خلائی مخلوق اور جھینگا لالا ہو
خلائی کارندے سفید میک اپ کرکے ’’جھینگا لالاہو جھینگا لالاہو ہرہر‘‘ کی آوازیں نکال کر چہار جانب تانڈو ناچ دکھارہے ہیں۔
میرے بچپن میں انھیں بھوت کہتے تھے ، دودھ نہیں پیا تو بھوت آ جائے گا، ابو امی کو بتائے بغیر کہیں نہ جانا ورنہ بھوت اٹھا کے لے جائے گا ، اندھیرے اور سناٹے میں بھوت رہتا ہے وغیرہ وغیرہ۔پھر پتہ چلا کہ جن بھی ہوتے ہیں۔بھوتوں کی طرح جن بھی دکھائی تو نہیں دیتے مگر بھوت گندے ہوتے ہیں اور جن انسانوں کی طرح اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی۔
اگر آپ جنوں کو تنگ نہ کریں تو جن بھی آپ کو تنگ نہیں کرتے بصورتِ دیگر چمٹ جاتے ہیں۔رات کو درخت کے نیچے نہیں سوتے ، نہ ہی درخت کی جڑ میں پیشاب کرتے ہیں کیونکہ وہاں جن رہتے ہیں۔اگر الہ دین کا چراغ مل بھی جائے تو اسے رگڑنا نہیں چاہیے ورنہ جن ہر وقت کام مانگتے رہتے ہیں اور کام نہ ملے تو فراسٹریٹ ہو جاتے ہیں اور اس فرسٹریشن میں آپ پر بھی چڑھ سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
پھر معلوم ہوا کہ جنوں کی طرح فرشتے بھی خدا کی نادیدہ مخلوق ہیں۔مگر وہ صرف حکم کے پابند اور عبادت گذار ہوتے ہیں۔بھوت بھگایا جا سکتا ہے ، جن بوتل میں بند کیا جا سکتا ہے مگر فرشتوں کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہو سکتا کیونکہ ان کی کمان براہِ راست خدا کے پاس ہے۔سب کی ذمے داری مقرر ہے ، کوئی پیغامبر ہے ، کوئی روح قبض کرتا ہے ، کوئی بارش برساتا ہے ، کوئی صور پھونکنے پر مامور ہے۔گویا دائرہ کار طے شدہ ہے ، کوئی کسی کے کام میں مداخلت نہیں کر سکتا۔
کئی یونانی، ہندو، افریقی، قدیم عرب اور امریکی انڈین دیوی دیوتا بھی الگ الگ محکمے ، اختیارات اور طاقت رکھتے ہیں۔لیکن فرشتوں اور ان دیوی دیوتاؤں میں یہ فرق ہے کہ فرشتے غیر جذباتی ہوتے ہیں جب کہ دیوی دیوتا اچھے برے جذبات سے معمور ہیں۔ وہ جنگیں بھی کرتے ہیں ، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے سازشیں بھی رچاتے ہیں، محبت بھی کرتے ہیں اور انتقام کا جذبہ بھی رکھتے ہیں۔ اکثر ان دیوی دیوتاؤں کی آپس کی رقابتوں کا خمیازہ انسان کو بھگتنا پڑتا ہے۔کئی کہانیوں میں انسانوں نے دیوتاؤں کو شکست بھی دی ہے مگر ایسا خال خال ہی ہوا ہے۔
دیوی دیوتاؤں اور فرشتوں کا مسکن آسمان ہے اور وہ وہیں سے زمینی امور کنٹرول کرتے ہیں یا بوقت ِ ضرورت نیچے بھی اتر آتے ہیں۔فرشتوں اور دیوتاؤں کے برعکس بھوت ، جن اور انسان زمین پر رہتے ہیں۔مگر ایک اور مخلوق ہے جو نہ زمین پر رہتی ہے نہ آسمان میں بلکہ وہ دیگر سیاروں پر رہائش پذیر ہے۔
اکثر لوگوں کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے اس خلائی مخلوق کو اڑن طشتریوں سے اترتے دیکھا ہے مگر تصویر کسی کے پاس نہیں۔ایچ جی ویلز نے وار آف دی ورلڈ جیسے ریڈیائی ڈراموں کے ذریعے مریخ کے باسیوں کے کرہِ ارض پر حملے کی فرضی تصویر کھینچ کے اہلِ زمین کو ڈرانے کی بھی کوشش کی ، ہالی وڈ اور بالی وڈ نے ایلینز یا خلائی مخلوق کی کہانیاں فلما کر ہم جیسے ناظرین کی جیبوں سے کروڑوں ڈالر بھی نکلوا لیے مگر خلائی مخلوق کے بارے میں جتنے منہ اتنی باتیں۔
ہمارے دور کے سب سے بڑے ماہرِ طبیعات و فلکیات سٹیفن ہاکنگ نے وفات سے چار برس پہلے کہا تھا کہ انھیں دوسرے سیاروں میں بھی مخلوق پائے جانے کا یقین ہے۔ ہمیں ایسی مخلوق کی تلاش ضرور جاری رکھنی چاہیے مگر اس سے رابطہ نہیں کرنا چاہیے۔ خلا میں خوامخواہ سگنلز بھیجنے سے پرہیز کیا جائے۔ کسی دن اگر ان سگنلز کا جواب آ گیا تو بڑی پرابلم ہو جائے گی۔
اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جوابی سگنلز بھیجنے والی مخلوق ہم سے زیادہ ترقی یافتہ ہے۔اور اگر اس نے تجسس کے ہاتھوں کرہِ ارض پر اترنے کا فیصلہ کر لیا تو ہم نہیں جانتے کہ وہ کس قدر ترقی یافتہ ہو۔ممکن ہے اس کے آگے ہماری اوقات بکٹیریاز سے زیادہ کی نہ ہو۔یہ بھی طے ہے کہ حملہ آور خلائی مخلوق کی ٹیکنالوجی ہم سے کئی گنا آگے کی ہوگی اور اس کے سامنے ہم بالکل نہتے ہوں گے۔ جیسے کولمبس کی بندوقوں کے سامنے تیر انداز ریڈ انڈین۔اور پھر آپ نے دیکھا کہ ان انڈینز کے ساتھ کیا ہوا ؟
مگر ایک شریف النفس کو میں جانتا ہوں جو کبھی میری آپ کی طرح عام سے انسان تھے۔انھیں خلائی مخلوق سے رابطوں کا شوق چرایا ۔ بقول حاسدین خلائی مخلوق کو بھی ان صاحب پر اتنا پیار آیا کہ گود لے لیا۔حتیٰ کہ خلائی مخلوق نے ان کی اردل میں چند جنات بھی دے دیے ۔جب جب بھی ان صاحب میں زمینی خدا بننے کی تمنا انگڑائی لینے لگتی تو ان کی سرزنش کے لیے بھوت پریت چھوڑ دیے جاتے جس کا مطلب نقصان پہنچانا نہیں بس ڈرانا تھا۔
پھر کرنا خدا کا یوں ہوا کہ خلائی مخلوق سے بھی چونکہ غلطی ہو سکتی ہے لہذا تیسری بار ان صاحب کو بوتل سے نکالنے کا تجربہ مہنگا پڑ گیا اور اس بار وہ بوتل میں دوبارہ بند ہونے کے بجائے خود کو اقتداری مقتول سمجھ کر بوتل سے چمٹ گئے۔
صورتِ احوال کچھ یوں ہے کہ جب تک اس اقتداری مقتول کی آتما کو '' مجھے کیوں نکالا ''کا تشفی بخش جواب نہیں ملے گا نہ تو یہ خود شانت ہو سکے گی نہ ہی دوسروں کو سکون سے بیٹھنے دے گی۔
کئی عامل اس آتما کو بوتل میں بند کرنے کے لیے طرح طرح کے منتر پڑھ رہے ہیں۔کئی قانون کی سرخ تپتی سلاخ لہرا رہے ہیں '' چلی جا چلی جا ورنہ جلا کر راکھ کردوں گا بچہ ''۔کئی چھان بین کے نیزوں کی انی سے بھٹکی ہوئی آتما سے خالی جسم کو کچوکے دے رہے ہیں ، کئی کا خیال ہے کہ وقفے وقفے سے ایک ایک بوٹی کاٹنے سے اس بھٹکی آتما کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔
کئی خلائی کارندے سفید میک اپ کر کے '' جھینگا لالا ہو جھینگا لالا ہو ہر ہر '' کی آوازیں نکال کر چہار جانب تانڈو ناچ دکھا رہے ہیں۔بھانت بھانت کا ایک ہانکہ ہجوم زور زور سے ڈھول ، پلیٹیں ، پراتیں بجا بجا کر بھٹکی ہوئی آتما کو تھکانے پر مامور ہے۔مگر آتما قابو میں نہیں آ رہی۔پچھلے کئی ماہ سے جاری اس گھن چکر نے سب کی توجہ اور سکون غارت کر رکھا ہے، آسمان پر تاحدِ نگاہ سوالیہ نشانات کی حکمرانی ہے ، تا افق ایسی دھول ہے کہ آدم اور خلائی مخلوق میں فرق کرنا دوبھر ہو رہا ہے۔
کاش میں سٹیفن ہاکنگ کو بتا سکتا کہ حضور ہم ہی وہ ہیں جنہوں نے ستر برس پہلے خلائی مخلوق کو سگنلز بھیج کر لال رومال دکھایا تھا۔ جب ان سگنلز کا جواب آنا شروع ہوا تو پتہ چلا کہ جسے ہم مذاق سمجھ رہے تھے وہ دراصل اپنے ساتھ سنگین مذاق تھا۔ڈیڑھ ہزار برس پہلے حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا تھا '' ناوقت مذاق دشمنی کی کنجی ہے''۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)