امریکا میں کھاد فیکٹری میں دھماکا

امریکا یا یورپ میں جب بھی کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے تو فوری طور پر توجہ القاعدہ کی طرف چلی جاتی ہے۔

امریکا یا یورپ میں جب بھی کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے تو فوری طور پر توجہ القاعدہ کی طرف چلی جاتی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

امریکا کی ریاست ٹیکساس میں کھاد بنانے والی فیکٹری میں دھماکوں سے آگ لگنے کے باعث 15 افراد ہلاک اور 160 زخمی ہو گئے ہیں۔ یہ دھماکا خاصا شدید تھا۔ دھماکے سے ارد گرد کے درجنوں مکانات تباہ اور متعدد کو نقصان پہنچنے کی اطلاعات بھی ہیں۔ امریکی اور دیگر عالمی میڈیا خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ مرنے والوں کی تعداد 80 اور زخمیوں کی 200 سے زائد ہے ۔اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فیکٹری میں خاصا نقصان ہوا ہے۔

ادھر امریکی انتظامیہ دھماکے کی وجوہات معلوم کرنے کے لیے تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہے اور سرکاری سطح پرکوئی حتمی بات سامنے نہیں آئی۔ پاکستان نے اس سانحہ پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ امریکی کھاد فیکٹری میں دھماکوں سے ہونے والی ہلاکتیں افسوسناک ہیں۔ انسانی جانوں کا اتلاف خواہ کہیں بھی ہو وہ افسوناک ہی ہوتا ہے۔ امریکا ایک ترقی یافتہ اور جدید ملک ہے۔ امریکی فیکٹری میں کسی ممکنہ حادثے کی صورت میں قوانین کے مطابق تمام حفاظتی انتظامات یقیناً موجود ہوں گے لیکن دھماکا اس قدر بڑا اور فوری معلوم ہوتا ہے کہ کسی کو سنبھلنے اور معاملے کو قابو کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔

اسی طرح دھماکے سے لگنے والی آگ اس قدر شدید تھی کہ فیکٹری کے قریب ایک اپارٹمنٹ' نرسنگ ہوم اور اسکول کی عمارت بھی خاکستر ہو گئی یہاں تک کہ آگ بجھانے کے لیے آنے والے عملے کے دس ارکان بھی آگ کی لپیٹ میں آ کر ہلاک ہو گئے۔ امریکی شہر بوسٹن میں پیر کو ہونے والی میراتھن کے دوران بھی دو دھماکوں میں 4 افراد ہلاک اور 30 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ امریکا میں چار روز کے دوران ہونے والے ان دو افسوسناک واقعات کی تحقیقات جاری ہیں البتہ میڈیا رپورٹس کے مطابق بوسٹن دھماکے کے مبینہ ملزمان کا تعلق چیچنیا سے ہے اور وہ دونوں بھائی ہیں۔ اس حوالے سے ابھی امریکی حکومت نے کوئی بات نہیں کی لہذااس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔


امریکا یا یورپ میں جب بھی کوئی سانحہ رونما ہوتا ہے تو فوری طور پر توجہ القاعدہ کی طرف چلی جاتی ہے اور ہر حادثے کو دہشت گردی کے زمرے میں ڈالا جاتا ہے۔ امریکا اور یورپی ممالک میں میڈیا بھی ایسا تاثر پھیلا دیتا ہے جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ جیسے ہر قسم کی دہشت گردی میں القاعدہ یا کوئی مسلم باشندہ ملوث ہو سکتا ہے۔ بعدمیں چند مخصوص افراد بلا سوچے سمجھے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس صورت حال سے وہاں مقیم مسلمانوں میں خوف کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ نائن الیون کے واقعہ کے بعد اس سانحہ کی ذمے داری القاعدہ پر ڈالی گئی تھی، صدر بش کی انتظامیہ نے اسی بنیاد پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز کیا جس کے نتیجے میں افغانستان پر حملہ ہوا اور بعد میں عراق بھی حملے کی زد میں آیا۔افغانستان اور عراق کا بحران ابھی تک طے نہیں ہوسکا۔

افغانستان میں امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کی افواج ابھی تک طالبان سے برسرپیکار ہیں۔ اس ملک میں قیام امن کی راہ نہیں نکل رہی۔ ادھر عراق میں بھی آئے روز دھماکے ہوتے رہتے ہیں۔ یوں امریکا کی پالیسی کے باعث دو ملک تباہی سے دوچار ہو گئے اور دہشت گردی کا معاملہ پھر بھی حل نہیں ہو سکا۔ ادھر امریکا اور دنیا میں آج بھی بہت سے ایسے لوگ موجود ہیںیہ کہتے ہیں کہ نائن الیون کے حادثے میں کچھ اور قوتیں بھی ملوث تھیں۔نائن الیون کے واقعے کے بعد امریکا میں مسلم کمیونٹی خاصی پریشان رہی ہے، کئی مسلمانوں کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔ اس طرح جب بھی امریکا یا یورپ میں کوئی تخریبی کارروائی یا دھماکا ہوتا تو پاکستان میں بھی تشویش پیدا ہوتی ہے کیونکہ ہزاروں پاکستانی تارکین وطن امریکا میں مقیم ہیں۔

امریکا میں ہونے والے حالیہ دھماکوںیا حادثوں کے بعد فوری طور پر کسی مسلمان پر الزام عائد نہیں کیا گیا بلکہ تحقیقات کے بعد کسی فیصلے پر پہنچنے کا انتظار کیا جا رہا ہے۔امریکا کی حکومت اس حوالے سے تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہے اور وہ معاملے کی تہہ تک پہنچے بغیر کوئی پریس ریلز جاری نہیں کرنا چاہتی۔لہٰذا اصل صورت حال تو تحقیقاتی رپورٹ سامنے آنے ہی پر واضح ہو گی۔ یہ ممکن ہے کہ کھاد فیکٹری کا واقعہ محض حادثہ ہو اور اس میں کوئی دہشت گرد تنظیم یا گروپ ملوث نہ ہو کیونکہ ابھی تک کسی گروپ نے اس کی ذمے داری قبول نہیں کی۔بہر حال معاملہ کچھ بھی ہو امریکا میں کھاد فیکٹری میں ہونے والا دھماکا اس امر کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ حساس مقامات ہوتے ہیں اور یہاں ہونے والی کوئی تخریب کاری یا حادثہ بہت سی جانوں کے ضیاع کا باعث بن سکتا ہے۔

پاکستان میں موجود کھاد اور دیگر کیمیکل فیکٹری مالکان کو بھی اس امریکی سانحہ کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی ممکنہ حادثے کی صورت میں احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہیے تاکہ کسی بھی جانی نقصان سے بچا جا سکے۔ کھاد بنانے والی اور کیمیکل فیکٹریوں میں تو ہر وقت کسی ممکنہ حادثے کا خدشہ لاحق رہتا ہے۔ اس لیے تمام سرکاری اداروں کو روایتی تساہل پسندی اور لاپروائی کا رویہ ترک کر کے ابھی سے حفاظتی انتظامات بہتر بنانے اور وہاں کام کرنے والے ملازمین کی حادثے سے نمٹنے کی تربیت پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔اگر انتظامات اچھے ہوں گے تو اس سے جہاں حادثے سے محفوظ رہا جا سکے گا وہاں دہشت گردی سے بھی بچا جا سکے گا۔
Load Next Story