آج کی مفاداتی سیاست

مفاہمتی سیاست کے تحت پیپلز پارٹی نے اپنے اتحادیوں کی تعداد میں اضافہ جاری رکھا

آج کی سیاست میں مفاہمتی سیاست کو کامیاب قرار دیا جاتا ہے ۔ ایک برطانوی اخبار کے مطابق پیپلز پارٹی کی حکومت کی 5 سال میں واحد کامیابی یہ ہے کہ اس نے 5 سال پورے کرلیے اور مختلف افواہوں کو ناکام بنادیا۔ پیپلزپارٹی 5 سال میں اپنے اتحادی تبدیل کرتی رہی مگر کسی نہ کسی طرح اپنی مدت پوری کرگئی،آج جس سیاست کو مفاہمتی سیاست کا نام جارہی ہے اورجس کے سہارے پیپلزپارٹی کی حکومت 5 سال پورے کرنے میں واقعی کامیاب تو رہی مگر اس مفاہمتی سیاست نے ملک سے اصولی اور نظریاتی سیاست کاخاتمہ کردیا ہے اور ملک میں مفاداتی سیاست نے جوعروج حاصل کیا اسے دیکھ کر اب کوئی نہیں کہہ سکتا کہ سیاست عوام کی خدمت کا ذریعہ اصول پسندی اورعبادت ہے۔

آج ملک میں جو جمہوریت ہے اور گزشتہ اتحادی حکومت نے جمہوریت کے نام پر 5 سال مکمل کرکے دعویٰ کیا ہے کہ کوئی ان پر شب خون نہیں مار سکے گا، پیپلزپارٹی نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر جس طرح اپنی مدت مکمل کی ہے اس سے کون واقف نہیں ہے۔

اتحادی حکومت کے شروع میں جب پی پی اور ن لیگ کی حکومت بنی تھی تو عوام بہت خوش تھے کہ ملک کی دو بڑی پارٹیوں کی حکومت عوام کو ریلیف اور ملک کو ترقی دے گی اور کوئی تیسری پارٹی ایسی نہیں تھی جو انھیں بلیک میل کرکے رکاوٹ پیدا کرتی مگر تھوڑے ہی عرصے کے بعد مسلم لیگ ن حکومت سے علیحدہ ہوگئی،جس کے بعد پیپلز پارٹی نے اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لیے اقتدار کی خواہشمند ہر جماعت کے لیے حکومت میں شمولیت کے دروازے کھول دیے، جس کے نتیجے میں ملک میں سب سے بڑی وفاقی کابینہ کے قیام کا ریکارڈ قائم ہوا اور اتحادیوں کو من مانیوں کا مکمل موقع فراہم کردیا گیا، جس کے نتیجے میں بہت سے مسائل پیدا ہوئے مگر کسی اتحادی کو ناراض نہیں ہونے دیا گیا۔یہاں تک کہ کراچی مقتل بن گیا۔

مفاہمتی سیاست کے تحت پیپلز پارٹی نے اپنے اتحادیوں کی تعداد میں اضافہ جاری رکھا اور متحدہ کے حکومت چھوڑ جانے کے خوف سے ق لیگ کو ساتھ ملاکر سب کو حیران کردیا ، یہ سب کچھ اس لیے کیا گیا کہ اتحادی حکومت ہر حالت میں قائم رہے۔


1970کے انتخابات میں اگر جمہوریت کا احترام کیا جاتا تو ممکن تھا سقوط ڈھاکا اور ملک دو ٹکڑے نہ ہوتا۔ ادھر پاکستان میں پیپلز پارٹی نے بھی 1972 میں اپنی حکومت بننے کے بعد نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام سے اتحاد کیا تھا اور بلوچستان اور صوبہ سرحد میں ان دونوں پارٹیوں کی حکومت بنی تھی جس کے بعد بلوچستان میں اپنی حکومت بنانے کے لیے جب بلوچستان کی حکومت کو برطرف کیا گیا تو سرحد کے وزیراعلیٰ مولانا مفتی محمود نے اصولوں کی بنیاد پر استعفیٰ دے دیا تھا اور بعد میں جمہوریت کے نام پر مفاد پرست ارکان اسمبلی توڑ کر دونوں صوبوں میں بھٹو مرحوم نے پی پی حکومت قائم کرائی تھی، مفتی محمود نے اصولوں کی خاطر اپنی حکومت چھوڑ دی تھی مگر مصلحت پسندی اور بے اصولی کی سیاست نہیں کی تھی۔

آج کی سیاست مفاداتی سیاست بن چکی ہے، اصول و نظریہ اب سیاست سے ختم ہوتا جارہا ہے مگر اب ایسے سیاستدانوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے جو ذاتی مفاد کو ترجیح نہیں دیتے، ایک ایسی ہی مثال پیپلزپارٹی میں بھی موجود ہے جہاں رضا ربانی نے اپنے اصول کے خاطر ایک نہیں دو بار وفاقی وزارت سے استعفیٰ دیا۔ ملک کی سیاست میں 1970 کے انتخابات کے بعد مفاد پرستی نے فروغ پایا، جنرل ایوب کی حکمرانی سے قبل ملک میں اچھے عوام کے ہمدرد اصول پرست ذاتی مفاد پر ملکی مفادات کو ترجیح دینے اور نظریاتی سیاست کرنے والوں کی کمی نہیں تھی، اس دور کے سیاستدانوں کے مقررہ اصول اور سیاسی نظریے تھے جن پر وہ کار بند رہا کرتے تھے اور ذاتی مفادات کے لیے پارٹیاں بہت کم تبدیل کی جاتی تھیں، اس وقت سیاسی وفاداریاں خریدنے میں ناکامی پر حکومتیں ٹوٹ جایا کرتی تھیں مگر سیاسی رہنما جلد سے جلد سیاسی وفاداریاں تبدیل نہیں کیا کرتے تھے۔

پہلے فوجی صدر ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے تو اپنی اپنی مسلم لیگیں بنوائی تھیں جنھیں انھوں نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے استعمال کیا اور آج کے جمہوری ہونے کے دعویداروں کی اکثریت جنرلوں کی مسلم لیگ میں شامل رہے ہیں ۔

چند ماہ قبل پیپلزپارٹی میں شامل ہونے والے ٹھٹھہ کے شیرازی گروپ کے پی پی چھوڑ جانے پر پیپلزپارٹی نے ان کے لیے پیپلزپارٹی کے دروازے اب بند کردیے ہیں اور نہ جانے سیاسی مفاد کب ضرورت پڑنے پر پی پی کو بند دروازے کھولنے پر مجبور کردے کیونکہ 40 سالہ مخالفت کے بعد جب چوہدری برادران کو پیپلزپارٹی قبول کرسکتی ہے تو اس ملک کی مفاداتی سیاست میں سب کچھ ممکن ہوسکتا ہے۔

میاں نواز شریف کی اسے ضد کہہ لیں یا اصول پرستی کہ انھوں نے چوہدری برادران پر ن لیگ کے دروازے بند کررکھے ہیں مگر سیاسی مفاد کے لیے ق لیگ والوں پر ن لیگ کے دروازے کھلے ہیں، سیاست میں مفاد پرستی سرفہرست ہمیشہ رہی ہے اور سیاسی وفاداری کی تبدیلی معیوب نہیں سمجھی جاتی کیونکہ یہ سیاسی ضرورت بن جاتی ہے اور پھر سارے اصول اور نظریے فراموش کردیے جاتے ہیں۔
Load Next Story