نقیب اللہ قتل راؤ انوار کی ضمانت پر رہائی کیلئے درخواست دائر فریقین سے جواب طلب
کیس کے چالان جےآئی ٹی رپورٹ اورجیوفینسگ رپورٹ میں تضادہے،راؤ انوار کا موقف
انسداد دہشتگردی کی عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی درخواست ضمانت پر فریقین سے جواب طلب کرلیا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے اپنے وکیل کی وساطت سے نقیب اللہ قتل کیس میں ضمانت کے لیے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں درخواست دائر کی، جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ کیس کے چالان جےآئی ٹی اورجیو فینسگ رپورٹ میں تضادہے، راؤانوار جائےوقوعہ پرموجود نہیں تھے، راؤانوار کی ضمانت منظور کی جائے۔ عدالت نے 14مئی کے لیے سرکاری وکیل کو نوٹس جاری کردیے۔
13 جنوری 2018 کو کراچی کے ضلع ملیر میں اس وقت کے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے ایک مبینہ پولیس مقابلے میں 4 دہشتگردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا تھا تاہم بعد میں معلوم ہوا کہ ہلاک کئے گئے لوگ دہشتگرد نہیں بلکہ مختلف علاقوں سے اٹھائے گئے بے گناہ شہری تھے جنہیں ماورائے عدالت قتل کردیا گیا۔ جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے ایک نوجوان کی شناخت نقیب اللہ کے نام سے ہوئی۔
سوشل میڈیا صارفین اور سول سوسائٹی کے احتجاج کے بعد سپریم کورٹ نے واقعے کا از خود نوٹس لیا تھا۔ از خود نوٹس کے بعد راؤ انوار روپوش ہوگئے اور اسلام آباد ایئر پورٹ سے دبئی فرار ہونے کی بھی کوشش کی لیکن اسے ناکام بنادیا گیا۔ کچھ عرصے بعد وہ سپریم کورٹ میں پیش ہوئے جہاں سے انہیں گرفتار کرلیا گیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے اپنے وکیل کی وساطت سے نقیب اللہ قتل کیس میں ضمانت کے لیے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں درخواست دائر کی، جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ کیس کے چالان جےآئی ٹی اورجیو فینسگ رپورٹ میں تضادہے، راؤانوار جائےوقوعہ پرموجود نہیں تھے، راؤانوار کی ضمانت منظور کی جائے۔ عدالت نے 14مئی کے لیے سرکاری وکیل کو نوٹس جاری کردیے۔
نقیب اللہ کیس کا پس منظر
13 جنوری 2018 کو کراچی کے ضلع ملیر میں اس وقت کے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے ایک مبینہ پولیس مقابلے میں 4 دہشتگردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا تھا تاہم بعد میں معلوم ہوا کہ ہلاک کئے گئے لوگ دہشتگرد نہیں بلکہ مختلف علاقوں سے اٹھائے گئے بے گناہ شہری تھے جنہیں ماورائے عدالت قتل کردیا گیا۔ جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے ایک نوجوان کی شناخت نقیب اللہ کے نام سے ہوئی۔
سوشل میڈیا صارفین اور سول سوسائٹی کے احتجاج کے بعد سپریم کورٹ نے واقعے کا از خود نوٹس لیا تھا۔ از خود نوٹس کے بعد راؤ انوار روپوش ہوگئے اور اسلام آباد ایئر پورٹ سے دبئی فرار ہونے کی بھی کوشش کی لیکن اسے ناکام بنادیا گیا۔ کچھ عرصے بعد وہ سپریم کورٹ میں پیش ہوئے جہاں سے انہیں گرفتار کرلیا گیا۔