سات لاکھ روہنگی اور مون سون کے خطرات

سیلاب اور سائیکلون کا امکان تو وہی پرانا ہے لیکن اب کی بار شکار نیا ہے۔

بنگلہ دیش کا کاکسس بازار نہ صرف دنیا کی سب سے بڑی ساحلی پٹی بلکہ سیلابی خطرات کا شکار سب سے بڑا خطہ بھی ہے۔ بنگلہ دیشی حکومت اس خطے کو ایک اہم سیاحتی مرکز بنانے کی شدید خواہش مند ہے، لیکن آئے دن یہاں ہونے والے موسمی تغیرات اس راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ تباہ کن سیلابی ریلے اور سائیکلون کئی بار کاکسس بازار کو سنگین بحران کی جانب دھکیل چکے ہیں۔

1970ء میں آنے والے سائیکلون میں تین لاکھ افراد جان سے گئے، 1991ء میں آنے والا سائیکلون دس ملین افراد کو بے گھر کر گیا، گزشتہ دہائی کا سائیکلون دس ہزار جانوں کا نذرانہ لے کر رخصت ہوا اور اب تو شاید یہ خطہ مزید تباہیوں کے سہنے کی ہمت بھی نہیں رکھتا، لیکن بُرا ہو سائنسی ترقی کا جو چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ کاکسس بازار مزید خطرات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہے۔ سیلاب اور سائیکلون کا امکان تو وہی پرانا ہے لیکن اب کی بار شکار نیا ہے۔ اب کی بار خطرے کے دہانے پر سات لاکھ روہنگی مہاجرین ہیں، جن کو کاکسس بازار میں پھینک کر بنگلہ دیشی حکومت ان کی موت کی منتظر ہے، یہ مہاجرین خوف سے آسمان کو تک رہے ہیں۔

اپریل سے جولائی کے مہینے یہاں کسی قیامت سے کم نہیں۔ مون سون کی پہلی بارش نے چند ہی گھنٹوں میں کاکسس بازار میں جو تباہی پھیلائی ہے اس سے ہر طرف سراسیمگی پھیلی ہوئی ہے۔ بین الاقوامی امدادی تنظیموں نے یہاں رواں مون سون میں ایک بڑے طوفان کے خطرے کی پیش گوئی کی ہے جس سے مہاجرین کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں۔

''سیو دا چلڈرن'' Save the Children کے مینجر کمیونیکیشن اس بارے میں کہتے ہیں،''متوقع طوفان کے خطرات سے نمٹنے کے لیے اب تک کوئی تیاری نہیں لہٰذا یہ تو طے ہے کہ جانیں جائیں گی لیکن یہ سوال زیادہ اہم ہے کہ کتنی جانیں خطرے کی زد پر ہیں؟'' برطانوی ریڈکراس کے سربراہ کینی ہیملٹن نے کہا ،''مون سون کے حوالے سے کاکسس بازار میں شدید خطرات موجود ہیں لیکن اتنی بڑی آبادی کو بچانے کا کوئی انتظام نہیں۔''

کاکسس بازار میں دو لاکھ مہاجرین لینڈ سلائیڈنگ کے خطرے کا براہ راست نشانہ ہیں۔ مون سون کی پہلی بارش نے ہی امدادی اداروں میں کھلبلی مچا دی ہے۔ چند گھنٹوں کی برسات اور اس کے بعد کئی روز تک چلنے والی طوفانی ہواؤں نے کاکسس بازار کا منظر مزید بگاڑ دیا ہے۔ کیمپوں میں بننے والے گڑھے اور ا ن میں بھرنے والا پانی روہنگیا مہاجرین کے دن اور رات کا بچا کچھا سکون بھی حرام کرچکا ہے۔

سڑکوں کے زیرآب آنے کے باعث مہاجرین کو فراہم کی جانے والی خوراک اور ادویات کی ترسیل میں رکاوٹ آگئی ہے۔ امدادی اداروں کے کارکنوں نے کیمپوں کو محفوظ بنانے کے لیے نئی شیٹیں تو فراہم کی ہیں لیکن موسم کے بگڑتے تیوروں کے سامنے یہ ایک لاحاصل سرگرمی کے سوا اورکیا ہے، صورت حال تو اس وقت زیادہ خطرناک ہو جاتی ہے جب طوفان کے بعد تمام راستے مسدود ہو جاتے ہیں اور امدادی کارکنان مہاجرین کی مدد کو نہیں پہنچ پاتے۔


بنگلہ دیش کے کاکسس بازار نے روہنگیا کے باشندوں کو برمی حکومت کے ستم سے بچا کر پناہ تو دی مگر افسوس! مہاجرین کے لیے یہ جگہ بھی ایک قید خانے سے کم نہیں۔ خیموں کے اطراف ستائیس ملٹری چیک پوائنٹس ہیں۔ یہاں ڈیوٹی پر مامور سپاہی مہاجرین کو اس جگہ سے آگے جانے کی کسی صورت اجازت نہیں دیتے۔ موسم کی تباہ کاریوں سے مہاجرین کو بچانے کے لیے ریڈ کراس نے پندرہ ہزار خاندانوں کو یہاں سے منتقل کر دیا ہے لیکن ان سب کی جانوں کو بچانا تنہا امدادی تنظیموں کے بس کی بات نہیں۔ کاکس بازار میں مہاجرین موسم کی سختیوں سے نمٹنے کے لیے خود ہی کمر بستہ ہیں۔

موت ان کے سر پر منڈلا رہی ہے اور وہ اس سے بچاؤ کے لیے اطراف سے مٹی سے بھرے تھیلے، کچرے سے بھری پانی کی بوتلیں اور ایسا سامان تلاش کرنے میں مصروف ہیں جن کا بوجھ لاد کر وہ اپنے سائبان کو طوفانی ہواؤں میں اُڑنے سے بچا سکیں۔ برمی مظالم سے بچ نکلنے والے بے بس انسان اب موت سے پنجہ آزمائی میں مصروف ہیں، لیکن مفر شاید نصیب میں نہیں! آگے کے تمام راستے ان پر بند ہیں۔ برٹش ریڈ کراس نے ایک ملین پاؤنڈ مون سون کے خطرات سے بچنے کے لیے مختص کیے ہیں۔ ان کی توجہ کا مرکز مہاجرین کے کیمپوں کے آس پاس سے فضلے اور گندگی کی صفائی ہے، تاکہ موسم برسات میں وبائی امراض کم سے کم پھوٹیں، لیکن بنگلہ دیشی حکومت ان مہاجرین کے تحفظ کی طرف سے روایتی مجرمانہ غفلت برت رہی ہے۔

دنیا کے تقریباً تمام خطوں میں انسانیت حقیقی خطرات میں گھری ہوئی ہے لیکن افسوس ملکوں کی اندرونی سیاست، اکھاڑ پچھاڑ اور ذاتی مفادات کے حصول کی ہوس نے اقوام عالم کو اپنے اپنے مسائل کے سلجھاؤ میں اتنا الجھا دیا ہے کہ حقیقی مسائل کا شکار بے بس انسانوں کے بارے میں سوچنے کا وقت کسی کو میسر ہی نہیں۔ نفسانفسی کی اس مار نے احساسات مجروح کر کے ایسی خود غرض دنیا کو جنما ہے جس میں کوئی کسی کا ساتھ دینا تو کجا دکھ محسوس کرنے کو بھی تیار نہیں۔ روہنگیا مہاجرین دنیا کی پہلی بے گھر آبادی نہیں، روہنگیا تنازعہ دنیا کا پہلا تنازعہ نہیں، دنیا پہلے بھی سیکڑوں بار یہ تماشے دیکھ چکی ہے۔ پہلے بھی مہاجرین کی کئی کئی نسلیں دنیا کے ٹھیکے داروں کے رحم وکرم پر رسوا اور برباد ہوئی ہیں۔

اب بھی اس بحران پر دنیا بھر میں حکومتی سطح پر مجرمانہ خاموشی ہے اور مہاجر مخالف پالیسیوں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے، لیکن تصویر کا ایک روشن پہلو یہ ہے کہ انھی ممالک کے میڈیا کا کردار اس ضمن میں قابل تحسین ہے، جو ان مہاجرین کے لیے چیخ بھی رہا ہے اور لکھ بھی رہا ہے، لیکن افسوس کان بہرے ہو چکے ہیں۔

میں اس وقت تصور کی آنکھ سے خود کو کاکسس بازار میں محسوس کررہی ہوں۔ یہاں کا منظر انسانی منڈی کی طرح محسوس ہو رہا ہے۔ جس طرح مویشی منڈی میں جانوروں کو ایک جگہ باندھ کر چارا اور پانی فراہم کردیا جاتا ہے، کاکسس بازار کے مہاجرین کی زندگیاں بھی اسی حیوانی طرز پر گزر رہی ہیں۔ لیکن ان کے مقابلے میں مویشی منڈی کے جانور مجھے یوں خوش قسمت لگ رہے ہیں کہ ان کا کوئی مالک تو ہے جو ان کو موسمی تغیرات اور دیگر خطرات سے محفوظ رکھنے کی سر توڑ کوشش کرتا ہے، مہاجرین تو اس معاملے میں چوپایوں سے بھی بدتر ہیں کہ ان کو کوئی اپنا ماننے کو تیار ہی نہیں، الٹا ان کے جانی نقصان پر شکرانہ ادا کیا جاتا ہے۔ کاکسس بازار میں یہ مون سون ایسی قیامت لانے کو تیار کھڑا ہے کہ جب وہ ٹلے گی تو کتنی ہی لاشوں پر گدھ مہمان بن کر ضیافت اڑائیں گے اور مہاجرین بے زار حکومتیں سُکھ کا سانس بھریں گی۔

کاکسس بازار کی پہلی مون سون بارش کے بعد کی دو رونگھٹے کھڑی کردینے والی تصاویر اس وقت میرے سامنے ہیں۔ دو مائیں ہیں۔ ایک کی گود میں چار سالہ بچے کی میت ہے اور وہ بے بسی سے آسمان کو تک رہی ہے۔ اور دوسری ماں چالیس دن کے بچے کی میت کو سینے سے لپٹائے ہوئے ہے۔ یہ مردہ بچہ مکمل طور پر لباس سے محروم ہے۔ ننگ دھڑنگ بے روح جسم کو ماں وارفتگی سے چوم رہی ہے، لیکن یہ کیسے آنسو، آہیں اور سسکیاں ہیں جو دنیا تک نہیں پہنچ پارہیں۔ سسکیاں تو شاید سُست رفتار ہوتی ہیں کہ دنیا تک نہیں پہنچ پاتیں لیکن بددعاؤں اور آہوں کی رفتار ذرا بھی تیز ہوئی تو دنیا میں کہاں اور کب شعلے بھڑک اُٹھیں، اس سے آگے سوچنے کی تاب نہیں۔
Load Next Story