ووٹ اور چاچا انقلابی …
چاچا انقلابی دراصل تحریک پاکستان کے دنوں میں مسلم لیگ میں سالار ہوا کرتے تھے.
ووٹ ہے کوئی کوٹ تو نہیں کہ ایک دفعہ میلا ہوجائے تو پھر دھوکرپہن لیا، ایک دفعہ غلطی کردی تو پورے پانچ سال کی سزا ہے۔ مگر پھر وہی ڈھاک کے تین پات کہ میں ووٹ دوں کس کو؟چاچا انقلابی نے ہنکارہ بھرا اور خلا میں گھورنے لگے، چاچا انقلابی جب اس طرح کی اڑان بھریں تو پھر سمجھ لیں کہ کسی انقلابی خیال کا ظہور ہونے والا ہے۔
چاچا انقلابی دراصل تحریک پاکستان کے دنوں میں مسلم لیگ میں سالار ہوا کرتے تھے، ان کی جوانی قائدین پاکستان کے عشق میں گزری تھی اور بڑھاپا سائیکل میں پنکچر لگاتے ہوئے گزر رہا ہے، ان کی دکان پر قوم کے درد میں مبتلا دانش وروں کا رش لگا رہتا ہے، مجھے جب کوئی قومی الجھن کا حل درکار ہوتا ہے تو میں چاچا انقلابی سے ضرور ڈسکس کرتا ہوں، چاچا سائیکل کے پنکچر لگاتے ہوئے دماغ کے پنکچر بھی چیک کرلیتے ہیں۔
چاچا چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے۔ میں نے موضوع کی جانب لانے کے لیے ٹہوکا دیا۔
یار ووٹ قوم کی امانت ہے، ووٹ کا غلط استعمال اس امانت میں خیانت ہے، تم یہ خیانت مت کرنا، چاچا انقلابی مطلب کی بات پر آگئے تھے۔
پھر کیا کروں؟ میں نے سوال دہرایا۔
تم کسی گلی کے چلتے پرزے کو ووٹ دے سکتے ہو؟ جو دو جمع دو کو پانچ کرنے کے فارمولے سے بھی واقف ہو اور ایماندار بھی ہو۔
کیا مطلب؟ میں چونکا۔
دیکھو، لیڈر ہونے کے لیے صرف شریف ہونا کافی نہیں ہے، ایسے شریف انسان کا کیافائدہ جوگھر کے نوکر کی چوری پر صبر کرکے بیٹھ جائے، جو خود سے ہونے والی ناانصافی کو روک نہیں سکتا، وہ ملک میں سے کرپشن کا کیا خاتمہ کریگا، ایسا انسان جس کو دیکھ کر سبزی والا بھی بولے کہ آگیا مرغا، اب اس کو حلال کرنا ہے، بھلا کیا قوم کا مستقبل سنوارے گا، ارے جو اپنے حق کے دو روپے چھوڑ دے۔
وہ کیا عوام کو حقوق دلائے گا، قوم کو شریفوں کی نہیں، ایسے لیڈرکی ضرورت ہے جو زمانے کی گود میں پلا ہو، جو بسوں کے دھکے کھانے کی اذیت سے واقف ہو، جس کو پتہ ہوکہ ایک حلوائی قیمے کے سموسوں میں گوبھی بھر کر کس طرح سوسائٹی کا استحصال کرتا ہے، جو کسی جعلی اسکیم سے لٹ جانے والے غریب کے احساس سے واقف ہو، جو جانتا ہو کہ زکوٰۃ کمیٹی کا چیئرمین آپا زبیدہ اور نسرین باجی کو کیوں زیادہ چکر لگواتا ہے، قوم کو ایسے لیڈرکی ضرورت ہے جو معاشرے کے ہرطبقے کے استحصالی رویے سے واقف ہو، وہ صرف شریف نہ ہو۔
چاچا آپ آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ پر تو تنقید نہیں کررہے؟ میرا سوال بجا تھا۔
نہیں، آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ میں کوئی برائی نہیں ہے، اس کے درست استعمال سے بہروپیوں کی چھانٹی ممکن ہے، قوم کو نئی لیڈرشپ کی ضرورت ہے، صرف شریف لیڈرشپ سے ہی اگر تبدیلی آنی ہوتی تو ملک میں رفیق تارڑ جیسا تہجد گزار صدر رہا ہے، رفیق تارڑ نے ایوان صدر کو غریبوں کے لیے کھول دیا تھا، اس جیسے شریف انسان کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے مگر وہ تبدیلی نہ لاسکا کیوں کہ تبدیلی کے لیے صرف شرافت کافی نہیں ہوتی، ملک معراج خالد جیسا نفیس انسان پاکستان کا وزیراعظم رہا ہے، اپنے دور وزارت عظمیٰ میں وہ لاہورکے مال روڈ پر پیدل گھوما کرتا تھا اس نے کوئی پروٹوکول نہیں لیا، عام مسافروں کی طرح بسوں میں سفرکیا مگر کیا اس سے انقلاب آگیا؟ اس شرافت کی صرف تعریف کی جاسکتی ہے، قوم کو ایسا شریف نہیں چاہیے۔
چاچا، انگریزی میں چلتے پرزے کو اسٹریٹ اسمارٹ کہتے ہیں، ایک ایسا فرد جسے زمانے کی ٹھوکریں تراشیں مگر ایسے لوگوں کو اقتدار ملنا خطرناک بھی ہوسکتا ہے، یہ لوگ اچھے برے سب سے واقف ہوتے ہیں، ان کے لیے برائی کی جانب مائل ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہوتی۔
انگریزی میں اسٹریٹ کے اسمارٹ کی جو اصطلاح تم نے بتائی ہے، لیڈر ویسا ہی ہوتا ہے، وہ اوپر سے نازل نہیں ہوتا، وہ نیچے سے اوپر آتا ہے، وہ ہر غلط راستے سے واقف ہوتا ہے مگر اس کو اختیار نہیں کرتا، چلتا پرزہ ہونا بذات خود کوئی غلط صفت نہیں ہے، اس کا کوئی غلط استعمال کردے تو مضائقہ ہے، لوگ تو شریفوں کے بھیس میں کیا کیا کرجاتے ہیں، چاچا انقلابی نے رسان سے اپنی بات کی وضاحت کی۔
مگر چاچا ہمارے ملک میں سیاسی ماہرین کی کمی نہیں ہے، دانش ور بھی بہت ہیں، پڑھے لکھے لوگ تھوک کے حساب سے مل جاتے ہیں، ایسے لوگوں کو چھوڑ کر گلی کے چلتے پرزے کو ووٹ دینا کہاں کا انصاف ہے؟ ان دانش وروں سے اچھا تو میرا یہ کاری گر ہے، چاچا نے اپنی دکان پر کام کرنے والے چھوٹو کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ یہ چھوٹو صبح بس میں سفرکررہا تھا، کنڈیکٹر نے ایک روپیہ زیادہ لے لیا، ہمارے چھوٹو نے کنڈیکٹر کا ہاتھ پکڑ کر بس سے اتار لیا، ایک روپیہ نہیں چھوڑا، کوئی شریف دانشور ہوتا تو کنڈیکٹر کی دو گالیاں سن کر چپ ہوجاتا، ارے جو اپنے حق کا ایک روپیہ وصول نہ کرسکتا ہو، اس کی دانشوری کا قوم نے اچار ڈالنا ہے، قوم کو حقوق وہی دلاسکتا ہے جو اپنا تو حق لے سکے اور وہ تمہارا اسٹریٹ کا اسمارٹ کوئی تعلیم یافتہ دانشور بھی تو ہوسکتا ہے، یہ ایک صفت ہے جو کسی میں بھی ہوسکتی ہے۔
جانتے ہو کہ تمہارا وہ چلتا پرزہ لیڈر کہاں ہے؟ چاچا انقلابی نے اچانک مجھ سے سوال کیا۔ وہ لیڈر تمہارے شعورمیں ہے بچے۔ اپنے شعور کو بدل لو، وہ سامنے آجائے گا، وہ ہم میں سے ہی کوئی ہے، یہیں آس پاس کسی مجمعے میں کچھ سوچتا ہوا، اپنے اور دوسروں کے حقوق کے لیے لڑتا ہوا، بظاہر ایک عام سی خصلتیں رکھنے والا انسان مگر وہ ہمارے حالات کی پیداوار ہوگا، اس کو اس زمانے کی کوکھ نے جنم دیا ہوگا، تم شعور بدلو، وہ اپنا نقاب اتار دے گا، تم چہروں کو ووٹ دینا بند کرو، وہ نعرہ بلندکردے گا، تم قومیتوں کی بنیاد پر ووٹ مانگنے والے کے نیچے سے فرش کھینچ لو، فرقہ پرستوں کے تخت پلٹ دو، اتارپھینکو برادری کا چولا، وہ تمھیں نظر آجائے گا۔
یہ سب باتیں خیالی ہیں، موجودہ سیاسی پارٹیوں میں ایسا کوئی بھی نہیں، ہمارے پاس کوئی چوائس نہیں ہے۔میں نے کہا۔
یہ سیاسی جماعتیں عوامی نہیں ہیں، یہ بااثر افراد، نمبرداروں، چوہدریوں، وڈیروں اور سرداروں کے جتھے ہیں، جو جماعت جتنے زور آور جمع کرلے، وہی حکومت بناتی ہے، ملک کے اکثریتی ووٹ پارٹی کی بنیاد پر نہیں ڈالے جاتے، یہ ووٹ مخدوموں، جاگیرداروں اور خان زادوں کو پڑتے ہیں، لوگ اپنے علاقے کے صاحب جی کو ووٹ ڈالتے ہیں، یہ جوڑتوڑ کی جماعتیں بندے توڑنے کی سیاست کرتی ہیں، عوام کی سیاست ان کے بس کی بات نہیں۔
مگر چاچا اس چلتے پرزے کو ڈھونڈیں کہاں سے؟ یہ بازار میں تو ملتا نہیں کہ جاکر خرید لائیں، ابھی چاچا نے اس سوال کاجواب دینے کے لیے اپنا منہ کھولاہی تھا کہ اچانک باہر شور اٹھا، چاچا انقلابی کا کاریگر چھوٹو کسی سے شاید لڑرہا تھا، وہ کسی پولیس والے کی جانب اشارہ کرکے کچھ کہہ رہا تھا۔ کالی وردی والا شاید موٹرسائیکل سوار سے اپنا ٹیکس لے رہا تھا۔ مجھے چھوٹو کی آواز میں کسی لیڈر کا لہجہ محسوس ہوا۔
''ارے تھپڑ نہیں مار سکتے تو گالی ہی دے دو۔'' یہ سن کر موٹر سائیکل سوار نے کک لگائی اور پولیس والے کو گالی دیتا ہوا نکل گیا۔
چاچا انقلابی دراصل تحریک پاکستان کے دنوں میں مسلم لیگ میں سالار ہوا کرتے تھے، ان کی جوانی قائدین پاکستان کے عشق میں گزری تھی اور بڑھاپا سائیکل میں پنکچر لگاتے ہوئے گزر رہا ہے، ان کی دکان پر قوم کے درد میں مبتلا دانش وروں کا رش لگا رہتا ہے، مجھے جب کوئی قومی الجھن کا حل درکار ہوتا ہے تو میں چاچا انقلابی سے ضرور ڈسکس کرتا ہوں، چاچا سائیکل کے پنکچر لگاتے ہوئے دماغ کے پنکچر بھی چیک کرلیتے ہیں۔
چاچا چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے۔ میں نے موضوع کی جانب لانے کے لیے ٹہوکا دیا۔
یار ووٹ قوم کی امانت ہے، ووٹ کا غلط استعمال اس امانت میں خیانت ہے، تم یہ خیانت مت کرنا، چاچا انقلابی مطلب کی بات پر آگئے تھے۔
پھر کیا کروں؟ میں نے سوال دہرایا۔
تم کسی گلی کے چلتے پرزے کو ووٹ دے سکتے ہو؟ جو دو جمع دو کو پانچ کرنے کے فارمولے سے بھی واقف ہو اور ایماندار بھی ہو۔
کیا مطلب؟ میں چونکا۔
دیکھو، لیڈر ہونے کے لیے صرف شریف ہونا کافی نہیں ہے، ایسے شریف انسان کا کیافائدہ جوگھر کے نوکر کی چوری پر صبر کرکے بیٹھ جائے، جو خود سے ہونے والی ناانصافی کو روک نہیں سکتا، وہ ملک میں سے کرپشن کا کیا خاتمہ کریگا، ایسا انسان جس کو دیکھ کر سبزی والا بھی بولے کہ آگیا مرغا، اب اس کو حلال کرنا ہے، بھلا کیا قوم کا مستقبل سنوارے گا، ارے جو اپنے حق کے دو روپے چھوڑ دے۔
وہ کیا عوام کو حقوق دلائے گا، قوم کو شریفوں کی نہیں، ایسے لیڈرکی ضرورت ہے جو زمانے کی گود میں پلا ہو، جو بسوں کے دھکے کھانے کی اذیت سے واقف ہو، جس کو پتہ ہوکہ ایک حلوائی قیمے کے سموسوں میں گوبھی بھر کر کس طرح سوسائٹی کا استحصال کرتا ہے، جو کسی جعلی اسکیم سے لٹ جانے والے غریب کے احساس سے واقف ہو، جو جانتا ہو کہ زکوٰۃ کمیٹی کا چیئرمین آپا زبیدہ اور نسرین باجی کو کیوں زیادہ چکر لگواتا ہے، قوم کو ایسے لیڈرکی ضرورت ہے جو معاشرے کے ہرطبقے کے استحصالی رویے سے واقف ہو، وہ صرف شریف نہ ہو۔
چاچا آپ آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ پر تو تنقید نہیں کررہے؟ میرا سوال بجا تھا۔
نہیں، آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ میں کوئی برائی نہیں ہے، اس کے درست استعمال سے بہروپیوں کی چھانٹی ممکن ہے، قوم کو نئی لیڈرشپ کی ضرورت ہے، صرف شریف لیڈرشپ سے ہی اگر تبدیلی آنی ہوتی تو ملک میں رفیق تارڑ جیسا تہجد گزار صدر رہا ہے، رفیق تارڑ نے ایوان صدر کو غریبوں کے لیے کھول دیا تھا، اس جیسے شریف انسان کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے مگر وہ تبدیلی نہ لاسکا کیوں کہ تبدیلی کے لیے صرف شرافت کافی نہیں ہوتی، ملک معراج خالد جیسا نفیس انسان پاکستان کا وزیراعظم رہا ہے، اپنے دور وزارت عظمیٰ میں وہ لاہورکے مال روڈ پر پیدل گھوما کرتا تھا اس نے کوئی پروٹوکول نہیں لیا، عام مسافروں کی طرح بسوں میں سفرکیا مگر کیا اس سے انقلاب آگیا؟ اس شرافت کی صرف تعریف کی جاسکتی ہے، قوم کو ایسا شریف نہیں چاہیے۔
چاچا، انگریزی میں چلتے پرزے کو اسٹریٹ اسمارٹ کہتے ہیں، ایک ایسا فرد جسے زمانے کی ٹھوکریں تراشیں مگر ایسے لوگوں کو اقتدار ملنا خطرناک بھی ہوسکتا ہے، یہ لوگ اچھے برے سب سے واقف ہوتے ہیں، ان کے لیے برائی کی جانب مائل ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہوتی۔
انگریزی میں اسٹریٹ کے اسمارٹ کی جو اصطلاح تم نے بتائی ہے، لیڈر ویسا ہی ہوتا ہے، وہ اوپر سے نازل نہیں ہوتا، وہ نیچے سے اوپر آتا ہے، وہ ہر غلط راستے سے واقف ہوتا ہے مگر اس کو اختیار نہیں کرتا، چلتا پرزہ ہونا بذات خود کوئی غلط صفت نہیں ہے، اس کا کوئی غلط استعمال کردے تو مضائقہ ہے، لوگ تو شریفوں کے بھیس میں کیا کیا کرجاتے ہیں، چاچا انقلابی نے رسان سے اپنی بات کی وضاحت کی۔
مگر چاچا ہمارے ملک میں سیاسی ماہرین کی کمی نہیں ہے، دانش ور بھی بہت ہیں، پڑھے لکھے لوگ تھوک کے حساب سے مل جاتے ہیں، ایسے لوگوں کو چھوڑ کر گلی کے چلتے پرزے کو ووٹ دینا کہاں کا انصاف ہے؟ ان دانش وروں سے اچھا تو میرا یہ کاری گر ہے، چاچا نے اپنی دکان پر کام کرنے والے چھوٹو کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ یہ چھوٹو صبح بس میں سفرکررہا تھا، کنڈیکٹر نے ایک روپیہ زیادہ لے لیا، ہمارے چھوٹو نے کنڈیکٹر کا ہاتھ پکڑ کر بس سے اتار لیا، ایک روپیہ نہیں چھوڑا، کوئی شریف دانشور ہوتا تو کنڈیکٹر کی دو گالیاں سن کر چپ ہوجاتا، ارے جو اپنے حق کا ایک روپیہ وصول نہ کرسکتا ہو، اس کی دانشوری کا قوم نے اچار ڈالنا ہے، قوم کو حقوق وہی دلاسکتا ہے جو اپنا تو حق لے سکے اور وہ تمہارا اسٹریٹ کا اسمارٹ کوئی تعلیم یافتہ دانشور بھی تو ہوسکتا ہے، یہ ایک صفت ہے جو کسی میں بھی ہوسکتی ہے۔
جانتے ہو کہ تمہارا وہ چلتا پرزہ لیڈر کہاں ہے؟ چاچا انقلابی نے اچانک مجھ سے سوال کیا۔ وہ لیڈر تمہارے شعورمیں ہے بچے۔ اپنے شعور کو بدل لو، وہ سامنے آجائے گا، وہ ہم میں سے ہی کوئی ہے، یہیں آس پاس کسی مجمعے میں کچھ سوچتا ہوا، اپنے اور دوسروں کے حقوق کے لیے لڑتا ہوا، بظاہر ایک عام سی خصلتیں رکھنے والا انسان مگر وہ ہمارے حالات کی پیداوار ہوگا، اس کو اس زمانے کی کوکھ نے جنم دیا ہوگا، تم شعور بدلو، وہ اپنا نقاب اتار دے گا، تم چہروں کو ووٹ دینا بند کرو، وہ نعرہ بلندکردے گا، تم قومیتوں کی بنیاد پر ووٹ مانگنے والے کے نیچے سے فرش کھینچ لو، فرقہ پرستوں کے تخت پلٹ دو، اتارپھینکو برادری کا چولا، وہ تمھیں نظر آجائے گا۔
یہ سب باتیں خیالی ہیں، موجودہ سیاسی پارٹیوں میں ایسا کوئی بھی نہیں، ہمارے پاس کوئی چوائس نہیں ہے۔میں نے کہا۔
یہ سیاسی جماعتیں عوامی نہیں ہیں، یہ بااثر افراد، نمبرداروں، چوہدریوں، وڈیروں اور سرداروں کے جتھے ہیں، جو جماعت جتنے زور آور جمع کرلے، وہی حکومت بناتی ہے، ملک کے اکثریتی ووٹ پارٹی کی بنیاد پر نہیں ڈالے جاتے، یہ ووٹ مخدوموں، جاگیرداروں اور خان زادوں کو پڑتے ہیں، لوگ اپنے علاقے کے صاحب جی کو ووٹ ڈالتے ہیں، یہ جوڑتوڑ کی جماعتیں بندے توڑنے کی سیاست کرتی ہیں، عوام کی سیاست ان کے بس کی بات نہیں۔
مگر چاچا اس چلتے پرزے کو ڈھونڈیں کہاں سے؟ یہ بازار میں تو ملتا نہیں کہ جاکر خرید لائیں، ابھی چاچا نے اس سوال کاجواب دینے کے لیے اپنا منہ کھولاہی تھا کہ اچانک باہر شور اٹھا، چاچا انقلابی کا کاریگر چھوٹو کسی سے شاید لڑرہا تھا، وہ کسی پولیس والے کی جانب اشارہ کرکے کچھ کہہ رہا تھا۔ کالی وردی والا شاید موٹرسائیکل سوار سے اپنا ٹیکس لے رہا تھا۔ مجھے چھوٹو کی آواز میں کسی لیڈر کا لہجہ محسوس ہوا۔
''ارے تھپڑ نہیں مار سکتے تو گالی ہی دے دو۔'' یہ سن کر موٹر سائیکل سوار نے کک لگائی اور پولیس والے کو گالی دیتا ہوا نکل گیا۔