ٹنڈوالہیار NA223 پیپلز پارٹی کو 10 جماعتی اتحاد کا سخت چیلنج درپیش

اس حلقے میں 1988 سے لے کر 2008 تک مسلسل پیپلز اپرٹی کے امیدوار کامیابی حاصل کرتے رہے ہیں۔


Muhammad Sajid Afridi April 20, 2013
اس حلقے میں 1988 سے لے کر 2008 تک مسلسل پیپلز اپرٹی کے امیدوار کامیابی حاصل کرتے رہے ہیں۔ فوٹو : فائل

ضلع ٹنڈوالہیار سیاسی اعتبار سے ایک قومی اور دو صوبائی اسمبلیوں پر مشتمل ہے، جن میں قومی اسمبلی کی نشست این اے 223، صوبائی اسمبلی کی نشست پی ایس 51اور52 پر مشتمل ہے۔

ضلع ٹنڈوالہیار کو تین تحصیلوں اور21 یونین کونسلوں پر تشکیل دیا گیا ہے، جس میں ضلعی الیکشن کمشنر کے ریکارڈ کے مطابق2008 کے انتخابات میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد دو لاکھ 95 ہزار 893 تھی، جو2013میں چار ہزار 190 ووٹوں کے نئے اندراج کے بعد تین لاکھ83 ہو چکی ہے۔

ضلع ٹنڈوالہیار کو گزشتہ ادوار میں پی پی پی کا قلعہ مانا، سمجھا اور کہا جاتا رہا ہے اور پی پی پی کی مسلسل کامیابیوں کے سبب یہ بات کچھ غلط بھی نہیں۔ ٹنڈوالہیار ضلع کا 2004ء کے آخر میں قیام عمل میں آیا۔ ضلع کے قیام سے قبل بھی ٹنڈوالہیار، ضلع حیدرآباد کی ایک تحصیل تھا اور اُس وقت بھی یہاں سے قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں تھیں۔ 1988ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کا یہاں حلقہ این اے171 تھا جس میں کل ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 85 ہزار36 تھی، یہاں سے پی پی پی کے مخدوم خلیق الزماں 61 ہزار838 ووٹ حاصل کر کے کامیاب ہوئے۔

1990ء کے الیکشن میں پی پی پی کے عبدالستار بچانی اور آئی جے آئی کے امیدوار امید علی شاہ کے درمیان مقابلہ ہوا، جس میں پی پی پی کے عبدالستار بچانی59ہزار 209ووٹ لے کر کامیاب ہوئے، جب کہ امید علی شاہ کو 22 ہزار 381 ووٹ مل سکے۔1993ء کے الیکشن میں پی پی پی کی جانب سے عبدالستار بچانی اور پیپلز پارٹی شہید بھٹو گروپ کے سربراہ و بے نظیر بھٹو کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو ایک دوسرے کے مدمقابل آئے اور مقابلہ بھی سخت ہوا، لیکن میدان پی پی پی نے ہی مارا عبدالستار بچانی33 ہزار 812 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے، میر مرتضیٰ بھٹو28 ہزار 761ووٹ حاصل کر سکے۔



1997ء کے الیکشن میں پی پی پی کی چیئرپرسن شہید بے نظیر بھٹو خود اس حلقہ سے کھڑی ہوئیں۔ ان کے مقابلے میں علاقے کی نامور سیاسی شخصیت مرحوم رئیس اللہ بخش مگسی میدان میں اترے۔ بے نظیر بھٹو 47ہزار آٹھ سو 97 ووٹ لے کر کامیاب ہوئیں، جب کہ رئیس اللہ بخش مگسی صرف 10 ہزار 896 ووٹ ہی حاصل کر سکے۔ 1998ء کی مردم شماری کے بعد ملک بھر میں قومی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ ہوا، جس کی وجہ سے ٹنڈوالہیار کا حلقہ این اے171کا نمبر تبدیل ہو کر این اے 223 ہو گیا۔

سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف نے 2002ء میں الیکشن کرائے۔ جس میں امیدواروں کے لیے کم سے کم گریجویٹ ہونے کی شرط کی بناء پر پی پی پی کی جانب سے سابق رکن قومی اسمبلی عبدالستار بچانی کی اہلیہ شمشاد ستار بچانی کو ٹکٹ دیا گیا، ان کے مقابل آزاد مگسی اتحاد کی ادیبہ گل مگسی کے درمیان مقابلہ ہوا اور اس بار بھی جیت پی پی پی کا ہی مقدر بنی۔ 50 ہزار624 ووٹ حاصل کر کے شمشاد ستار بچانی کامیاب قرار پائیں، جبکہ ادیبہ گل مگسی نے 28ہزار 610 ووٹ حاصل کیے۔

2008ء کے الیکشن سے قبل ووٹوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد بڑھ کر دو لاکھ95 ہزار 893 پہنچ گئی۔2008ء میں ایک بار پھر پی پی پی کی جانب سے شمشاد ستار بچانی اور آزاد مگسی اتحاد کی ادیبہ گل مگسی ایک دوسرے کے مدمقابل آئیں، لیکن محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ہمدردی کے تمام تر ووٹ پی پی پی کی جانب ہونے کے باوجود ادیبہ گل مگسی نے 44 ہزار 502 ووٹ حاصل کیے جبکہ پی پی پی پی کی شمشاد ستار بچانی 84 ہزار669ووٹ حاصل کر کے بھاری اکثریت سے قومی اسمبلی میں پہنچ گئیں۔

قومی اسمبلی کی طرح اگر سندھ اسمبلی کی نشستوں پر گزشتہ الیکشنوں کے نتائج کا جائزہ لیا جائے تو سندھ اسمبلی کے دونوں حلقوں پر بھی پیپلز پارٹی کے امیدوار مسلسل جیتتے آئے ہیں۔1988ء کے الیکشن میں پی ایس42 پر پی پی پی کے عبدالغنی درس، ایم کیو ایم کے عبدالکریم خانزادہ، آئی جے آئی کے سید علی نواز شاہ رضوی اور آزاد امیدوار عبدالغنی قائم خانی مرحوم نے الیکشن میں حصہ لیا، لیکن پی پی پی کے امیدوار عبدالغنی درس 22 ہزار 903 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے۔ ان کے قریب ترین حریف ایم کیو ایم کے امیدوار عبدالکریم خانزادہ نے9 ہزار533 ووٹ حاصل کر کے دوسری پوزیشن حاصل کی۔



آئی جے آئی کے امیدوار سید علی نواز شاہ رضوی نے تین ہزار342 ووٹ حاصل کیے، جب کہ مرحوم عبدالغنی قائمخانی صرف دو ہزار 681 ووٹ حاصل کر سکے۔ 1993ء کے الیکشن میں پیپلز ڈیموکریٹک الائنس سامنے آیا اور پی ڈی اے کے پلیٹ فارم سے ٹنڈوالہیار سے عبدالغنی درس کو ٹکٹ دیا گیا، ان کے مقابل ایم کیو ایم کے مرزا ارشد بیگ اور آزاد امیدوار سید علی نواز شاہ تھے لیکن کامیابی پی ڈی اے کے امیدوار عبدالغنی درس کو ملی جنہوں نے20ہزار 336 ووٹ حاصل کیے۔ ایم کیو ایم کے مرزا ارشد بیگ نے گیارہ ہزار 307 ووٹ حاصل کر کے دوسری پوزیشن حاصل کی، جب کہ آزاد امیدوار سید علی نواز شاہ پ5 ہزار 851 ووٹ حاصل کر سکے۔1993ء کے الیکشن میں پی پی پی کی جانب سے آفتاب شاہ جاموٹ اور سید امید علی شاہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے میدان میں آئے۔

سید امید علی شاہ اپنی خوش اخلاقی کے باعث ضلع کی ہر دلعزیز شخصیت تھے جس کی بنیاد پر انہوں نے پی پی پی کے امیدوار آفتاب شاہ جاموٹ کو شکست دی اور 17ہزار796 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے، اس بار سید امید علی شاہ کو ایم کیو ایم کی بھی حمایت حاصل رہی، جبکہ پی پی پی کے آفتاب شاہ جاموٹ 14 ہزار556 ووٹ لے کر دوسری پوزیشن پر رہے۔

1997ء کے الیکشن میں بھی دلچسپ صورتحال سامنے آئی اور پی پی پی نے 1993ء میں آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والے سید امید علی شاہ کو پارٹی ٹکٹ دیا، ان کے مقابل ایم کیو ایم نے حق نواز قائمخانی، شہید بھٹو کے عبدالغنی درس اور پاکستان مسلم لیگ ن کے خالد پرویز پاندھیانی کے درمیان مقابلہ ہوا۔ پی پی پی کے امیدوار سید امید علی شاہ 18 ہزار 574 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے۔

ایم کیو ایم کے حق نواز قائمخانی نے پانچ ہزار 622 ووٹ لے کر دوسری پوزیشن حاصل کی، شہید بھٹو کے عبدالغنی درس نے چار ہزار 76ووٹ حاصل کیے۔ 2002ء کے الیکشن میں پی ایس42 کا حلقہ تبدیل ہو کر پی ایس 51 ہو گیا اور پی پی پی ، ایم کیو ایم اور ایم ایم اے کے امیدوار ایک دوسرے کے مدمقابل آئے۔ پی پی پی نے اس بار سید امید علی شاہ کے بھائی سید علی نواز شاہ رضوی کو ٹکٹ دیا، جب کہ ایم کیو ایم کی جانب سے محمد اشفاق قائمخانی کو میدان میں اتارا گیا، ڈاکٹر نواز علی نظامانی ایم ایم اے کی جانب سے سامنے آئے، لیکن پی پی پی کے امیدوار سید علی نواز شاہ رضوی 31ہزار سے زائد ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے۔



ایم کیو ایم کے محمد اشفاق قائمخانی نے 9 ہزار176 ایم ایم اے کے ڈاکٹر نواز علی نظامانی نے چھ ہزار563 ووٹ حاصل کیے۔ 2008ء کے الیکشن میں بھی پی پی پی کے سید علی نواز شاہ رضوی 44 ہزار 185 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے، جب کہ قاف لیگ کے امیدوار میر غلام محمد نے 23ہزار 300 ووٹ حاصل کیے، اس بار بھی ایم کیو ایم نے پی پی پی کے امیدوار کی حمایت کی۔ سندھ اسمبلی کی نشست پی ایس 43 سے بھی 1988ء سے دو ہزار آٹھ تک پی پی پی کے امیدوار ہی جیت کر اسمبلی میں پہنچے۔ 1988ء کے الیکشن میں یہاں کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 68709 تھی، یہاں سے پی پی پی کے عبدالستار لغاری نے19 ہزار123 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی۔ ان کی مخالفت میں 9 ہزار 647 ووٹ ڈالے گئے۔

1990ء کے الیکشن میں پی پی پی کے عبدالستار لغاری نے20 ہزار800ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی، جب کہ پی پی پی کی مخالفت میں10 ہزار 43 ووٹ ڈالے گئے۔ 1993ء میں پی پی پی نے عبدالطیف منگریو کو میدان میں اتارا تو انہوں نے بھی17 ہزار 345 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی، جبکہ ان کی مخالفت میں گیارہ ہزار229 ووٹ ڈالے گئے۔1997ء کے الیکشن میں پی پی پی کی جانب سے عبدالستار بچانی کو امیدوار نامزد کیا گیا، جنہوں نے چودہ ہزار995 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی جب کہ ان کی مخالف امیدواروں کو مجموعی طور پر 15ہزار 882ووٹ ڈالے گئے۔

2002ء کے الیکشن میں اس حلقہ کا نمبر تبدیل ہو کر پی ایس 52 ہو گیا۔ اس بار اس حلقہ سے پی پی پی کی جانب سے امداد پتافی کو امیدوار نامزد کیا گیا، جب کہ ان کے مقابل آزاد امیدوار ڈاکٹر عرفان گل مگسی میدان میں اترے اور پہلی بار اس حلقہ سے پی پی پی کے امیدوار کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ڈاکٹر عرفان گل مگسی کامیابی حاصل کر کے سندھ اسمبلی میں پہنچ گئے۔

2008ء کے الیکشن سے قبل بے نظیر بھٹو کی شہادت کے واقعہ کے بعد ملک بھر میں پی پی پی کے لیے اٹھنے والی ہمدردی کی لہر سے اس حلقہ میں ایک بار پھر پی پی پی کے امیدوار نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور امداد پتافی کامیاب ہو کر سندھ اسمبلی میں پہنچے۔ تاہم پی پی کے پانچ سالہ اقتدار میں کرپشن، بدعنوانیوں کی نئی داستانیں رقم ہونے کے بعد اب پی پی پی کو ٹنڈوالہیار میں بھی پریشانی کا سامنا ہے۔ اس بار ٹنڈوالہیار سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے223 پر پی پی پی کی جانب سے عبدالستار بچانی، پی ایس 51 پر سید علی نواز شاہ رضوی کے صاحبزادے کے بیٹے سید ضیاء عباس شاہ کو ٹکٹ دے دیا گیا ہے جبکہ پی ایس 52 پر پی پی پی نے ابھی تک پارٹی ٹکٹ کا اعلان نہیں کیا ہے شاید سابق ایم پی اے امداد علی پتافی کے کاغذات نامزدگی منظور ہونے کا انتظار ہے۔

اب تک علی محمد ولہاری اور خیر محمد کھوکھر کے کاغذات نامزدگی منظور ہوئے ہیں اور سابق ایم پی اے امداد علی پتافی کے کاغذات نامزدگی زمینی معاملات اور حیسکو کے بقایاجات کے باعث مسترد ہونے کے بعد اپیل میں گئے ہوئے ہیں۔ ایک جانب تو پی پی پی کو مذکورہ معاملات کے پیش نظر مشکلات کا سامنا ہے تو دوسری جانب آزاد مگسی اتحاد سے تعلق رکھنے والے بہن بھائی ڈاکٹر راحیلہ گل مگسی اور ڈاکٹر عرفان گل مگسی کی مسلم لیگ ن میں شمولیت اور تینوں حلقوں سے پی پی پی کے مدمقابل کھڑے ہونے کے بعد پی پی پی کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔

اب اس حلقے سے مسلم لیگ ن کی ڈاکٹرراحیلہ گل مگسی سیاسی، مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کے 10جماعتی اتحادکی مشترکہ امیدوا ر ہوں گی جبکہ ان کے بھائی ڈاکٹرعرفان گل مگسی صوبائی سیٹ پی ایس 52 پرپیپلزپارٹی کے احمدعلی پتافی کا مقابلہ کریں گے۔ اس بار الیکشن میں فتح کس کا مقدر بنتی ہے اس کا فیصلہ 11مئی کو ہی ہو گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں