جمہوریت کی مد میں اس بار پونے دو سو فی صد زیادہ ادا کرنا پڑے گا
الیکشن کمیشن کے اضافی انتخابی اخراجات پر ایک نظر۔
کسی بھی جمہوری ملک میں الیکشن کمیشن کے ادارے کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ طے شدہ اصول و ضوابط کے دائرے میں رہ کر انتخابی عمل کی نگرانی کرے۔
ایک بہتر نگران ہونے کے لیے ضروری ہے کہ یہ ادارہ اپنے طے شدہ اصول و ضوابط کے تحت مکمل آزاد ہو اور اس کی آزادی کو آئینی تحفظ حاصل ہو۔ جن ملکوں میں الیکشن کمیشنز کو مکمل آزادی حاصل ہے ان میں آسٹریلیا، کینیڈا، بھارت، انڈونیشیا، پولینڈ، رومانیہ، جنوبی افریقہ، تھائی لینڈ کے علاوہ پاکستان کا بھی نام آتا ہے جو جمہریت پسند سماج میں بہ ہرحال قابلِ فخر ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان ایک آزاد، خود مختار اور مستقل آئینی ادارہ ہے۔ پاکستان میں یہ ادارہ پہلی بار 23 مارچ 1956 کو قائم کیا گیا تھا، بعد میں وقتاً فوقتاً اس میں تبدیلیاں اور ترامیم ہوتی رہیں۔ ادارے کا سربراہ چیف الیکشن کمشنر ہوتا ہے اور اس کا تقرر آئین کے آرٹیکل 239 کے تحت صدر مملکت کرتا ہے، اس کے ہم راہ چار صوبائی الیکشن کمشنر ہوتے ہیں، موجود چیف الیکشن کمشنر سابق جج فخرالدین جی ابراہیم ہیں۔
ملک میں عام انتخابات ہوں، ضمنی ہوں، بلدیاتی یا صدارتی، ظاہر ہے ان پر اخراجات ہوتے ہیں جو ملک کے شہری ادا کرتے ہیں۔ یہ رقم الیکشن کمیشن کو وفاقی حکومت فراہم کرتی ہے۔ ذیل میں اس سارے عمل کی تفصیل دی جارہی ہے تاکہ عام شہری کو اندازہ ہوسکے کہ اس کے خون پسینے کی کمائی کس طرح خرچ کی جاتی ہے۔ اس خطیر رقم کے مصرف کو جائز اور مفید بنانے کے لیے ایک شہری کا فرض بنتا ہے کہ وہ ووٹ استعمال چھوٹے موٹے ذاتی مفادات سے بلند ہو کر کرے اور بڑے نصب العین کو سامنے رکھے۔
بجٹ اور اخراجات کا طریقۂ کار
-1 الیکشن کمیشن کا بجٹ وفاقی حکومت فراہم کرتی ہے۔
-2 اگر منظور شدہ بجٹ میں کوئی نئی مدبندی کرنا پڑ جائے تو چیف الیکشن کمشنر فنانس ڈویژن سے رابطہ کیے بغیر کرنے کا مجاذ ہوتا ہے۔
-3 عام انتخابات ہوں یا ضمنی، فنانس ڈویژن پابند ہوتا ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کو اس کی طلب کے مطابق رقم یک مشت ادا کرے۔
-4 چیف الیکشن کمشنر اپنے ادارے کے تمام ذیلی اداروں کو فنڈز فراہم کرتا ہے۔
بین الاقوامی امداد: الیکشن سپورٹ گروپ (Election Support Group) ایک بین الاقوامی ادارہ ہے۔ یہ ادارہ پاکستان کو بھی انتخابی عمل میں امداد فراہم کرتا ہے۔ پاکستان میں اس کی شاخ کا نام انٹرنیشنل فاؤنڈیشن فار الیکٹورل سسٹمز ہے۔ ESG نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو 32 سفارشات پیش کی ہیں۔ 2006 میں انٹرنیشنل فاؤنڈیشن فار الیکشن سسٹمز نے یو ایس ایڈ کی وساطت سے کمپیوٹرائزڈ الیکٹورل رولز کی تنصیب کے لیے 90 لاکھ ڈالر کا معاہدہ کرایا تھا۔
الیکشن کمیشن کی سپلیمنٹری گرانٹ:پاکستان میں سالِ رواں کے ماہ مئی کے دوران عام انتخابات منعقد ہونے جا رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے ان پر آنے والے اخراجات کے لیے فنانس ڈویژن سے 5.099 ارب روپے کی سپلیمنٹری (اضافی) گرانٹ طلب کی ہے۔ اس رقم میں سے،
-1 الیکشن الاؤنس اور طعام پر: 1.260 ملین روپے
-2 ریٹرننگ اور ڈپٹی ریٹرننگ افسران کے عارضی ٹیلی فون نظام پر: 21 ملین روپے
-3 بیلٹ پیپرز، فارم، پوسٹرز اور پلے کارڈ پر: 1 ارب روپے
-4 الیکشن سے متعلق سامان کی نقل و حمل: 480 ملین روپے
-5 پولنگ اسٹیشنوں کی تبدیلی پر: 87.50 ملین روپے
-6 تشہیری مہم پر: 450 ملین روپے
-7 الیکشن کمیشن کے عملے کے اعزازیے پر: 90 ملین روپے
-8 الیکشن مواد کی خریداری پر: 148 ملین روپے
-9 پی سی ایس آر آئی/روشنائی پر: 76.88 ملین روپے
-10 بیلٹ باکسز اور ووٹنگ اسکرینوں پر: 215 ملین روپے
-11 متعینہ مسلح افواج پر: 500 ملین روپے
-12 آئی سی پی/پی ای سی پر خرچ کیے جائیں گے: 750 ملین روپے خرچ کیے جائیں گے۔
اخراجات اس بار زیادہ اٹھیں گے۔ قریب ترین دو گزشتہ انتخابات پر ایک نظر ڈالی جائے تو معلوم ہو گا کہ ان دونوں انتخابات پر جو خرچہ ہوا تھا ان دونوں کے مجموعے سے بھی اس بار کوئی ڈیڑھ ارب روپے زیادہ درکار ہوں گے۔ واضح رہے کہ 2002 اور 2008 کے انتخابات کا مجموعی خرچہ 3.3 ارب روپے تھا جب کہ اس بار الیکشن کمیشن نے پانچ ارب اور کوئی دس کروڑ روپے طلب کیے ہیں سو اس طرح دیکھا جائے تو اس بار عوام کو جمہوریت کے لیے گزشتہ (2008) انتخابات کے مقابلے میں 175 فی صد زیادہ ادا کرنا پڑے گا۔
آئیے ذرا گزشتہ دو انتخابات یعنی الیکشن 2002 اور الیکشن 2008 کے اخراجات کے مابین فرق پر ایک نظر ڈال لی جائے۔ یہ کچھ یوں ہے کہ 2002 کے انتخابات پر 1.45 ارب روپے صرف ہوئے تھے جب کہ 2008 کے انتخابات پر 1.85 ارب روپے صرف ہوئے یعنی 2002 کے مقابلے میں 2008 کے انتخابات پر محض 27.22 فی صد اضافہ ہوا تھا اور اس بار یہ اضافہ 2008 کے انتخابات سے پونے دو سو فی صد زیادہ ہوگا۔ اس کی ایک سے زیادہ وجوہات ہیں۔ مثال کے طور پر ووٹروں کی تعداد میں اضافہ ہو چکا ہے۔
2008 میں ڈالر کی قیمت مبلغ 61 روپے تھی جب اب (تاحال) یہ قیمت 98 روپے سے تجاوز کر رہی ہے، 2008 میں اقتصادی شرح نمو 7 فی صد تھی اور اب یہ گر کر 4 فی صد رہ گئی ہے، غیر ملکی سرمایہ کاری 2008 میں 5 ارب ڈالر تھی، حالیہ گزشتہ حکومت کی بے مثال کارکردگی کے نتیجے میں اب صرف 50 کروڑ ڈالر پر آن گری ہے البتہ افراطِ زر کی شرح جو تب 8 فی صد تھی اب 6.6 فی صد پر آئی ہے اور ترسیلاتِ زر جو 2008 میں 5 ارب ڈالر تھیں اب وہ 10 ارب ڈالر تک پہنچی ہوئی ہیں لیکن اُدھر ٹیکس ٹو جی ڈی پی جو 2008 میں 10 فی صد تھا اب اس میں اعشاریہ پانچ فی صد کمی ہو چکی ہے اور یہ ہندسہ اب 9.5 پڑھاجاتا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی مطلوبہ رقم کن کن مدات پر خرچ کی جاتی ہے، سرکاری دستاویز کے مطابق اس کی تفصیل کچھ یوں ہے،
نمبر1۔ مطلوبہ گرانٹ کا ایک چوتھائی تو سیدھے سبھاؤ پولنگ عملے کے طعام اور الاؤنس پر صرف ہوگا، یہ رقم کوئی 1.259 ارب روپے بنتی ہے۔ 2008 میں یہ خرچہ 6 کروڑ روپے سے کم ہوا تھا، 2002 کے انتخابات کے دوران اسی مد میں 42.94 کروڑ روپے خرچ کیے گئے تھے۔
نمبر2۔ اس بار کاغذ اور چھپائی پر بھی زیادہ اخراجات آئیں گے کیوں کہ 2002 اور 2008 کے برسوں کے مقابل اجرتوں میں اضافہ ہوا ہے فی کس آمدنی بہ ظاہر 2008 کے مقابلے میں بڑھی ہے تب یہ 904 ڈالر فی کس سالانہ تھی اور اب 1378 ڈالر فی کس ہے، اسی طرح کاغذ اور چھپائی کے نرخ بھی پہلے سے لامحالہ بڑھے ہیں اور بیلٹ پیپر بھی اٹھارہ کروڑ کی تعداد کو جا پہنچے ہیں، بیلٹ پیپرز کے لیے غالباً پہلی مرتبہ کرنسی نوٹوں والا کاغذ استعمال کی جارہا ہے سو اس مد میں ایک ارب روپے صرف ہوں گے۔
نمبر3۔ پاکستان کے تمام صوبوں میں متعدد پولنگ اسٹیشن حساس قرار پائیں گے، ان پر ناخوش گواریت سے نمٹنے کے لیے فوج تعینات کرنا پڑتی ہے۔ اس پر بھی اخراجات اٹھتے ہیں۔ اس بار اس مد میں 50 کروڑ روپے کی رقم مختص کی جا رہی ہے۔ 2002 کے انتخابات میں اس مد میں 12 کروڑ روپے صرف ہوئے تھے اور 2008 کے انتخابات میں اس ذیل میں 19 کروڑ 50 لاکھ روپے صرف ہوئے تھے۔
نمبر4۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان، انتخابات کے دوران انتخابی پبلسٹی (تشہیر) بھی کرتا ہے۔ الیکشن 2013 کے لیے اس باب میں 45 کروڑ روپے جائیں گے، اس بار یہ بہرحال ایک بہت بھاری رقم ہے۔ اس سے قبل 2008 میں 97.36 ملین (9 کروڑ سے کچھ زیادہ) خرچ کیے گئے تھے اور 2002 میں یہ رقم 96.62 ملین تھی۔
نمبر5۔ ایک مد میں 87.5 ملین روپے رکھے گئے ہیں۔ یہ رقم ان پولنگ اسٹیشنز پر خرچ کی جائے گی جو کسی وجہ سے فی البدیہ قائم کرنا پڑ جاتے ہیں۔ اس طرح کی رقم ہرالیکشن میں رکھی جاتی ہے۔ سال 2002 کے انتخابات میں یہ رقم 3.94 ملین تھی اور 2008 میں 2.98 ملین روپے رہی۔
نمبر6۔ ایک اور مد ہے الیکشن مواد سے متعلق مواد کی حصول یابی، اس مد میں بھی اس بار خطیر اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ 2002 کے انتخابات میں یہ رقم 23.9 کروڑ روپے تھی، 2008 کے انتخابات میں اس میں اضافہ ہوا اور یہ 41.48 ملین روپے ہو گئی جب کہ اس بار پارہ بہت زیادہ چڑھا ہوا ہے اور ہندسہ اس بار 148 ملین روپے کو چھوتاہے۔
نمبر7: انتخابی مواد، بیلٹ باکس اور ووٹنگ اسکرینوں کی حمل و نقل کے لیے ایک مد الگ ہے جس میں اس بار 215 ملین روپے رکھے گئے ہیں۔ یہ بھی گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے، اندازہ اس سے لگایے کہ 2002 میں اس مد پر 32 ملین روپے اٹھے تھے جب کہ 2008 میں اس پر 18.27 ملین روپے صرف ہوے تھے تاہم 2008 میں مختص رقم نقل و حمل پر خرچ ہوئی تھی اور بیلٹ باکسز بہ ظاہر حاصل نہیں کیے گئے تھے جب کہ 2002 میں مختص 32 ملین روپے بیلٹ باکسز کی تیاری پر صرف ہوئے اور 10.6 ملین روپے ان کی مرمت وغیرہ پر لگے تھے۔
نمبر8۔ انتخابات 2013 میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی مطلوبہ رقم میں ایک مد 21 ملین روپے کی ہے جو ڈسٹرکٹ ریٹرننگ اور ریٹرننگ افسروں کے لیے ٹیلی فون لائنیں بچھانے پر خرچ کیے جائیں گے۔ 2008 کے انتخابات میں اس مد میں 6.31 ملین روپے ڈالے گئے اور 2002 کے انتخابات میں ان ضروریات کے ساتھ 5.74 ملین روپے میں نمٹ لیا گیا تھا۔ یہ بھی اس مرتبہ ایک بڑا اضافہ ہے۔
نمبر9۔ انتخابی مواد کی ٹرانسپورٹیشن کے لیے اس بار 480 ملین روپے اضافی رکھے گئے ہیں۔ یہ رقم 2008 میں 118.24 ملین روپے اور 2002 میں محض 48.6 روپے تھے۔
اس کے علاوہ بھی کچھ مدات ہیں جنہیں ''متوقع'' کے خانے میں رکھا گیا ہے۔ ان متوقع مدات میں ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسروں اور ریٹرننگ افسروں کو اسٹیشنری فراہم کرنے کے لیے 16.59 ملین روپے رکھے گئے ہیں۔ اسی طرح الیکشن کمیشن پاکستان کے اہل کاروں کے اعزازیے کے لیے 90 ملین روپے مختص ہیں، انمٹ روشنائی (INK) کے حصول پر 76.88 ملین روپے اٹھیں گے اور اس کے علاوہ متفرقات کی ایک مد ہے جس میں الیکشن کمیشن اور صوبائی الیکشن کمیشن شامل ہیں، اس مد میں 750 ملین روپے رکھے جائیں گے جب کہ 5 ملین روپے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسروں اور ریٹرننگ افسروں کی تربیت پر خرچ ہونے جا رہے ہیں۔
اس خطیر رقم کے عوض ووٹر اپنے لیے کیا خریدتے ہیں۔ اس کا اندازہ خریدنے کے بعد ہی ہو گا۔ اب تک کی تاریخ میں تو خریداروں کا ذوق اپنے بارے میں کوئی قابلِ فخر بات شامل نہیں کروا سکا۔ سیاست کا بازار بھی تو ایسے ایسے باکمال دلالوں کے ہاتھ میں ہے کہ جو کیڑے لگا پھل اور گندے انڈے بیچنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ اس صفائی سے آپ کے مال میں گند بلا شامل کر دیتے ہیں کہ گھر آ کر تھیلہ کھولیے تو سر پیٹتے رہ جایے لیکن تب تک بازار بند ہو چکتا ہے۔
یہ بازار پانچ برس میں ایک بار کھلتا ہے اور اس بازار کا اصول ہے کہ یہاں سے خریدا ہوا مال آسانی سے تبدیل نہیں ہوتا۔ خبردار رہیے کہ یہ ہی مال بارِ دگر خرید لائے تو اِن ہی حالوں میں رہیے گا بل کہ کیا بعید کہ بازار کے دوبارہ کھلنے تک آپ نہ رہیں اور نوسر باز کے گریبان میں ہاتھ ڈالنے کا خواب شرمندۂ تعبیر ہی نہ ہونے پائے۔ یاد رکھیے آپ کا غلط فیصلہ آپ ہی کو زد پر نہیں لیتا یہ آپ کے بچوں اور آپ کے آس پاس کو بھی گنے کی طرح بیلنے میں پیل ڈالتا ہے۔
ایک بہتر نگران ہونے کے لیے ضروری ہے کہ یہ ادارہ اپنے طے شدہ اصول و ضوابط کے تحت مکمل آزاد ہو اور اس کی آزادی کو آئینی تحفظ حاصل ہو۔ جن ملکوں میں الیکشن کمیشنز کو مکمل آزادی حاصل ہے ان میں آسٹریلیا، کینیڈا، بھارت، انڈونیشیا، پولینڈ، رومانیہ، جنوبی افریقہ، تھائی لینڈ کے علاوہ پاکستان کا بھی نام آتا ہے جو جمہریت پسند سماج میں بہ ہرحال قابلِ فخر ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان ایک آزاد، خود مختار اور مستقل آئینی ادارہ ہے۔ پاکستان میں یہ ادارہ پہلی بار 23 مارچ 1956 کو قائم کیا گیا تھا، بعد میں وقتاً فوقتاً اس میں تبدیلیاں اور ترامیم ہوتی رہیں۔ ادارے کا سربراہ چیف الیکشن کمشنر ہوتا ہے اور اس کا تقرر آئین کے آرٹیکل 239 کے تحت صدر مملکت کرتا ہے، اس کے ہم راہ چار صوبائی الیکشن کمشنر ہوتے ہیں، موجود چیف الیکشن کمشنر سابق جج فخرالدین جی ابراہیم ہیں۔
ملک میں عام انتخابات ہوں، ضمنی ہوں، بلدیاتی یا صدارتی، ظاہر ہے ان پر اخراجات ہوتے ہیں جو ملک کے شہری ادا کرتے ہیں۔ یہ رقم الیکشن کمیشن کو وفاقی حکومت فراہم کرتی ہے۔ ذیل میں اس سارے عمل کی تفصیل دی جارہی ہے تاکہ عام شہری کو اندازہ ہوسکے کہ اس کے خون پسینے کی کمائی کس طرح خرچ کی جاتی ہے۔ اس خطیر رقم کے مصرف کو جائز اور مفید بنانے کے لیے ایک شہری کا فرض بنتا ہے کہ وہ ووٹ استعمال چھوٹے موٹے ذاتی مفادات سے بلند ہو کر کرے اور بڑے نصب العین کو سامنے رکھے۔
بجٹ اور اخراجات کا طریقۂ کار
-1 الیکشن کمیشن کا بجٹ وفاقی حکومت فراہم کرتی ہے۔
-2 اگر منظور شدہ بجٹ میں کوئی نئی مدبندی کرنا پڑ جائے تو چیف الیکشن کمشنر فنانس ڈویژن سے رابطہ کیے بغیر کرنے کا مجاذ ہوتا ہے۔
-3 عام انتخابات ہوں یا ضمنی، فنانس ڈویژن پابند ہوتا ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کو اس کی طلب کے مطابق رقم یک مشت ادا کرے۔
-4 چیف الیکشن کمشنر اپنے ادارے کے تمام ذیلی اداروں کو فنڈز فراہم کرتا ہے۔
بین الاقوامی امداد: الیکشن سپورٹ گروپ (Election Support Group) ایک بین الاقوامی ادارہ ہے۔ یہ ادارہ پاکستان کو بھی انتخابی عمل میں امداد فراہم کرتا ہے۔ پاکستان میں اس کی شاخ کا نام انٹرنیشنل فاؤنڈیشن فار الیکٹورل سسٹمز ہے۔ ESG نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو 32 سفارشات پیش کی ہیں۔ 2006 میں انٹرنیشنل فاؤنڈیشن فار الیکشن سسٹمز نے یو ایس ایڈ کی وساطت سے کمپیوٹرائزڈ الیکٹورل رولز کی تنصیب کے لیے 90 لاکھ ڈالر کا معاہدہ کرایا تھا۔
الیکشن کمیشن کی سپلیمنٹری گرانٹ:پاکستان میں سالِ رواں کے ماہ مئی کے دوران عام انتخابات منعقد ہونے جا رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے ان پر آنے والے اخراجات کے لیے فنانس ڈویژن سے 5.099 ارب روپے کی سپلیمنٹری (اضافی) گرانٹ طلب کی ہے۔ اس رقم میں سے،
-1 الیکشن الاؤنس اور طعام پر: 1.260 ملین روپے
-2 ریٹرننگ اور ڈپٹی ریٹرننگ افسران کے عارضی ٹیلی فون نظام پر: 21 ملین روپے
-3 بیلٹ پیپرز، فارم، پوسٹرز اور پلے کارڈ پر: 1 ارب روپے
-4 الیکشن سے متعلق سامان کی نقل و حمل: 480 ملین روپے
-5 پولنگ اسٹیشنوں کی تبدیلی پر: 87.50 ملین روپے
-6 تشہیری مہم پر: 450 ملین روپے
-7 الیکشن کمیشن کے عملے کے اعزازیے پر: 90 ملین روپے
-8 الیکشن مواد کی خریداری پر: 148 ملین روپے
-9 پی سی ایس آر آئی/روشنائی پر: 76.88 ملین روپے
-10 بیلٹ باکسز اور ووٹنگ اسکرینوں پر: 215 ملین روپے
-11 متعینہ مسلح افواج پر: 500 ملین روپے
-12 آئی سی پی/پی ای سی پر خرچ کیے جائیں گے: 750 ملین روپے خرچ کیے جائیں گے۔
اخراجات اس بار زیادہ اٹھیں گے۔ قریب ترین دو گزشتہ انتخابات پر ایک نظر ڈالی جائے تو معلوم ہو گا کہ ان دونوں انتخابات پر جو خرچہ ہوا تھا ان دونوں کے مجموعے سے بھی اس بار کوئی ڈیڑھ ارب روپے زیادہ درکار ہوں گے۔ واضح رہے کہ 2002 اور 2008 کے انتخابات کا مجموعی خرچہ 3.3 ارب روپے تھا جب کہ اس بار الیکشن کمیشن نے پانچ ارب اور کوئی دس کروڑ روپے طلب کیے ہیں سو اس طرح دیکھا جائے تو اس بار عوام کو جمہوریت کے لیے گزشتہ (2008) انتخابات کے مقابلے میں 175 فی صد زیادہ ادا کرنا پڑے گا۔
آئیے ذرا گزشتہ دو انتخابات یعنی الیکشن 2002 اور الیکشن 2008 کے اخراجات کے مابین فرق پر ایک نظر ڈال لی جائے۔ یہ کچھ یوں ہے کہ 2002 کے انتخابات پر 1.45 ارب روپے صرف ہوئے تھے جب کہ 2008 کے انتخابات پر 1.85 ارب روپے صرف ہوئے یعنی 2002 کے مقابلے میں 2008 کے انتخابات پر محض 27.22 فی صد اضافہ ہوا تھا اور اس بار یہ اضافہ 2008 کے انتخابات سے پونے دو سو فی صد زیادہ ہوگا۔ اس کی ایک سے زیادہ وجوہات ہیں۔ مثال کے طور پر ووٹروں کی تعداد میں اضافہ ہو چکا ہے۔
2008 میں ڈالر کی قیمت مبلغ 61 روپے تھی جب اب (تاحال) یہ قیمت 98 روپے سے تجاوز کر رہی ہے، 2008 میں اقتصادی شرح نمو 7 فی صد تھی اور اب یہ گر کر 4 فی صد رہ گئی ہے، غیر ملکی سرمایہ کاری 2008 میں 5 ارب ڈالر تھی، حالیہ گزشتہ حکومت کی بے مثال کارکردگی کے نتیجے میں اب صرف 50 کروڑ ڈالر پر آن گری ہے البتہ افراطِ زر کی شرح جو تب 8 فی صد تھی اب 6.6 فی صد پر آئی ہے اور ترسیلاتِ زر جو 2008 میں 5 ارب ڈالر تھیں اب وہ 10 ارب ڈالر تک پہنچی ہوئی ہیں لیکن اُدھر ٹیکس ٹو جی ڈی پی جو 2008 میں 10 فی صد تھا اب اس میں اعشاریہ پانچ فی صد کمی ہو چکی ہے اور یہ ہندسہ اب 9.5 پڑھاجاتا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی مطلوبہ رقم کن کن مدات پر خرچ کی جاتی ہے، سرکاری دستاویز کے مطابق اس کی تفصیل کچھ یوں ہے،
نمبر1۔ مطلوبہ گرانٹ کا ایک چوتھائی تو سیدھے سبھاؤ پولنگ عملے کے طعام اور الاؤنس پر صرف ہوگا، یہ رقم کوئی 1.259 ارب روپے بنتی ہے۔ 2008 میں یہ خرچہ 6 کروڑ روپے سے کم ہوا تھا، 2002 کے انتخابات کے دوران اسی مد میں 42.94 کروڑ روپے خرچ کیے گئے تھے۔
نمبر2۔ اس بار کاغذ اور چھپائی پر بھی زیادہ اخراجات آئیں گے کیوں کہ 2002 اور 2008 کے برسوں کے مقابل اجرتوں میں اضافہ ہوا ہے فی کس آمدنی بہ ظاہر 2008 کے مقابلے میں بڑھی ہے تب یہ 904 ڈالر فی کس سالانہ تھی اور اب 1378 ڈالر فی کس ہے، اسی طرح کاغذ اور چھپائی کے نرخ بھی پہلے سے لامحالہ بڑھے ہیں اور بیلٹ پیپر بھی اٹھارہ کروڑ کی تعداد کو جا پہنچے ہیں، بیلٹ پیپرز کے لیے غالباً پہلی مرتبہ کرنسی نوٹوں والا کاغذ استعمال کی جارہا ہے سو اس مد میں ایک ارب روپے صرف ہوں گے۔
نمبر3۔ پاکستان کے تمام صوبوں میں متعدد پولنگ اسٹیشن حساس قرار پائیں گے، ان پر ناخوش گواریت سے نمٹنے کے لیے فوج تعینات کرنا پڑتی ہے۔ اس پر بھی اخراجات اٹھتے ہیں۔ اس بار اس مد میں 50 کروڑ روپے کی رقم مختص کی جا رہی ہے۔ 2002 کے انتخابات میں اس مد میں 12 کروڑ روپے صرف ہوئے تھے اور 2008 کے انتخابات میں اس ذیل میں 19 کروڑ 50 لاکھ روپے صرف ہوئے تھے۔
نمبر4۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان، انتخابات کے دوران انتخابی پبلسٹی (تشہیر) بھی کرتا ہے۔ الیکشن 2013 کے لیے اس باب میں 45 کروڑ روپے جائیں گے، اس بار یہ بہرحال ایک بہت بھاری رقم ہے۔ اس سے قبل 2008 میں 97.36 ملین (9 کروڑ سے کچھ زیادہ) خرچ کیے گئے تھے اور 2002 میں یہ رقم 96.62 ملین تھی۔
نمبر5۔ ایک مد میں 87.5 ملین روپے رکھے گئے ہیں۔ یہ رقم ان پولنگ اسٹیشنز پر خرچ کی جائے گی جو کسی وجہ سے فی البدیہ قائم کرنا پڑ جاتے ہیں۔ اس طرح کی رقم ہرالیکشن میں رکھی جاتی ہے۔ سال 2002 کے انتخابات میں یہ رقم 3.94 ملین تھی اور 2008 میں 2.98 ملین روپے رہی۔
نمبر6۔ ایک اور مد ہے الیکشن مواد سے متعلق مواد کی حصول یابی، اس مد میں بھی اس بار خطیر اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ 2002 کے انتخابات میں یہ رقم 23.9 کروڑ روپے تھی، 2008 کے انتخابات میں اس میں اضافہ ہوا اور یہ 41.48 ملین روپے ہو گئی جب کہ اس بار پارہ بہت زیادہ چڑھا ہوا ہے اور ہندسہ اس بار 148 ملین روپے کو چھوتاہے۔
نمبر7: انتخابی مواد، بیلٹ باکس اور ووٹنگ اسکرینوں کی حمل و نقل کے لیے ایک مد الگ ہے جس میں اس بار 215 ملین روپے رکھے گئے ہیں۔ یہ بھی گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے، اندازہ اس سے لگایے کہ 2002 میں اس مد پر 32 ملین روپے اٹھے تھے جب کہ 2008 میں اس پر 18.27 ملین روپے صرف ہوے تھے تاہم 2008 میں مختص رقم نقل و حمل پر خرچ ہوئی تھی اور بیلٹ باکسز بہ ظاہر حاصل نہیں کیے گئے تھے جب کہ 2002 میں مختص 32 ملین روپے بیلٹ باکسز کی تیاری پر صرف ہوئے اور 10.6 ملین روپے ان کی مرمت وغیرہ پر لگے تھے۔
نمبر8۔ انتخابات 2013 میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی مطلوبہ رقم میں ایک مد 21 ملین روپے کی ہے جو ڈسٹرکٹ ریٹرننگ اور ریٹرننگ افسروں کے لیے ٹیلی فون لائنیں بچھانے پر خرچ کیے جائیں گے۔ 2008 کے انتخابات میں اس مد میں 6.31 ملین روپے ڈالے گئے اور 2002 کے انتخابات میں ان ضروریات کے ساتھ 5.74 ملین روپے میں نمٹ لیا گیا تھا۔ یہ بھی اس مرتبہ ایک بڑا اضافہ ہے۔
نمبر9۔ انتخابی مواد کی ٹرانسپورٹیشن کے لیے اس بار 480 ملین روپے اضافی رکھے گئے ہیں۔ یہ رقم 2008 میں 118.24 ملین روپے اور 2002 میں محض 48.6 روپے تھے۔
اس کے علاوہ بھی کچھ مدات ہیں جنہیں ''متوقع'' کے خانے میں رکھا گیا ہے۔ ان متوقع مدات میں ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسروں اور ریٹرننگ افسروں کو اسٹیشنری فراہم کرنے کے لیے 16.59 ملین روپے رکھے گئے ہیں۔ اسی طرح الیکشن کمیشن پاکستان کے اہل کاروں کے اعزازیے کے لیے 90 ملین روپے مختص ہیں، انمٹ روشنائی (INK) کے حصول پر 76.88 ملین روپے اٹھیں گے اور اس کے علاوہ متفرقات کی ایک مد ہے جس میں الیکشن کمیشن اور صوبائی الیکشن کمیشن شامل ہیں، اس مد میں 750 ملین روپے رکھے جائیں گے جب کہ 5 ملین روپے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسروں اور ریٹرننگ افسروں کی تربیت پر خرچ ہونے جا رہے ہیں۔
اس خطیر رقم کے عوض ووٹر اپنے لیے کیا خریدتے ہیں۔ اس کا اندازہ خریدنے کے بعد ہی ہو گا۔ اب تک کی تاریخ میں تو خریداروں کا ذوق اپنے بارے میں کوئی قابلِ فخر بات شامل نہیں کروا سکا۔ سیاست کا بازار بھی تو ایسے ایسے باکمال دلالوں کے ہاتھ میں ہے کہ جو کیڑے لگا پھل اور گندے انڈے بیچنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ اس صفائی سے آپ کے مال میں گند بلا شامل کر دیتے ہیں کہ گھر آ کر تھیلہ کھولیے تو سر پیٹتے رہ جایے لیکن تب تک بازار بند ہو چکتا ہے۔
یہ بازار پانچ برس میں ایک بار کھلتا ہے اور اس بازار کا اصول ہے کہ یہاں سے خریدا ہوا مال آسانی سے تبدیل نہیں ہوتا۔ خبردار رہیے کہ یہ ہی مال بارِ دگر خرید لائے تو اِن ہی حالوں میں رہیے گا بل کہ کیا بعید کہ بازار کے دوبارہ کھلنے تک آپ نہ رہیں اور نوسر باز کے گریبان میں ہاتھ ڈالنے کا خواب شرمندۂ تعبیر ہی نہ ہونے پائے۔ یاد رکھیے آپ کا غلط فیصلہ آپ ہی کو زد پر نہیں لیتا یہ آپ کے بچوں اور آپ کے آس پاس کو بھی گنے کی طرح بیلنے میں پیل ڈالتا ہے۔