قوم کے لیے لمحہ فکریہ
اس میں ماضی کے وہ حکمران بھی شامل ہیں جو دو تہائی اکثریت کی حمایت کا دعویٰ کیا کرتے تھے
عام انتخابات نزدیک سے نزدیک تر آتے جارہے ہیں مگر لاقانونیت اور بدامنی کی صورت حال میں بہتری کے امکانات دور دور تک نظر نہیں آرہے۔ بلوچستان کے حالات سنبھلتے دکھائی نہیں دے رہے جب کہ خیبرپختونخوا میں ابتری اور قتل و غارت گری کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ ادھر عروس البلاد کراچی میں جوکہ ملکی معیشت کا محور ہے روزانہ لاشوں پر لاشیں گر رہی ہیں اور نہ کسی کی جان محفوظ ہے اور نہ مال محفوظ ہے۔ ہلاک ہونے والوں میں نوجوان اور بوڑھے ہی نہیں بلکہ خواتین اور معصوم بچے بھی شامل ہیں۔
کیفیت یہ ہے کہ:
کتنے ہلاک کتنے گرفتار دیکھنا
بس صبح و شام اس لیے اخبار دیکھنا
ہلاک شدگان میں بہت سوں کی لاشیں مسخ کرکے پھینکی ہوئی ہوتی ہیں جب کہ بعض بوری بند حالت میں پڑی ہوئی پائی جاتی ہیں، کوئی لاش کچرے کے ڈھیر سے برآمد ہوتی ہے، تو کوئی کسی نالے میں گری ہوئی ہوتی ہے۔ بم دھماکوں کا سلسلہ اس کے علاوہ ہے جو وقفے وقفے سے جاری ہے۔
تشدد کا یہ طوفان برسوں سے جاری ہے جو موجودہ نگراں حکومت کو اس ملک کے سابق حکمرانوں سے ورثے میں ملا ہے۔ اس میں سیاسی اداکار بھی شامل ہیں اور غیر سیاسی اداکار بھی۔ سچی اور کھری بات یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے محض اپنی جیبیں بھرنے اور اپنے اپنے اقتدار کو طول دینے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ادارہ تباہی و بربادی کا شکار ہے جس میں پاکستان ریلوے، پاکستان اسٹیل ملز اور قومی ایئرلائن پی آئی اے سمیت کم و بیش تمام اہم اور بڑے بڑے قومی ادارے شامل ہیں۔
وطن عزیز کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ماضی بعید سے لے کر ماضی قریب تک کے تمام حکمرانوں نے اپنے اپنے مفاد کی بندوق ہمیشہ معصوم اور مظلوم عوام کے ناتواں کندھوں پر رکھ کر چلائی ہے۔ ہمارے سیاست دانوں کو سب سے بڑا گلہ یہ تھا کہ فوجی آمروں نے انھیں آزادی سے کام کرنے کا موقع نہیں دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں مدت اقتدار بھی پوری نہیں کرنے دی گئی۔ اس میں ماضی کے وہ حکمران بھی شامل ہیں جو دو تہائی اکثریت کی حمایت کا دعویٰ کیا کرتے تھے۔
موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز کیانی کو بجاطور پر اس بات کا کریڈٹ ملنا چاہیے کہ انھوں نے سابقہ حکمرانوں کو بلا مداخلت پوری آزادی کے ساتھ اپنی مدت اقتدار نہایت آزادی کے ساتھ مکمل کرنے کا بھرپور موقع فراہم کیا اور عدلیہ کے اس فیصلے کا پوری طرح احترام کیا کہ فوج ہرگز حکمرانی میں مداخلت نہیں کرے گی۔ عدلیہ بھی تعریف و تحسین کی مستحق ہے کہ اس نے سابقہ حکومت کو نہ صرف کسی بھی قسم کی مداخلت کے خلاف آزاد ماحول فراہم کیا بلکہ فوجی مداخلت کے تمام امکانات کو آیندہ کے لیے بھی ختم کردیا۔
اس موافق ماحول کا تقاضا تھا کہ جمہوریت کے نام پر ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والی حکومت ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرتی اور عوام کی خدمت اور فلاح و بہبود کا ایک اچھا ریکارڈ قائم کرتی۔ اس حقیقت سے تو سابق حکمراں بھی انکار نہیں کرسکتے کہ نہ صرف ان کے حلیفوں نے ان کا بھرپور ساتھ دیا بلکہ ان کے حریفوں نے بھی ان کے راستے میں کانٹے نہیں بچھائے اور انھیں اپنی مرضی کے مطابق حکومت کرنے کی کھلی چھٹی دی۔ پاکستان کی تاریخ میں اتنی طویل مہلت اور اتنی کھلی آزادی ماضی کی کسی اور حکومت کو بھی میسر نہیں آئی۔
مگر افسوس صد افسوس کہ سیاسی حکمرانوں نے عوام کو تباہی و بربادی اور مایوسی کے اندھیروں میں دھکیلنے کے علاوہ اور کچھ بھی کرکے نہیں دکھایا۔ بے چارے عوام کی حالت یہ ہے کہ:
میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی
مجھ کو راتوں کی سیاہی کے سوا کچھ نہ ملا
پاکستان کے عوام کو اس حکومت سے بڑی بڑی امیدیں تھیں کیونکہ یہ حکومت بھٹو کا نام لے کر عوام کی اکثریت کی حمایت سے برسر اقتدار آئی تھی۔ اس حکمراں سیاسی جماعت نے اقتدار میں آنے سے قبل روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا تھا، مگر افسوس کہ مسلسل پانچ سال تک برسر اقتدار رہنے کے بعد جب یہ عوامی حکومت اپنی مدت پوری کرکے رخصت ہوئی تو عوام کے پیٹ میں روٹی نہ تھی، تن پہ کپڑا باقی نہ تھا اور سر پر سائبان کا سایہ بھی موجود نہیں تھا۔ بزبان غالبؔ:
غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا
پاکستان کے بھولے بھالے عوام پورے پانچ سال تک بس اسی امید پر جیتے رہے کہ اب ان کے دن پھرنے ہی والے ہیں، مگر عوامی حکمراں جاتے جاتے لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کرتے ہوئے چلے گئے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ اب آیندہ عام انتخابات کے موقع پر پھر وہی ٹولہ اپنے ان ہی جھوٹے وعدوں اور کھوکھلے نعروں کی بنیاد پر عوام کے دروازوں پر ووٹ مانگنے کے لیے دستک دے رہا ہے۔
قدرت نے پاکستان کے عوام کو آیندہ انتخابات کی صورت میں اپنی تقدیر بدلنے کا ایک اور موقع دیا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ ان کی زندگیوں کا آخری موقع ہو۔ اس لحاظ سے یہ ایک فیصلے کی گھڑی ہے۔ عوام نے اگر خدانخواستہ غلط فیصلہ کرکے یہ نادر موقع بھی گنوا دیا تو پھر انھیں بہت بری طرح پچھتانا پڑے گا۔ یوں بھی الیکشن کوئی کھیل تماشا نہیں ہوتے۔ ان کے انعقاد پر بے تحاشا اخراجات ہوتے ہیں جو قوم کے خون پسینے کی کمائی سے ادا کیے جاتے ہیں۔ یہ مال غنیمت نہیں ہے کہ جسے پانی کی طرح سے بے فکری کے ساتھ بہا دیا جائے۔ ووٹ ایک بہت بڑی امانت ہوتا ہے۔ لہٰذا بحیثیت قوم ہم پر لازم ہے کہ اس امانت کی اہمیت کا پوری طرح سے خیال رکھیں اور اسے خوب سوچ سمجھ کر استعمال کریں۔
آیندہ عام انتخابات کی سب سے بڑی اہمیت یہ کہ قوم کو ایک انقلابی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ایک ایسی تبدیلی جو ماضی کی برائیوں کو ختم کرکے ایک ایسے سازگار ماحول کو جنم دے سکے جو ترقی اور خوشحالی کا نقیب اور ضامن ہو۔ سچی بات یہ ہے کہ پاکستانی عوام اب مزید لاقانونیت، بدامنی، کرپشن، لوٹ مار، بے ضابطگیوں، بدعنوانیوں، اقربا پروری، بداعمالی، بدانتظامی اور بدنظمی و انتشار کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
زوال کی انتہا ہوچکی ہے اور پانی اب سر سے اونچا ہوگیا ہے۔ Enough is Enough۔ مزید خرابی اور بگاڑ کی اب کوئی گنجائش باقی نہیں ہے۔ خزانہ خالی ہورہا ہے اور نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ بے چاری نگراں حکومت کو بھی اب کاسہ گداگری ہاتھ میں تھام کر آئی ایم ایف اور عالمی بینک جیسے اداروں کے دروازوں پر دستک دینے کی ضرورت پیش آرہی ہے حالانکہ یہ کام اس کے فرائض منصبی میں شامل نہیں ہے۔ ملک و قوم کے لیے یہ بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے۔