انتخابی میدان
انتخابات لڑنے اور لڑانے پر تو کسی کو اعتراض نہیں ہوسکتا کہ انتخابات لڑنا اور لڑانا اس ملک کے ہر شہری کا حق ہے۔
مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکن انتخابی ٹکٹ کی غیر منصفانہ اور جانبدارانہ تقسیم کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے کارکن تو بجلی کے کھمبوں پر چڑھ کر اچھوتا احتجاج کر رہے ہیں، کھمبوں پر چڑھ کر احتجاج کرنے والوں میں مرد کارکن ہی نہیں بلکہ خواتین بھی شامل ہیں، ٹی وی چینل اس کھمبا احتجاج کو اسکرین پر دکھا رہے ہیں لیکن ان سیاسی جماعتوں کی قیادت پر ان احتجاجوں کا کوئی اثر نہیں ہورہا ہے، اگر ہورہا ہے تو بس اتنا کہ ان احتجاجوں کو یا تو داخل دفتر کیا جارہا ہے یا پھر ان کھمبوں کے گرد تار کی باڑ لگائی جارہی ہے جن پر چڑھ کر کارکن احتجاج کر رہے ہیں۔
ایسی ناخوشگوار فضا میں یہ دلچسپ خبریں چینلوں کی پٹیوں پر آرہی ہیں کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے امرا اپنی اہلیاؤں، اپنی بیٹیوں، بیٹوں، دامادوں کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر انتخابات لڑوا رہیہیں، ان اہل و عیال کے اسم گرامی بھی پٹیوں پر آرہے ہیں، ان پٹیوں کو دیکھ کر سیاست کے زخمی چہرے پر پہلے سے چڑھی ہوئی پٹیاں نظر آرہی ہیں جو کہیں جعلی ڈگریوں کی شکل میں موجود ہیں کہیں کرپشن کی شکل میں، کہیں بھاری قرضوں کی معافی کی شکل میں جو اربوں روپوں تک پہنچ گئے ہیں۔ پاکستانی عوام سیاسی بادشاہوں کی موروثی سیاست پر رو رہے تھے کہ اب یہ موروثیت سیاسی امرا تک پہنچ گئی ہے اور ان امرا کے چہرے ان پٹیوں سے اس قدر داغدار ہورہے ہیں کہ ٹاک شوز میں نظر آنے والی ان کی لمبی ناکیں کٹی نظر آرہی ہیں اور بادشاہوں کے جرائم کی تردید اور توضیح سب پانی میں جارہی ہے۔
انتخابات لڑنا اور لڑانا ہماری سیاسی ایلیٹ کے لیے مرغے لڑانے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی اور ٹی وی چینلوں پر ہم سیاسی امرا کو مرغوں کی طرح لڑتے اور خونم خون ہوتے روز دیکھتے ہیں۔ کیا اس لڑائی کے اجر ہی میں سیاسی امرا کے اہل و عیال کو ٹکٹ دیے گئے ہیں یا ان کا کوئی سیاسی پس منظر اور سیاسی خدمات بھی ہیں؟ سیاسی بادشاہوں کی داد و دہش کے قصے تو ہماری سیاسی تاریخ میں پہلے ہی سے جگمگا رہے ہیں، اب اس تاریخ میں امرا کی آل اولاد کو انتخابی ٹکٹوں سے نوازنا سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے۔ ہم حیران ہیں کہ سڑکوں اور کھمبوں پر انتخابی ٹکٹوں کی غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف احتجاج کے باوجود اس شدت سے انصاف کس طرح ہورہا ہے۔ کیا ناانصافی کے خلاف کھمبوں پر چڑھنے والے اب اپنی قیادت کے سروں اور کندھوں پر چڑھ کر احتجاج کریں گے؟
انتخابات لڑنے اور لڑانے پر تو کسی کو اعتراض نہیں ہوسکتا کہ انتخابات لڑنا اور لڑانا اس ملک کے ہر شہری کا حق ہے۔ اعتراض اس بات پر ہے کہ کیا انتخاب لڑنے اور لڑانے والے اس کی ''اہلیت'' رکھتے ہیں؟ ماضی کے انتخابی دنگل میں اہلیت کا مسئلہ کبھی زیر بحث نہیں آتا تھا بلکہ پاکستان میں جمہوریت کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں یہ بات مشہور تھی کہ اگر بھٹو کسی کھمبے کو انتخابی ٹکٹ دے دیں تو کھمبا الیکشن جیت جائے گا۔ اس سیاسی اصطلاح کے پیچھے جہاں بھٹو کی مقبولیت اور پکڑ موجود تھی وہیں عوام کی سادگی یا جہل کو چھوتی وفاداری اور عقیدت بھی کارفرما تھی۔ بدقسمتی سے ہماری ساری تاریخ عقیدت کے کھمبوں کی تاریخ ہے جس میں اہلیت کا کبھی کوئی دخل نہیں دکھائی دیتا ہے۔ عقیدت خواہ عقائدی ہو یا سیاسی، اہلیت کو کھا جاتی ہے، اور جن معاشروں میں اس قسم کی عقیدت کا چلن ہوتا ہے وہ معاشرے سر سے پیر تک جہل کی تصویر بنے رہتے ہیں۔
ہماری 65 سالہ سیاست میں کبھی اور کہیں اہلیت کا گزر نظر نہیں آتا، یہی وجہ ہے کہ 65 سال پہلے متعارف ہونے والی سیاسی عقیدت آہستہ آہستہ عقیدے میں بدل گئی ہے اور اس عقیدے کا یا عقیدت کا عالم یہ ہے کہ کہیں یہ عقیدت شہدا سے جاملتی ہے تو کہیں یہ عقیدت میاؤں اور ماماؤں، چاچاؤں سے وابستہ نظر آتی ہے، اس عقائدی کلچر نے اہلیت کا اس طرح ستیا ناس کیا ہے کہ آج یہ عقیدت سیاسی عقیدہ بن کر ولی عہدوں، شہزادیوں، ملکاؤں کی پوجا پاٹ میں بدل گئی ہے۔
اس مایوس کن کلچر میں جہاں اہلیت شجر ممنوعہ بنی ہوئی تھی، کینیڈا کے ایک مولوی نے اہلیت کا ایسا نعرہ مستانہ لگایا کہ اس نعرے سے سارے نااہل دہل کر رہ گئے اور اس مولوی کو الزامات سے اس طرح سنگسار کردیا کہ اب اس مولوی کا نہ سر سلامت ہے نہ جوش و ولولہ۔ اس مولوی نے لاکھ ڈیڑھ لاکھ کا مجمع اسلام آباد میں لگاکر حکومت وقت سے یہ وعدہ لیا تھا کہ 2013 کے انتخابات کھمبے نہیں لڑیں گے بلکہ اہلیت لڑے گی۔ جب اس مولوی کے مطالبے کو عوام نے الیکشن کمیشن کے منشور میں دیکھا تو بڑے خوش ہوئے کہ چلو ہم عقیدت کے صحرا سے نکل کر اہلیت کے میدان میں آرہے ہیں اور اس خوشی یا خوش فہمی کو جعلی ڈگریوں اور کرپشن کے گلے میں ڈالی جانے والی سزاؤں کی رسی نے اور مضبوط کیا لیکن یہ خوشی باد صبا کے جھونکے کی طرح گزرگئی اور سزائیں جزاؤں میں بدلنے لگیں۔
آج کے سیاسی منظرنامے میں جو سیاسی جماعتیں اور سیاسی اوتار مختلف جنگیں لڑتے، اتحاد بناتے، پارٹیاں بدلتے، سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرتے اور دس یا بارہ جماعتی اتحاد بناتے نظر آرہے ہیں کیا ان میں کہیں ''عوام'' نظر آتے ہیں؟ عوامی مفادات نظر آتے ہیں؟ یہ سوال اس لیے بے محل نظر آتا ہے کہ شاہوں، ولی عہدوں اور امرائے سلطنت کے اس بازار میں عوام کا کوئی گزر نہیں۔ بے چارے عوام تو ابتدا سے صرف ''اطاعت امیر'' کے لیے ہی پیدا ہوئے ہیں، اب امیروں کے ساتھ امرا کی اطاعت بھی سر پر کھڑی نظر آرہی ہے کہ امرا اپنی اہلیاؤں اور اولاد کو بھی عوام کے سر منڈھنے کی کوشش کرتے نظر آرہے ہیں۔
مایوسی کی بھی ایک حد ہوتی ہے، جب مایوسی اپنی حد کو پہنچ جاتی ہے تو خودبخود آس میں بدل جاتی ہے اور جب انسان آس کا دامن تھام لیتا ہے تو وہ ایسے ایسے معجزے دکھاتا ہے کہ ان پر یقین مشکل ہوجاتا ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ آس کا دامن تھامنے والے اس وقت مایوس ہوجاتے ہیں جب وہ اپنے سامنے کسی ایسے رہبر کو نہیں دیکھتے جو ان کی آس کا آسرا بن سکے۔ اس وقت ہمارے ملک کے اٹھارہ کروڑ غریب اور عقائد اور عقیدت کے مارے ہوئے لوگ اپنے اردگرد ادھر ادھر کسی ایسے رہبر کسی ایسی جماعت کو تلاش کر رہے ہیں جو انھیں شاہوں، ولی عہدوں اور امرا کے مضبوط پنجے سے نجات دلا کر اہلیت کی منزل تک پہنچادے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے فخر الدین جی کی قیادت میں آس اور امید کی جو دیواریں چنی تھیں وہ ذرا سی ہوا ہی میں دھڑا دھڑ گر رہی ہیں۔ جعلی ڈگریاں اصلی بن رہی ہیں، اربوں روپوں کی زیر سماعت کرپشن التوا میں جاتی دکھائی دے رہی ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ ان کا نمبر آنے تک چڑیاں کھیت چگ جائیں گی۔ اور اہلیت اور عقیدت کی یہ لڑائی خالد علیگ کی لڑائی بنتی نظر آرہی ہے۔ خالد علیگ ایک حوصلہ مند اور انقلابی شاعر تھے لیکن مرحوم نے ایسی جنگ سے تھک کر کہا تھا۔
میں یہ جنگ لڑ بھی چکا ہار بھی چکا
اس جنگ کو آگے بڑھائے گا کون
لیکن میں نے خالد علیگ سے کہا تھا برادر! مایوسی کی بات مت کرو، اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام جنگ کا یہ علم اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے تیار ہیں۔ خالد علیگ نے کہا تھا برادر! خوش فہمیوں سے باہر نکل آؤ، یہ ملک عقائد اور عقیدت کا ملک ہے، یہاں اہلیت ہر جگہ روتی نظر آتی ہے۔
انتخابات کے میدان میں ہر طرف جمہوری بادشاہ جمہوری ولی عہد، جمہوری شہزادے، شہزادیاں، جمہوری امرا، ان کی اہلیائیں، ان کی اولاد اپنے اپنے پرفریب وعدوں، دروغ، مصلحت آمیزی کے پرچم لہراتے پھر رہے ہیں، اس میدان میں عوام کہیں نظر نہیں آتے، عوام شاید 11 مئی 2013 کو بیلٹ پیپر ہاتھوں میں تھامے ایک دوسرے سے یہ سوال کرتے نظر آئیں کہ چوروں، ڈاکوؤں، لٹیروں، ٹھگوں میں سے کس کو میں اپنا ووٹ دوں کہ ان کے علاوہ ہمارے سامنے کوئی آپشن ہی نہیں۔
کیا انتخابی ٹکٹ کی جانبدارانہ تقسیم کے خلاف کھمبوں پر چڑھے خواتین و حضرات اس ناانصافی کے خلاف ہاتھوں میں بینر اور زبانوں پر شکوہ لیے سڑکوں پر احتجاج کرنے والے کارکن، اہلیت کا نعرہ لگانے والے مولوی اور ان کی نفری، گھروں میں بیٹھے انتخابی ناانصافیوں کا رونا رونے والی مڈل کلاس، جمہوری فراڈ کا ادراک رکھنے والی سول سوسائٹی، تبدیلی کی آرزو میں زندہ ٹریڈ یونین، ڈاکٹر، وکیل کیا اس میدان میں دھوکا دہی نہیں تبدیلی کے پرچم لہراتے آگے آئیں گے اور مایوس اور آپشن سے محروم عوام کو حوصلہ عطا کریں گے؟
ایسی ناخوشگوار فضا میں یہ دلچسپ خبریں چینلوں کی پٹیوں پر آرہی ہیں کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے امرا اپنی اہلیاؤں، اپنی بیٹیوں، بیٹوں، دامادوں کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر انتخابات لڑوا رہیہیں، ان اہل و عیال کے اسم گرامی بھی پٹیوں پر آرہے ہیں، ان پٹیوں کو دیکھ کر سیاست کے زخمی چہرے پر پہلے سے چڑھی ہوئی پٹیاں نظر آرہی ہیں جو کہیں جعلی ڈگریوں کی شکل میں موجود ہیں کہیں کرپشن کی شکل میں، کہیں بھاری قرضوں کی معافی کی شکل میں جو اربوں روپوں تک پہنچ گئے ہیں۔ پاکستانی عوام سیاسی بادشاہوں کی موروثی سیاست پر رو رہے تھے کہ اب یہ موروثیت سیاسی امرا تک پہنچ گئی ہے اور ان امرا کے چہرے ان پٹیوں سے اس قدر داغدار ہورہے ہیں کہ ٹاک شوز میں نظر آنے والی ان کی لمبی ناکیں کٹی نظر آرہی ہیں اور بادشاہوں کے جرائم کی تردید اور توضیح سب پانی میں جارہی ہے۔
انتخابات لڑنا اور لڑانا ہماری سیاسی ایلیٹ کے لیے مرغے لڑانے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی اور ٹی وی چینلوں پر ہم سیاسی امرا کو مرغوں کی طرح لڑتے اور خونم خون ہوتے روز دیکھتے ہیں۔ کیا اس لڑائی کے اجر ہی میں سیاسی امرا کے اہل و عیال کو ٹکٹ دیے گئے ہیں یا ان کا کوئی سیاسی پس منظر اور سیاسی خدمات بھی ہیں؟ سیاسی بادشاہوں کی داد و دہش کے قصے تو ہماری سیاسی تاریخ میں پہلے ہی سے جگمگا رہے ہیں، اب اس تاریخ میں امرا کی آل اولاد کو انتخابی ٹکٹوں سے نوازنا سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے۔ ہم حیران ہیں کہ سڑکوں اور کھمبوں پر انتخابی ٹکٹوں کی غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف احتجاج کے باوجود اس شدت سے انصاف کس طرح ہورہا ہے۔ کیا ناانصافی کے خلاف کھمبوں پر چڑھنے والے اب اپنی قیادت کے سروں اور کندھوں پر چڑھ کر احتجاج کریں گے؟
انتخابات لڑنے اور لڑانے پر تو کسی کو اعتراض نہیں ہوسکتا کہ انتخابات لڑنا اور لڑانا اس ملک کے ہر شہری کا حق ہے۔ اعتراض اس بات پر ہے کہ کیا انتخاب لڑنے اور لڑانے والے اس کی ''اہلیت'' رکھتے ہیں؟ ماضی کے انتخابی دنگل میں اہلیت کا مسئلہ کبھی زیر بحث نہیں آتا تھا بلکہ پاکستان میں جمہوریت کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں یہ بات مشہور تھی کہ اگر بھٹو کسی کھمبے کو انتخابی ٹکٹ دے دیں تو کھمبا الیکشن جیت جائے گا۔ اس سیاسی اصطلاح کے پیچھے جہاں بھٹو کی مقبولیت اور پکڑ موجود تھی وہیں عوام کی سادگی یا جہل کو چھوتی وفاداری اور عقیدت بھی کارفرما تھی۔ بدقسمتی سے ہماری ساری تاریخ عقیدت کے کھمبوں کی تاریخ ہے جس میں اہلیت کا کبھی کوئی دخل نہیں دکھائی دیتا ہے۔ عقیدت خواہ عقائدی ہو یا سیاسی، اہلیت کو کھا جاتی ہے، اور جن معاشروں میں اس قسم کی عقیدت کا چلن ہوتا ہے وہ معاشرے سر سے پیر تک جہل کی تصویر بنے رہتے ہیں۔
ہماری 65 سالہ سیاست میں کبھی اور کہیں اہلیت کا گزر نظر نہیں آتا، یہی وجہ ہے کہ 65 سال پہلے متعارف ہونے والی سیاسی عقیدت آہستہ آہستہ عقیدے میں بدل گئی ہے اور اس عقیدے کا یا عقیدت کا عالم یہ ہے کہ کہیں یہ عقیدت شہدا سے جاملتی ہے تو کہیں یہ عقیدت میاؤں اور ماماؤں، چاچاؤں سے وابستہ نظر آتی ہے، اس عقائدی کلچر نے اہلیت کا اس طرح ستیا ناس کیا ہے کہ آج یہ عقیدت سیاسی عقیدہ بن کر ولی عہدوں، شہزادیوں، ملکاؤں کی پوجا پاٹ میں بدل گئی ہے۔
اس مایوس کن کلچر میں جہاں اہلیت شجر ممنوعہ بنی ہوئی تھی، کینیڈا کے ایک مولوی نے اہلیت کا ایسا نعرہ مستانہ لگایا کہ اس نعرے سے سارے نااہل دہل کر رہ گئے اور اس مولوی کو الزامات سے اس طرح سنگسار کردیا کہ اب اس مولوی کا نہ سر سلامت ہے نہ جوش و ولولہ۔ اس مولوی نے لاکھ ڈیڑھ لاکھ کا مجمع اسلام آباد میں لگاکر حکومت وقت سے یہ وعدہ لیا تھا کہ 2013 کے انتخابات کھمبے نہیں لڑیں گے بلکہ اہلیت لڑے گی۔ جب اس مولوی کے مطالبے کو عوام نے الیکشن کمیشن کے منشور میں دیکھا تو بڑے خوش ہوئے کہ چلو ہم عقیدت کے صحرا سے نکل کر اہلیت کے میدان میں آرہے ہیں اور اس خوشی یا خوش فہمی کو جعلی ڈگریوں اور کرپشن کے گلے میں ڈالی جانے والی سزاؤں کی رسی نے اور مضبوط کیا لیکن یہ خوشی باد صبا کے جھونکے کی طرح گزرگئی اور سزائیں جزاؤں میں بدلنے لگیں۔
آج کے سیاسی منظرنامے میں جو سیاسی جماعتیں اور سیاسی اوتار مختلف جنگیں لڑتے، اتحاد بناتے، پارٹیاں بدلتے، سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرتے اور دس یا بارہ جماعتی اتحاد بناتے نظر آرہے ہیں کیا ان میں کہیں ''عوام'' نظر آتے ہیں؟ عوامی مفادات نظر آتے ہیں؟ یہ سوال اس لیے بے محل نظر آتا ہے کہ شاہوں، ولی عہدوں اور امرائے سلطنت کے اس بازار میں عوام کا کوئی گزر نہیں۔ بے چارے عوام تو ابتدا سے صرف ''اطاعت امیر'' کے لیے ہی پیدا ہوئے ہیں، اب امیروں کے ساتھ امرا کی اطاعت بھی سر پر کھڑی نظر آرہی ہے کہ امرا اپنی اہلیاؤں اور اولاد کو بھی عوام کے سر منڈھنے کی کوشش کرتے نظر آرہے ہیں۔
مایوسی کی بھی ایک حد ہوتی ہے، جب مایوسی اپنی حد کو پہنچ جاتی ہے تو خودبخود آس میں بدل جاتی ہے اور جب انسان آس کا دامن تھام لیتا ہے تو وہ ایسے ایسے معجزے دکھاتا ہے کہ ان پر یقین مشکل ہوجاتا ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ آس کا دامن تھامنے والے اس وقت مایوس ہوجاتے ہیں جب وہ اپنے سامنے کسی ایسے رہبر کو نہیں دیکھتے جو ان کی آس کا آسرا بن سکے۔ اس وقت ہمارے ملک کے اٹھارہ کروڑ غریب اور عقائد اور عقیدت کے مارے ہوئے لوگ اپنے اردگرد ادھر ادھر کسی ایسے رہبر کسی ایسی جماعت کو تلاش کر رہے ہیں جو انھیں شاہوں، ولی عہدوں اور امرا کے مضبوط پنجے سے نجات دلا کر اہلیت کی منزل تک پہنچادے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے فخر الدین جی کی قیادت میں آس اور امید کی جو دیواریں چنی تھیں وہ ذرا سی ہوا ہی میں دھڑا دھڑ گر رہی ہیں۔ جعلی ڈگریاں اصلی بن رہی ہیں، اربوں روپوں کی زیر سماعت کرپشن التوا میں جاتی دکھائی دے رہی ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ ان کا نمبر آنے تک چڑیاں کھیت چگ جائیں گی۔ اور اہلیت اور عقیدت کی یہ لڑائی خالد علیگ کی لڑائی بنتی نظر آرہی ہے۔ خالد علیگ ایک حوصلہ مند اور انقلابی شاعر تھے لیکن مرحوم نے ایسی جنگ سے تھک کر کہا تھا۔
میں یہ جنگ لڑ بھی چکا ہار بھی چکا
اس جنگ کو آگے بڑھائے گا کون
لیکن میں نے خالد علیگ سے کہا تھا برادر! مایوسی کی بات مت کرو، اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام جنگ کا یہ علم اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے تیار ہیں۔ خالد علیگ نے کہا تھا برادر! خوش فہمیوں سے باہر نکل آؤ، یہ ملک عقائد اور عقیدت کا ملک ہے، یہاں اہلیت ہر جگہ روتی نظر آتی ہے۔
انتخابات کے میدان میں ہر طرف جمہوری بادشاہ جمہوری ولی عہد، جمہوری شہزادے، شہزادیاں، جمہوری امرا، ان کی اہلیائیں، ان کی اولاد اپنے اپنے پرفریب وعدوں، دروغ، مصلحت آمیزی کے پرچم لہراتے پھر رہے ہیں، اس میدان میں عوام کہیں نظر نہیں آتے، عوام شاید 11 مئی 2013 کو بیلٹ پیپر ہاتھوں میں تھامے ایک دوسرے سے یہ سوال کرتے نظر آئیں کہ چوروں، ڈاکوؤں، لٹیروں، ٹھگوں میں سے کس کو میں اپنا ووٹ دوں کہ ان کے علاوہ ہمارے سامنے کوئی آپشن ہی نہیں۔
کیا انتخابی ٹکٹ کی جانبدارانہ تقسیم کے خلاف کھمبوں پر چڑھے خواتین و حضرات اس ناانصافی کے خلاف ہاتھوں میں بینر اور زبانوں پر شکوہ لیے سڑکوں پر احتجاج کرنے والے کارکن، اہلیت کا نعرہ لگانے والے مولوی اور ان کی نفری، گھروں میں بیٹھے انتخابی ناانصافیوں کا رونا رونے والی مڈل کلاس، جمہوری فراڈ کا ادراک رکھنے والی سول سوسائٹی، تبدیلی کی آرزو میں زندہ ٹریڈ یونین، ڈاکٹر، وکیل کیا اس میدان میں دھوکا دہی نہیں تبدیلی کے پرچم لہراتے آگے آئیں گے اور مایوس اور آپشن سے محروم عوام کو حوصلہ عطا کریں گے؟