افغانستان میں امن مذاکرات
امریکیوں کا خیال ہے کہ پاکستان میں کچھ عناصر طالبان کی مددکررہے ہیں۔ امریکا کا ہمیشہ یہی دبائو رہا ہے
LONDON:
سیاسی مبصرین، تجزیہ نگاروں اور افغانستان کی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والوں کا عمومی تاثر یہ ہے کہ تمام امریکی اقدامات کے باوجود افغانستان میں امن و استحکام کے حوالے سے کوئی یقینی بات فی الوقت نہیں کہی جاسکتی۔ دہشتگردی کا جن بوتل میں بند کرنے کے لیے جو وقت درکار ہوگا اس کے دوران بدامنی کے اثرات سے پاکستان بھی متاثر ہوتا رہے گا، جس کے لیے منصوبہ بندی ضروری ہے۔
امریکیوں کا خیال ہے کہ پاکستان میں کچھ عناصر طالبان کی مددکررہے ہیں۔ امریکا کا ہمیشہ یہی دبائو رہا ہے کہ پاکستان دہشتگردوں کے ٹھکانے ختم کرنے کے لیے واضح کارروائی کو یقینی بنائے، اس طرح کے مطالبات سے واضح ہوتا ہے کہ امریکا کو افغانستان میں اپنی ناکامی کا احساس ہوچکا ہے اور وہ اس کا سارا بوجھ اورذمے داری پاکستان پر ڈال کر یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ امریکی ناکامی کی وجہ پاکستان ہے۔ امریکا کوافغانستان سے باعزت واپسی کے لیے ہموار راستہ یہی دکھائی دیتا ہے کہ وہ اپنی ناکامی کا الزام پاکستان کے سر تھوپ دے۔
امریکی حکومت کے قول و فعل میں تضاد کا عالم یہ ہے کہ وہ آج بھی دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کے مبینہ عدم تعاون کے موقف پر ڈٹا ہوا ہے، کیونکہ وہ افٖغانستان سے واپسی کے بعد بھی افغانستان میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے پاکستان کے تعاون کا محتاج ہے۔ پاکستان ہر سطح پر یہ واضح کرچکا ہے کہ پاکستان چونکہ افغانستان کے مصالحتی عمل میں شریک نہیں اس لیے مفاہمتی عمل کی کامیابی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔پاکستان نے ہر موقع پر واضح کیا ہے کہ کبھی حقانی نیٹ ورک تو کبھی طالبان سے پاکستان کے رابطوں اورافغانستان میں دراندازی کا جو ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے وہ محض الزامات ہیں جن کا مقصد پاکستان پر دبائو بڑھانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔
یہ تو امریکا کی پرانی روش ہے کہ وہ تمام تر پاکستانی تعاون و اقدامات کے باوجود کسی بھی معاملے میں پاکستان پر اعتماد نہیں کرتا۔ یہاں تک کہ ایبٹ آباد ایسے انتہائی خطرناک آپریشن میں بھی پاکستان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ یہ انتہائی خطرناک حرکت تھی اگر پاکستان حکومت اور اس کی مسلح افواج تدبر کا مظاہرہ نہ کرتیں تو پاکستان اور امریکا کے درمیان جنگ چھڑ جاتی۔ یہ ایک ایسی واردات تھی جو پاکستان کی آزادی، سلامتی اور خودمختاری کے منافی تھی، اس کے باوجود امریکا نے پاکستان کو موردالزام ٹھہرانے کی روش ترک نہ کی۔ یہ امریکی طرزعمل اس بات کی غمازی کرتاہے کہ وہ افغانستان سے باعزت نکلنے کے لیے پاکستان کا تعاون تو چاہتا ہے اور یہ بھی کہ اس کے چلے جانے کے بعد بھی خطے میں اس کے مفادات کا تحفظ جاری رکھا جائے لیکن وہ اب تک پاکستان پر بھروسہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔
پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے، اس کا مستقبل اس خطے کے امن اور سلامتی کے ساتھ منسلک ہے۔ وہ افغانستان میں امریکی پالیسی کی ناکامیوں اور اس کے پروگرام کے اثرات سے لاتعلق رہ کر نہیں سوچ سکتا۔ افغانستان میںآج جو صورتحال پیدا ہوچکی ہے وہ مکمل طور پر امریکی پالیسیوں اور اقدامات کا نتیجہ ہے۔ اس کے لیے کسی بھی طرح پاکستان کو ذمے دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ سچ تو یہ ہے کہ امریکا نے افغانستان کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرکے نہ صرف اپنے لیے بلکہ خطے کے دوسرے ملکوں کے ساتھ ساتھ خود وطن عزیز پاکستان کے لیے بھی بڑے سنگین مسائل کھڑے کردیے ہیں، اور اب صورتحال اس قدر سنگین ہوچکی ہے کہ امریکی پالیسی سازوںکی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ اس صورتحال سے کیسے عہدہ برآ ہوں۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو ہمیں اپنی سلامتی اور بقا کو بہرحال اولین ترجیح کے طور پر سامنے رکھنا ہوگا۔ ہم اس مسئلے میں امریکا کے ساتھ ایک حد تک تعاون کرسکتے ہیں اور کر بھی رہے ہیں لیکن اس کے لیے اپنے ملکی و قومی مفادات کو دائو پر لگادینا ٹھیک نہیں ہوگا۔ پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے اور ہمیں بیرونی دنیا کو بتادینا ہوگا کہ ہمیں اپنے ملک کو دہشت گردی سے چھٹکارا پانے کی کوششوں کے لیے کسی بیرونی قوت کی اجازت درکار نہیں ہے۔ ہماری حکومت کسی نہ کسی دبائو کا شکار ہے تبھی تو اس ملک کے حکمران کچھ اپنے مفادات اور کچھ اپنی کمزوریوں کے باعث غیروں کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف حکمت عملی میں امریکا اور اتحادی قوتوںکا کردار ہمارے نقطہ نظر سے خوش دلانہ تعاون پر مبنی نظرنہیں آتا۔ امریکا سے متعدد بار واضح اشارے دیے جاچکے ہیں کہ پاکستان کے اندر اپنی مرضی سے آپریشن کرنے کے آپشن موجود ہیں، جو یقیناً ہماری داخلی خودمختاری پر سوالیہ نشان ہے۔ 2 مئی کے ایبٹ آباد میں کیے گئے امریکی آپریشن کی صورت میں قومی خودمختاری کو پامال کرنے کے ساتھ ساتھ جنگ کا تھیٹر افغانستان سے پاکستان منتقل کرنے کے منصوبے پر عملی پیشرفت کا آغاز مختلف حربوں میں کیا جاچکا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ قومیں اکثر معاملات میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں، لیکن اس نوعیت کا اشتراک و تعاون باہمی احترام اور برابری کی بنیاد پر ہوتا ہے، جس کی متعلقہ فریقوں میں سے کوئی بھی خلاف ورزی کا تصور تک نہیں کرتا۔ مگر پاکستان کے معاملے میں زیادہ تر امور امریکا اور اس کے دیگر اتحادیوں کی صوابدید کے مطابق طے کردہ حکمت عملی کے تحت انجام دیے جاتے رہے ہیں۔ جس سے بعض صورتوں میں پاکستان کی خود مختاری پر واضح زد پڑتی رہی ہے۔
دنیا کے مختلف ممالک کے درمیان فکری و نظریاتی اختلافات کی بنیاد پر محاذ آرائی و تصادم، وسیع پیمانے پر انسانی جانوں کے اتلاف اور نجی و سرکاری املاک کی تباہی کے باوجود یہ بات بھی اپنی جگہ ایک تاریخی حقیقت رکھتی ہے کہ آخرکار متصادم قوتوں کو مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل تلاش کرنا پڑا۔ دوسری جنگ عظیم میں بھی متحارب قوتوں کو یہی راستہ اختیار کرنا پڑا۔ طویل عرصے تک ایک دوسرے کے خلاف صف آرا رہنے والے یہی ممالک آج یورپی یونین کی صورت میں ایک صف میں کھڑے ہیں۔ دہشت گردی اور تشدد اس وقت ملک کا ہی نہیں بلکہ پورے خطے کا مسئلہ ہے۔ اور یہ مسائل مذاکرات کے ذریعے ہی حل کیے جاسکتے ہیں۔ دنیا امن چاہتی ہے، امن کے نعرے لگاتی ہے لیکن خون کے دھبے دھونے کی عملی جدوجہد کہیں نظر نہیں آتی۔
افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں کے زمینی حملوں اور فضائی بمباری میں اب تک سیکڑوں معصوم افغان عورتیں اور بچے ہلاک ہوچکے ہیں۔ لیکن انسانی نسل کشی کی اس سنگین واردات کے ذمے داروں کے خلاف آج تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ بے گناہ انسانوںکی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کا خواہ کوئی بھی جواز پیش کیا جائے، منصف مزاج انسان اس کی تائید نہیں کرے گا کیونکہ کسی ایک بھی نہتے اور بے قصور انسان کا بلاوجہ مارا جانا انسانیت کے خلاف اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کی کسی بھی صورت کوئی بھی تلافی نہیں ہوسکتی۔
امریکا اور اس کی اتحادی نیٹو ممالک کی فوجیں قیام امن کے جس مشن کو لے کر افغانستان میں داخل ہوئی تھیں، کئی سال کے بعد بھی اپنے اہداف حاصل نہیں کرسکیں۔ داخلی بدامنی کے شکار جس کمزور ملک پر بھی امریکا نے امن کے نام پر فوج کشی کی، ناقابل بیان تباہی و بربادی کے بعد اسے انارکی اور غیریقینی صورتحال کی نذر کرکے چلا گیا۔ ماضی قریب میں عراق اس کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ بدقسمتی سے شام اور دیگر اسلامی ممالک میں بھی اس کی مداخلت کے لیے حالات بظاہر سازگار ہورہے ہیں، اس لیے ایسا لگتا ہے کہ وہ ان ممالک میں بھی اپنا زور بازو آزمانا چاہتا ہے۔
اس امر میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ افغانستان میں دیرپا اور مستقل امن قائم کرنے کے لیے طالبان سے مذاکرات کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ امریکا خود اتنی طویل جنگ کے بعد اب اس حقیقت کو تسلیم کرنے لگا ہے۔ طالبان اور افغان امن کونسل کے درمیان مذاکرات کو بامقصد اور یقینی بنانے کے لیے تمام فریقوں کو اپنے اپنے موقف میں لچک پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ مذاکرات ہمیشہ سے کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر ہی آگے بڑھتے ہیں، اس لیے کوشش کی جانی چاہیے کہ امن قائم کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات بروئے کار لائے جاسکیں کہ اس کے سوا اس مسئلے کا اور کوئی حل موجود نہیں ہے۔