عمل میں اخلاص کی اہمیت

ہمارا عقیدہ ہے کہ دنیا دار الامتحان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ علم اپنے رسولوں کے ذریعے دیا۔

اللہ کے برگزیدہ نبی سیدنا داؤد علیہ السلام نے، جن پر چار آسمانی کتابوں میں سے ایک، زبور اتاری گئی تھی، بارگاہ ایزدی میں عرض کیا کہ وہ اْ س ترازوکو دیکھنا چاہتے ہیں جس میں قیامت کے دن لوگوں کے اعمال تولے جائیں گے، ان کی خواہش پوری ہوئی، مگر جب انھیں وہ ترازو دکھایا گیا تو آپ اسے دیکھ کر بیہوش ہو گئے اور ان کے منہ سے صرف اتنا نکلا کہ اتنا بڑا ترازو! عرض کیا یا اللہ! ہمارے چھوٹے چھوٹے اعمال اتنے بڑے ترازو میں تولے جائیں گے؟

جواب ملا ہاں، ہم اعمال کا چھوٹا بڑا ہونا نہیں بلکہ یہ دیکھیں گے کہ یہ کتنے اخلاص سے کیے گئے تھے یا ان میں دکھاؤے اور ریاکاری کو کتنا دخل تھا، ہم اخلاص کے ساتھ کیے گئے چھوٹے سے چھوٹے عمل کا بدلہ پہاڑوں کے بقدر دیتے ہیں اور پہاڑ اتنے ہی بڑے ترازو میں تولے جا سکتے ہیں۔

گویا اخلاص سے کیا جانے والا چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی بارگاہ رب العزت میں شرف قبولیت حاصل کرکے اپنے کرنے والے کی نجات اور بخشش کا ذریعہ بن سکتا ہے، جب کہ دکھاوے کے لیے اور ریاکاری سے کیا گیا بڑے سے بڑا عمل بھی اکارت جا سکتا ہے۔

کوئی ساری عمر نمازیں پڑھتا اور روزے رکھتا رہے، تہجد گزار ہو، صدقات وخیرات دینے والا اور نیکیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والا ہو لیکن اگر اس کا مقصد نام ونمود اور شہرت کا حصول ہے تو سمجھو یہ چیزیں اس کے کسی کام آنے کی نہیں۔ اس کے برعکس اگر وہ صرف اللہ کی خوشنودی اور رضا کے لیے کوئی چھوٹی سی نیکی بھی کر جائے تو وہ اس کا بیڑا پار ہونے کے لیے کافی ہے کیونکہ اللہ عمل کرنے والے کے اخلاص کو دیکھتا ہے۔

احادیث مبارکہ میں ایسی بہت سی چھوٹی چھوٹی اور بظاہر حقیر نیکیوں کا تذکرہ ملتا ہے جو اپنے کرنے والوں کی نجات کا ذریعہ بنیں اور ان کے کبیرہ گناہوں پر بھاری پڑگئیں۔ ایک پیاسے کتے کو پانی پلا کر اس کی جان بچانے والی فاحشہ عورت کے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، اْس سے کوئی باز پرس نہیں ہوتی۔ ایک جہنمی اپنے کسی شناسا کو جنت میں شاداں و فرحاں دیکھ کر یاد دلاتا ہے کہ ا ْس نے کبھی اسے سخت پیاس کی حالت میں پانی پلایا تھا، وہ جنتی اس کی نیکی یاد کرکے اللہ سبحانہ سے اس کی شفاعت کرتا ہے جو قبول کرلی جاتی ہے اور اس کو جہنم کے عذاب سے چھٹکارا مل جاتا ہے۔

ایک بہت بڑے محدث کا مشہور واقعہ ہے کہ کسی دن جب وہ احادیث مبارکہ لکھنے بیٹھے تو ان کی نظر قلم کی نوک پر بیٹھی مکھی پر پڑی جو اس پر لگی سیاہی سے اپنی پیاس بجھا رہی تھی، انھوں نے مکھی کو وہ ایک بوند سیاہی پینے کا موقعہ دینے کے لیے لکھنے کا کام کچھ دیر کے لیے موخر کر دیا۔ اللہ کو ان کا یہ عمل ایسا بھایا کہ اس کے بدلے انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرما دیا۔

حضرت مجدد الف ثانی کا ایک واقعہ بھی اسلامی کتب میں مذکور ہے کہ دورانِ تصنیف و تالیف آپ نے قلم کی نوک درست کرنے کے لیے اسے بائیں ہاتھ کے انگوٹھے کے ناخن پر رکھ کر دبایا جس سے وہاں معمولی سا سیاہی کا نشان پڑگیا۔ کچھ دیر بعد آپ کو قضائے حاجت کے لیے بیت الخلاء جانے کی ضرورت پیش آئی۔ بیٹھنے کے بعد آپ کی نظر اس پر پڑی تو خیال آیا جس سیاہی سے میں کلام اللہ کی تفسیر اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات گرامی ضابطہ تحریر میں لاتا ہوں، وہ اب طہارت کرتے وقت گندے پانی میں بہہ جائے گی۔ ضرورت روک کر فوراً اٹھ کھڑے ہوئے، باہر جاکر پہلے پاک وصاف جگہ پر انگوٹھے کے ناخن پر لگا ہوا سیاہی کا وہ نشان دھویا اور پھر آکر اپنی ضرورت پوری کی۔ بظاہر یہ چھوٹا سا عمل اللہ کی خوشنودی کے حصول اور اْن کے درجات کی بلندی کا وسیلہ بن گیا۔


تاریخ کی کتابوں میں بادشاہ ہارون رشید کی ملکہ زبیدہ کا بھی تذکرہ ملتا ہے جو بہت نیک اور خدا ترس خاتون مشہور تھیں۔ کہتے ہیں کلام اللہ سے ان کی رغبت کا عالم یہ تھا کہ 300 حافظات ہر وقت محل میں قرآن پاک کی تلاوت میں مشغول رہتی تھیں جس کی وجہ سے محل کے کونے کونے میں تلاوت قرآن کی آواز گونج رہی ہوتی تھی۔ اْ س زمانے میں چونکہ نقل وحمل کی موجودہ جدید سہولتیں مفقود تھیں اور دنیا بھر سے عازمین حج کے قافلے پا پیادہ یا اونٹوں، گھوڑوں اور خچروں پر مہینوں سفر کر کے ارض مقدس پہنچا کرتے تھے، دوران سفر انھیں پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

اْن کی ضرورت کے پیش نظر ملکہ زبیدہ نے عازمین حج کے راستے میں طویل فاصلے تک نہرکھدوانے کا منصوبہ بنایا۔ ان کے نام سے منسوب نہر زبیدہ سیکڑوں سال بعد آج بھی موجود ہے اور لاکھوں بندگان خدا اس سے مستفید ہوتے ہیں۔ کیا پتہ کئی سو میل رقبے کو سیراب کرنے والی اس نہر زبیدہ کو بھی اعمال تولنے والے اْسی ترازو میں تولاجائے جسے دیکھ کر سیدنا داؤد علیہ السلام غش کھا کر بیہوش ہوگئے تھے۔

ایک دوسری روایت کے مطابق جو میں نے برسوں پہلے کہیں پڑھی تھی، ملکہ زبیدہ نے ایک رات خواب دیکھا کہ بہت سے لوگ ملکر انھیںزیادتی کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ظاہر ہے وہ پریشان ہوگئیں اور اس بھیانک خواب کی تعبیر جاننے کے جتن کرنے لگیں۔ بالآخر وہ ایک ایسے آدمی کا پتہ لگوانے میں کامیاب ہوگئیں جو خوابوں کی درست تعبیر بتانے کے لیے مشہور تھا۔

ملکہ زبیدہ نے اپنی کنیزِ خاص کو خواب کی تعبیر جاننے کے لیے اس شخص کے پاس بھیجا اور تاکید کی کہ خواہ کچھ ہوجائے یہ ظاہر نہ کیا جائے کہ یہ خواب انھوں نے دیکھا ہے۔ ملکہ زبیدہ کے حکم کی تعمیل میں کنیز خوابوں کی تعبیر بتانے والے ماہر کے پاس پہنچی اور سارا ماجرا کہہ سنایا۔ اْ س شخص نے خواب سن کر کنیز سے پوچھا پہلے یہ بتایا جائے کہ خواب کس نے دیکھا ہے، کنیز نے جھوٹ جھوٹ کہہ دیا کہ اْس نے خود یہ خواب دیکھا ہے لیکن اْس شخص کو کنیز کی بات پر یقین نہ آیا اور بولا تم جیسی معمولی عورت ایسا خواب نہیں دیکھ سکتی۔

مجبوراً اسے بتانا پڑا کہ خواب اْس نے نہیں بلکہ ملکہ زبیدہ نے دیکھا ہے۔ تب اْس شخص نے اس کی یہ تعبیر بتائی تھی کی اْن کے ہاتھوں کوئی ایسا کام ہونے جا رہا ہے جس سے لاکھوں افراد مدتوں مستفید ہوتے رہیں گے۔ ایسا ہی ہوا اور ملکہ زبیدہ کی کھدوائی ہوئی انھی کے نام سے منسوب یہ نہر آج بھی ان گنت بندگانِ خدا اور حیوانات کی پیاس بجھانے نیز سیکڑوں ایکڑ زرعی زمین کو سیراب کرنے کا ذریعہ ہے۔ اللہ رب العالمین کے نزدیک اہمیت عمل سے زیادہ اْس اخلاص اور نیت کی ہے۔

جس سے کوئی نیک عمل کیا جاتا ہے۔ کوئی اچھا اور عوامی فلاح وبہبود کا کام اس لیے نہیں کیا جانا چاہیے کہ کرنے والے کی واہ واہ ہو، بطور ایک نیک انسان اْس کی شہرت کو چار چاند لگیں اور لوگ اْس کی بڑھا چڑھا کر تعریف کریں۔ اس کے بجائے اگر وہی کام خاموشی سے اور صرف اللہ کی رضا اور خوشنودی کی نیت سے کیا جائے تو ہو سکتا ہے وہ بارگاہِ ایزدی میں شرفِ قبولیت حاصل کرکے اپنے کرنے والے کی مغفرت و نجات کا ذریعہ بن جائے۔

ہمارا عقیدہ ہے کہ دنیا دار الامتحان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ علم اپنے رسولوں کے ذریعے دیا۔ چنانچہ جو لوگ رسولوں کو ماننے والے ہیں اور اْن کی لائی ہوئی شریعت پر ایمان رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ دنیا کے اس امتحان کے بعد اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے، لیکن اس سے پہلے سخت حساب کتاب ہوگا اور جو دنیا کے اس امتحان میں پاس ہوجائے گا، حتمی اور آخرت کی دائمی کامیابی اْسی کو نصیب ہوگی۔ اس عقیدے اور فلسفہ زندگی پر یقین رکھنے والوں کے اعمال بھی اسی کے تابع ہونے چاہئیں تبھی وہ نیک نیتی اور اخلاص سے کیے ہوئے اور اہمیت کے حامل مانے جائیں گے۔ اللہ رب العزت ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے ۔ (آمین)
Load Next Story