میری سالگرہ

میرے جیسے قدامت پسند گاؤں کے لوگ ان تقریبات پر یقین نہیں رکھتے لیکن آج کی دنیا میں یہ مل بیٹھنے کا ایک بہانا ہیں۔


Abdul Qadir Hassan May 12, 2018
[email protected]

زندگی کی کتنی بہاریں گزر گئیں ان کا شمار نہیں کیا اور آنے والے دنوں کا علم نہیں بلکہ اگلی سانس کے بارے میں بھی معلوم نہیں کہ آئے گی بھی یا نہیں ۔ بچے کی پیدائش کا دن صرف اس کے والدین کو ہی یاد ہوتا ہے کہ ان کا بچہ کس دن کے کس وقت میں اس دنیا میں آیا ۔ میرے والد صاحب کا انتقال میرے بچپن میں ہی ہو گیا تھا، ان کی قربت کی چند دھندلی یادیں ابھی بھی میرے ساتھ رہتی ہیں ۔

وہ اپنے گاؤں کے معزز ترین شخص تھے ان کی لوگوں سے محبت اور قربت کا یہ عالم تھا کہ جو ایک دفعہ ان کے پاس رہنے کے لیے آ گیا پھر زندگی بھر بغیر کسی لالچ کے ان کے ساتھ ہی رہا یعنی اپنی زندگی ان کے لیے وقف کر دی اور میرے ایسے کئی چچا مجھے یاد ہیں جو کہ والد صاحب کی محبت میں اپنی پوری زندگی ان کے ساتھ گزار گئے ۔ ایک متمول اور بڑا زمیندار ہونے کے باوجود ان میں انکساری بدرجہ اتم موجود تھی اس لیے وہ اکیلے ہونے کے باوجود کبھی اکیلے نہ رہے اور ان کے دوست احباب ان کے گرد ہمیشہ احاطہ کیے رہتے، ان میں سے میرے کئی چچا ایسے بھی تھے جو کہ رات بھر میرے والد صاحب کی حفاظت کے لیے سر شام ہی ہمارے گھر آجاتے اور صبح کی اذان کے ساتھ ہی واپس چلے جاتے ۔

دیہات میں دشمنیاں ایک رواج کی طرح ہوتی ہیں میرے والد صاحب بھی بہت ہی چھوٹی عمر میں اکیلے رہ گئے تھے جس کی وجہ سے ان کے قریبی عزیزوں کی یہ خواہش تھی کہ اس بچے کی وسیع جائیداد وہ ہڑپ کر جائیں لیکن جیسے تیسے ہی ان کا بچپن سے جوانی کا سفر کٹ گیا اور ہمارے بزرگوں کے مریدوں نے ان کو اپنے مرشد کی نشانی سمجھ کر ان کی حفاظت کی۔

میں نے ایک بات کبھی اپنی کالموں میں نہیں لکھی کہ میرا تعلق ایک زمیندار گھرانے سے ہونے کے ساتھ ایک فقیر گھرانے سے بھی ہے میرے جد امجد میاں اطہر سلطان جو کہ ضلع خوشاب کے مشہور قصبے مٹھہ ٹوانہ میں مدفون ہیں اپنی فقیرانہ زندگی میں لوگوں میں فیض بانٹتے رہے اور بعد میں ان کے بیٹے حافظ جی صاحب نے ان کی گدی سنبھالی ان کا مٹھہ ٹوانہ میں دربار آج بھی ان کے عقیدت مندوں اور مریدین کے لیے ایک متبرک مقام کا درجہ رکھتا ہے ۔

قرب و جوار میں بسنے والے بڑے چھوٹے زمیندار جن میں علاقہ کے اس وقت کے جاگیردار ٹوانے بھی ان کے مریدین میںشامل ہیں۔ میں اسی فقیر درویش کی اولاد میں سے ہوں جنہوں نے لوگوں میں فیض ہی بانٹا اور ہم جیسے گنہگار اولاد کی صورت میں اس دنیا داری میں اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں۔

ایک بچے کا اپنے والدین سے تعلق انوکھی نوعیت کا ہوتا ہے اس کے لیے کل کائنات اس کے والدین ہی ہوتے ہیں جو اس کے ہر مسئلے کا حل جانتے ہیں اس کی ہر مشکل حل کر سکتے ہیں اس کو دنیا کی دھوپ چھاؤں سے بچا کر رکھتے ہیں ان کا پیار صرف اور صرف اس کے لیے ہی ہوتا ہے ۔میرا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا میں چونکہ اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا اس لیے سب سے زیادہ لاڈ پیار میرے حصے میں ہی آیا ۔

والد صاحب کو مثانے کی غدودوں کی تکلیف تھی لیکن میری ضد ہوتی تھی کہ مجھے گھوڑی پران کے آگے بیٹھنا ہے جس سے ان کو تکلیف ہوتی تھی لیکن وہ برداشت کرتے تھے، سفر کے دوران کسی بہانے سے ان کے رفقاء مجھے نیچے اتار لیتے اور میں ان کے کندھوں پر سوار ہو کر باقی کا سفر طے کرتا۔ میری والدہ صاحبہ گاؤں کے ایک اور معزز شخص میاں امیر عبداللہ کی صاحبزادی تھیں، رشتہ داری کے حساب سے وہ میرے والدصاحب کے کزن تھے یعنی میرے نانا اور میرے والد صاحب سے زیادہ بااثر اور معزز شخص میرے گاؤں میں کوئی اور نہ تھا ۔

میری پرورش شروع میں گاؤںمیں ہی ہوئی لیکن میں نے کبھی اپنی والدہ صاحبہ سے یہ پوچھنے کی جرات نہ کی کہ میں کب پیدا ہوا یعنی کون سا سال تھا اور تاریخ کیا تھی وہ تو بعد میں میرے بڑے بھائیوں نے اسکول میں داخلے کے وقت ایک تاریخ اور سال لکھوا دیا جو کہ اب تک میری تاریخ پیدائش کہلاتا ہے اس کی مصدقہ حیثیت کے بارے میں خود لاعلم ہوں ۔

میری والدہ میرے دوسرے ننھیالی بھائیوں کی طرح مجھے بھی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ بھیجنے پر بضد رہیں لیکن بوجہ میں وہاں تو نہ جا سکا لیکن گاؤں سے چند میل دور ایک مدرسے میں میرا داخلہ کر ادیا گیا جہاں سے ابتدائی دینی تعلیم کا آغاز ہوا اور بعد میں لاہور منتقل ہو گیا اور لاہور منتقل ہوتے وقت میری والدہ صاحبہ میرے بڑے بھائی سے سخت ناراض ہوئیں لیکن جب کوئی صورت نہ بن پڑی تو کہنے لگیں کہ اسے زیادہ پیسے دینا، سنا ہے کہ لاہور میں تو پانی بھی خریدنا پڑتا ہے ۔

دانائی کی انتہا تھی اور آج جب میں اپنے سامنے بوتلوں میں بھرا پانی دیکھتا ہوں اور ملازم کو ولائتی پانی پلانے کا کہتا ہوں تو بے اختیار مجھے اپنی والدہ صاحبہ یاد آجاتی ہیں جنہوں نے آج سے کئی دہائیاں پہلے ہی اپنے نوجوان بیٹے کوبادل نخواستہ لاہوربھیجتے ہوئے پانی خریدنے کی بات کی تھی۔ لاہور میں زندگی گزر گئی مگر گھر وہیں پہاڑوں کے دامن میں ہی رہا یعنی جسمانی طور پر تو لاہور کے باسی رہے لیکن دل و دماغ وہیں وادیٔ سون میں ہی اٹکا رہا۔ میرے قارئین جو کہ مجھے شروع سے پڑھتے آئے ہیں وہ آبائی علاقے کے میرے عشق سے بخوبی آگاہ ہیں۔

والدین چلے گئے بھائی بھی سب رخصت ہو گئے اب میرے لیے گاؤں جانا ممکن نہیں رہا اور نہ ہی میں جاتا ہوں کہ کس کے پاس جاؤں کون ہے جو میرا انتظار کرتا ہے ۔ میرا پوتا اور پوتیاں کہتے ہیں کہ بابا آپ اپنے گاؤں کے سب سے بڑے زمیندار ہیں سب آپ کا وہاں انتظار کرتے ہیں، میں ان کو انکار نہیں کر سکتا لیکن ہر دفعہ کوئی نہ کوئی بہانا بنا کر اپنے سفر کو ملتوی کر دیتا ہوں۔

مجھے بچوں نے بتایا کہ بابا آپ کی سالگرہ آرہی ہے میرے جیسے قدامت پسند گاؤں کے لوگ ان تقریبات پر یقین نہیں رکھتے لیکن آج کی دنیا میں یہ مل بیٹھنے کا ایک بہانا ہیں آج سے کئی سال پہلے میری ایک سالگرہ کا اہتمام میرے بچوں نے جمخانہ کلب لاہورمیں کیا اور میرے دیرینہ دوستوں کو ڈھونڈ ڈھانڈ کر ایک خوبصورت شام منعقد ہوئی، وہ دوبارہ ایسی ہی ایک تقریب کا اہتمام کرنا چاہتے تھے لیکن میں نے مختلف حیلے بہانے بنا کر ان کو قائل کر لیا، مجھے معلوم ہے کہ میرے دوستوں کی ایک بڑی تعداد اس محفل میں موجود نہ ہوگی ان میں کچھ تو اس دنیا سے ہی چلے گئے اور کچھ میری طرح اس قسم کی تقریبات میں شرکت سے گریز کرتے ہیں لہذا میں نے بچوں کو اپنی سالگرہ کا دن گھر میں ہی منانے پر قائل کیا ہے ۔

شوکت ہمارے ساتھ بڑا حادثہ ہوا

ہم رہ گئے ہمارا زمانہ چلا گیا

اور اب میں جوں کا توں اپنے بچوں کے ساتھ اس دنیا میں حادثات کا لطف لے رہا ہوں کیونکہ ہم رہ گئے ہمارا زمانہ چلا گیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں