دہشت گردی اور انتخابی نتائج
پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے دفاتر کو بموں سے اڑایا جا رہا ہے
دہشت گردی اور انتخابی عمل ساتھ ساتھ جاری ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے رہنمائوں اور کارکنوں کی جرات سے نئی تاریخ رقم ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے امیدواروں کی زندگی خطرے میں ہے۔ بلوچستان میں ثناء اﷲ زہری، کھیتران نشانہ بنے ہیں۔ باقی سیاسی جماعتوں کو سیاسی مہم چلانے کی آزادی ہے۔ مسلم لیگ ق کے سیکریٹری جنرل مشاہد حسین کا کہنا ہے کہ ملک میں پہلی دفعہ اسٹیبلشمنٹ انتخابات میں حصہ نہیں لے رہی ہے۔
حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان نے چند ماہ قبل اعلان کیا تھا کہ وہ بات چیت کے لیے مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف، تحریک انصاف کے عمران خان اور جماعت اسلامی کے منور حسن کو ثالث بنانے کے لیے تیار ہیں، اس انتہا پسند تحریک نے دھمکی دی تھی کہ سیکولر جماعتوں کو انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، یوں محسوس ہوتا ہے کہ تحریک طالبان کی دھمکی کے عملی نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں اے این پی اور پیپلزپارٹی کے امیدواروں کے دفتروں پر حملے ہو رہے ہیں، اے این پی کے انتخابی امیدواروں سمیت کئی کارکن شہید ہو چکے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے دفاتر کو بموں سے اڑایا جا رہا ہے، طالبان نے حیدرآباد میں ایم کیو ایم کے امیدوار کے قتل کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔ طالبان مخالف جماعتیں عوام سے رابطے کے حق سے محروم ہو گئی ہیں، ان جماعتوں کے امیدوار بڑے جلسے منعقد نہیں کر سکیں گے۔ انتخابی عمل کا مطالعہ کرنے والے طالب علموں کا کہنا ہے کہ جب یہ جماعتیں عوام سے رابطہ نہیں کر سکیں گی تو وہ اپنے حامی ووٹرز کو پولنگ اسٹیشنوں تک نہیں لا سکیں گی، اس طرح دہشت گردی کی بنا پر انتخابی نتائج کنٹرول ہو سکیں گے۔
ملک میں انتخابات کا انعقاد ہمیشہ ایک بہت بڑا مسئلہ بنا رہا ہے۔ 1947ء سے 2008ء تک کبھی بھی انتخابات وقت پر منعقد نہیں ہوئے۔ تاریخ شاہد ہے کہ منتخب حکومتوں کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا موقع نہیں دیا گیا ۔ ملک میں پہلا آئین 1956ء میں نافذ ہوا، اس آئین کے تحت 1958ء میں انتخابات منعقد ہونے تھے، یہ وہ وقت تھا جب مسلم لیگ بکھر چکی تھی، میجر جنرل (ر) اسکندر مرزا نے اپنے اقتدار کے لیے ریپبلکن پارٹی قائم کی تھی۔
اس زمانے میں عوامی لیگ، نیشنل عوامی پارٹی اور بائیں بازو کی چھوٹی جماعتیں اور قوم پرست گروپ اپنے اپنے علاقوں میں مضبوط عوامی حمایت رکھتے تھے، اسٹیبلشمنٹ کو انتخابات میں اپنے حامیوں کی شکست کا خطرہ پیدا ہوا، جنرل اسکندر مرزا نے مارشل لاء لگا کر آئین کا خاتمہ کیا اور جنرل ایوب خان اقتدار میں آئے۔ اگرچہ جنرل ایوب خان کے اقتدار سنبھالتے ہی بیوروکریٹ آمر اسکندر مرزا کا چراغ گل ہوا مگر جمہوری عمل 13 برسوں کے لیے پیچھے چلا گیا، اس دوران ایوب خان نے محدود جمہوریت کا تجربہ کیا جس کے نتیجے میں ملک کے اکثریتی صوبے مشرقی پاکستان اور اقلیتی صوبے مغربی پاکستان میں ہی خلیج نہیں بڑھی بلکہ ون یونٹ میں طاقت کے ذریعے ضم ہو جانے والے صوبوں بلوچستان اور پختونخوا کے عوام بھی ایوب خان حکومت سے بددل ہو گئے۔
1970ء میں پہلی دفعہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات منعقد ہوئے مگر اکثریتی جماعت پیپلز پارٹی نے نتائج قبول نہیں کیے جس کا نتیجہ بنگلہ دیش کی آزادی کی صورت میں برآمد ہوا۔ پیپلز پارٹی کے پہلے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے آئینی میعاد ختم ہونے سے پہلے انتخابات کرائے مگر یہ انتخابی نتائج تسلیم نہیں کیے گئے۔ 1985ء سے 1997ء تک انتخابات میں منتخب ہونے والی کسی بھی جماعت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا موقع نہیں ملا، یوں ملک دہشت گردی کے بحران کا شکار ہوا، وفاق اور صوبوں میں کشیدگی بڑھ گئی، دہشت گردی کے نتیجے میں پاکستان بے نظیر بھٹو جیسی قیادت سے محروم ہوا۔
پیپلز پارٹی کی حکومت ویژن سے محروم اور Governance کی صلاحیت کھو بیٹھی، اس ساری صورتحال میں سیاستدانوں نے سبق سیکھا، پیپلز پارٹی کی سربراہ اور مسلم لیگ کے قائد میاں نواز شریف نے 2005ء میں لندن میں میثاق جمہوریت پر اتفاق کیا، اس میثاق کے ذریعے منتخب حکومتوں کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے کے علاوہ فوجی آمروں کی طرف سے کی گئی آئینی ترامیم کے خاتمے اور صوبائی خود مختاری کے نفاذ جیسے اہم معاملات طے ہوئے، اس طرح عبوری حکومت اور خود مختار الیکشن کمیشن کے قیام کے لیے قانون سازی ہوئی۔ 2008ء سے 2012ء تک ملک میں کوئی بڑا سیاسی بحران پید ا نہیں ہوا۔ امریکی حکومت کی جانب سے امریکی کانگریس میں منظور کردہ کیری لوگر بل پر عمل درآمد شروع ہوا، اس طرح بین الاقوامی صورتحال اور ملک میں مخالف سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونے والے اتفاق کی بنا پر اسٹیبلشمنٹ کا کردار کم ہونا شروع ہوا۔
گزشتہ سال کے وسط سے کچھ سیاستدانوں نے انتخابات کے انعقاد کو مشکوک قرار دینا شروع کیا، اگرچہ آئین کے تحت جمہوری عمل تو آگے بڑھا مگر سیاسی کنفیوژن نے لوگوں کو اب بھی انتخابات کے انعقاد کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا رکھا۔ حکومت دہشت گردی پر قابو پانے میں ناکام رہیں۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق قبائلی علاقوں، فاٹا، پختونخوا اور بلوچستان کے پشتون علاقے طالبان کے زیر اثر ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جنوبی وزیرستان کے علاقے میران شاہ میں طالبان نے لڑکے لڑکیوں کے اسکولوں میں جانے پر پابندی لگا رکھی ہے، طالبان نے میران شاہ میں والدین کو دھمکی دی ہے کہ اگر کوئی بچہ کنٹونمنٹ کے علاقے میں انگریزی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے گیا تو اس کی جان محفوظ نہیں ہوگی۔
کراچی کے مضافاتی علاقے انتہا پسندوں کے کنٹرول میں ہیں، اپریل کے مہینے میں پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں پر دہشت گردوں نے حملے کیے، ان علاقوں میں پولیس اور رینجرز داخل نہیں ہوئی، یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں میں اے این پی کے دفاتر بھی بند ہو چکے ہیں اور ان کے کئی کارکن جاں بحق ہو چکے ہیں۔ اس ماہ کے شروع میں بلدیہ ٹائوں کے علاقے اتحاد ٹائون میں ایک انگریزی میڈیم اسکول میں سالانہ فنکشن کے دوران ایک اسکول پرنسپل عبدالرشید کا قتل قبائلی علاقوں کی یاد تازہ کرتا ہے۔
بعض لوگوں کو کراچی کے مضافاتی علاقوں میں انتہا پسندوں کی اس قوت پر حیرت ہے مگر اسٹیبلشمنٹ کا مطالعہ کرنے والے ماہرین کے لیے یہ صورتحال حیرت کا باعث نہیں ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اسٹیبلشنمٹ طالبان کے ذریعے انتخابی نتائج کنٹرول کرنے کوشش کر رہی ہے، یہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے۔ اس صورتحال میں جہاں اے این پی، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کو مشکلات کا سامنا ہے، وہاں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔ خاص طور پر نواز شریف تو جانتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بعد منتخب ہونے والی حکومت کو کبھی آزادی سے حکومت کرنے کا حق نہیں ملتا۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے رہنما منور حسن کے علاوہ کسی اور جماعت نے دہشت گردی کے ذریعے انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے کی مذمت نہیں کی، میاں صاحب اور عمران خان کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ان انتہا پسندوں کا اگلا ہدف وہ ہو سکتے ہیں۔ اب فوج کو امیدواروں اور کارکنوں اور پولنگ اسٹیشنوں کے تحفظ کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ دہشت گردی ناکا م ہو گی مگر تاریخ میں ہر جماعت اور ہر رہنما کے کردار کا بھی ذکر ہو گا۔
حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان نے چند ماہ قبل اعلان کیا تھا کہ وہ بات چیت کے لیے مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف، تحریک انصاف کے عمران خان اور جماعت اسلامی کے منور حسن کو ثالث بنانے کے لیے تیار ہیں، اس انتہا پسند تحریک نے دھمکی دی تھی کہ سیکولر جماعتوں کو انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، یوں محسوس ہوتا ہے کہ تحریک طالبان کی دھمکی کے عملی نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں اے این پی اور پیپلزپارٹی کے امیدواروں کے دفتروں پر حملے ہو رہے ہیں، اے این پی کے انتخابی امیدواروں سمیت کئی کارکن شہید ہو چکے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے دفاتر کو بموں سے اڑایا جا رہا ہے، طالبان نے حیدرآباد میں ایم کیو ایم کے امیدوار کے قتل کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔ طالبان مخالف جماعتیں عوام سے رابطے کے حق سے محروم ہو گئی ہیں، ان جماعتوں کے امیدوار بڑے جلسے منعقد نہیں کر سکیں گے۔ انتخابی عمل کا مطالعہ کرنے والے طالب علموں کا کہنا ہے کہ جب یہ جماعتیں عوام سے رابطہ نہیں کر سکیں گی تو وہ اپنے حامی ووٹرز کو پولنگ اسٹیشنوں تک نہیں لا سکیں گی، اس طرح دہشت گردی کی بنا پر انتخابی نتائج کنٹرول ہو سکیں گے۔
ملک میں انتخابات کا انعقاد ہمیشہ ایک بہت بڑا مسئلہ بنا رہا ہے۔ 1947ء سے 2008ء تک کبھی بھی انتخابات وقت پر منعقد نہیں ہوئے۔ تاریخ شاہد ہے کہ منتخب حکومتوں کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا موقع نہیں دیا گیا ۔ ملک میں پہلا آئین 1956ء میں نافذ ہوا، اس آئین کے تحت 1958ء میں انتخابات منعقد ہونے تھے، یہ وہ وقت تھا جب مسلم لیگ بکھر چکی تھی، میجر جنرل (ر) اسکندر مرزا نے اپنے اقتدار کے لیے ریپبلکن پارٹی قائم کی تھی۔
اس زمانے میں عوامی لیگ، نیشنل عوامی پارٹی اور بائیں بازو کی چھوٹی جماعتیں اور قوم پرست گروپ اپنے اپنے علاقوں میں مضبوط عوامی حمایت رکھتے تھے، اسٹیبلشمنٹ کو انتخابات میں اپنے حامیوں کی شکست کا خطرہ پیدا ہوا، جنرل اسکندر مرزا نے مارشل لاء لگا کر آئین کا خاتمہ کیا اور جنرل ایوب خان اقتدار میں آئے۔ اگرچہ جنرل ایوب خان کے اقتدار سنبھالتے ہی بیوروکریٹ آمر اسکندر مرزا کا چراغ گل ہوا مگر جمہوری عمل 13 برسوں کے لیے پیچھے چلا گیا، اس دوران ایوب خان نے محدود جمہوریت کا تجربہ کیا جس کے نتیجے میں ملک کے اکثریتی صوبے مشرقی پاکستان اور اقلیتی صوبے مغربی پاکستان میں ہی خلیج نہیں بڑھی بلکہ ون یونٹ میں طاقت کے ذریعے ضم ہو جانے والے صوبوں بلوچستان اور پختونخوا کے عوام بھی ایوب خان حکومت سے بددل ہو گئے۔
1970ء میں پہلی دفعہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات منعقد ہوئے مگر اکثریتی جماعت پیپلز پارٹی نے نتائج قبول نہیں کیے جس کا نتیجہ بنگلہ دیش کی آزادی کی صورت میں برآمد ہوا۔ پیپلز پارٹی کے پہلے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے آئینی میعاد ختم ہونے سے پہلے انتخابات کرائے مگر یہ انتخابی نتائج تسلیم نہیں کیے گئے۔ 1985ء سے 1997ء تک انتخابات میں منتخب ہونے والی کسی بھی جماعت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا موقع نہیں ملا، یوں ملک دہشت گردی کے بحران کا شکار ہوا، وفاق اور صوبوں میں کشیدگی بڑھ گئی، دہشت گردی کے نتیجے میں پاکستان بے نظیر بھٹو جیسی قیادت سے محروم ہوا۔
پیپلز پارٹی کی حکومت ویژن سے محروم اور Governance کی صلاحیت کھو بیٹھی، اس ساری صورتحال میں سیاستدانوں نے سبق سیکھا، پیپلز پارٹی کی سربراہ اور مسلم لیگ کے قائد میاں نواز شریف نے 2005ء میں لندن میں میثاق جمہوریت پر اتفاق کیا، اس میثاق کے ذریعے منتخب حکومتوں کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے کے علاوہ فوجی آمروں کی طرف سے کی گئی آئینی ترامیم کے خاتمے اور صوبائی خود مختاری کے نفاذ جیسے اہم معاملات طے ہوئے، اس طرح عبوری حکومت اور خود مختار الیکشن کمیشن کے قیام کے لیے قانون سازی ہوئی۔ 2008ء سے 2012ء تک ملک میں کوئی بڑا سیاسی بحران پید ا نہیں ہوا۔ امریکی حکومت کی جانب سے امریکی کانگریس میں منظور کردہ کیری لوگر بل پر عمل درآمد شروع ہوا، اس طرح بین الاقوامی صورتحال اور ملک میں مخالف سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونے والے اتفاق کی بنا پر اسٹیبلشمنٹ کا کردار کم ہونا شروع ہوا۔
گزشتہ سال کے وسط سے کچھ سیاستدانوں نے انتخابات کے انعقاد کو مشکوک قرار دینا شروع کیا، اگرچہ آئین کے تحت جمہوری عمل تو آگے بڑھا مگر سیاسی کنفیوژن نے لوگوں کو اب بھی انتخابات کے انعقاد کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا رکھا۔ حکومت دہشت گردی پر قابو پانے میں ناکام رہیں۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق قبائلی علاقوں، فاٹا، پختونخوا اور بلوچستان کے پشتون علاقے طالبان کے زیر اثر ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جنوبی وزیرستان کے علاقے میران شاہ میں طالبان نے لڑکے لڑکیوں کے اسکولوں میں جانے پر پابندی لگا رکھی ہے، طالبان نے میران شاہ میں والدین کو دھمکی دی ہے کہ اگر کوئی بچہ کنٹونمنٹ کے علاقے میں انگریزی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے گیا تو اس کی جان محفوظ نہیں ہوگی۔
کراچی کے مضافاتی علاقے انتہا پسندوں کے کنٹرول میں ہیں، اپریل کے مہینے میں پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں پر دہشت گردوں نے حملے کیے، ان علاقوں میں پولیس اور رینجرز داخل نہیں ہوئی، یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں میں اے این پی کے دفاتر بھی بند ہو چکے ہیں اور ان کے کئی کارکن جاں بحق ہو چکے ہیں۔ اس ماہ کے شروع میں بلدیہ ٹائوں کے علاقے اتحاد ٹائون میں ایک انگریزی میڈیم اسکول میں سالانہ فنکشن کے دوران ایک اسکول پرنسپل عبدالرشید کا قتل قبائلی علاقوں کی یاد تازہ کرتا ہے۔
بعض لوگوں کو کراچی کے مضافاتی علاقوں میں انتہا پسندوں کی اس قوت پر حیرت ہے مگر اسٹیبلشمنٹ کا مطالعہ کرنے والے ماہرین کے لیے یہ صورتحال حیرت کا باعث نہیں ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اسٹیبلشنمٹ طالبان کے ذریعے انتخابی نتائج کنٹرول کرنے کوشش کر رہی ہے، یہ صورتحال انتہائی خطرناک ہے۔ اس صورتحال میں جہاں اے این پی، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کو مشکلات کا سامنا ہے، وہاں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔ خاص طور پر نواز شریف تو جانتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بعد منتخب ہونے والی حکومت کو کبھی آزادی سے حکومت کرنے کا حق نہیں ملتا۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے رہنما منور حسن کے علاوہ کسی اور جماعت نے دہشت گردی کے ذریعے انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے کی مذمت نہیں کی، میاں صاحب اور عمران خان کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ان انتہا پسندوں کا اگلا ہدف وہ ہو سکتے ہیں۔ اب فوج کو امیدواروں اور کارکنوں اور پولنگ اسٹیشنوں کے تحفظ کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ دہشت گردی ناکا م ہو گی مگر تاریخ میں ہر جماعت اور ہر رہنما کے کردار کا بھی ذکر ہو گا۔