ٹیکس ایمنسٹی اسکیم میں خامیاں لوگ اثاثے کالا دھن ظاہر کرنے سے گریزاں
ٹیکس آفیسر کو دولت سے متعلق پوچھنے کا اختیار دے دیا گیا جس میں مدت کا تعین بھی نہیں۔
وفاقی حکومت کی جانب سے پاکستانیوں کو اندرون ملک و بیرون ملک غیر قانونی اثاثہ جات اورکالا دھن سفید کرانے کا موقع دینے کیلیے اعلان کردہ ایمنسٹی اسکیم میں بڑے پیمانے پرخامیوں کا انکشاف ہواہے جس کے باعث کالادھن و غیر قانونی اثاثہ جات رکھنے والے پاکستانیوں کو اسکیم سے فائدہ اٹھانے میں دشواریوں کا سامنا ہے اور اسکیم کی ناکامی کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
ایکسپریس کو دستیاب دستاویزکے مطابق ٹیکس بارز نے ایمنسٹی اسکیم اور اس کیلیے اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں پائے جانے والے ابہام اور خامیاں دور رنے کیلیے ایف بی آر سے رجوع کرنا شروع کردیا ہے اور ریونیو بورڈکو تحریری شکایات مل رہی ہیں۔
راولپنڈی اسلام آباد ٹیکس بار ایسوسی ایشن نے بھی چیئرمین ایف بی آرکو آٹھ صفحات پر مشتمل خط لکھا ہے کہ ایمنسٹی اسکیم کوکامیاب بنانے کیلیے جاری کردہ آرڈیننسز اور اسٹیٹ بینک کے نوٹیفکیشن میں خامیاں دورکی جائیں۔
ٹیکس بار ایسوسی ایشن کے صدرسید توقیر بخاری اورسینئر نائب صدر فراز فضل کا کہنا ہے کہ آرڈیننس میں شامل سیکشن 114 اس ایمنسٹی اسکیم کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ ہے اور لوگ غیر قانونی اثاثہ جات اور دولت ظاہرکرنے سے گریزکر رہے ہیں۔
مذکورہ سیکشن کے تحت ٹیکس آفیسرکو ظاہرکردہ اثاثہ جات و دولت کے بارے میں پوچھنے کا اختیار دیا گیا ہے ۔اس میں کہا گیا ہے کہ اسکیم سے فائدہ اٹھانے کیلیے مارکیٹ ویلیو یا ڈی سی ریٹ میں سے جس کی ویلیو زیادہ ہوگی اسے تصورکیا جائیگا اور اگر ٹیکس دہندہ کی جانب سے مس ڈکلیئریشن یا مس ریپریزنٹیشن سامنے آئی تو ایمنسٹی کا اطلاق نہیں ہوگا، لوگ خوف زدہ ہیں کہ اگر آج وہ اثاثے و دولت ظاہر کرتے ہیں تو ٹیکس آفیسرزکسی بھی وقت ان سے چیک بُکس کی کاپیاں اور ریکارڈ مانگ سکتے ہیں۔
ایف بی آر سے کہا گیا ہے کہ سیکشن 114 کے حوالے سے کنفیوژن دور کی جائے اور اگر ٹیکس آفیسرکو اختیار دینا ضروری ہے تو اس کیلیے کوئی معیاد مقررکی جائے۔خط میں آرڈیننس کے سیکشن 5میں بھی کنفیوژن کی نشاندہی کی گئی ہے ۔
اس سیکشن میں کہا گیا ہے کہ آرڈیننس کی تاریخ سے پہلے تک کی آمدنی اور اثاثہ جات کو پانچ فیصدکی رعایتی شرح سے ٹیکس ادائیگی پر قانونی حیثیت دلوائی جاسکے گی،اس سکیشن کے غلط استعمال کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔آرڈیننس کے سیکشن آٹھ میں بھی ٹائپنگ کی غلطی پائی گئی ہے اور اس سیکشن میں مقامی اثاثہ جات و دولت کو ڈکلیئرکرنے کیلیے بھی ادائیگی ڈالر میں کرنا ہوگی۔
خط میں کہا گیا ہے کہ مقامی ایمنسٹی کیلیے ٹیکس و واجبات کی ادائیگی کو امریکی ڈالرکے بجائے ملکی کرنسی کے الفاظ درج کیے جائیں۔خط میںکہا گیا ہے ایمنسٹی اسکیم آرڈیننس میں پبلک آفس ہولڈرکے زمرے میں آنے والوںکی طویل فہرست شامل کی گئی ہے جس سے الجھاؤ پیدا ہوا ہے۔آرڈیننسز میں کورٹ آف لاء کے الفاظ پر بھی کنفیوژن ہے کیونکہ قانونی طور پرسُپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کورٹ آف لا ہیں مگرایپلٹ ٹربیونل، انکم ٹیکس اور ایف بی آرکے کمشنر اپیلز بھی خود کو کورٹ آف لا کہتے ہیں۔
ایکسپریس کو دستیاب دستاویزکے مطابق ٹیکس بارز نے ایمنسٹی اسکیم اور اس کیلیے اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں پائے جانے والے ابہام اور خامیاں دور رنے کیلیے ایف بی آر سے رجوع کرنا شروع کردیا ہے اور ریونیو بورڈکو تحریری شکایات مل رہی ہیں۔
راولپنڈی اسلام آباد ٹیکس بار ایسوسی ایشن نے بھی چیئرمین ایف بی آرکو آٹھ صفحات پر مشتمل خط لکھا ہے کہ ایمنسٹی اسکیم کوکامیاب بنانے کیلیے جاری کردہ آرڈیننسز اور اسٹیٹ بینک کے نوٹیفکیشن میں خامیاں دورکی جائیں۔
ٹیکس بار ایسوسی ایشن کے صدرسید توقیر بخاری اورسینئر نائب صدر فراز فضل کا کہنا ہے کہ آرڈیننس میں شامل سیکشن 114 اس ایمنسٹی اسکیم کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ ہے اور لوگ غیر قانونی اثاثہ جات اور دولت ظاہرکرنے سے گریزکر رہے ہیں۔
مذکورہ سیکشن کے تحت ٹیکس آفیسرکو ظاہرکردہ اثاثہ جات و دولت کے بارے میں پوچھنے کا اختیار دیا گیا ہے ۔اس میں کہا گیا ہے کہ اسکیم سے فائدہ اٹھانے کیلیے مارکیٹ ویلیو یا ڈی سی ریٹ میں سے جس کی ویلیو زیادہ ہوگی اسے تصورکیا جائیگا اور اگر ٹیکس دہندہ کی جانب سے مس ڈکلیئریشن یا مس ریپریزنٹیشن سامنے آئی تو ایمنسٹی کا اطلاق نہیں ہوگا، لوگ خوف زدہ ہیں کہ اگر آج وہ اثاثے و دولت ظاہر کرتے ہیں تو ٹیکس آفیسرزکسی بھی وقت ان سے چیک بُکس کی کاپیاں اور ریکارڈ مانگ سکتے ہیں۔
ایف بی آر سے کہا گیا ہے کہ سیکشن 114 کے حوالے سے کنفیوژن دور کی جائے اور اگر ٹیکس آفیسرکو اختیار دینا ضروری ہے تو اس کیلیے کوئی معیاد مقررکی جائے۔خط میں آرڈیننس کے سیکشن 5میں بھی کنفیوژن کی نشاندہی کی گئی ہے ۔
اس سیکشن میں کہا گیا ہے کہ آرڈیننس کی تاریخ سے پہلے تک کی آمدنی اور اثاثہ جات کو پانچ فیصدکی رعایتی شرح سے ٹیکس ادائیگی پر قانونی حیثیت دلوائی جاسکے گی،اس سکیشن کے غلط استعمال کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔آرڈیننس کے سیکشن آٹھ میں بھی ٹائپنگ کی غلطی پائی گئی ہے اور اس سیکشن میں مقامی اثاثہ جات و دولت کو ڈکلیئرکرنے کیلیے بھی ادائیگی ڈالر میں کرنا ہوگی۔
خط میں کہا گیا ہے کہ مقامی ایمنسٹی کیلیے ٹیکس و واجبات کی ادائیگی کو امریکی ڈالرکے بجائے ملکی کرنسی کے الفاظ درج کیے جائیں۔خط میںکہا گیا ہے ایمنسٹی اسکیم آرڈیننس میں پبلک آفس ہولڈرکے زمرے میں آنے والوںکی طویل فہرست شامل کی گئی ہے جس سے الجھاؤ پیدا ہوا ہے۔آرڈیننسز میں کورٹ آف لاء کے الفاظ پر بھی کنفیوژن ہے کیونکہ قانونی طور پرسُپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کورٹ آف لا ہیں مگرایپلٹ ٹربیونل، انکم ٹیکس اور ایف بی آرکے کمشنر اپیلز بھی خود کو کورٹ آف لا کہتے ہیں۔