پاکستانی سیاست کو سمجھنے کا راز
ان سب کا ایک ہی فارمولا ہے بس محلول کا رنگ مختلف کردیتے ہیں اور پھر رنگ برنگے نئے نئے محلول بیچنے عوام میں آجاتے ہیں۔
اگر آپ پاکستان کی سیاست اور اس کی تاریخ کو سمجھنے کے خواہش مند ہیں اور اس کے لیے بے چین ہیں تو اس کے لیے پہلے آپ کو چار صدیاں قبل فرانسیسی مفکر لابوتی کا لکھا گیا مضمون ''رضاکارانہ غلامی'' پڑھنا ہوگا، تب ہی آپ پر پاکستانی سیاست کے راز و رموز کھل پائیں گے، اگر آپ ایسا نہیں کرتے ہیں تو پھر آپ ساری عمر پاکستانی سیاست کو سمجھ ہی نہیں پائیں گے اور زندگی بھر اندھیروں میں بھٹکتے پھریں گے۔ وہ اپنے مضمون میں لکھتا ہے۔
''جابر اور مطلق العنان حکمرانوں کو فوج، ہتھیار، گولہ بارود اور توپ خانہ قائم نہیں رکھتے ہیں بلکہ ان کے محافظ جو محض تین چار (زرخرید ) افراد ہوتے ہیں جو پورے ملک کو ان کی غلامی میں دے دیتے ہیں۔ ان کے قریب ترین افراد کا حلقہ زیادہ سے زیادہ پانچ چھ لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے، یہ لوگ یا تو چمچہ گیری سے اس کا قرب حاصل کر لیتے ہیں یا وہ انھیں خود منتخب کرتا ہے، ان کا مقصد اس کے مظالم میں اس کی ہاں میں ہاں ملانا اور جواباً اس کے تعیشات میں شریک ہونا اور لوٹ کے مال میں حصہ بٹانا ہوتا ہے۔
یہ چھ افراد اپنا اثر و نفود مزید چھ سو افراد پر قائم کرتے ہیں، جو ان کے حاشیہ بردار اور چمچہ گیر ہوتے ہیں چھ سو افراد، چھ ہزار افراد کو حلقہ بگوش کرتے ہیں جنہیں اہم سرکاری عہدے، انتظامی مراعات اور مالی اختیارات دیے جاتے ہیں تا کہ وہ ان کی بدعنوانیوں اور مظالم کی تائید و حمایت کرتے رہیں اور اگرکوئی گہرائی میں اتر کر دیکھنے کی کوشش کرے تو اسے اندازہ ہو گا کہ یہ محض چھ سو یا چھ ہزار افراد نہیں بلکہ لاکھوں افراد ہیں جو باہمی تعلقات اور مفادات کے رشتے میں منسلک ہو کرکھا پی رہے ہیں۔ ان سرکاری عہدیداروں کی تعداد جس قدر بڑھتی جائے گی عوام پر ہونے والا ظلم و تعدی بھی اس تناسب سے بڑھ جائے گا۔
اس طریقہ کار سے وہ خود بھی مستفید ہوتے ہیں اور حکمران طبقے کو بھی کرتے ہیں۔ جن لوگوں کو یہ سب کچھ راس آتا ہے یاجن کے مفادات اس میں پنہاں ہیں وہ تعداد میں اتنے زیادہ ہیں کہ وہ ان سچے اور دیانتدار افراد پر آسانی سے غالب آ جاتے ہیں جو آزادی و خود مختاری کو ترجیح دیتے ہوں جیسا کہ ڈاکٹرکہتے ہیں کہ اگر جسم میں کوئی پھوڑا یا ناسور ہو تو تمام مفسد مادے اسی کے ارد گرد اکھٹے ہونے لگتے ہیں، یہ حال ہماری حکومت کا بھی ہے جوں ہی کوئی بدعنوان اختیارات اپنے قبضے میں لیتا ہے وہ ریاست کے تمام بدکاروں کو اپنے ارد گرد اکٹھا کر لیتا ہے۔
اس طرح چوروں اور ڈکیتوں کا ایک گینگ تشکیل پاتا ہے جو خود دو وقت کی روٹی کمانے کی اہلیت بھی نہیں رکھتا اور صرف چوری اور حرام خوری میں ماہر ہوتا ہے۔ یہ گینگ اپنے لیڈرکو گھیر ے میں لیے رکھتا ہے اور مال غنیمت سے اپنا حصہ لیتا ہے۔ یوں ایک بڑے بدعنوان کے زیر سایہ لاتعداد چھوٹے چھوٹے، گھٹیا اور رذلیل بدعنوان پرورش پاتے ہیں۔ اگر غلطی سے ان میں کوئی بہتر یا قابل انسان شامل ہو جائے تو آمر اور بد عنوان اس سے خو ف کھانے لگتا ہے، جیسا کہ ''لکڑی کوکاٹنے کے لیے کلہاڑا بھی اسی لکڑی کا بنایا جاتا ہے، چنانچہ بدعنوان کو بھی اپنے ہی جیسے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔''
اب آپ اس مضمون کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کی سیاست، اس کی تاریخ اور سیاست کے اہم کرداروں کے کردار، ان کے انداز حکمرانی، ان کے طور طریقوں، ان کے ارد گر د موجود ساتھیوں اور مشیروں کے طریقہ کار کا گہرائی اور باریکی سے جائزہ لے لیں جب آپ مکمل جائزہ لے چکیں گے تو آپ پر بھی پاکستانی سیاست کے تمام پوشیدہ راز و رموزکھل جائیں گے اور پھر آپ پاکستانی سیاست کے ایک ماہرکی حیثیت سے اپنے آپ کو آئینے میں دیکھ کر مسکرا رہے ہونگے۔ ہماری ملکی سیاسی تاریخ کے اہم کرداروں کی اکثریت نے اسی مضمون کو مدنظر رکھتے ہوئے نہ صرف حکمرانی کی ہے بلکہ آج بھی کر رہے ہیں۔
جب یہ اقتدار سے رخصت ہوتے ہیں تو اپنے جانشینوں کو اس مضمون کی ایک کاپی تھما دیتے ہیں اور اللہ تمہارا حامی و ناصر ہو کہہ کر یہ جا اور وہ جا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جب بھی وہ پھنس جاتے ہیں تو مظلومیت اور معصومیت کے نئے لبادے اوڑھ کر جب عوام میں جاتے ہیں تو عوام ان بہروپیوں کو دور ہی سے جان اور پہچان لیتے ہیں۔ پھر ان کی باتیں سن سن کر تو عوام ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتے ہیں۔
ایسی ایسی دہائیاں اور راگنیاں سنانے بیٹھتے ہیں، جیسے ان سے زیادہ صادق، امین اور ایماندار تو آج تک دنیا میں کوئی دوسرا پیدا ہی نہیں ہوا، ان سے زیادہ ملک و قوم کا خیر خواہ کوئی اور دوسرا ہو ہی نہیں سکتا ہے۔ ملک اور قوم کے لیے اپنی جانیں بس لیے لیے پھر رہے ہیں لیکن جب قربانی دینے کا وقت آتا ہے تو قربان گاہ سے ایسے رفوچکر ہوتے ہیں کہ قوم انھیں ڈھونڈتی رہ جاتی ہے۔
ان سب کا ایک ہی فارمولا ہے بس محلول کا رنگ مختلف کر دیتے ہیں اور پھر رنگ برنگے نئے نئے محلول بیچنے عوام میں آ جاتے ہیں اور اپنے آپ کو دنیا کا سب سے بڑا شاطر، ذہین، سمجھ دار، کھلاڑی سمجھنے لگتے ہیں کہ لوگ ان کے نئے بہکاوے میں ایک مرتبہ پھر آ جائیں گے اور ہمارا نیا چورن ایک بار پھر خوب بکے گا پھرخوب لوٹ مار کریں گے، خو ب مزے کریں گے اپنے ساتھیوں کو بھی خو ب مزے کروائیں گے اور پھر جاتے ہوئے مضمون کی ایک کاپی نئے آنے والوں کو دے دیں گے۔