خطرہ خطرہ خطرے پہ خطرہ
لیکن انھیں شاید یہ معلوم نہیں کہ آج بھی چمڑے کے سکے کسی نہ کسی شکل میں چل رہے ہیں
یوں تو پاکستان میں کسی ایسی شے کا کوئی وجود ہی نہیں ہے جسے کوئی نہ کوئی خطرہ لاحق نہ ہو، سوائے لیڈروں کے۔ ہرلیڈر دو چار خطرے تو رکھتا ہی ہے لیکن جس خطرے کا بار بار ذکر کیا جاتا ہے اور راویان عالی مقام کی روایت کے مطابق چار سو پھیلا ہوا ہے، وہ ''ریاست'' کو اور اس کے فرزند ارجمند ''نظام'' کو لاحق ہے۔ ریاست علی چوہدری کو تو آپ جانتے ہی ہوں گے جو سارے عالم میں مشہور ہے اور آج کل بمقام اسلام آباد پایا جاتا ہے لیکن ''نظام'' بالکل وہ نہیں ہے جس نے ہمایوں کو ڈوبنے سے بچایا تھا اور پھر چند روز حکومت کے دوران چمڑے کے سکے چلائے تھے۔بعض لوگ اسے پرانے زمانے کی بات سمجھتے ہیں۔
لیکن انھیں شاید یہ معلوم نہیں کہ آج بھی چمڑے کے سکے کسی نہ کسی شکل میں چل رہے ہیں لیکن ''نظام'' کا صرف نام رہ گیا ہے جو شاید لیڈروں کے استعمال کے لیے مخصوص کیا گیا ہے،نظام آج بھی پوری آب و تاب سے موجود ہے اور چمڑے کے سکے بھی پوری طرح چل رہے ہیں۔ یقین نہیں آتا تو اپنے جاری نظام کو بھی دیکھ لیں تو چمڑے کے سکے بھی نظر آ جائیں گے۔
اس ریاست اور اس کے فرزند ارجمند نظام کو چوں کہ انتہائی شدید خطرات ہر وقت لاحق رہتے ہیں اس لیے کوئی نہ کوئی مجاہد سر پر کفن اور بغل میں ٹفن لے کر اسے بچانے کے لیے آ نکلتا ہے چنانچہ کچھ ہی دن پہلے ایک بزرگ ریاست کو بچانے کے لیے بہت دور سے آئے تھے اور جس طرح قلوپطرہ کو اس کے وفادار قالین میں لپیٹ کر بچا لے گئے تھے اسی طرح یہ بزرگ اسے انتہائی محفوظ کنٹینر میں بچا کر لے گئے نہ جانے کہاں؟ حالانکہ وہ کنٹینر ہر طرح سے محفوظ تھا بم گولہ تو کیا اس پر ہوا بھی اثر انداز نہیں ہوتی تھی لیکن وہ جو کسی نے کہا ہے کہ
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
پھر نہ کیوں کٹ جائے فولادی قسم کا کنٹینر
اب یہ تو پتہ نہیں کہ پھول کی پتی سے یا ہیرے کی کنی سے اس کنٹینر کو کاٹا گیا لیکن ریاست کہیں پھر غائب ہو گئی اور جب تک شبھ چنت کو پتہ چلتا وہ ایک مرتبہ پھر خطرے کے منہ میں تھا دراصل یہ ریاست علی ہے اس کی پالن پوسن ہی خطروں کی گود میں ہوئی ہے اس لیے خطرے کے بغیر اس کا کھانا ہضم نہیں ہوتا، مطلب یہ کہ اس کی ''تعمیر'' ہی میں ایک خرابی موجود ہے اور خطروں سے کھیلنا اس کی ہابی ہے اس مرتبہ تو اس نادان بچے نے کنٹینر سے بھاگ کر کچھ ایسے مقام پر خطروں سے کرکٹ کا میچ لگایا تھا کہ ملک کے اندر کسی کو پتہ ہی نہیں چلا کہ سلمہ پھر خطروں میں گھر ہوا ہے لیکن قسمت اچھی تھی کہ بہت دور کہیں دیار غیر میں اس کے ایک پرانے محافظ نے اسے دیکھ لیا اور اسے خطروں سے بچانے کے لیے چل پڑے، کام وقت اتنا کم اور مقابلہ اس مرتبہ اتنا سخت تھا کہ موصوف اس مرتبہ ''بغیر وردی'' کے آ گئے ہاں جب حالات نازک ہوں تو لوگ صرف کچھے بنیان میں بھی چل پڑتے ہیں، غالب نے اسی لیے تو کہا ہے کہ
جذبہ بے اختیار شوق دیکھا چاہیے
سینہ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
چنانچہ موصوف بھی صرف شمشیر بے نیام لہراتے ہوئے پہنچ گئے اور خطروں کے سامنے سینہ سپر ہو گئے، ''خطرے'' خوش ہو رہے تھے کہ اس مرتبہ ہم اپنے ٹارگٹ میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن یہ نہیں جانتے تھے کہ ریاست سلمہ اتنی بے سہارا بھی نہیں ہے اس کے شبھ چنتک ہر وقت اس کی حفاظت کے لیے تیار رہتے ہیں اور یہ جن صاحب کا ہم ذکر کر رہے ہیں یہ پارٹ ٹائم نہیں بلکہ فل ٹائم محافظ ہیں اس سے پہلے بھی جب ریاست کو خطرہ ہوا تھا تو اس نے باقاعدہ پستول لہرا کر خطروں کو بھگایا تھا اور پھر آٹھ سال تک ریاست کو جھولی میں بیٹھا کر تسلی دے رہا تھا کہ بچہ اب کوئی خطرہ نہیں میں ہوں نا ۔۔۔
یہ تو ہمیں کسی بھی چینل یا اخبار سے پتہ نہیں چلا کہ انھوں نے اپنے ایک پیش رو کی طرح کوئی بات بھی کہی ہے یا نہیں، لیکن انٹری کچھ اس انداز کی دی ہے ان کے ایک پیش رو بھی کافی عرصہ ہوا جب اپنی مہم سے واپس آئے تو ایئر پورٹ پر قوم کو خوش خبری سنائی کہ شکر ہے پاکستان بچ گیا اور واقعی بچ گیا تھا، صرف آدھے سے زیادہ حصہ جو سڑ رہا تھا اسے کاٹ کر پھینکنا پڑا تھا بے شک جسم آدھے سے بھی کم رہ گیا لیکن ''جان'' تو بچ گئی جو خوش قسمتی سے اس مژدہ سنانے والے ہی کی جان تھی اس کے بعد وہی سلسلہ چلا کہ
من تو شدم تو من شدی من جاں شدم توتن شدی
تاکسں نہ گوئد بعد ازیں من دیگرم تو دیگری
بھلا ہو اس کے جانشینوں کا کہ انھوں نے بھی ہمیشہ اسے اپنی جان کی طرح سمجھا اور اس کی حفاظت ایسی کی جیسے کوئی اپنی جان کی طرح کرتا ہے یا اپنی جان کی ویسے ہی حفاظت کی جیسی ریاست کی کوئی کرتا ہے بلکہ آج تک کسی کو معلوم ہی نہیں کہ ان میں جان کون سی ہے اور ریاست کون سی ہے، خیر یہ تو اس کے محافظ + خطروں کی بات تھی، اب یہ پتہ لگانا ہے کہ اسے جو خطرہ لاحق ہے وہ کہاں ہے بلکہ کون ہے کیسا ہے، کیوں کہ
وہ کہتے ہیں کہ اس کی بھی کمر ہے
کہاں ہے کس طرف ہے اور کدھر ہے
آپ تو جانتے ہیں کہ ان دنوں ہم پر تحقیق کا بھوت ویسے ہی سوار ہے جیسا کہ لیڈروں پر قوم اور ریاست کی حفاظت کا بھوت سوار ہے یا ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویسوں کے اعصاب پر عورت سوار ہے، ظاہر ہے کہ خطرے کا کھوج لگانے کے لیے اڑوس پڑوس کا جائزہ لینا ضروری ہوتا ہے سو ہم نے بھی حدود اربع یعنی اطراف و جوانب کا جائزہ لیا کہ خطرہ کس طرف سے درپیش ہے، تحقیق میں یہ بھی ضروری ہے کہ سنی سنائی اور بے بنیاد بیانات کو ایک طرف کر دیا جائے چنانچہ سب سے پہلے ہم نے پڑوسی کا جائزہ لیا۔
ادھر سے کوئی خطرہ نظر نہیں آیا کیوں کہ جو خود خطرے میں ہو وہ کسی اور کے لیے کیسے خطرہ بن سکتا ہے بلکہ اگر حقائق کو باقاعدہ جھاڑ پونچھ کر دیکھا جائے تو زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتا ہے کہ پختونوں کے علاقوں کو ہم سے چھین لے، لیکن ایسا کر کے وہ خود ہی کو پھانسی لگا لے گا کیوں کہ وہ سرزمین کے پختونوں کو ابھی تک قابو نہیں کر سکا تو اس سے دگنی تگنی تعداد کے اور شورہ پشت لے کر خودکشی نہیں کر لے گا، مانا کہ وہ کبھی کبھی پختون پختون کرتا رہتا ہے پختونستان کا نام بھی لیتا ہے حتیٰ کہ کابل میں پختونستان چوک بھی ہے اور یوم پختونستان بھی مناتا رہتا تھا لیکن یہ صرف دکھانے کے دانت تھے۔
امیر عبد الرحمٰن نے جب ڈیورنڈ لائن کھچوائی تھی تو اس وجہ سے نہیں کہ وہ پختونوں کا خیر خواہ تھا بلکہ وہ اپنا خیر خواہ تھا خود کو محفوظ رکھنے کے لیے اس نے دل و جان سے ڈیورنڈ لائن پر صاد کیا تھا اور ایسا ظاہر کیا تھا جیسے مجبوری میں کر رہا ہو، چلیے اس طرف سے تو خطرے کی حقیقت معلوم ہو گئی، اب ایران کی طرف آتے ہیں کیا اس کا دماغ خراب ہے جو اپنے یہاں کے بلوچوں سے نالاں ہے اور کچھ اور بلوچوں کو اپنے گلے میں ڈال لے گا، اب اصل دشمن کی طرف آیئے بھارت جو ہم نے اپنا دشمن نمبر ون ڈیکلئر کیا ہوا ہے کیا وہ اتنا پاگل ہو گا کہ اپنے پنجاب کو سنبھالنے میں اس کے پسینے چھوٹ رہے ہیں۔
آدھے کشمیر سے تو اس کی جان سولی پر لٹکی ہوئی ہے اور اپنی مصیبتوں کو اور بڑھا لے اور ایک دشمن کی جگہ پانچ دشمن بنا ڈالے کیوں کہ یہ تو ممکن ہی نہیں کہ مسلمانوں پر مشتمل یہ خطے قابو میں رکھ سکے، اب امریکا کی طرف بلکہ برطانیہ کو بھی ساتھ کر دیجیے کیا ساری دنیا میں ایک امریکا ہی اتنا پاگل ہو گا کہ ''ایک دو'' کے ساتھ ''معاملہ'' کرنے کی جگہ پانچ لوگوں کی ناز برداریاں کرے، تو پھر خطرہ کہاں ہے' مجھے تو نہیں پتہ لیکن بہر حال وہ کہیں نہ کہیں موجود ہے۔لگتا ہے کہ آپ تو شاید پہچان گئے کہ اس ملک کی معیشت امن، عزت بلکہ جان کو خطرہ ہے وہ اس کے اندر ہی ہے ۔۔۔ اب آپ ہی بتائیں اس سارے معاملے میں ہم کیا کر سکتے ہیں۔
لیکن انھیں شاید یہ معلوم نہیں کہ آج بھی چمڑے کے سکے کسی نہ کسی شکل میں چل رہے ہیں لیکن ''نظام'' کا صرف نام رہ گیا ہے جو شاید لیڈروں کے استعمال کے لیے مخصوص کیا گیا ہے،نظام آج بھی پوری آب و تاب سے موجود ہے اور چمڑے کے سکے بھی پوری طرح چل رہے ہیں۔ یقین نہیں آتا تو اپنے جاری نظام کو بھی دیکھ لیں تو چمڑے کے سکے بھی نظر آ جائیں گے۔
اس ریاست اور اس کے فرزند ارجمند نظام کو چوں کہ انتہائی شدید خطرات ہر وقت لاحق رہتے ہیں اس لیے کوئی نہ کوئی مجاہد سر پر کفن اور بغل میں ٹفن لے کر اسے بچانے کے لیے آ نکلتا ہے چنانچہ کچھ ہی دن پہلے ایک بزرگ ریاست کو بچانے کے لیے بہت دور سے آئے تھے اور جس طرح قلوپطرہ کو اس کے وفادار قالین میں لپیٹ کر بچا لے گئے تھے اسی طرح یہ بزرگ اسے انتہائی محفوظ کنٹینر میں بچا کر لے گئے نہ جانے کہاں؟ حالانکہ وہ کنٹینر ہر طرح سے محفوظ تھا بم گولہ تو کیا اس پر ہوا بھی اثر انداز نہیں ہوتی تھی لیکن وہ جو کسی نے کہا ہے کہ
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
پھر نہ کیوں کٹ جائے فولادی قسم کا کنٹینر
اب یہ تو پتہ نہیں کہ پھول کی پتی سے یا ہیرے کی کنی سے اس کنٹینر کو کاٹا گیا لیکن ریاست کہیں پھر غائب ہو گئی اور جب تک شبھ چنت کو پتہ چلتا وہ ایک مرتبہ پھر خطرے کے منہ میں تھا دراصل یہ ریاست علی ہے اس کی پالن پوسن ہی خطروں کی گود میں ہوئی ہے اس لیے خطرے کے بغیر اس کا کھانا ہضم نہیں ہوتا، مطلب یہ کہ اس کی ''تعمیر'' ہی میں ایک خرابی موجود ہے اور خطروں سے کھیلنا اس کی ہابی ہے اس مرتبہ تو اس نادان بچے نے کنٹینر سے بھاگ کر کچھ ایسے مقام پر خطروں سے کرکٹ کا میچ لگایا تھا کہ ملک کے اندر کسی کو پتہ ہی نہیں چلا کہ سلمہ پھر خطروں میں گھر ہوا ہے لیکن قسمت اچھی تھی کہ بہت دور کہیں دیار غیر میں اس کے ایک پرانے محافظ نے اسے دیکھ لیا اور اسے خطروں سے بچانے کے لیے چل پڑے، کام وقت اتنا کم اور مقابلہ اس مرتبہ اتنا سخت تھا کہ موصوف اس مرتبہ ''بغیر وردی'' کے آ گئے ہاں جب حالات نازک ہوں تو لوگ صرف کچھے بنیان میں بھی چل پڑتے ہیں، غالب نے اسی لیے تو کہا ہے کہ
جذبہ بے اختیار شوق دیکھا چاہیے
سینہ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
چنانچہ موصوف بھی صرف شمشیر بے نیام لہراتے ہوئے پہنچ گئے اور خطروں کے سامنے سینہ سپر ہو گئے، ''خطرے'' خوش ہو رہے تھے کہ اس مرتبہ ہم اپنے ٹارگٹ میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن یہ نہیں جانتے تھے کہ ریاست سلمہ اتنی بے سہارا بھی نہیں ہے اس کے شبھ چنتک ہر وقت اس کی حفاظت کے لیے تیار رہتے ہیں اور یہ جن صاحب کا ہم ذکر کر رہے ہیں یہ پارٹ ٹائم نہیں بلکہ فل ٹائم محافظ ہیں اس سے پہلے بھی جب ریاست کو خطرہ ہوا تھا تو اس نے باقاعدہ پستول لہرا کر خطروں کو بھگایا تھا اور پھر آٹھ سال تک ریاست کو جھولی میں بیٹھا کر تسلی دے رہا تھا کہ بچہ اب کوئی خطرہ نہیں میں ہوں نا ۔۔۔
یہ تو ہمیں کسی بھی چینل یا اخبار سے پتہ نہیں چلا کہ انھوں نے اپنے ایک پیش رو کی طرح کوئی بات بھی کہی ہے یا نہیں، لیکن انٹری کچھ اس انداز کی دی ہے ان کے ایک پیش رو بھی کافی عرصہ ہوا جب اپنی مہم سے واپس آئے تو ایئر پورٹ پر قوم کو خوش خبری سنائی کہ شکر ہے پاکستان بچ گیا اور واقعی بچ گیا تھا، صرف آدھے سے زیادہ حصہ جو سڑ رہا تھا اسے کاٹ کر پھینکنا پڑا تھا بے شک جسم آدھے سے بھی کم رہ گیا لیکن ''جان'' تو بچ گئی جو خوش قسمتی سے اس مژدہ سنانے والے ہی کی جان تھی اس کے بعد وہی سلسلہ چلا کہ
من تو شدم تو من شدی من جاں شدم توتن شدی
تاکسں نہ گوئد بعد ازیں من دیگرم تو دیگری
بھلا ہو اس کے جانشینوں کا کہ انھوں نے بھی ہمیشہ اسے اپنی جان کی طرح سمجھا اور اس کی حفاظت ایسی کی جیسے کوئی اپنی جان کی طرح کرتا ہے یا اپنی جان کی ویسے ہی حفاظت کی جیسی ریاست کی کوئی کرتا ہے بلکہ آج تک کسی کو معلوم ہی نہیں کہ ان میں جان کون سی ہے اور ریاست کون سی ہے، خیر یہ تو اس کے محافظ + خطروں کی بات تھی، اب یہ پتہ لگانا ہے کہ اسے جو خطرہ لاحق ہے وہ کہاں ہے بلکہ کون ہے کیسا ہے، کیوں کہ
وہ کہتے ہیں کہ اس کی بھی کمر ہے
کہاں ہے کس طرف ہے اور کدھر ہے
آپ تو جانتے ہیں کہ ان دنوں ہم پر تحقیق کا بھوت ویسے ہی سوار ہے جیسا کہ لیڈروں پر قوم اور ریاست کی حفاظت کا بھوت سوار ہے یا ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویسوں کے اعصاب پر عورت سوار ہے، ظاہر ہے کہ خطرے کا کھوج لگانے کے لیے اڑوس پڑوس کا جائزہ لینا ضروری ہوتا ہے سو ہم نے بھی حدود اربع یعنی اطراف و جوانب کا جائزہ لیا کہ خطرہ کس طرف سے درپیش ہے، تحقیق میں یہ بھی ضروری ہے کہ سنی سنائی اور بے بنیاد بیانات کو ایک طرف کر دیا جائے چنانچہ سب سے پہلے ہم نے پڑوسی کا جائزہ لیا۔
ادھر سے کوئی خطرہ نظر نہیں آیا کیوں کہ جو خود خطرے میں ہو وہ کسی اور کے لیے کیسے خطرہ بن سکتا ہے بلکہ اگر حقائق کو باقاعدہ جھاڑ پونچھ کر دیکھا جائے تو زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتا ہے کہ پختونوں کے علاقوں کو ہم سے چھین لے، لیکن ایسا کر کے وہ خود ہی کو پھانسی لگا لے گا کیوں کہ وہ سرزمین کے پختونوں کو ابھی تک قابو نہیں کر سکا تو اس سے دگنی تگنی تعداد کے اور شورہ پشت لے کر خودکشی نہیں کر لے گا، مانا کہ وہ کبھی کبھی پختون پختون کرتا رہتا ہے پختونستان کا نام بھی لیتا ہے حتیٰ کہ کابل میں پختونستان چوک بھی ہے اور یوم پختونستان بھی مناتا رہتا تھا لیکن یہ صرف دکھانے کے دانت تھے۔
امیر عبد الرحمٰن نے جب ڈیورنڈ لائن کھچوائی تھی تو اس وجہ سے نہیں کہ وہ پختونوں کا خیر خواہ تھا بلکہ وہ اپنا خیر خواہ تھا خود کو محفوظ رکھنے کے لیے اس نے دل و جان سے ڈیورنڈ لائن پر صاد کیا تھا اور ایسا ظاہر کیا تھا جیسے مجبوری میں کر رہا ہو، چلیے اس طرف سے تو خطرے کی حقیقت معلوم ہو گئی، اب ایران کی طرف آتے ہیں کیا اس کا دماغ خراب ہے جو اپنے یہاں کے بلوچوں سے نالاں ہے اور کچھ اور بلوچوں کو اپنے گلے میں ڈال لے گا، اب اصل دشمن کی طرف آیئے بھارت جو ہم نے اپنا دشمن نمبر ون ڈیکلئر کیا ہوا ہے کیا وہ اتنا پاگل ہو گا کہ اپنے پنجاب کو سنبھالنے میں اس کے پسینے چھوٹ رہے ہیں۔
آدھے کشمیر سے تو اس کی جان سولی پر لٹکی ہوئی ہے اور اپنی مصیبتوں کو اور بڑھا لے اور ایک دشمن کی جگہ پانچ دشمن بنا ڈالے کیوں کہ یہ تو ممکن ہی نہیں کہ مسلمانوں پر مشتمل یہ خطے قابو میں رکھ سکے، اب امریکا کی طرف بلکہ برطانیہ کو بھی ساتھ کر دیجیے کیا ساری دنیا میں ایک امریکا ہی اتنا پاگل ہو گا کہ ''ایک دو'' کے ساتھ ''معاملہ'' کرنے کی جگہ پانچ لوگوں کی ناز برداریاں کرے، تو پھر خطرہ کہاں ہے' مجھے تو نہیں پتہ لیکن بہر حال وہ کہیں نہ کہیں موجود ہے۔لگتا ہے کہ آپ تو شاید پہچان گئے کہ اس ملک کی معیشت امن، عزت بلکہ جان کو خطرہ ہے وہ اس کے اندر ہی ہے ۔۔۔ اب آپ ہی بتائیں اس سارے معاملے میں ہم کیا کر سکتے ہیں۔