پاک امریکا تعلقات میں تلخی کے اشارے

امریکی سفارت کاروں کے لیے بائیومیٹرک تصدیق کے بغیرفون سمزجاری نہیں کی جائیں گی۔

امریکی سفارت کاروں کے لیے بائیومیٹرک تصدیق کے بغیرفون سمزجاری نہیں کی جائیں گی۔فوٹو: فائل

امریکا میں پاکستانی سفارت کاروں پر مختلف نوعیت کی سفارتی پابندیوں کے جواب میں پاکستان نے بھی امریکی سفارت کاروں پر پابندی لگادی ہے۔ اس ضمن میں وزارت خارجہ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق پاکستانی ایئر پورٹس پر امریکی سفارتخانے کے سامان کی ترسیل کو ویانا کنونشن کے مطابق دیکھا جائے گا، امریکی سفارت کاروں کو پاکستان میں نقل وحمل سے پہلے متعلقہ پاکستانی حکام سے اجازت لینا ہوگی۔

نوٹیفکیشن میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکی سفارت خانے کی اپنی یا کرائے پر لی گئی گاڑیوں پر کالا شیشہ لگانے کی اجازت نہیں ہوگی جب کہ زیر استعمال گاڑیوں پر اصلی نمبر پلیٹ لگانا لازمی ہوگا۔ امریکی سفارت خانے کی آفیشل گاڑیوں پر نان ڈپلومیٹک نمبر پلیٹ کی اجازت نہیں ہوگی جب کہ کرائے کی عمارتوں کے حصول اور تبدیلی کے لیے این او سی لینا ہوگا،امریکی سفارت کاروں کے لیے بائیومیٹرک تصدیق کے بغیرفون سمزجاری نہیں کی جائیں گی۔

ذرائع کے مطابق دفتر خارجہ سے جاری نوٹیفکیشن کو امریکی سفارت خانے کے ساتھ شیئر کیا جاچکا ہے۔ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ یہ اقدامات امریکا میں پاکستانی سفارتی عملے پر لگائی گئی پابندیوں کے جواب میں اٹھائے گئے ہیں۔اس سے قبل امریکی سفارتی عملے پر ایسی پابندیاں نہیں تھیں۔ یوں دیکھا جائے تو امریکا اور پاکستان کے درمیان ایک بار پھر تلخیاں بڑھنا شروع ہو گئی ہیں۔

یاد رہے کہ امریکا نے بھی پاکستان کے سفارتی عملے پر پابندیاں لگائی ہیں جن کا اطلاق گیارہ مئی سے کردیا گیا ہے۔ امریکا کی طرف سے لگائی گئی ان پابندیوں کے تحت امریکا میں تعینات پاکستانی سفارتی اہلکار سفارت خانے سے 25 میل کے فاصلے کے اندر رہیں گے اور اگر اْنہیں 25 میل سے باہر جانا ہو تو امریکی محکمہ خارجہ سے خصوصی اجازت حاصل کرنا لازمی ہو گا۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان حالیہ تلخی کی وجہ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ہونے والا ایک واقعہ بنا ہے۔ اس واقعہ میں امریکا کے پاکستان کے سفارت خانے کے ملٹری اتاشی کرنل جوزف کی گاڑی کی ٹکر سے ایک پاکستانی شہری جاں بحق ہو گیا تھا۔


پاکستان نے امریکی سفارت خانے کے اس اہلکار کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی ہے۔لیکن امریکی حکومت کو یہ کارروائی پسند نہیں آئی ، بہرحال اب دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے سفارت کاروں پر جو پابندیاں عائد کی ہیں اس سے دونوں ملکوں میں تلخی بڑھنے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ امریکا میں پاکستانی سفیر اعزاز احمد چوہدری نے گزشتہ روز ایک امریکی ٹی وی سے گفتگو کی ہے۔

پاکستانی میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ پاکستانی سفیر نے کہا کہ امریکا کی جانب سے لگائی گئی پابندیاں دوطرفہ تعلقات کے لیے فائدہ مند نہیں ہوں گی لیکن بہرحال یہ امریکی حکومت کا فیصلہ ہے البتہ انھوں نے امید ظاہر کی کہ وزارت خارجہ اور پاکستان میں امریکی سفارت خانے کے درمیان ایک مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دیا گیا ہے جس سے یہ امید ہے کہ اس مسئلے کے حل میں مدد ملے گی۔ انھوں نے یہ بھی کہا جب کوئی ایک ملک اس طرح کی پابندی لگاتا ہے تو اس سے دوسرے ملک کو بھی ویسے ہی اقدامات اٹھانے کے لیے دباؤ بڑھتا ہے جو دونوں ملکوں کے مفاد میں نہیں۔

امریکا اور پاکستان کے درمیان تعلقات سرد اور گرم ہوتے رہتے ہیں۔ ماضی میں کئی بار ایسا ہو چکا ہے لیکن پھر حالات دونوں ملکوں کو کسی نہ کسی سمجھوتے پر لا کھڑا کرتے رہے ہیں۔ ماضی کی مثال کو سامنے رکھیں تو حالیہ سفارتی کشیدگی بھی دور ہو جائے گی لیکن اس سے ایک حقیقت ضرور عیاں ہوتی ہے کہ اب دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت ماضی جیسی نہیں رہی ہے خصوصاً نائن الیون کے واقعے کے بعد ماضی کے خوشگوار تعلقات میں تبدیلی زیادہ تیزی سے آنا شروع ہوگئی اور پھر اس میں تلخی بھی پیدا ہونا شرع ہو گئی۔حالانکہ سرد جنگ کے دور میں امریکا اور پاکستان کے تعلقات مثالی رہے ہیں.

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی دونوں ملک اتحادی ہیں لیکن اس دوران مختلف ایشوز پر دونوں ملکوں کے درمیان تلخیاں پیدا ہونا شروع ہو گئیں، اب جب سے ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے صدر بنے ہیں، دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں تلخی بہت زیادہ بڑھتی جا رہی ہے اور اب نوبت سفارتی عملے پر پابندیوں تک پہنچ گئی ہے جب کہ ماضی میں ایسا نہیں ہوتا تھا۔ یوں دیکھا جائے تو دونوں ملک ایک دوسرے سے دور ہوتے جارہے ہیں۔یہ دوریاں جتنی زیادہ بڑھیں گی، حالات زیادہ کشیدہ ہوتے جائیں گے۔ دونوں ملکوں کی قیادت کو چاہیے کہ وہ اس تلخی کو کم کریں کیونکہ دونوں ملکوں میں تلخیاں بڑھتی گئیں تو اس سے حالات خراب ہوں گے جو کسی کے مفاد میں نہیں ہوں گے۔
Load Next Story