ہجرتی پرندوں کا عالمی دن آج منایا جارہا ہے

ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث ہجرتی پرندوں کے معمولات متاثر ہوئے ہیں اور پاکستان میں ان کے قیام کا دورانیہ کم ہوگیا ہے


آصف محمود May 12, 2018
ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث ہجرتی پرندوں کے معمولات متاثر ہوئے ہیں اور پاکستان میں ان کے قیام کا دورانیہ کم ہوگیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

MANSEHRA: پاکستان سمیت دنیا بھرمیں ہجرتی پرندوں (مائیگریٹری برڈز) کا عالمی دن آج منایا جارہا ہے۔ برڈ لائف انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق ہجرتی پرندوں کی تعداد میں 40 فیصد تک کمی آچکی ہے۔ ان میں سے کئی پرندے ایسے بھی ہیں جن کی نسل معدومی کے قریب پہنچ چکی ہے۔ ہجرتی پرندوں کی حفاظت اورآگاہی کےلیے لاہور میں واک کا اہتمام بھی کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ 30 برس کے دوران ہجرتی پرندوں کی آبادی میں بھی نمایاں کمی ہوئی ہے اور ان میں سے بہت سے پرندے اب معدومی کا شکار ہیں۔ مزید برأں دنیا کے 90 فیصد سے زائد ہجرتی پرندے انسانی سرگرمیوں کے باعث غیر محفوظ صورتحال اور بقاء کی مربوط کوششوں میں کمی کا شکار بھی ہیں۔

ہجرتی پرندوں کی تعداد میں کمی، ان کے قدرتی مسکن کی تنزلی، ہجرت کےلیے استعمال ہونے والے فضائی راستوں کے غیر محفوظ ہونے اور مہمان علاقوں میں درپیش خطرات کی طرف دنیا کی توجہ مبذول کروانے کےلیے ہر سال مئی کے دوسرے ہفتے کے اختتام کو ہجرتی پرندوں کے عالمی دن کے طورپر منایا جاتا ہے۔



اسی مناسبت سے لاہور چڑیا گھر نے آگاہی واک اور سیمینار منعقد کیا جس میں ڈی جی وائلڈ لائف سمیت چڑیا گھرکے اسٹاف اور مقامی شہریوں نے شرکت کی۔ سیمینارمیں ماہرین نے ہجرتی پرندوں کی کم ہوتی تعداد اور درہیش خطرات پر روشنی ڈالی۔

پاکستان آنے والے ہجرتی پرندے جو فضائی راستہ اختیار کرتے ہیں اسے ''انڈس فلائی وے'' یا گرین روٹ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا عالمی نام ''انٹرنیشنل مائیگریشن روٹ نمبر 4'' بھی ہے۔

ہجرتی پرندے پاکستان کے طول و عرض میں موجود چھوٹی بڑی آب گاہوں (wetlands) میں پڑاؤ ڈالتے ہیں جو ہمالیہ سے لے کر ساحل سمندرمیں موجود تمر (مینگرووز) کے جنگلات تک پھیلی ہوئی ہیں۔



وسطی ایشیا، مغربی یورپ، مشرقی سائبیریا اور روس سے ہجرتی پرندے ہر سال پاکستان آتے ہیں جن کی آمد اب زیادہ تر نومبر میں شروع ہوتی ہے جبکہ مارچ میں واپسی کے سفر کا آغاز ہوتا ہے۔

پہلے یہ آمد اکتوبر میں شروع ہوجاتی تھی لیکن موسمیاتی تبدیلیوں (کلائمیٹ چینج) کی وجہ سے پرندوں کی ہجرت کے رجحانات میں بھی تبدیلی واقع ہو رہی ہے اور ماہرین کے مطابق پاکستان میں ہجرتی پرندوں کے قیام کے دورانیے میں کمی واقع ہوئی ہے۔ پاکستان میں پرندوں پر کام کرنے والی ایک تنظیم کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پرندوں کی 668 اقسام پائی جاتی ہیں جبکہ جامعہ پنجاب کے شعبہ حیوانیات کے مطابق ملک میں ہجرتی پرندوں کی 380 اقسام آتی ہیں جن میں نمایاں تلور، عقاب، مختلف طرح کی چھوٹی بڑی مرغابیاں اور بطخیں، کونج، ہنس، نیل سر، سرخاب، مگ اور دیگر آبی پرندے شامل ہیں۔ پاکستان سے گزر کر بعض اقسام کے ہجرتی پرندے انڈیا اور سری لنکا تک بھی جاتے ہیں۔

آب گاہوں اور وہاں آنے والے ہجرتی پرندوں کے تحفظ سے متعلق ''رامسر کنونشن'' کے تحت پاکستان میں 20 رامسر سائٹس موجود ہیں جن میں سے سندھ میں 10، خیبر پختونخوا میں 2، پنجاب میں 3 جبکہ 5 سائٹس بلوچستان میں پائی جاتی ہیں۔ رامسر سائٹس ایسے آبی علاقوں کو کہتے ہیں جہاں ایک وقت میں 20 ہزار یا اس سے زائد ہجرتی پرندے قیام کرتے ہوں۔

پاکستان آنے والے مہمان پرندوں کی زیادہ تر تعداد سندھ میں کینجھرجھیل، ہالیجی جھیل، انڈس ڈیلٹا اور رن آف کچھ کے مقامات پر پڑاؤ ڈالتی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت سندھ میں 9 لاکھ ہیکٹر رقبے پر ایسی 45 مختلف جھیلیں موجود ہیں جہاں سردیوں کے دوران مہمان پرندے قیام کرتے ہیں۔

پنجاب کے آبی ذخیروں، ندی نالوں، جھیلوں اور دریاؤں میں پائی جانے والی مرغابیوں کا سروے بھی مکمل کرلیا گیا ہے۔ 2018 میں جمع کروائی گئی سروے رپورٹ کے مطابق پنجاب میں 32 اقسام کی مرغابیوں کی تعداد 73 ہزار کے قریب ہے۔ وائلڈ لائف ریسرچ انسٹی ٹیوٹ گٹ والہ، فیصل آباد کی رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ ہجرتی پرندے چشمہ بیراج میں پائے گئے ہیں جن کی تعداد کا تخمینہ 41 ہزار 953 لگایا گیا ہے۔ اسی طرح تونسہ بیراج پر 10 ہزار 34، نمل جھیل میں ایک ہزار 364، اچھالی جھیل میں 24 ہزار 512، کھپے جھیل میں 544، چھالر جھیل میں 838، کلر کہارمیں ایک ہزار837، رسول بیراج میں 8 ہزار 903، ہیڈ قادر آباد میں 769 جبکہ ہیڈ مرالہ پر ہجرتی آبی پرندوں کی تعداد کا تخمینہ 4 ہزار 269 لگایا گیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں