وعدوں نعروں جوش کا اور جذبات کا موسم

پاکستان اور دنیا میں انتخابی مہم کے مختلف انداز اور رجحانات

پاکستان اور دنیا میں انتخابی مہم کے مختلف انداز اور رجحانات. فوٹو : فائل

پاکستان میں انتخابی دنگل سج چکا ہے۔

مختلف صوبوں میں نگراں سیٹ اپ کے بعد باقاعدہ طور پر انتخابی مہم شروع ہو چکی ہے۔ اب کارنر میٹنگز سجیں گی۔ ووٹرز کی آؤ بھگت ہوگی۔ ناراض ووٹرز کی منتیں ترلے کیے جائیں گے اور جوں جوں پولنگ ڈے قریب آتا جائے گا فضاؤں میں ہر طرف آوے ہی آوے ۔۔۔۔ جیتے گا بھئی جیتے گا۔۔۔ گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور دو، اور سات ترازو تول کے ویکھو، ساڈا پلہ بھاری ہے، کے نعروں کی گونج سنائی دے گی۔

انتخابی مہم کی یہ گہماگہمی ہمارے ملک تک ہی محدود نہیں بلکہ دنیا بھر کی جمہوریتوں میں ایسے مواقع پر ووٹرز کو لُبھانے، اُنہیں اپنے جلسوں میں لانے اور پولنگ ڈے پر اپنے حق میں ووٹ ڈلوانے کے نت نئے طریقے اور حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ جمہوریت جس طرح ہر فرد کو اپنی مرضی ومنشا کے مطابق ووٹ کا حق دیتی ہے، اسی طرح امیدوار کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ آزادانہ طور پر اپنی انتخابی مہم چلائے اور لوگوں کو اپنی طرف مائل کرے۔

سیاسی جماعتیں اس مقصد کے لیے مختلف ترغیبات کا بھی سہارا لیتی ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں کچھ ایسی خرافات بھی اب انتخابی عمل کا حصہ بن چکی ہیں جنہوں نے جہاں ایک طرف انتخابی ماحول کو پراگندہ کر دیا ہے، وہیں ووٹرز کے انتخابی عمل پر اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچی ہے۔ ان عوامل میں سرمائے کا بے دریغ استعمال، نسلی، گروہی، لسانی و فرقہ وارانہ نعرے، اسلحے کی کھلے عام نمائش اور پولنگ ڈے پر دھاندلی شامل ہے۔

جہاں تک اول الذکر یعنی سرمائے کے بے دریغ استعمال کا تعلق ہے تو یہ صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک بھی اس بُرائی سے خود کو محفوظ نہیں رکھ پائے ہیں۔ امریکا ہی کو لیں جہاں سیاسی جماعتیں عوام کے دیے ہوئے فنڈز سے اپنی انتخابی مہم چلاتی ہیں، لیکن وہاں بھی گذشتہ برس صدر اوباما اور اُن کے حریف مٹ رومنی کی انتخابی مہم پر مجموعی طور پر2 ارب ڈالر اخراجات آئے اور اس مہم کو دنیا کی منہگی ترین انتخابی مہم قرار دیا گیا۔ یہی حال دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعوے دار بھارت کا بھی ہے۔ سنیٹر فار میڈیا اسٹڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں 2009ء کے عام انتخابات میں ووٹوں کی خریداری کے لیے تقریباً ایک کھرب روپے خرچ کیے گئے۔

پاکستان کی بات کریں تو بدقسمتی سے یہاں کے انتخابی عمل کو بھی بہت زیادہ مثالی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ 65 سالہ تاریخ میں بار بار کی فوجی مداخلت اور جمہوری حکم رانوں کے غیرجمہوری رویوں کے باعث جمہوریت صحیح معنوں میں پنپ نہیں سکی اور عام آدمی اس کے ثمرات سے محروم رہا۔

انتخابی عمل کے دوران سرمائے کی ریل پیل، برادری ازم، گروہی و لسانی تفریق اب بھی الیکشن جیتنے کے لیے اہم ہتھیار سمجھے جاتے ہیں۔ نظریاتی بنیادوں پر عوام میں جانا اور اُن سے اپنی انتخابی مہم کے لیے فنڈز کی اپیل کا تصور مفقود نہ صحیح لیکن انتہائی محدود ضرور ہے، جس کی وجہ سے عام آدمی کے لیے انتخابی اکھاڑے میں اُترنا ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔

وہ ووٹ تو ڈال سکتا ہے، سیاسی جماعتوں کے نعرے اور پوسٹرز بھی لگا سکتا ہے لیکن ووٹ لینا اُس کے بس کی بات نہیں۔ اس تمام تر صورت حال کا فائدہ معاشرے کی اُن کالی بھیڑوں کو بھی ہوتا ہے جن کے پاس نہ کردار ہے اور نا ہی قابلیت، لیکن وہ اپنے سرمائے کی طاقت سے الیکشن جیت کر سیاست کو اپنے کاروبار کے فروغ کے لیے استعمال کر تے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اب سیاسی جماعتیں بھی نظریات اور جماعتی وابستگی سے قطع نظر ایسے امیدواروں کو ٹکٹ دینا اولین ترجیح سمجھتی ہیں جو اپنی انتخابی مہم میں وافر سرمایہ لُٹانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے رواں سالی جو انتخابی ضابطہ اخلاق جاری کیا ہے اُس کے مطابق قومی اسمبلی کا امیدوار 15 لاکھ اور صوبائی اسمبلی کا امیدوار 10 لاکھ روپے تک رقم اپنی انتخابی مہم پر خرچ کر سکتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ بھی شرط رکھی گئی ہے کہ ہر امیدوار بینک اکاؤنٹ کھلوا کر انتخابی اخراجات کی رقم اُس میں جمع کرائے گا اور وہ انتخابی مہم کے اخراجات اسی اکاؤنٹ سے ادا کرنے کا پابند ہوگا۔

بظاہر تو الیکشن کمیشن کا یہ ضابطہ خوش آئند دکھائی دیتا ہے لیکن گذشتہ برسوں کے ضمنی انتخابات سمیت ماضی میں ہونے والے انتخابات کا جائزہ لیا جائے تو ان ضوابط پر عمل درآمد تسلی بخش دکھائی نہیں دیتا۔ ابھی سے ہی سیاسی جماعتوں نے اخراجات کی شق پر سوالات اُٹھانا شروع کر دیے ہیں اور بعض جماعتوں نے تو ان شقوں کو زمینی حقائق کے منافی قرار دیا ہے۔

انتخابی عمل میں سرمائے کی عفریت کے خاتمے کے لیے جاپان سے راہ نمائی لی جاسکتی ہے۔ جاپانی عوام اُن سیاسی جماعتوں کو پسند نہیں کر تے جو انتخابات میں غیر ضروری اخراجات کرتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن کی جانب سے مرتب کردہ قواعد و ضوابط پر عمل درآمد اپنی اولین ترجیح سمجھتی ہیں، کیوں کہ ان ضوابط سے ذرّہ برابر انحراف بھی اُنہیں نہ صرف انتخابی عمل سے باہر کرسکتا ہے بلکہ انہیں عوام کی مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے۔ انتخابی قوانین پر عمل درآمد کا فریضہ الیکشن کمیشن انجام دیتا ہے اور جاپان میں یہ ادارہ اپنی ذمے داریاں بہتر طور پر ادا کر رہا ہے۔

ایک اور دل چسپ بات یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے نہ ہی بڑے بڑے اسٹیج بنائے جاتے ہیں اور نہ ہی کارکنوں کو ان جلسوں میں شرکت کا پابند کیا جاتا ہے۔ امیدوار اپنے ایک دو ساتھیوں کے ساتھ کسی چوراہے پر کھڑا ہوجاتا اور میگا فون کے ذریعے راہ چلتے لوگوں سے ووٹ کی درخواست کرتا ہے۔

دیکھنے والا سمجھتا ہے کہ بھلا یہ کس طرح الیکشن جیت سکتا ہے؟ لیکن وہی شخص بعدازاں اقتدار کی کرسی پر براجمان نظر آتا ہے۔ الیکشن والے دن نہ ہی چھٹی ہوتی ہے اور نہ ہی دیگر معمولات زندگی متاثر ہو تے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں الیکشن میں بے دریغ دولت نہیں لُٹا سکتیں اور نہ ہی کوئی امیدوار اپنا بینر کسی سرکاری عمارت یا سرکاری پول پر باندھ سکتا ہے، بلکہ اس قسم کے بینر آویزاں کرنے کی روایت ہی نہیں۔

جاپان میں خفیہ طور پر سیاسی فنڈ وصول کرنا غیرقانونی سمجھا جاتا ہے۔ سیاسی پارٹیاں اپنی مہم کے اخراجات کے لیے فنڈریزنگ کرتی ہیں مگر جبراً نہیں بلکہ صرف پارٹی کے افراد سے یہ چندہ لیا جاتا ہے۔ البتہ بڑی بڑی ایسوسی ایشنز بھی چندہ دیتی ہیں، مگر ان کا ریکارڈ کسی طرح خفیہ نہیں ہوتا۔ ان ایسوسی ایشنز کے چندہ دینے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان کی پسندیدہ جماعت برسراقتدار آکر ایسی معاشی پالیسیاں ترتیب دے جن سے ان کے کاروبار کو مزید وسعت حاصل ہو سکے۔

پاکستان میں گذشتہ ایک عشرے کے دوران ہونے والی ذرائع ابلاغ کی ترقی نے کسی حد تک لوگوں میں یہ شعور بیدار کرنے کی کوشش ہے کہ وہ اپنے ووٹ کے استعمال میں سرمائے اور برادری ازم سے قطع نظر نظریے کو معیار بنائیں۔ اُن لوگوں کو ووٹ دیں جو بھلے ہی غریب ہوں لیکن آپ کے مسائل کا نہ صرف ادراک رکھتے ہوں بلکہ اُنہیں حل کرنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہوں۔ ماضی قریب میں کچھ ایسی مثالیں بھی سامنے آئی ہیں جب غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے بعض افراد نے غربت اور تنگ دستی کے باوجود انتخابی عمل میں حصہ لیا اور بھرپور انتخابی مہم چلائی۔

ان میں سے ایک نام مائی جوری جمالی کا ہے، جنہوں نے 2010ء میں بلوچستان کے ضلع جعفر آباد سے اپنے حلقے کے ایک جاگیردار کے خلاف ضمنی الیکشن لڑا۔ اگرچہ وہ یہ نشست جیتنے میں کام یاب نہیں ہوپائیں لیکن اُس خاتون نے یہ ثابت کر دکھایا کہ اگر عزم جواں ہو تو اس کے سامنے سرمایہ کوئی معنیٰ نہیں رکھتا۔ مائی جوری کی انتخابی مہم کو جہاں پاکستان کے مختلف طبقوں میں پذیرائی حاصل ہوئی وہیں عالمی سطح پر بھی اسے سراہا گیا۔ حال ہی میں اس مہم پر باقاعدہ ایک کتاب بھی شائع ہوئی ہے۔


سرمائے کے بغیر انتخابی مہم چلانے کا عز م لیے ایک اور راہ نما علی احمد کرد بھی حالیہ انتخابی اکھاڑے میں کودنے جا رہے ہیں۔ اُنہوں نے راولپنڈی کے حلقہ این اے پچپن سے آزاد حیثیت میں انتخاب لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی انتخابی مہم پر ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کریں گے۔ بی بی سی کے مطابق علی احمد کرد یہ انتخاب لڑ کر، ایسے ماحول میں جہاں پیسے کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہو چکی ہے، ان سیاسی کارکنوں کی اہمیت اور حق کو تسلیم کروانا چاہتے ہیں، جن کا کل اثاثہ ان کے نظریات ہیں۔ ان کا انتخاب لڑنا اْس سوچ کے خلاف بغاوت ہے جس کے مطابق پیسے کے بغیر انتخاب میں کام یابی حاصل نہیں کی جا سکتی۔

٭جلسے جلوس
انتخابی مہم کی بات ہو اور اُس میں جلسے جلوس اور ریلیوں کا ذکر نہ ہو تو بات ادھوری رہ جاتی ہے۔ لوگوں کو ایک جگہ اکٹھا کرکے مخالفین پر اپنی طاقت کے اظہار کا فارمولا آج بھی اُتنا ہی کارگر ہے جتنا ماضی میں ہوا کرتا تھا۔ اگرچہ گذشتہ ایک عشرے سے جاری بدامنی کے باعث سیاسی جماعتوں نے خود کو عوام سے دور کرکے بڑی حد تک الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا تک محدود کر دیا ہے لیکن ان تمام خطرات کے باوجود کوئی بھی جماعت اپنی انتخابی مہم میں جلسوں کی اہمیت کو نظر اندازکرنے پر تیار نہیں۔ آج بھی پنڈال سج رہے ہیں۔ جلسوں میں لوگ شرکت بھی کر رہے ہیں اورہر سیاسی جماعت اپنے جلسے کو دوسروں کے جلسوں سے بڑا ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔

ماضی میں ہونے والے جلسوں کی اگر ہم بات کریں تو وہ جلسے اگر ایک طرف سیاسی قوت کا اظہار ہوتے تو دوسری طرف اُن میں عام آدمی کی تفریح کا بھی خصوصی اہتمام کیا جاتا تھا۔ کوئی قیمے والے نان کھلا کر حمایت حاصل کرنا چاہتا، تو کسی نے فی بندہ وظیفہ مقرر کر رکھا ہوتا۔ کوئی پنڈال میں حقیقی شیر لا کر لوگوں کا دل بہلاتا تو کوئی ڈھول کی تھاپ اور ''بجاں تیر بجاں'' جیسے نغموں کی پُرکیف موسیقی سے حاضرین کا لہو گرماتا رہا ہے۔ الغرض موسیقی انتخابی جلسوں کی جان ہوا کر تی ہے۔

سیاسی جماعتیں اپنی انتخابی مہم کے لیے خصوصی گیت تیار کر واتی ہیں۔ موجودہ دور میں اس رجحان میں جدت آئی ہے۔ اب جلسوں میں سیاسی گیتوں کے بجائے انقلابی گیت گائے جاتے ہیں۔ ڈھول کی تھاپ سے زیادہ میوزیکل بینڈز اور ایکو ساؤنڈ کی مدد لی جا رہی ہے۔ وقت کے تقاضوں کو بھانپتے ہوئے مذہبی جماعتیں بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ گذشتہ برس جمعیت علماء اسلام کے کراچی میں منعقدہ جلسے میں کارکنوں کو محظوظ کرنے کے لیے خصوصی طور پر مزاحیہ شاعری کا بندوبست کیا گیا تھا۔

٭دہشت گردی کے خطرات
ماضی کے برعکس موجودہ دور میں سیاست دانوں کی ایک ایک حلقے میں آزادانہ نقل وحرکت، وہاں عوام میں گھل مل جانا اور بغیر کسی سیکیوریٹی کے عوامی جلسوں سے خطاب کرنا ممکن نہیں رہا۔ پانچ برس قبل پاکستان پیپلز پارٹی کی راہ نما محترمہ بے نظیر بھٹو کی قاتلانہ حملے میں شہادت اور اُن کے قاتلوں کی عدم گرفتاری نے جہاں ایک طرف سیاسی راہ نماؤں کو سخت حفاظتی حصار میں رہنے پر مجبور کردیا ہے، وہیں عام آدمی بھی اب جلسوں میں شرکت سے کتراتا ہے۔

ممکن ہے کہ حالیہ انتخابی مہم میں بعض اہم راہنما براہ راست جلسوں میں شرکت سے گریز کرتے ہوئے ویڈیو لنک کے ذریعے اپنے حامیوں سے خطاب کریں۔ ایک غیرملکی نیوزایجنسی کی رپورٹ کے مطابق رواں برس ہونے والی انتخابی مہم کے دوران شدت پسندوں کی جانب سے سیاست دانوں پر حملوں کے خطرے کا اظہار کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 5 سال پہلے کے مقابلے میں آج کا پاکستان کہیں زیادہ غیرمحفوظ ملک ہے۔ پاکستانی طالبان تین اہم جماعتوں پیپلز پارٹی، اے این پی اور ایم کیو ایم کو براہ راست حملے کی دھمکی دے چکے ہیں۔ ایسی صورت حال میں سیاسی جماعتوں کا اپنی انتخابی مہم چلانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوگا۔

٭انتخابی مہم میں میڈیا کا کردار

ماضی کے انتخابات سے قطع نظر اس مرتبہ رائے عامہ کی تشکیل کے لیے میڈیا اور بالخصوص سوشل میڈیا اہم کردار ادا کرنے جا رہا ہے۔ ملک کے طول وعرض تک اپنا پیغام بہ آسانی پہنچانے کے لیے یہ ایک اہم ہتھیار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف سیاسی جماعتیں میڈیا کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے لیے سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔ ایک طرف جہاں اشتہاری مہم کے ذریعے سیاسی راہ نماؤں کی امیج بلڈنگ کی جا رہی ہے وہیں دوسری طرف سوشل میڈیا کے لیے نوجوان بھی بھرتی کیے جا رہے ہیں۔

سیاسی جماعتوں کی جانب سے خصوصی طور میڈیا سیل قائم کیے گئے ہیں جو میڈیا پر اپنا پیغام زیادہ سے زیادہ پھیلانے اور مخالفین کو اپنی طرف راغب کرنے کی تگ ودو میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں مصروف ہیں۔ ماضی کے برعکس اس مرتبہ امیدواروں کو اپنی مہم میں بہت زیادہ احتیاط کر نا ہوگی، کیوں کہ اُن کی زبان سے نکلا ہوا ہر جملہ نہ صرف کیمرے کی آنکھ میں محفوظ ہو کر دنیا تک پہنچ رہا ہوگا بلکہ بالفرض اگر کبھی وہ اپنی بات سے مکر گئے تو ویڈیو اُن کے خلاف بھی استعمال ہو سکتی ہے۔

گذشتہ برس سندھ اسمبلی کی خاتون رکن نفیسہ شاہ کے پولنگ عملے پر تشدد نے نہ صرف اُنہیں جیتی ہوئی نشست سے محروم کر دیا تھا بلکہ انہیں دو سال کے لیے نااہلی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ تاہم حالیہ انتخابات میں اُن کی معطلی کالعدم دے دی گئی ہے۔

٭انتخابی مہم کے دوران غیر اخلاقی حرکتیں
ہمارے ملک کی بڑی بدقسمتی ہے کہ یہاں سیاسی کارکنوں تربیت پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی، جس کی وجہ سے اُن کے اندر مخالفین کو برداشت کرنے کا جذبہ مفقود ہوتا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران ایسی ایسی غیراخلاقی حرکتیں سامنے آتی ہیں جن پر سوائے ندامت اور افسوس کے اور کوئی چارہ نہیں۔ کارکنوں کی آپس کی لڑائیاں، کھانے پر جھپٹنا، اسلحے کی نمائش، سیاسی راہ نماؤں کے مخالف امیدواروں پر ذاتی حملے تو ہماری انتخابی سرگرمیوں کا معمول ہیں۔ بعض اوقات مذہبی و لسانی تعصب پھیلانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔

اگر ہم ترقی یافتہ ممالک کی بات کریں تو وہاں ان ہتھ کنڈوں کا وجود ہی نہیں ہوتا۔ اگر بالفرض کوئی امیدوار غیر اخلاقی حرکت کا مرتکب پایا جاتا ہے تو اُسے سخت تادیبی کارروائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہاں نعروں اور ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالنے سے زیادہ انتخابی منشور کو اہمیت دی جاتی ہے۔

سیاسی جماعتیں عوام کے سامنے اپنا منشور رکھتی ہیں کہ جیتنے کے بعد اُن کی داخلہ و خارجہ پالیسی کیا ہوگی۔ صحت اور تعلیم کا معیار کیسے بلند ہوگا؟ وغیرہ وغیرہ۔ ووٹرز منشور کا جائزہ لے کر نہ صرف اپنی پسندیدہ جماعت کو آزادی سے ووٹ دیتے ہیں بلکہ اگر برسر اقتدار جماعت کبھی اپنے منشور سے ہٹتی ہے تو ووٹرز اُس کا مواخذہ کرنے کا بھی حق رکھتے ہیں۔

٭دنیا میں انتخابی مہم کے مختلف طریقے
یورپی ممالک اور بالخصوص امریکا کی اگر بات کی جائے تو وہاں انتخابی مہم میں ذرائع ابلاغ کا اہم کردار ہوتا ہے۔ سیاسی راہ نما میڈیا پر آکر اپنا مقدمہ عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ جو پارٹی خود کو جتنا زیادہ بہتر انداز میں پیش کرے، عوام کی ہم دردیاں اُسی کے ساتھ ہوتی ہیں۔ گذشتہ برس امریکا میں ہونے والے انتخابات میں شکست کا سامنا کرنے والے مٹ رومنی نے بھی اپنی شکست کی بنیادی وجہ الیکشن کمپین میں غلطیوں کو قرار دیا تھا۔ انتخابی مہم میں کارکنوں کی یہ کوشش ہو تی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ میڈیا کی توجہ حاصل کریں۔ کوئی اپنے لیڈر کا ماسک پہن لیتا ہے تو کوئی وحشی درندے کا ماسک پہن کر مخالف امیدوار کی پالیسیوں کی عکاسی کرتا ہے۔

بھارت میں انتخابی مہم لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے بولی وڈ اور کرکٹ سپر اسٹارز کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ گذشتہ انتخابات میں لوگوں کو محظوظ کرنے کے لیے کہیں شاہ رخ خان کے دل کش ڈانس کا بندوبست کیا گیا تو کہیں عامر خان نے لوگوں کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا۔ بھارت میں انتخابی نشان قرار دیے جانے والے جانوروں کو جلوسوں میں لے کر چلنے اور انھیں پنڈال میں لانے کا رواج بھی رہا ہے، مگر اب ایسا کرنے پر پابندی عاید کردی گئی ہے۔
Load Next Story