فیصل آباد NA75 غلام رسول ساہی طارق باجوہ اور فواد چیمہ میں سخت مقابلہ

اس حلقے میں 2008 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے طارق محمود باجوہ نے 83 ہزار 699 ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی۔


ظفر ڈوگر April 20, 2013
اس حلقے میں 2008 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے طارق محمود باجوہ نے 83 ہزار 699 ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی۔ فوٹو : فائل

ضلع فیصل آباد قومی اسمبلی کے 11اور صوبائی اسمبلی کے 22حلقوں پر مشتمل ہے۔

این اے 75 فیصل آباد۔Iچک جھمرہ اور اس کے نواحی دیہی علاقوں پر مشتمل حلقہ ہے اس کے ضمنی حلقوں میں پی پی51 اور پی پی 52 شامل ہیں2008ء کے انتخابات میں اس حلقہ کے رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد دو لاکھ65 ہزار 662 تھی جس میں حالیہ برسوں میں 40 ہزار نئے ووٹروں کا اضافہ ہوا ہے اس کے ضمنی حلقوں پی پی51 میں کل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 64 ہزار سے زائد ہے اہم علاقوں میں چک جھمرہ، نلے والا، رسول پور گیدڑی، باگے والا، چک 192 منیاں والا ، گٹ والا، ملوآنی، کراڑی، جنڈانواں والا ، کچا جھمرہ، ڈھلم ، ڈوگراواں والا، برنالہ، لاہوریاں چک، برج منڈی، رنکے کے، پہاڑنگ، خانکے، ساہیانوالہ، بانگے چک، اوڈاں چک، صوبے چک، بلگن، مہیس، دھڑ، پنواں وغیرہ شامل ہیں حلقہ کی اہم برادریوں میں جٹ، آرائیں، شیخ، انصاری، ملک، مغل، گجر ، راجپوت شامل ہیں۔

جبکہ دوسرے صوبائی حلقے پی پی52 میں ٹوٹل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 51 ہزار سے زائد ہے اس حلقے کے اہم علاقوں میں سالاروالا، جوہل اڈا، کھیسٹ پورہ، باہمنی والا، 61 چک ،گھڑتل، پہاڑنگ، پوڑھری، بچوآنہ، قادو کے، پناہ کے، بیراں والا بنگلہ، پیروآنہ، واہلے، رتیاں، متیراں والا، پکھڑے والی، گنا گوجرہ، 96ماڑی، 54سریالی، 56سریالی، عاقل، کھیوہ باوا، راجے والی، رتہ جویا وغیرہ شامل ہیں اہم برادریوں میں جٹ ، مہاجر، آرائیں،راجپوت، اعوان، گجر اور غیر کاشتکار برادریاں شامل ہیںاین اے 75 کے مسائل میں سے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تحصیل ہونے کے باوجود چک جھمرہ میں ابھی تک عدالتوں کا قیام عمل میں نہیں لایا گیا ، جھمرہ میں کئی اہم ٹرانسپورٹرز رہتے ہیں۔

مگر پھر بھی ٹرانسپورٹ علاقے کا ایک اہم مسئلہ ہے یہ ایک پسماندہ حلقہ ہے پرائمری سکولوں میں سے کئی ایک میں جانور بندھے ملتے ہیں چوری، ڈکیتی راہزنی کی وارداتیں ہونا معمول ہے سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، الیکشن 2013 کے سلسلے میں یوں تو این اے 75سے بہت سے امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرا رکھے ہیں مگر اہم امیدواروں میں کرنل (ر) غلام رسول ساہی، مسلم لیگ ن کی طرف سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں ان کا مقابلہ پیپلزپارٹی کے سابق ایم این اے طارق محمود باجوہ اور تحریک انصاف کے چودھری فواد چیمہ سے ہے جماعت اسلامی کے فاروق چٹھہ بھی میدان میں ہیں اور پی پی51 سے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ سے محروم رہنے والے میاں ریحان مقبول بھی این اے 75 سے آزاد امیدوار کے طور پر موجود ہیں۔



سابق ضلع ناظم رانا زاہد توصیف نے بھی اس حلقے سے کاغذات نامزدگی جمع کر ا رکھے ہیں مگر ابھی تک انہوں نے الیکشن لڑنے کا فیصلہ نہیں کیا 2002ء کے انتخابات میں مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر کرنل (ر)غلام رسول ساہی این اے 75سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے انہوں نے55 ہزار 464 ووٹ حاصل کئے تھے ان کے مد مقابل پیپلزپارٹی کے واجدہ مصطفی باجوہ نے35 ہزار417 اور مسلم لیگ ن کے مصباح الدین ضیغم نے31 ہزار283 ووٹ لئے جبکہ ''محب وطن نوجوان انقلابیوں کی انجمن'' کے امیدوار محمد اصغر نے3806، متحدہ مجلس عمل کے اطہر اقبال بھٹہ نے3114، نیشنل الائنس کے رانا زبیر احسن خاں نے2036 اور مسلم لیگ جونیجو کے ڈاکٹر سلیم اقبال بھٹہ نے602ووٹ حاصل کئے ٹرن آئوٹ 45.31 فیصد رہا۔

2008ء کے انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی کے طارق محمود باجوہ نے 83 ہزار 699ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی ان کے مد مقابل مسلم لیگ ق کے کرنل (ر) غلام رسول ساہی 68ہزار 196 ووٹ لے کر ہار گئے الیکشن 2013ء میں پھر 2008ء کے حریفوں میں مقابلہ ہے مگراس بار تحریک انصاف کا پینل بھی میدان میں ہے۔ این اے 75 تحریک انصاف کے امیدوار چودھری فواد احمد چیمہ ڈسٹرکٹ بار فیصل آباد کے سابق صدر اور چک جھمرہ کے تحصیل ناظم رہ چکے ہیںان کے ساتھ پی پی51 سے معروف ٹرانسپورٹر چودھری اجمل چیمہ تحریک انصاف کے امیدوار ہیں جن کا اپنے علاقے میں خاصا اثرو رسوخ ہے اصل مقابلہ کرنل (ر)غلام رسول ساہی،طارق محمود باجوہ اور فواد چیمہ کے درمیان ہی ہوگا۔پی پی51 سے مسلم لیگ ن کی طرف سے آزاد علی تبسم، پیپلزپارٹی کے واجد مصطفی باجوہ اور تحریک انصاف کے فواد چیمہ کے علاوہ جماعت اسلامی کے میاں اویس انتخابی میدان میں موجود ہیں آزاد علی تبسم، واجد مصطفی باجوہ اور اجمل چیمہ میں مقابلہ ہوگا۔

2002ء کے انتخابات میں پی پی51چودھری محمد افضل ساہی منتخب ہوئے انہوں نے26 ہزار 627 ووٹ لئے ان کے مد مقابل پیپلزپارٹی کے حاجی لیاقت علی نذر نے25 ہزار 552ووٹ لئے جبکہ مسلم لیگ ن کے کاشف عزیز نے 9146 ووٹ حاصل کئے۔ 2008ء کے انتخابات میں چودھری افضل ساہی ق لیگ کے پلیٹ فارم سے میدان میں اترے۔ انہوں نے 33 ہزار 777 ووٹ لئے مگر وہ ہار گئے پیپلزپارٹی کے حاجی لیاقت نذر 44ہزار 893ووٹ لے کر جیت گئے مسلم لیگ ن کے ریحان مقبول نے 734ووٹ لئے ٹرن آئوٹ 58.40 فیصد رہا چودھری افضل ساہی اگرچہ 2008ء کے الیکشن میں ہار گئے اور اس کی کچھ وجوہات تھیں۔

مگر وہ 1988ء سے 2002ء تک مسلسل جیتتے رہے چودھری افضل ساہی نے اپنی سیاست کا آغاز 1979ء میں بلدیاتی انتخابات سے کیا وہ تین بار ممبر ضلع کونسل منتخب ہوئے 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں انہوں نے پہلی بار صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا مگر وہ محض88 ووٹوں سے سلیم باجوہ سے ہار گئے تب یہ حلقہ پی پی76 کہلاتا تھا اس کے بعد یہ حلقہ پی پی54بن گیا 1988ء میں وہ آئی جی آئی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑے۔ انہوں نے عمر فاروق کو شکست دی اور ایم پی اے منتخب ہوئے،1990ء میں آئی جے آئی کے پلیٹ فارم سے پھر جیت گئے۔



اس بار انہوں نے اقبال باجوہ اور سلیم جہانگیر چٹھہ کو شکست دی 1993ء کے الیکشن میں وہ مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے میدان میں اترے اور 29ہزار897ووٹ لیکر ایم پی اے منتخب ہوگئے۔ انہوں نے پیپلزپارٹی کے طارق محمود باجوہ کو شکست دی جنہوں نے28ہزار 681 ووٹ لئے۔ 1997ء میں وہ ایک بار پھر مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے الیکشن جیت گئے12 اکتوبر1999ء کے فوجی انقلاب کے بعد جب شریف فیملی جنرل مشرف سے معاہدہ کرکے سعودی عرب چلی گئی تو دوسرے بہت سے مسلم لیگیوں کی طرح چودھری افضل ساہی بھی حکمران لیگ کا حصہ بن گئے۔

وہ نائب ضلع ناظم بھی رہے ساہی فیملی نے ہمیشہ شریف فیملی کا ساتھ دیا البتہ 2002ء اور 2008ء کے الیکشن انہوں نے مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر لڑے وہ پیپلزپارٹی کے ساتھ الائنس کرنے پر ق لیگ سے الگ ہو گئے ان کا اصرار ہے کہ مسلم لیگ وہ جماعت ہے جو پیپلزپارٹی کے خلاف الیکشن لڑے مگر چونکہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ق نے اتحاد کر لیا اور آئندہ الیکشن بھی مل کر لڑنے کا پروگرام بنایا اس لئے وہ اپنی بات نہ مانے جانے پر اصولی اختلاف کرتے ہوئے ق لیگ سے الگ ہو گئے اور مسلم لیگ ن میں واپس آ گئے ہیں۔

چودھری افضل ساہی کی شہرت ایک سنجیدہ ، زیرک اور کلین سیاستدان کی ہے وہ پنجاب اسمبلی کے سپیکر اور صوبائی وزیر بھی رہ چکے ہیں اب وہ پی پی51 کی بجائے پی پی 52 سے الیکشن لڑ رہے ہیں جہاں سے گذشتہ الیکشن میں ان کے مدمقابل پیپلزپارٹی کے امیدوار چودھری منظور احمد بھی ایم پی اے رہ چکے ہیں، تحریک انصاف کے توقیر انوار اور جماعت اسلامی کے علی احمد گورائیہ نئے چہرے ہیں اصل مقابلہ چودھری افضل ساہی اور چودھری منظور میں ہوگا چودھری افضل ساہی نے چک جھمرہ میں جو ریکارڈ ترقیاتی کام کروائے آئندہ الیکشن میں یقینا انہیں ان کا فائدہ پہنچے گا۔

انہوں نے جھمرہ میں کالج ، سڑکیں ، بیسک ہیلتھ یونٹ تعمیر کروائے ، رورلر ہیلتھ سنٹر کو تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال کا درجہ دلوایا80 دیہاتوں کو گیس دلوائی، انڈسٹریل اسٹیٹ اور فیڈمک جیسے میگا پراجیکٹ ان کے حلقے میں بنے ان کے دور میں جھمرہ سانگلہ روڈ چوڑی ہوئی ، موٹروے پر ساہیانوالہ اور ڈپٹی والا انٹرچینجز بنے ترقیاتی کاموں میں انہیں اپنے امیدواروں پر بہت سبقت حاصل ہے۔



اب ہم این اے 75 کا دوبارہ جائزہ لیں تو 1970ء کے انتخابات میں یہاں سے پیپلزپارٹی کے میاں احسان اور1977ء میں پیپلزپارٹی کے چودھری امتیاز احمد گل ایم این اے منتخب ہوئے۔ ضیاالحق کے مارشل لا کے دورا ن 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے دوران یہ علاقہ این اے 74کا حصہ تھا جہاں بشیر رندھاوا 29ہزار 54 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ امتیاز احمد گل نے 28 ہزار 879اور غلام مصطفی باجوہ نے28ہزار 298 ووٹ حاصل کئے۔ 1988ء، 1990ء، 1993ء اور 1997ء تک یہ علاقہ این اے 62کا حصہ رہا۔

1988ء میں غلام مصطفی باجوہ مرحوم اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے48ہزار19 ووٹ لے کر جیتے۔ پیپلزپارٹی کے چودھری لطیف رندھاوا نے 38 ہزار 435 ووٹ لئے۔1990ء میں سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو نے اس حلقہ سے 57 ہزار 208 ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی۔ پی ڈی اے کے غلام مصطفی باجوہ نے34ہزار925 ووٹ لئے 1993ء کے الیکشن میں پیپلزپارٹی کے سردار دلدار احمد چیمہ جیتے انہوں نے45ہزار457 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی ہارنے والے ن لیگ کے امیدوار راجہ نادر پرویز نے45ہزار298 ووٹ لئے۔

1997ء کے الیکشن میں راجہ نادر پرویز مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے اس حلقے سے جیت گئے۔ 2002ء کے انتخابات میں نئی حلقہ بندیوں کے بعد حالیہ پی پی 64 کا علاقہ الگ ہوگیا اور چک جھمرہ کا قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 75 کہلایا اورا س کے ساتھ پی پی51 کے علاوہ پی پی 52 کا علاقہ بھی شامل ہے جب سے ساہی برادران سیاست میں آئے یہ حلقہ مسلم لیگی حلقہ بن گیا۔، 2008ء کے انتخابات میں مسلم لیگ ن پیپلزپارٹی کے حق میں دستبردار ہوگئی۔

یہ بات کرنل ساہی اور چودھری افضل ساہی کی شکست کا باعث بن گئی، ورنہ ساہی فیملی ہمیشہ ہی یہاں مضبوط رہی ہے اور آئندہ الیکشن میں بھی وہ کامیابی کے حوالے سے پر یقین ہے آئندہ الیکشن میں مسلم لیگ ن کے کرنل(ر) غلام رسول ساہی، پیپلزپارٹی کے طارق محمود باجوہ کے علاوہ چونکہ تحریک انصاف کا بھی مضبوط پینل چودھری فواد چیمہ اور چودھری اجمل چیمہ کی صورت میں موجود ہے اس لئے یہاں دلچسپ مقابلے کی توقع ہے۔ طارق محمود باجوہ 2008ء کے منتخب ایم این اے ہیں انہوں نے بھی اپنے دور میں حلقہ میں کافی ترقیاتی کام کروائے جبکہ فواد چیمہ نے تحصیل ناظم شپ کے دور میں چک جھمرہ کی تعمیر و ترقی میں کردارادا کیا۔

مسلم لیگ ن کے ضلعی صدر چودھری صفدر الرحمن کو ن لیگ نے این اے 79 سے ٹکٹ نہیں دیا وہ ناراض ہو کر ن لیگ کے ان رہنمائوں پر مشتمل ایک گروپ کو تشکیل دینے میں لگے ہوئے ہیں جو ٹکٹ سے محروم رہے۔ این اے 75 سے بھی انہوں نے ضلعی نائب صدر میاں ریحان مقبول کو آزاد امیدوار قرار دیدیا ہے۔ ان کی کوشش ہے کہ وہ مسلم لیگ ن کے پی پی 51کے امیدوار آزاد علی تبسم سے مل کر الیکشن لڑیں مگر آزاد علی تبسم نے ان پر واضح کر دیا ہے کہ وہ ن لیگ کے نامزد قومی اسمبلی کے امیدوار کی موجودگی میں ان کے ساتھ اتحاد نہیں کر سکتے اس حلقہ میں دلچسپ مقابلے متوقع ہیں۔

جہاں تک پی پی51کا تعلق ہے تو مسلم لیگ ن کے امیدوار آزاد علی تبسم کو غیر کاشتکار برادریوں کے علاوہ مسلم لیگ ن کے ووٹروں کی حمایت حاصل ہوگی آزاد علی تبسم مسلم لیگ ن (شارجہ) کے صدر ہیں پیپلزپارٹی کے واجد مصطفی باجوہ 2008ء کے ایم این اے طارق محمود باجوہ کے بھائی ہیں ان کے والد بھی اس حلقہ سے ایم این اے رہ چکے ہیں ، تحریک انصاف کے اجمل چیمہ کو سات دیہاتوں میں بسنے والی چیمہ برادری کے علاوہ تحریک انصاف کے ووٹروں کی حمایت بھی حاصل ہوگی ۔

دوسری طرف پی پی52 سے معروف سیاستدان چودھری محمد افضل ساہی مسلم لیگ ن کے امیدوارہیں وہ کرنل (ر) غلام رسول ساہی کے بھائی ہیں ان کی سیاست کے حوالے سے اوپر تفصیلی تذکرہ ہو چکا ہے پیپلزپارٹی کی طرف سے چودھری منظور امیدوار ہیں وہ یہاں سے ایم پی اے رہ چکے ہیں،تحریک انصاف کے امیدوار توقیر انوار اور جماعت اسلامی کے علی احمد گورائیہ ہیں۔یہ دونوں نئے چہرے ہیں تحریک انصاف کے کارکن اگرچہ کافی پرجوش ہیں مگر دیہی علاقوں میں تحریک انصاف زیادہ مضبوط نہیں پی پی 52 سے ذوالقرنین ساہی جیتے تھے۔

اس بار ساہی فیملی سے چودھری افضل ساہی پی پی 52 سے الیکشن لڑ رہے ہیں ان کی پوزیشن بہت مضبوط ہے ان کا مقابلہ پیپلزپارٹی کے چودھری منظور سے ہوگا تاہم تحریک انصاف کے امیدوار بھی اپنی موجودگی کا احساس دلائیں گے زاہد توصیف فیملی اور زاہد نذیر کا فیملی کردار کیا ہوگا اور کچھ آزاد امیدوار اور اہم شخصیات ذاتی ضد اور عناد کی خاطرالیکشن میں کس کے خلاف کیا کردار ادا کرتی ہیں یہ بات بھی انتخابی نتائج پر اثر انداز ہوگی تمام امیدوار اپنی اپنی کامیابی کے حوالے سے پر امید نظر آتے ہیں این اے 75 ، پی پی 51، پی پی 52 میں سیاسی سرگرمیاں زوروں پر ہیں ہر جگہ سیاست،الیکشن اور امیدوار زیر بحث ہیں ایک میلے کا سماں ہے جس میں ہرکوئی خوش نظر آ رہا ہے تاہم 11مئی کو شام ڈھلے معلوم ہوگا کہ اقتدار کا ہما کس کے سر بیٹھتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں