر ہر طرح کے تعصب سے اوپرجاچکے ہیں۔ سویڈن، ڈنمارک، آئس لینڈ اور ناروے بہت عمدہ مثالیں ہیں۔
جب میں اپنے ملک یعنی پاکستان کی طرف دیکھتا ہوں تواس معاشرے میں پوری دنیاکے مخالف رجحانات دیکھنے کو ملتے ہیں۔معلوم ہوتاہے کہ ہم ریل کے وہ ڈبے ہیں جوانجن سے علیحدہ ہوکرٹرین کی مخالف سمت میں تیزی سے دوڑرہے ہیں اوراپنی سمت کوانجن کی سمت سمجھ رہے ہیں۔کسی دلیل یا تجزئیے کواپنائے بغیراپنی روش کوہی درست سمجھ رہے ہیں۔
اس وقت پاکستان ان چندبدقسمت ممالک میں شامل ہے جوپوری دنیاسے علیحدہ اوربالکل مختلف ہونے پر فخر کر رہا ہے۔ تمام ممالک سے کٹاہوایہ ملک کامیابی کاکون ساماڈل ہے،اس پرآج بھی سوالیہ نشان ہے۔
سعودی عرب جیسا غیرلچکدارملک بھی دنیاوی رجحانات کوسمجھنے کی کوشش کر رہاہے۔اس جیساملک بھی سوسائٹی میں بنیادی تبدیلیاں کررہاہے۔مگرہمارے ملک نے توریورس گیئرمیں چلناشر وع کردیاہے۔پاکستان اپنی زندگی کے پہلے تیس سال،پوری دنیاکے لیے ترقی کاایک ماڈل سمجھا جاتا تھا۔
ایک ایسا جدید ملک جوپورے خطے میں روشن خیال رجحانات کی علامت تھا۔یورپ اورمشرق وسطیٰ کے امیرلوگ چھٹیاں گزارنے کراچی اورلاہورآتے تھے۔مگرہم دنیاکی واحدقوم ہیں جس نے جہالت اورتاریکی کی طرف سفرکواپنا مقدر بنایا اور پھر عذاب درعذاب،اسکواپنے قومی رویے میں تبدیل کردیا۔
کیا آپ یقین کرسکتے ہیں کہ عملی طورپرہم نے اپنے علاقائی تہواروں کوبھی بربادکرنے کی بھرپورکوشش کی اوراس منفی کام میں بھرپورکامیابی حاصل کی ہے۔"بسنت"جیسابے ضرر تہواربھی لوہے کی ڈور، گردنوں کے کٹنے اورریاستی نابالغ پن کاشکارہوگیا۔
دراصل ہمارا حکومتی فیصلہ یہ ہے کہ قوم کوخوش رہنے یاجائزطریقے سے اظہارِمسرت کاکوئی حق نہیں ہے۔اسے مذہب کی عینک سے دیکھ کرگناہ اورثواب کے پلڑوں میں تقسیم کردیا گیا۔ جب ملائشیا، انڈونیشیاء، دوبئی، الجیریا، موروکو اور دیگراسلامی ملکوں کی مثال دی جاتی ہے تو دلیل کے بجائے ایک درشت ترین رائے یافتویٰ آنے کا خوف لاحق ہوجاتا ہے۔
شروع شروع میں خیال تھاکہ تعلیم انسانی رویوں کو منجمدنہیں ہونے دیتی۔یہ کافی حدتک درست بات ہے مگر مکمل طورپرقطعاًدرست نہیں۔اردگردنظردوڑائیے۔بہترین تعلیم یافتہ لوگ بھی انتہائی مشکل رویوں کے مالک ہیں۔ یہاں یہ سوال اُٹھتاہے کہ "تعلیم"کی اصل تعریف کیا ہے۔ کیا بی اے،ایم اے اورپی ایچ ڈی کرنے کے بعدانسان تعلیم یافتہ ہوجاتاہے۔تعلیمی درسگاہوں میں جائیے۔ آپکو اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ نظرآئینگے جواپنی ذہنی فکرکے مخالف ہرفکر کوادنیٰ گردانتے ہیں۔پوری عمرغیرمتعصب سوچ کے حامل ہی نہیں ہوسکتے۔
ان کے نزدیک وہ جوفرمارہے ہیں،صرف وہی درست ہے۔کسی کواجازت ہی نہیں دیتے کہ ان سے دلیل پربات کرنے کی جرات کرلے۔اسکامطلب یہ ہوا کہ تعلیم میں بھی ذہنی کشادگی کوذریعہ ابلاغ نہ بنایاجائے تووہ بھی کسی کام کی نہیں۔صرف نوکری حاصل کرنے کاذریعہ بن سکتی ہے۔اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔اصل مغزیہ ہے کہ "تہذیب"بنیادی طورپرانسانوں کوبہت زیادہ متاثرکرتی ہے۔ سماجی،دینی،اقتصادی اوردیگرعملی رویوں کوترتیب بھی دیتی ہے اورترقی کرنے پرمجبور کرتی ہے۔مہذب ہونااور چیزہے اورتعلیم یافتہ ہوناکچھ اور۔ان میں بے حدجوہری فرق ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ1977تک ہماراعلاقہ قدرے متوازن ملک تھا۔مگرچارسے پانچ دہائیوں میں ہرچیزکوایک" خاص سوشل انجینئرنگ"کے تحت بدلاگیا ہے۔
ہمارے عظیم مذہب کے جہادی پہلوکوایک سیاسی سوچ بناکرسامنے لایاگیاہے۔نتیجہ سامنے ہے کہ پوراملک ایک فکری قبرستان بن چکاہے۔ہم بین الاقوامی سطح کاکوئی سائنسی،سماجی،مذہبی اوراقتصادی سائنسدان پیدا نہیں کر سکے۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک اورعمل بھی ہوتارہا،بلکہ تواترسے جاری ہے۔ ہم نے ہرجگہ،ہرمقام اورہرمرحلے پر "آزادسوچ"کوطاقت سے دبانے کی کوشش کی اوراس میں کامیاب ہوگئے۔
اندازہ فرمائیے کہ لبرل سوچ کے کتنے افراداس سماج میں خوف کے بغیررہ سکتے ہیں۔لکھ سکتے ہیں۔اپنابیانیہ لوگوں کے سامنے پیش کرسکتے ہیں۔ڈرکے بغیرمناظرے اورمباحثے کرسکتے ہیں۔ایک بھی نہیں یا شائد بہت کم۔ردِعمل یہ ہواکہ ہم زندگی کے ہرجزومیں منافق ہوچکے ہیں۔کہتے کچھ اورہیں اورعملی طورپرکرتے بالکل متضادہیں۔اس ردِعمل نے ہمیں نہ صرف تباہ کردیاہے بلکہ اقوام عالم میں ہمیں تماشہ بنادیاگیاہے۔
ایک رویہ مثال کے طورپرآپکے سامنے پیش کرتا ہوں۔ہمارے معاشرے میںلڑکی کواپنی پسندکی شادی کرنے کی مکمل آزادی حاصل نہیں ہے۔اپنی برادری، اپنا خاندان،اپناعقیدہ ہرطرح سے بالاترہے۔جوپاکستانی بچیاں مغربی ممالک میں رہ رہی ہیں،ان کے سوچنے کاانداز ہمارے رجہان سے بالکل مختلف ہے۔مغرب میں شادی دراصل مکمل ذہنی ہم آہنگی کادوسرانام ہے۔یہ ایک دن یا ایک پَل میں پیدا نہیں ہوتی بلکہ لڑکااورلڑکی کافی عرصے تک ایک دوسرے کوسمجھتے ہیں اورپھراثبات یاانکار ہوتا ہے۔ مگر عملی طورپرہمارے ملک سے مغربی ممالک میں مقیم لوگ اس بنیادی حق کواستعمال کرنے کی قطعاًاجازت نہیں دیتے۔
اگر کوئی لڑکی،مغربی لڑکے سے شادی کرلے توانجام صاف ظاہرہے۔اس لڑکی کو بہلا پھسلا کر پاکستان لایاجاتاہے۔ پھربے دردی سے قتل کرکے کسی حادثے کارنگ دیا جاتا ہے۔اس طرح کے کچھ واقعات توسامنے آجاتے ہیں۔ مگر سیکڑوں ایسے بھیانک واقعات ہیں،جوکبھی سامنے نہیں آتے۔
آپ کے لیے شائد حیرانگی کاباعث ہوکہ ہماری درسگاہیں توایک طرف،عملی زندگی بھی ایک طرف، ہمارے میڈیامیں بھی آزادسوچ پرمکمل پابندی ہے۔کوئی اخبار،کوئی چینل یہ جسارت ہی نہیں کرسکتاکہ بین الاقوامی رجحانات کے حساب سے ایک بیانیہ تشکیل دینے کی کوشش کرے۔یہاں انسانوں سے لے کرہرادارہ خوف زدہ ہے کہ کہیں کچھ ہونہ جائے۔کوئی مخالف سوچ والا بندہ نقصان نہ پہنچادے۔
مگراس خوف سے نکلناازحد ضروری ہے۔ورنہ معاملہ یہیں کایہیں رہیگا۔ تکلیف سے اعتراف کرناپڑتاہے کہ ہمارے ہمسایہ ملک نے تمام ترمشکلات کے باوجوداپنے سماج،سوسائٹی اورفکر کو کھولنے کی بھرپورکوشش کی ہے۔آج دنیامیںہرطریقہ سے کامیاب ہیں اورہم ایک تمسخرسے زیادہ اہمیت کے حامل نہیں۔وہاں،ان کے اہل علم،سینہ تان کرکہہ سکتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی فوج انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔وہاں ارون دتارائے جیسی عظیم خاتون،مقبوضہ کشمیرجاکرآزادی کامطالبہ کرسکتی ہے اوراسے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ہندوہونے کے باوجود، وہ مسلمانوں کے حقوق کے لیے آوازاُٹھاتی ہے۔کیااس طرح کی آوازہماری سوسائٹی میں پنپ سکتی ہے۔ کیا یہاںمتضادآوازکودبا نہیں دیا جائیگا۔
بے بنیادتعصبات ہماری ترقی کے لیے زہرکی حیثیت رکھتے ہیں۔انھوں نے نفرت کے پودوں کوزہرکی کھاد فراہم کی ہے۔بے اعتدالی اورمنافقت کے ایسے جنگل اُگادیے ہیں جس میں ہرطرف کانٹے اور زہر آلودپھل ہیں۔کسی ادارے یامقتدرشخص میں ہمت نہیں کہ وہ عمومی رویوں کی جگہ دلیل سے ترتیب دیے ہوئے رویوں کی آبیاری کرے۔ اگر معاملات اسی طرح چلتے رہے تو بین الاقوامی قوتیں ہمارا جغرافیہ تبدیل کرنے کی بھرپور کوشش کرینگے۔کوئی ہماری مدد کونہیں آئیگا۔ویسے کسی کو ہمیں محفوظ رکھنے میں دلچسپی بھی نہیں ہے۔
متعصب رویوں نے پوری قوم کوایک پریشرککر میں تبدیل کردیا ہے۔بائیس کروڑلوگوں میں ہرانسان ہلکی آنچ پرجل رہا ہے مگریہ کہنے کوتیارنہیں کہ آگ کو بجھائیے تاکہ زندگی واپس لوٹ آئے۔ شائد ہمیں پریشرککر میں رہنے پر مجبور کیاگیاہے اوراب ہم اس میں سے باہرنکلنے کو ہرگز ہرگزتیارنہیں!
دوسری طرف،یہ بھی انتہائی اہم نکتہ ہے کہ"صنعتی انقلاب"کے بعدمغربی دنیا نے پرانے طرزِزندگی اورقدیم سوچ کوبے دریغ چیلنج کیا۔ ان قوموں نے اپنی غلطیوں سے سیکھنے کے عمل کوبے حد اہمیت دی۔چنانچہ ایک سے ڈیڑھ صدی کی فکری،علمی اور سماجی جدوجہدکے بعدان کے موجودہ معاشرے کافی حدتک غیرمتعصب ہوچکے ہیں۔کافی حدتک کالفظ احتیاط کے لیے استعمال کررہاہوں۔ورنہ کئی ممالک توعملی طورپر ہر طرح کے تعصب سے اوپرجاچکے ہیں۔ سویڈن، ڈنمارک، آئس لینڈ اور ناروے بہت عمدہ مثالیں ہیں۔
جب میں اپنے ملک یعنی پاکستان کی طرف دیکھتا ہوں تواس معاشرے میں پوری دنیاکے مخالف رجحانات دیکھنے کو ملتے ہیں۔معلوم ہوتاہے کہ ہم ریل کے وہ ڈبے ہیں جوانجن سے علیحدہ ہوکرٹرین کی مخالف سمت میں تیزی سے دوڑرہے ہیں اوراپنی سمت کوانجن کی سمت سمجھ رہے ہیں۔کسی دلیل یا تجزئیے کواپنائے بغیراپنی روش کوہی درست سمجھ رہے ہیں۔
اس وقت پاکستان ان چندبدقسمت ممالک میں شامل ہے جوپوری دنیاسے علیحدہ اوربالکل مختلف ہونے پر فخر کر رہا ہے۔ تمام ممالک سے کٹاہوایہ ملک کامیابی کاکون ساماڈل ہے،اس پرآج بھی سوالیہ نشان ہے۔
سعودی عرب جیسا غیرلچکدارملک بھی دنیاوی رجحانات کوسمجھنے کی کوشش کر رہاہے۔اس جیساملک بھی سوسائٹی میں بنیادی تبدیلیاں کررہاہے۔مگرہمارے ملک نے توریورس گیئرمیں چلناشر وع کردیاہے۔پاکستان اپنی زندگی کے پہلے تیس سال،پوری دنیاکے لیے ترقی کاایک ماڈل سمجھا جاتا تھا۔
ایک ایسا جدید ملک جوپورے خطے میں روشن خیال رجحانات کی علامت تھا۔یورپ اورمشرق وسطیٰ کے امیرلوگ چھٹیاں گزارنے کراچی اورلاہورآتے تھے۔مگرہم دنیاکی واحدقوم ہیں جس نے جہالت اورتاریکی کی طرف سفرکواپنا مقدر بنایا اور پھر عذاب درعذاب،اسکواپنے قومی رویے میں تبدیل کردیا۔
کیا آپ یقین کرسکتے ہیں کہ عملی طورپرہم نے اپنے علاقائی تہواروں کوبھی بربادکرنے کی بھرپورکوشش کی اوراس منفی کام میں بھرپورکامیابی حاصل کی ہے۔"بسنت"جیسابے ضرر تہواربھی لوہے کی ڈور، گردنوں کے کٹنے اورریاستی نابالغ پن کاشکارہوگیا۔
دراصل ہمارا حکومتی فیصلہ یہ ہے کہ قوم کوخوش رہنے یاجائزطریقے سے اظہارِمسرت کاکوئی حق نہیں ہے۔اسے مذہب کی عینک سے دیکھ کرگناہ اورثواب کے پلڑوں میں تقسیم کردیا گیا۔ جب ملائشیا، انڈونیشیاء، دوبئی، الجیریا، موروکو اور دیگراسلامی ملکوں کی مثال دی جاتی ہے تو دلیل کے بجائے ایک درشت ترین رائے یافتویٰ آنے کا خوف لاحق ہوجاتا ہے۔
شروع شروع میں خیال تھاکہ تعلیم انسانی رویوں کو منجمدنہیں ہونے دیتی۔یہ کافی حدتک درست بات ہے مگر مکمل طورپرقطعاًدرست نہیں۔اردگردنظردوڑائیے۔بہترین تعلیم یافتہ لوگ بھی انتہائی مشکل رویوں کے مالک ہیں۔ یہاں یہ سوال اُٹھتاہے کہ "تعلیم"کی اصل تعریف کیا ہے۔ کیا بی اے،ایم اے اورپی ایچ ڈی کرنے کے بعدانسان تعلیم یافتہ ہوجاتاہے۔تعلیمی درسگاہوں میں جائیے۔ آپکو اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ نظرآئینگے جواپنی ذہنی فکرکے مخالف ہرفکر کوادنیٰ گردانتے ہیں۔پوری عمرغیرمتعصب سوچ کے حامل ہی نہیں ہوسکتے۔
ان کے نزدیک وہ جوفرمارہے ہیں،صرف وہی درست ہے۔کسی کواجازت ہی نہیں دیتے کہ ان سے دلیل پربات کرنے کی جرات کرلے۔اسکامطلب یہ ہوا کہ تعلیم میں بھی ذہنی کشادگی کوذریعہ ابلاغ نہ بنایاجائے تووہ بھی کسی کام کی نہیں۔صرف نوکری حاصل کرنے کاذریعہ بن سکتی ہے۔اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔اصل مغزیہ ہے کہ "تہذیب"بنیادی طورپرانسانوں کوبہت زیادہ متاثرکرتی ہے۔ سماجی،دینی،اقتصادی اوردیگرعملی رویوں کوترتیب بھی دیتی ہے اورترقی کرنے پرمجبور کرتی ہے۔مہذب ہونااور چیزہے اورتعلیم یافتہ ہوناکچھ اور۔ان میں بے حدجوہری فرق ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ1977تک ہماراعلاقہ قدرے متوازن ملک تھا۔مگرچارسے پانچ دہائیوں میں ہرچیزکوایک" خاص سوشل انجینئرنگ"کے تحت بدلاگیا ہے۔
ہمارے عظیم مذہب کے جہادی پہلوکوایک سیاسی سوچ بناکرسامنے لایاگیاہے۔نتیجہ سامنے ہے کہ پوراملک ایک فکری قبرستان بن چکاہے۔ہم بین الاقوامی سطح کاکوئی سائنسی،سماجی،مذہبی اوراقتصادی سائنسدان پیدا نہیں کر سکے۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک اورعمل بھی ہوتارہا،بلکہ تواترسے جاری ہے۔ ہم نے ہرجگہ،ہرمقام اورہرمرحلے پر "آزادسوچ"کوطاقت سے دبانے کی کوشش کی اوراس میں کامیاب ہوگئے۔
اندازہ فرمائیے کہ لبرل سوچ کے کتنے افراداس سماج میں خوف کے بغیررہ سکتے ہیں۔لکھ سکتے ہیں۔اپنابیانیہ لوگوں کے سامنے پیش کرسکتے ہیں۔ڈرکے بغیرمناظرے اورمباحثے کرسکتے ہیں۔ایک بھی نہیں یا شائد بہت کم۔ردِعمل یہ ہواکہ ہم زندگی کے ہرجزومیں منافق ہوچکے ہیں۔کہتے کچھ اورہیں اورعملی طورپرکرتے بالکل متضادہیں۔اس ردِعمل نے ہمیں نہ صرف تباہ کردیاہے بلکہ اقوام عالم میں ہمیں تماشہ بنادیاگیاہے۔
ایک رویہ مثال کے طورپرآپکے سامنے پیش کرتا ہوں۔ہمارے معاشرے میںلڑکی کواپنی پسندکی شادی کرنے کی مکمل آزادی حاصل نہیں ہے۔اپنی برادری، اپنا خاندان،اپناعقیدہ ہرطرح سے بالاترہے۔جوپاکستانی بچیاں مغربی ممالک میں رہ رہی ہیں،ان کے سوچنے کاانداز ہمارے رجہان سے بالکل مختلف ہے۔مغرب میں شادی دراصل مکمل ذہنی ہم آہنگی کادوسرانام ہے۔یہ ایک دن یا ایک پَل میں پیدا نہیں ہوتی بلکہ لڑکااورلڑکی کافی عرصے تک ایک دوسرے کوسمجھتے ہیں اورپھراثبات یاانکار ہوتا ہے۔ مگر عملی طورپرہمارے ملک سے مغربی ممالک میں مقیم لوگ اس بنیادی حق کواستعمال کرنے کی قطعاًاجازت نہیں دیتے۔
اگر کوئی لڑکی،مغربی لڑکے سے شادی کرلے توانجام صاف ظاہرہے۔اس لڑکی کو بہلا پھسلا کر پاکستان لایاجاتاہے۔ پھربے دردی سے قتل کرکے کسی حادثے کارنگ دیا جاتا ہے۔اس طرح کے کچھ واقعات توسامنے آجاتے ہیں۔ مگر سیکڑوں ایسے بھیانک واقعات ہیں،جوکبھی سامنے نہیں آتے۔
آپ کے لیے شائد حیرانگی کاباعث ہوکہ ہماری درسگاہیں توایک طرف،عملی زندگی بھی ایک طرف، ہمارے میڈیامیں بھی آزادسوچ پرمکمل پابندی ہے۔کوئی اخبار،کوئی چینل یہ جسارت ہی نہیں کرسکتاکہ بین الاقوامی رجحانات کے حساب سے ایک بیانیہ تشکیل دینے کی کوشش کرے۔یہاں انسانوں سے لے کرہرادارہ خوف زدہ ہے کہ کہیں کچھ ہونہ جائے۔کوئی مخالف سوچ والا بندہ نقصان نہ پہنچادے۔
مگراس خوف سے نکلناازحد ضروری ہے۔ورنہ معاملہ یہیں کایہیں رہیگا۔ تکلیف سے اعتراف کرناپڑتاہے کہ ہمارے ہمسایہ ملک نے تمام ترمشکلات کے باوجوداپنے سماج،سوسائٹی اورفکر کو کھولنے کی بھرپورکوشش کی ہے۔آج دنیامیںہرطریقہ سے کامیاب ہیں اورہم ایک تمسخرسے زیادہ اہمیت کے حامل نہیں۔وہاں،ان کے اہل علم،سینہ تان کرکہہ سکتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی فوج انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔وہاں ارون دتارائے جیسی عظیم خاتون،مقبوضہ کشمیرجاکرآزادی کامطالبہ کرسکتی ہے اوراسے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ہندوہونے کے باوجود، وہ مسلمانوں کے حقوق کے لیے آوازاُٹھاتی ہے۔کیااس طرح کی آوازہماری سوسائٹی میں پنپ سکتی ہے۔ کیا یہاںمتضادآوازکودبا نہیں دیا جائیگا۔
بے بنیادتعصبات ہماری ترقی کے لیے زہرکی حیثیت رکھتے ہیں۔انھوں نے نفرت کے پودوں کوزہرکی کھاد فراہم کی ہے۔بے اعتدالی اورمنافقت کے ایسے جنگل اُگادیے ہیں جس میں ہرطرف کانٹے اور زہر آلودپھل ہیں۔کسی ادارے یامقتدرشخص میں ہمت نہیں کہ وہ عمومی رویوں کی جگہ دلیل سے ترتیب دیے ہوئے رویوں کی آبیاری کرے۔ اگر معاملات اسی طرح چلتے رہے تو بین الاقوامی قوتیں ہمارا جغرافیہ تبدیل کرنے کی بھرپور کوشش کرینگے۔کوئی ہماری مدد کونہیں آئیگا۔ویسے کسی کو ہمیں محفوظ رکھنے میں دلچسپی بھی نہیں ہے۔
متعصب رویوں نے پوری قوم کوایک پریشرککر میں تبدیل کردیا ہے۔بائیس کروڑلوگوں میں ہرانسان ہلکی آنچ پرجل رہا ہے مگریہ کہنے کوتیارنہیں کہ آگ کو بجھائیے تاکہ زندگی واپس لوٹ آئے۔ شائد ہمیں پریشرککر میں رہنے پر مجبور کیاگیاہے اوراب ہم اس میں سے باہرنکلنے کو ہرگز ہرگزتیارنہیں!